|تحریر: راب سیول، ترجمہ: ولید خان|
اس وقت برطانوی معیشت اور کنزرویٹو پارٹی شدید انتشار کا شکار ہیں اور لز ٹرس وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ نے کُو کیا ہے تاکہ ٹوری پارٹی پر دوبارہ کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔ لیکن مستقبل طلاطم خیز ہے اور برطانوی سرمایہ داری اندھی کھائی میں لڑھکتی چلی جا رہی ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اپنے آپ کو مارگریٹ تھیچر کا جانشین گرداننے والی لز ٹرس اب گہرے ہوتے سیاسی بحران میں استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئی ہے۔
استعفے سے ایک روز پہلے تک مبصرین کا خیال تھا کہ وہ چند دن اور اقتدار سے چمٹی رہ سکتی ہے۔ مساوات کے وزیر سائمن کلارک نے کہا تھا کہ انتشار کے باوجود ٹرس ”حیران کن طور پر ثابت قدم“ ہے اور آگے بڑھنے کے لئے پرعزم ہے۔
اپنے شرمناک اختتام تک وہ چند گھنٹے ہی اقتدار پر گرفت قائم رکھ سکی۔ ویسٹ منسٹر میں انتشار اور ٹوری پارٹی میں جنگ پھوٹنے کے بعد اس کی سیاسی اتھارٹی مکمل طور پر بخارات بن کر ہوا ہو گئی۔
اس کا دورِ اقتدار محض 45 دن رہا جس کے اختتام پر وہ برطانوی تاریخ کی سب سے قلیل مدت وزیرِ اعظم بننے کا شرف حاصل کر چکی ہے۔
منڈلاتے راکشس
اپنا جانشین مقرر ہونے کے بعد ٹرس نمبر 10 (برطانوی وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ) ایک ہفتے میں خالی کر دے گی۔
ایک نئے ٹوری قائد اور وزیر اعظم کا انتخاب اب ایک نیا مسئلہ ہے۔ کنزرویٹو پارٹی ممبر شپ کی رجعتیت اور پاگل پن کے پیش نظر اسٹیبلشمنٹ انہیں نئے قائد کے چناؤ سے باہر رکھنے کے لئے زمین آسمان ایک کر دے گی۔
لیکن حکمران طبقہ شائد اس خواہش کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔ آج رات پارٹی کی 1922ء کمیٹی نے انتخاب کے ضابطے طے کرنے کے لئے میٹنگ کرنی ہے۔ ہو سکتا ہے وہ ٹوری ممبران کو آن لائن ووٹ دینے کا حق دے دیں۔
کسی کو کیا پتہ کہ اس مرتبہ یہ باولی ممبر شپ کس قسم کے راکشس کا چناؤ کرتی ہے۔
”پاگل، برے اور خطرناک“
ایک زمانے میں دنیا کی سب سے بڑی ورکشاپ برطانیہ آج ایک تیسری دنیا کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ماضی میں یورپ کا سب سے زیادہ مستحکم ملک اس وقت سب سے زیادہ عدم استحکام کا شکا ر ہے۔
چند ہفتے پہلے لز ٹرس کو ٹوری پارٹی کی قائد منتخب کرنے کے بعد بریگزٹ کے حامی بدمعاشوں نے رنگ رلیاں منائی تھیں کہ اب ان کا خواب پورا ہو چکا ہے۔ اب بالآخر برطانیہ دریائے تھیمز کے کنارے ایک بے ضابطہ کم اجرتی سنگاپور بن جائے گا جس کے نئے وزیر اعظم نے وعدہ کیا تھا کہ ایک ایسی معیشت ہو گی ”جو بریگزٹ آزادی کا بھرپور فائدہ اٹھائے گی“۔
حکمران طبقہ بھی پر ہیجان تھا کہ عملی طور پر اس کا مطلب کیا ہو گا۔ سرمایہ داروں کو سب سے زیادہ ”استحکام“ محبوب ہے – امن اور خاموشی جس کے ساتھ لوٹ مار کا کاروبار جاری رہے۔ ایک سخت گیر بریگزٹ کا صدمہ ان کے لئے کافی تھا۔ لیکن اب ایک ایسی وزیر اعظم موجود تھی جو چاروں طرف آگ لگانے اور ہر ایک سے لڑائی جھگڑا کرنے کے لئے پرعزم تھی تاکہ ایک لاپرواہ اور خیالی معاشی ایجنڈہ پایہ تکمیل ہو۔
ٹرس کو ٹوری پارٹی کی منہ سے جھاگ اڑاتی باولی ممبرشپ سے منتخب کیا گیا تھا اور وہ ڈاؤننگ سٹریٹ میں رہائش پذیر ہونے والی سب سے زیادہ بیوقوف اور نکمی قیادت ثابت ہوئی ہے۔ یہ کنزرویٹو پارٹی اور اس کے نمائندوں کے گلے سڑے انحطاط کا بدترین اظہار ہے۔
بورژوا اسٹیبلشمنٹ کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے فنانشل ٹائمز میگزین میں مارٹن وولف نے لکھا کہ ”یہ لوگ پاگل، برے اور خطرناک ہیں۔ انہیں جانا ہو گا“۔
پسپائی اور بغاوت
پچھلے مہینے کے ضمنی بجٹ میں امراء کے لئے بغیر متبادل ٹیکس چھوٹ کی کوشش منظور کرانے کی کوشش میں منڈی منہدم ہو گئی۔ پھر ہر چیز تیزی سے بے قابو ہونے لگی اور پاؤنڈ کی گرتی قدر اور قرضوں کی شرح میں اضافے نے بینک آف انگلینڈ کو مجبور کر دیا کہ وہ مداخلت کرے۔
منڈیوں کے دباؤ میں مسلسل یو ٹرن لیتے ہوئے ٹرس نے اپنے چانسلر کواسی کوارتینگ کو فارغ کر دیا۔ اس کے فوری بعد وہ اپنے معاشی پروگرام سے سبکدوش ہو گئی۔
19 اکتوبر 2022ء کو اس کی سیکرٹری داخلہ نے استعفیٰ دے دیا۔ 1834ء میں ڈیوک ویلنگٹن کے بعد یہ قلم دان سب سے قلیل مدت کے لئے سویلا براورمین کے پاس رہا ہے۔
ٹرس کی کمزوری کو بھانپتے ہوئے ٹوری پارٹی میں اس کے سیاسی مخالفین نے اس پر جیرمی ہنٹ اور گرانٹ شاپس مسلط کر دیے جو چانسلر اور سیکرٹری داخلہ بن گئے۔
ہنٹ نے فوری طور پر ٹرس کی زیادہ تر ٹیکس کٹوتیاں ختم کر دیں اور معاشی استحکام اور فلاحی اخراجات کے حوالے سے ”ہوشرباء فیصلوں“ کا وعدہ کیا۔
اس دوران ٹوری ممبران پارلیمنٹ میں کھلم کھلا بغاوت کر رہے تھے۔ پارلیمنٹ میں ہلڑ بازی، چیخ و پکار، دھکم پیل اور پارٹی وہپ (سیاسی پارٹی کا عہدیدار جس کا کام پارلیمنٹ میں پارٹی نظم کو یقینی بنانا، ووٹوں اور کورم کے لئے ممبران کو اکٹھا کرنا ہوتا ہے) تبدیل کرنے کی دھمکیاں چلتی رہیں۔ سب کو نظر آ رہا تھا کہ ٹرس کی حکومت کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔
متحرک ریوڑ
رائے شماریوں میں ٹرس کی ساکھ تباہ و برباد ہو گئی۔ اس کے ساتھ 20 فیصد مقبولیت کے ساتھ ٹوری پارٹی کی حمایت بھی ہوا میں اُڑ گئی جبکہ لیبر پارٹی کی مقبولیت 50 فیصد سے تجاوز کر گئی۔
کئی سو ٹوری ممبران پارلیمنٹ کو اگلے انتخابات میں ذلت آمیز شکست نظر آ رہی تھی۔ ٹرس کی وزارت عظمیٰ میں اعتماد ختم ہو گیا۔ بورس جانسن کے مشہور الوداعی الفاظ میں ”جب ریوڑ متحرک ہوتا ہے تو پھر ریوڑ متحرک ہوتا ہے“۔
یہ ٹوری ڈنگر یقینا متحرک تھے تاکہ اپنی سیاسی ساکھ بچائی جا سکے۔ ٹوری ممبران پارلیمنٹ کی 1922ء کمیٹی کے چیئرمین گراہم بریڈی کو مسلسل عدم اعتماد کے خطوط موصول ہو رہے تھے۔ دباؤ بڑھتا گیا۔ بالآخر ٹرس کو مجبوراً ہار ماننی پڑی۔
اسٹیبلشمنٹ کُو
پہلا وار جیرمی ہنٹ کی تعیناتی تھا۔ اس وقت واضح ہو گیا تھا کہ ٹوری ”اعتدال پسند“ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے ساتھ پارٹی کے لبرٹیریئن (لبرٹیریئنزم کے پیروکار جو ہر سیاسی، سماجی اور معاشی پہلو میں مکمل شخصی آزادی اور ریاست کی کم ترین مداخلت پر یقین رکھتے ہیں) انتہائی دائیں بازو بریگزٹ نواز ونگ کے خلاف کُو کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس کے بعد ٹرس کے دن گنے جا چکے تھے۔ اب وہ محض نام کی وزیر اعظم رہ گئی تھی۔
حکمران طبقہ ٹوری پارٹی پر اپنا کنٹرول کھو چکا تھا۔ انہیں اپنے نمائندوں کے طور پر پہلے بورس جانسن اور پھر ٹرس کو برداشت کرنا پڑا تھا – تنگ نظر، خود پسند، گلی سڑی غلیظ قیادت۔
لیکن اب وہ فیصلہ کر چکے تھے کہ جس طرح انہوں نے لیبر پارٹی پر سٹارمر اور دائیں بازو کے ذریعے اپنا کنٹرول بحال کیا ہے اسی طرح ٹوری پارٹی کا کنٹرول ہر قیمت پر بحال کرنا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ قوانین میں ہیرا پھیری کی جائے گی تاکہ ٹوری ممبران کو کسی بھی فیصلہ سازی سے دور رکھا جائے۔ ایک اتحادی امیدوار کا پیدا ہونا ناممکن ہے کیونکہ پارلیمانی پارٹی بری طرح تقسیم ہے۔ یورپ مخالف یورپی ریسرچ گروپ (ERG) نامی دائیں بازو کے گروہ کے ممبران پارلیمنٹ کا ابھی بھی بہت اثرورسوخ ہے۔
حیران کن طور پر افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ بورس جانسن بھی ”قومی مفاد میں“ قیادت کا امیدوار بن سکتا ہے۔ ظاہر ہے وہ ایک عام انتخابات بھی جیت چکا ہے۔ ایک ٹوری ممبر پارلیمنٹ کے مطابق ”وقت آ چکا ہے کہ اب باس واپس آ جائے!“
”سر“ سٹارمر کی آمد
حکمران طبقہ رشی سناک جیسے کسی شخص کی فتح کا خواہش مند ہے۔ وہ ایک بہتر ”محفوظ ہاتھ“ ثابت ہو گا۔ ان کو امید ہے کہ اس کی قیادت میں پارٹی از سر نو تعمیر کی جا سکتی ہے۔ لیکن گہرے ہوتے معاشی بحران اور جبری کٹوتیوں کی بڑھتی ضرورت کی موجودگی میں یہ کام آسان نہیں ہے۔
حکمران طبقے کے پاس ایک اور آپشن یہ ہے کہ عام انتخابات کرائے جائیں اور ”سر“ کیئر سٹارمر کو اقتدار سونپ دیا جائے۔ ظاہر ہے روایتی طور پر ٹوری پارٹی کی غلاظت کے بعد دائیں بازو کی لیبر پارٹی حکومتوں کو لا کر گند صاف کرایا جاتا ہے جنہیں احسن انداز میں ذمہ داری نبھانے کے بعد فارغ کر دیا جاتا ہے۔
ظاہر ہے سٹارمر ”قومی مفاد میں“ دوبارہ یہ کردار نبھانے کے لئے پر امید ہو گا۔
یہ حکومت ”اصلاح پسند“ حکومت نہیں ہو گی بلکہ معیشت کو راہ راست پر لانے کے لئے کام کرے گی۔ یہ 1931ء میں رامسے میکڈونلڈ کی طرح بحران زدہ حکومت ہو گی جس سے پھر نئے سیاسی اور سماجی بحران جنم لیں گے۔
ہمہ گیر بحران
برطانیہ کو اس وقت ہر سطح پر ”ہمہ گیر بحران“ کا سامنا ہے۔ اب حکمران طبقے کے لئے بوئی فصل کاٹنے کا وقت آن پہنچا ہے۔
برطانوی سرمایہ داری میں انحطاط کا مطلب محنت کش طبقے کے معیار زندگی پر جبری کٹوتیاں ہیں۔ توانائی اخراجات بے قابو ہوں گے اور حکومتی بجٹ میں 40 ارب پاؤنڈ کا خسارہ اخراجات زندگی کی گرانی کے علاوہ ہم پر مسلط کیا جائے گا۔ فی الحال تو یہی منصوبہ ہے۔
لیکن آج اور مستقبل میں اس کا مطلب شدید طبقاتی جدوجہد ہے۔ استحکام کا دور ختم ہو چکا ہے۔ اب اس کا کوئی امکان نہیں۔ اس کے برعکس برطانوی سرمایہ داری ایک سے دوسرے بحران کے درمیان ڈگمگاتی رہے گی اور انتشار اور عدم استحکام برطانوی سرمایہ داری کا مستقل کردار بن جائے گا۔
ہڑتالوں کی موجودہ لہر مستقبل کی نوید ہے۔ ریل، بندرگاہ اور ڈاک کے محنت کش اس وقت متحرک ہیں۔ شعبہ صحت کے ملازمین اور اساتذہ، دیگر سمیت، احتجاجی تحریکوں کے حق میں ووٹ ڈال رہے ہیں۔ ان میں سے کئی کے لئے یہ زندگی کا پہلا تجربہ ہو گا۔
بڑھتے افراط زر میں یہ صنعتی سرگرمی مزید تیز ہو گی اور ٹریڈ یونینز مربوط سرگرمیوں کی طرف جائیں گی۔ برطانیہ کا پورا محنت کش طبقہ بیدار ہو رہا ہے۔
اگر ٹوری حکومت مزید یونین مخالف قوانین پاس کرانے تک زندہ رہتی ہے تو یہ جلتی پر تیل کا کام ہو گا۔
پینڈورا باکس
برطانیہ میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ ٹوری پارٹی اور مالکان نے پینڈورا باکس کھول دیا ہے۔ اس دوران انقلابی سرکشی تیار ہو رہی ہے۔
فی الحال ہمارے سامنے سرمایہ دارانہ بحران کا خاتمہ کرنے والی ایک متبادل انقلابی پارٹی کی تعمیر کا فریضہ ادھورا ہے۔
ایک اور ٹوری وزیر اعظم کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ خس کم جہاں پاک! لیکن یہ کافی نہیں۔
جیسے ریل، میری ٹائم اور ٹرانسپورٹ محنت کشوں کی یونین (RMT) کے قائد مِک لِنچ نے کہا ہے، ہمیں ایک بغاوت کی ضرورت ہے – ایسی بغاوت جو پوری گلی سڑی غلیظ سرمایہ داری کا خاتمہ کر کے اسے اس کی حقیقی جگہ تاریخ کے کوڑے دان میں دفنا دے گی۔