|تحریر: ہیلینا نکلسن، ترجمہ: تصور ایوب|
ماحولیاتی تبدیلی اور اس پر حکومتوں کی جانب سے کسی طرح کے اقدامات نہ کرنے کے خلاف ’’ماحولیاتی تبدیلی کیخلاف سکول طلبہ کی ہڑتال‘‘ (School Strike 4 Climate) کی تحریک پچھلے سال اگست میں شروع ہوئی، جب سویڈن کی پندرہ سالہ گریٹا تھنبرگ نامی طالبہ نے ماحولیاتی تبدیلی پر حکومت کی غیر سنجیدگی اور کوئی اقدام نہ اٹھانے کے خلاف کیمپین کا آغاز کیا۔ اس کیمپین کے نتیجہ میں ہونے والے مظاہرے جلد ہی اپنے منفرد انداز میں منظم اور شدید ہوتے گئے،اور صرف سویڈن کی حدود میں قید نہ رہے بلکہ نوجوانوں کی ایک عالمی تحریک بن گئے۔
جیسے ہی گریٹا کی کہانی اور اس کی کیمپین کی دھوم سوشل میڈیا پر مچی ہڑتالوں اور احتجاجوں کا سلسلہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔ اور آج ستر ہزار کے قریب طلبہ ہر ہفتے جمعے کے دن،دنیا کے 270 مختلف شہروں اور قصبوں میں ہڑتال کررہے ہیں۔ اس ہڑتال کیلئے سوشل میڈیا پر#FridayforFuture کا ہیش ٹیگ استعمال ہورہا ہے۔
اپنی اقوام متحدہ میں تقریر میں گریٹا کا کہنا تھا کہ
’’ہم یہاں عالمی ’’لیڈروں‘‘ سے اپنے مستقبل کی بھیک مانگنے نہیں آئے۔ انھوں نے ہمیں ماضی میں نظر انداز کیا،وہ دوبارہ بھی ایسا ہی کریں گے۔ ہم گھسے پٹے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے دنیا کو محفوظ نہیں بنا سکتے، ہمیں اصول بدلنا ہوں گے۔ ہم یہاں انہیں صرف اتنا بتانے آئے ہیں کہ ایک تبدیلی آ رہی ہے، خواہ آپ اسے پسند کریں یا نہ کریں۔ لوگ اٹھیں گے اور آپ کو چیلنج کریں گے۔‘‘
ہڑتال سب سے پہلے آسٹریلیا میں پھیلی، دسمبر تک ہزاروں طلبہ اس کیمپین کا حصہ بن چکے تھے جن میں بیلجیئم،سوئٹزرلینڈ، آسٹریا، جاپان، امریکہ، کینیڈا جیسے ممالک کے طلبہ شامل ہیں اور نئے سال کے شروع ہونے سے اب تک یہ افریقہ اور جنوبی امریکہ کے ممالک جیسے کولمبیا،یوگنڈا، نائیجیریا،تنزانیہ،کینیا اور مالی میں بھی ہڑتالیں کر چکے ہیں۔
برطانیہ میں سکولوں کی یہ ہڑتال آج (پندرہ فروری کو) پہلی دفعہ ہونے جارہی ہے۔ اس مقصد کیلئے تیس سے زیادہ مقامات پر مختلف ریلیوں کا انتظام کیا جا چکا ہے، ان سب ریلیوں کا انتظام ’برطانوی نوجوانوں کا ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف اتحاد‘(UK Youth Climate Coalition)نے کیا ہے۔
برطانیہ میں احتجاج کو منظم کرنے والے زو نامی ایک طالب علم کا کہنا تھا کہ ’’لوگوں کا خیال ہے کہ یہ معاملہ فوری نوعیت کا نہیں ہے اور اسے کسی اور وقت میں حل کر لیں گے، لیکن ایسا نہیں، ہمارے پاس مزید وقت نہیں ہے۔‘‘
ان ہڑتالوں کو تعلیمی اداروں سے وابستہ افراد، اساتذہ اور ان کی یونینوں سے بڑے پیمانے پر حمایت مل رہی ہے۔ برطانیہ میں نیشنل ایسوسی ایشن آف ہیڈ ٹیچرز نے طلبہ کے اس اقدام کی تعریف کی ہے۔ آسٹریلیا میں نیشنل ٹرشری ایجوکیشن یونین، یونائیٹڈ فائر فائٹرز ایسوسی ایشن اور وکٹورین الائیڈ ہیلتھ پروفیشنلز ایسوسی ایشن جیسی مختلف شعبہ ہائے زندگی کی ورکرز یونین نے ہڑتالی طلبہ سے اظہار یکجہتی کیلئے ان کے ساتھ ریلی میں شرکتکی۔
انسانی وجود کو درپیش خطرہ
یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ آخر کیوں یہ تحریک اتنی جلد اس قدر مقبول ہو گئی، اس تحریک نے اس پوری نسل کو ایک آواز دے دی ہے جسے اس موجودہ نظام نے پچھاڑ کر رکھا ہوا ہے۔ پوری دنیا میں یہ نسل بے رحمانہ کٹوتیوں کے عہد میں پلی ہے، یہ نسل بہت اضطراب میں مختلف طریقوں سے اپنی حکومتوں کے ہاتھوں اپنا مستقبل سرمایہ داروں کو فروخت ہوتے دیکھ رہی ہے، ان کٹوتیوں میں تعلیم پر کٹوتیوں سے لے کر سماجی خدمات کے شعبہ کی کٹوتیاں شامل ہیں۔ مزید برآں، یہ نسل سرمایہ داری میں اپنی ساری زندگی کو قرضوں کے بوجھ تلے اور دگرگوں کام کے حالات میں دیکھتی ہے۔
اب اس پر حیران ہونے کی تو کوئی ضرورت ہی نہیں ہے کہ آخر کیوں اس نسل کو بڑے کاروباریوں اور ان کی نمائندوں حکومتوں پر اس تباہ کن ماحولیاتی بحران کے حل کیلئے ذرہ برابر بھی یقین نہیں ہے؟ انھیں ہر بار کی طرح اس بار بھی بیچا جارہا ہے،لیکن اس بار قیمت ان کا اپنا وجود ہے۔
اس قدر بڑھتی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باوجود اگر یہ سیاستدان ان کارپوریشنز پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے جو اس ماحولیاتی تبدیلی کی ذمہ دار ہیں تو یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ یہ بے رحم سرمایہ داری منافعوں کی حوس میں ہر شے قربان کرنے کو تیار ہے، چاہے وہ انسان کا وجود ہی کیوں نہ ہو۔ بہت سے طلبہ اس خطرے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ حقیقی تبدیلی اس نظام کے اندر سے نہیں آ سکتی، نہ ہی اس کی اصلاح سے بلکہ اس کیلئے انقلابی اور ناقابل مصالحت حل کی ضرورت ہے اور اسی میں اس مسئلے سے نجات چھپی ہوئی ہے۔
ہمیں ایک انقلاب کی ضرورت ہے
اس تحریک میں بہت پوٹینشل ہے۔ یہ بہت انقلابی اور منظم ہے۔ یہ ہفتہ وار ہڑتالیں دنیا بھر میں طلبہ خود منظم کرتے ہیں اور 15 مارچ کو چالیس سے زیادہ ممالک میں بیک وقت ہڑتال کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے۔
لیکن کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ مزدور تحریک کی قیادتیں بھی ان انقلابی ماحولیاتی مانگوں کو اپنائیں تاکہ نوجوانوں اور مزدوروں کی ایک تحریک بنائی جا سکے، جو اپنے مطالبات میں واضح اور جرأت مند ہوتے ہوئے اس ناکام سٹیٹس کو شکست دیتے ہوئے ایک سوشلسٹ متبادل کی جدوجہد کو تیز کر سکے۔
یہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے معذرت خواہ سیاستدان موسمی تبدیلی اور ماحولیاتی آلودگی کے ذمہ دار ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات کو ختم کرنے کی تکنیک اور ذرائع آج انسان کی دسترس میں ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے وہ ذرائع مٹھی بھر اشرافیہ کے ہاتھ میں ہیں۔ صرف اور صرف اس منافع کی دوڑ کا خاتمہ کرتے ہوئے اور معیشت کو انسانی ضرورت کے مطابق منصوبہ بند کرتے ہوئے ہی ہم اپنی خوبصورت زمین کو تباہی سے بچا سکتے ہیں۔ اس(منصوبہ بندی) کا مطلب ہے کہ بینکوں اور بڑی اجارہ داریوں کو عوامی ملکیت میں دیتے ہوئے مزدوروں کی جمہوریت کے ذریعے چلایا جائے۔ یہ سب کرتے ہوئے نہ صرف بطور نوع ہم اپنا وجود بچا سکتے ہیں بلکہ اب سماج بھی ان ہی بنیادوں پر پھل پھول سکتا ہے۔
ہم نوجوانوں کے روشن مستقبل کیلئے لڑ بھی سکتے ہیں اور بلاشبہ اپنی تمام تر قوت سے لازمی لڑیں گے، ایک ایسا مستقبل جو ہر کسی کو ایک بہتر معیارِ زندگی کی ضمانت دیتا ہے۔ یہ صرف اور صرف اس ہی صورت میں ممکن ہے جب پیداوار کو جمہوری اور معقول منصوبہ بندی سے چلایا جائے، ایسی منصوبہ بندی جو انسان کو درپیش ماحولیاتی، معاشی اور سماجی بحرانات کا مؤثر انداز میں حل کرے۔ (اس منصوبہ بندی کیلئے لازمی طور پر منافع کے عنصر کو مٹانا ہوگا)۔
ہم ان برطانوی اور دنیا بھر کے ہڑتالی طلبہ سے مکمل یکجہتی کرتے ہیں، اور وہ تمام نوجوان جو کسی انقلابی تبدیلی کے انتظار میں ہیں، ان سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ ایک عالمی سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد میں ہمارا حصہ بنیں۔