|تحریر: بین گلینیئسکی، ترجمہ: یار یوسفزئی|
برطانیہ بھر میں پٹرول کی قلت، اور سڑکوں پر ٹریفک جام دیکھنے کو مل رہا ہے، جبکہ ٹوری حکومت ایک کے بعد دوسرے بحران میں گرتی چلی جا رہی ہے۔ منڈی کا انتشار محنت کشوں کی زندگی کو بھی افراتفری کا شکار کر رہا ہے۔ سماجی دھماکے کیلئے درکار سارے آتش گیر مواد تیاری کے عمل میں ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
تین سال قبل ٹوری ایم پی اور دائیں بازو کے انتہا پسند ڈیوڈ ڈیوس نے وعدہ کیا تھا کہ اس کی پارٹی کے دورِ حکومت میں یہ ملک برباد مستقبل کی فرضی کہانیوں جیسے نہیں ہوگا۔ مگر پچھلے کچھ دنوں سے یہ کہانیاں پوری شدت کے ساتھ سچ ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔
ملک بھر کے شہری مراکز تیل کیلئے لگنے والی قطاروں میں کھڑی گاڑیوں سے بھر چکے ہیں، جبکہ ٹینکرز کے ڈرائیورں کی قلت کے باعث 90 فیصد پٹرول پمپوں میں تیل کا فقدان ہے۔
پٹرول پمپوں کے اندر لڑائیوں کے واقعات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ ملک بھر میں پمپ کے عملے کے ساتھ ہاتھا پائی ہو رہی ہے۔ منگل کی صبح مشرقی لندن میں قطار توڑنے والے ایک بندے کو ایک بائیک سوار نے چھری نکال کر دھمکایا۔
ایسیکس پولیس کو محض 24 گھنٹوں کے اندر پٹرول کی قطاروں میں کھڑے لوگوں کے حوالے سے 100 سے زیادہ کال موصول ہوئیں۔ لندن بھر میں بلاک سڑکوں کے اوپر نظم و ضبط قائم رکھنے کے لیے پولیس کو تعینات کیا گیا ہے۔
افراتفری
ایمبولینس سروس بھی پٹرول کی قلت کا شکار ہے۔ ایمبولینس کے ایک عملے نے بتایا کہ وہ ایک گھنٹے تک تیل کی تلاش میں گھوم رہے تھے، بالآخر انہیں ایک پمپ مل گیا جس میں انہیں 30 لیٹر سے زیادہ پٹرول خریدنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ’پٹرول ریٹیلرز ایسوسی ایشن‘ کے چیئرمین کے مطابق دیگر ایمرجنسی سروسز بھی جلد ہی پٹرول کی قلت سے متاثر ہوں گی۔
علاج معالجے کا عملہ مریضوں کے پاس نہیں پہنچ پا رہا۔ کینٹ کاؤنٹی میں ایک کمپنی نے خبردار کیا کہ اگر مرتے ہوئے مریضوں کی دوائیوں تک رسائی نہ ہوئی تو وہ تڑپ تڑپ کر مریں گے۔ برمنگھم میں علاج کی ایک اور کمپنی نے خبردار کیا کہ اس کے عملے کو مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے لمبے فاصلے سائیکل پر یا پیدل طے کرنے پڑتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق خوراک اور دیگر اشیاء کی رسد رسانی کرنے والے مالکان نے خبردار کیا ہے کہ سپر مارکیٹس تک پانچ میں سے ایک ڈیلیوری یا تاخیر کا شکار ہو رہی ہے یا سرے سے پہنچ ہی نہیں رہی۔ پرچون کے تمام بڑے مراکز میں اشیاء کی قلت معمول بنتی جا رہی ہے۔
سکولوں کی طرف سے آن لائن کلاسوں کی جانب واپس لوٹنے پر غور و فکر کیا جا رہا ہے کیونکہ والدین اپنے بچوں کو سکول نہیں چھوڑ پا رہے اور اساتذہ کے لیے بھی آنا مشکل ہو رہا ہے۔ سرئے کاؤنٹی کی ایک خاتون پرنسپل کا کہنا تھا کہ وہ سکول فنڈ کے ذریعے عملے کی مدد کرنے کے حوالے سے سوچ رہی ہے تاکہ وہ آنے جانے کے لیے ٹیکسیوں کا کرایہ ادا کر سکیں۔
پیر کے دن (27 ستمبر) سے فوج کو ہائی الرٹ کیا جا چکا ہے۔ اطلاعات کے مطابق وہ ’آپریشن اسکالین‘ لاگو کرنے کے لیے تیار ہیں، جس میں ٹینکر چلانے کا تجربہ رکھنے والے دستوں کو پٹرول ڈیلیور کرنے کا کام سونپا جائے گا۔ لاری کے نئے ڈرائیوروں کی تربیت کرنے کے لیے پہلے سے ہی وزارتِ دفاع میں سے ایک گروہ منتخب کیا جا چکا ہے۔
In some areas of England long queues outside petrol stations have developed after BP said a handful of forecourts in its 1,200-strong network are experiencing fuel shortages.
— Sky News (@SkyNews) September 24, 2021
The Transport Secretary has urged people to carry on as normal.
Latest: https://t.co/tztmYfRDRS pic.twitter.com/q5AJbxhjws
حالات قابو کرنے کی بد نظم کوششیں
سرمایہ دار طبقہ اور اس کی نمائندہ ٹوری حکومت حالات قابو کرنے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں۔ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے، اور وہ اقدامات اٹھانے کے حوالے سے بھی آپس میں متفق نہیں۔
ٹرانسپورٹ اور بزنس کے وزراء سمیت ہوم آفس (وزارتِ داخلہ) بھی چاہتا ہے کہ لاری کے ڈرائیوروں کے فقدان کا خاتمہ کرنے کے لیے برطانوی محنت کش آگے بڑھیں۔ وہ کمپنیوں سے ڈرائیوروں کی اجرتیں بڑھا کر انہیں بہتر حالات فراہم کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ مگر ٹرکوں پر انحصار کرنے والی صنعتوں کے مالکان خبردار کر رہے ہیں کہ وہ ڈرائیوروں کی بولی لگانے کا سلسلہ شروع نہیں کریں گے، جبکہ متعدد بڑی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ اگر انہیں محنت کشوں کی اجرت بڑھانے پر مجبور کیا گیا تو انہیں بند ہونا پڑ جائے گا۔
اس دوران ماحولیات اور کیبینٹ آفس کے وزراء ٹرکوں کی ڈرائیوری کے لیے غیر ملکیوں کو نوکری دینے پر توجہ دے رہے ہیں۔ مگر ’یورپین روڈ ہاؤلرز ایسوسی ایشن‘، جو پورے یورپی براعظم میں ٹرکوں کی 200 کمپنیوں کی نمائندگی کر رہی ہے، کے ہیڈ نے نشاندہی کی کہ چونکہ برطانیہ کی نسبت یورپ میں ٹرک ڈرائیوروں کے کام کے حالات اور اجرتیں کافی بہتر ہیں، اس لیے برطانیہ میں ڈرائیوری کرنے کے لیے بہت کم لوگ آئیں گے۔
حکومت بند گلی میں پھنس کر ایسا سمجھوتہ کر چکی ہے جو کسی کے لیے بھی تسلی بخش نہیں، اور جس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
آزاد منڈی کی وکالت کرنے والوں کے منہ پر طمانچہ رسید کرتے ہوئے، مقابلہ بازی کے قانون کو معطل کیا گیا ہے تاکہ تیل کی کمپنیاں آپسی تعاون کے ذریعے پٹرول کی فراہمی کو مزید بہتر بنا سکیں۔ چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ’آزاد منڈی‘، جو معاشی ترقی کے عرصے میں بڑے کاروباروں کی محبوبہ ہوتی ہے، بحران کے دنوں میں غائب ہو چکی ہے۔
معاشی لبرلزم ترقی کے عرصے میں مالکان کو منافعے کمانے میں مدد تو کر سکتا ہے، مگر منڈی کا ’غیر مرئی ہاتھ‘ گزرتے وقت کے ساتھ ترقی کو زوال میں بدل دیتا ہے۔ اگر معیشت کو حقیقی معنوں میں محنت کش طبقے کے مفادات کے مطابق چلانا ہے تو مرکزیت پر مبنی منصوبہ بند معیشت ہی کار آمد ثابت ہو سکتی ہے۔
اسی طرح بریگزیٹ کے حامیوں کے منہ پر طمانچہ رسید کرتے ہوئے، غیر ملکی ڈرائیوروں کے لیے 5 ہزار ویزے جاری کیے جائیں گے، جس کی میعاد کرسمس کی رات تک ہوگی۔ علاوہ ازیں وباء کے باعث تاخیر کا شکار ہونے والے ٹرک ڈرائیوری کے 40 ہزار ٹیسٹ تیزی کے ساتھ لیے جائیں گے۔
کاروباروں کی جانب سے نشاندہی کی گئی ہے کہ موجودہ ڈرائیوروں کی تعداد درکار تعداد سے 90 ہزار کم ہے۔ حکومت اس کی دوگنی تعداد کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، کیونکہ کرسمس تک مانگ میں بھی اضافہ ہوگا۔
یہ حالیہ بحران ٹوری حکومت کی اس حمایت کو مزید پاش پاش کر رہا ہے جو پہلے سے ہی نازک ہے۔ کابینہ میں دراڑوں سمیت رائے عامہ کی حمایت میں کمی آ رہی ہے۔ اوپینیم کے مطابق 67 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت صورتحال سنبھالنے میں ناکام رہی ہے۔ اس تعداد میں 59 فیصد ماضی کے ٹوری ووٹروں کی ہے!
بریگزیٹ کی کیمپئین چلانے والے بورس جانسن کے منہ پر بھی طمانچہ رسید ہوا ہے۔ 68 فیصد لوگ اس بحران کی وجہ بریگزیٹ کو قرار رہے ہیں، جن میں 52 فیصد نے بریگزیٹ کے حق میں ووٹ دیا تھا! بورس کی ذاتی حمایت میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے، جو مارچ کے 47 فیصد سے کم ہو کر ابھی 38 فیصد تک گر چکی ہے۔
کیئر سٹارمر نے توقعات کے مطابق اس بحران کے دوران برائٹن میں پارٹی کانفرنس کے دوران، ٹوریز کے خلاف لڑنے کی بجائے، لیبر پارٹی کے بائیں بازو کے اوپر حملے کیے۔ اس نے بس یہی کہا کہ حکومت کی جانب سے بحران قابو کرنے کی کوشش ابھی تک ”نہایت چھوٹی ہے“، جو کسی بھی طرح ایک طاقتور مخالفت نہیں ہے۔
پیر (27 ستمبر) کو شائع ہونے والی رائے شماری کے مطابق 25 فیصد لوگوں کا ماننا تھا کہ اگلی حکومت لیبر پارٹی کی ہونی چاہئیے، جبکہ 32 فیصد کا ماننا تھا کہ ٹوری پارٹی کو دوبارہ منتخب کرنا چاہیے۔ اس بحران، جو افغانستان کے انخلاء سے لے کر انرجی کی کمپنیوں کے دیوالیہ ہونے والے سلسے کی تازہ ترین قسط ہے، کی وجہ سے وسیع پیمانے پر ٹوری پارٹی اور لیبر پارٹی، دونوں کی حمایت میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
مرتا نظام
یہ واضح ہے کہ سرمائے کے مدبرین کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا غلطی ہو رہی ہے۔ بعض کرونا پر الزام لگا رہے ہیں، جبکہ دیگر بریگزیٹ پر۔
بعض کا کہنا ہے کہ ڈرائیوروں کا فقدان ایک عارضی مسئلہ ہے جو ایک شعبے تک محدود ہے۔ مگر کچھ نشاندہی کر رہے ہیں کہ مزدوروں کا فقدان دیگر شعبوں اور ممالک میں بھی سامنے آ رہا ہے۔ امریکہ میں ہونے والی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جن چھوٹے دوکانداروں کو نوکری کے لیے ملازمین نہیں مل رہے، ان کی تعداد پچھلے تین مہینوں کے دوران 47 فیصد سے 62 فیصد تک چلی گئی ہے۔
اس سال موسمِ خزاں میں زرعی مزدوروں کے فقدان کے باعث کھیتوں میں پھل سڑ رہے ہوں گے۔ مزدوروں کے فقدان کے باعث قصاب خانے بھی معمول کے مطابق کام نہیں کر سکیں گے۔ یہ سب کچھ ایسے حالات میں ہو رہا ہے جب کروڑوں لوگ بے روزگار ہیں اور کروڑوں مزید بے روزگار ہو رہے ہیں، جو پارٹ ٹائم اجرتوں پر گزارہ کر رہے ہیں۔
سرمائے کے مدبرین اس لیے حالات کو سمجھ نہیں پا رہے کیونکہ وہ پوری تصویر کو نہیں دیکھ سکتے۔
کسی ایک یا دوسرے مسئلے کو انفرادی طور پر حل کرتے ہوئے تمام مسائل کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی تجارت میں زلزلے آ رہے ہیں، بیرونِ ملک منافع بخش سرمایہ کاری انہدام کا شکار ہے، اور ان محنت کشوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو کم اجرتوں اور خراب حالات میں کام کرنے کے لیے تیار نہیں۔
یہ در حقیقت بسترِ مرگ پر پڑے سرمایہ دارانہ نظام کو پڑنے والے دورے ہیں۔ ٹوریز اس لیے منقسم اور نا اہل ہیں کیونکہ وہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر حل کی تلاش میں ہیں، جبکہ ایسا ممکن نہیں۔ سٹارمر کی بھی یہی حالت ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے انتشار، یعنی ضرورت پورا کرنے کی بجائے منافعے کی دوڑ کا نتیجہ قلت، بڑھتی ہوئی قیمتوں، اور کروڑوں افراد کی معیارِ زندگی میں گراوٹ کی صورت میں نکل رہا ہے۔ سوشلسٹ معیشت کی ضرورت اس سے پہلے کبھی اتنی واضح نہیں ہوئی، جس کی منصوبہ بندی منافعے نہیں بلکہ ضروریات کے مطابق کی جائے۔
عوام کے بیچ غصہ بڑھ رہا ہے۔ پٹرول پمپوں میں ہاتھا پائی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ لوگوں کے برداشت کی انتہا ہو چکی ہے۔ آنے والے موسمِ سرما میں قلت، بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت، پنشن میں کٹوتیاں، ٹیکس میں اضافہ، اور شعبہ صحت پر اضافی دباؤ دیکھنے کو ملے گا۔ عوام کے اوپر شدید ظلم کیا جا رہا ہے اور وہ اسے مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ بڑے سماجی دھماکے کے لیے درکار مکمل آتش گیر مواد سماج میں موجود ہے۔
نجات کا واحد راستہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے رکھوالے مالکان، زمینداروں اور سیاستدانوں کو جڑ سے اکھاڑ کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکنا ہے۔ عوامی غصے کو استعمال کرتے ہوئے سوشلزم کی جنگ لڑنے کی ضرورت ہے۔