برطانیہ: انتخابات کے بعد بحران کے نئے مرحلے کا آغاز

|تحریر: راب سیویل، ترجمہ: جلال جان|

 

حالیہ الیکشنز میں ٹوری پارٹی کو ایک بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس نے سٹارمر کو ایک بڑی اکثریت کے ساتھ نمبر 10 (برطانیہ میں وزیراعظم ہاؤس کے لئے استعمال ہونے والی اصطلاح) میں داخل کر دیا ہے۔ لیکن یہ نئی لیبر حکومت شدید بحرانوں کا شکار ہو گی۔ مزدور اور نوجوان جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔ انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ممبر بنیں!

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

چودہ سال سے جاری ٹوری حکومت کے معاشی حملوں اور ظالمانہ کٹوتیوں کے بعد، رشی سوناک اور اس کی پارٹی کے مجرموں کے گروہ کو انتخابات میں ملنے والی زبردست شکست خوش آئند ہے۔

اس شکست کی شدت واقعی تاریخی تھی۔ 251 سیٹیں کھو جانے کے بعد، ٹوری پارٹی ایک بے بس جماعت بن گئی ہے۔ یہ تقریباً 200 سالہ تاریخ میں ٹوری پارٹی کو ملنے والی سب سے بڑی اور ذلت آمیز شکست ثابت ہوئی ہے۔

کئی اہم ٹوری رہنما اپنی سیٹیں کھو چکے ہیں جن میں سابق وزیر اعظم لزٹرس، کامنز لیڈر پینی مورڈانٹ، دفاعی سیکرٹری گرانٹ شیپس، اور ’انیسویں صدی کا وزیر‘ جیکب ریس موگ جیسے سخت گیر رجعتی لوگ شامل ہیں۔

”خدا کا شکر ہے میں آزاد ہوں۔ یہ ختم ہو گیا اور مجھے خوشی ہے“، ایک سابق ٹوری ایم پی نے اپنی سیٹ کھو جانے کے بعد بی بی سی نیوز کے میزبان کو بتا کر حیران کر دیا۔ اس سطح کے چالبازوں اور موقع پرستوں میں مایوسی کی شدت ایسی ہے۔ یہ لوگ پہلے ہی جانتے تھے کہ کیا ہونے والا ہے۔

برطانوی سرمایہ داری کی روایتی پارٹی کی تیز ترین اور ذلت آمیز گراوٹ، جو کبھی دنیا بھر کی حکمران جماعتوں کے لیے حسد کا باعث تھی، برطانیہ میں آنے والے سیاسی زلزلے کی شدت کی عکاسی کرتی ہے۔

لیبر پارٹی کی جیت کی حقیقت

ٹوریز کے زوال کا فائدہ توقع کے عین مطابق سٹارمر کی قیادت میں لیبر پارٹی کو ہوا ہے۔ حالانکہ دیکھنے میں یہی لگتا ہے کہ لیبر پارٹی کے پاس اب 170 سیٹوں کی زبردست اکثریت ہے لیکن حقیقت میں لیبر پارٹی کو ووٹ دینے والوں کی تعداد میں 2019ء کے عام انتخابات کے مقابلے میں پانچ لاکھ ووٹوں کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

درحقیقت، انتخابات سے پہلے یوگوو (YouGov) کے ایک سروے سے پتہ لگتا ہے کہ 48 فیصد لوگ جو لیبر کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے تھے، ان کا ووٹ دینے کا مقصد صرف ”ٹوریز کو اقتدار سے باہر کرنا“ تھا۔ صرف 5 فیصد نے کہا کہ لیبر پارٹی کی پالیسیوں کی وجہ سے وہ اس کو ووٹ دے رہے ہیں، اور محض 1 فیصد نے کہا کہ یہ سٹارمر کی قیادت کی وجہ سے تھا۔

اس طرح، بہت سے لوگوں نے مجبوراً لیبر پارٹی کے حق میں ووٹ اس لیے دیا کیونکہ انہیں اس کے علاوہ کوئی متبادل نظر نہیں آیا۔ اس بات کی بہت کم لوگوں میں امید پائی جاتی ہے کہ چیزیں بہتر ہونے کی طرف جا رہی ہیں۔

لیبر پارٹی کی لینڈ سلائیڈ جیت کی اصل وجہ ٹوری ووٹ کا خاتمہ تھا، جس ووٹ کا زیادہ تر حصہ فراج کی ریفارم یو کے پارٹی کو بھی ملا ہے۔

ٹوریز نے 68 لاکھ ووٹ حاصل کیے (23.7 فیصد)، جبکہ ریفارم یو کے کو 40 لاکھ (13.4 فیصد) ووٹ ملے ہیں۔ مجموعی طور پر، یہ 1 کروڑ 8 لاکھ ووٹ (38 فیصد) بنتے ہیں، جو کہ لیبر پارٹی کے 98 لاکھ ووٹوں (34 فیصد) سے کافی زیادہ ہیں۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ لیبر کے ووٹ، جو کل ووٹرز کی فیصد کے طور پر شمار کیے جاتے ہیں، 20 فیصد سے کچھ زیادہ بنتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف پانچ میں سے ایک ووٹر نے فعال طور پر لیبر پارٹی کی حمایت کی۔ اس کے ساتھ ساتھ 40 فیصد ووٹرز وہ ہیں جنہوں نے ووٹ نہیں دیا، جو پچھلے انتخابات کی نسبت 7.4 پوائنٹس کا اضافہ ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ بہت بڑی تعداد ایسی ہے جس نے کسی بھی بنیادی فرق کو نہیں دیکھا۔

پھر بھی، ’فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ‘ سسٹم کی وجہ سے، لیبر پارٹی نے دائیں بازو کے ووٹ کی اس تقسیم کی بدولت انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی۔ یہ سب کچھ سٹارمر اور اس کے گروہ کے حق میں کوئی اچھی تائید نہیں ہے۔

کسی پر بھروسہ نہیں

روایتی پارٹیوں اور سیاستدانوں کے خلاف شک اور بے یقینی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں یوگوو کے ایک سروے نے بہت بڑا انکشاف ظاہر کیا کہ تقریباً آدھے سروے شدہ لوگوں کو یقین ہے کہ سٹارمر کی قیادت قابلِ اعتماد نہیں ہے، جو ایک بڑے ریکارڈ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

”میں ہماری پارٹی کے رہنماؤں اور ایم پیز کے ساتھ بہت مایوس اور غصہ ہوں کہ اب میں اپنے ووٹ کے اثرات پر غور کر رہی ہوں“، الیکسانڈرا، لندن کی ایک نوجوان خاتون، انتخابات کے دن سے قبل کہتی ہے۔ ”مجھے ہمارے ملک، معیشت اور عوامی خدمات کے اداروں کے لیے روشن مستقبل دور دور تک نظر نہیں آتا ہے، چاہے کوئی بھی وزیراعظم بننے کی طرف جائے“۔

ایک اور ووٹر نے انٹرویو کے دوران صحافیوں سے کہا ”یہ وقت ایسا ہے جیسے میں اپنے لیے کسی بیماری کا انتخاب کرنے کی کوشش کر رہا ہوں“۔

فنانشل ٹائمز نے صورتحال کی کچھ ایسے تشریح کی ہے: ”لیبر پارٹی کی اس تاریخی کامیابی کو اگر سطح کے نیچے دیکھا جائے تو خطرناک علامات موجود ہیں۔ برطانیہ کے بہت کم افراد کا یہ ماننا ہے کہ سٹارمر کی پارٹی برطانیہ کے مسائل سمجھ سکتی ہے (یا انہیں حل کر سکتی ہے)، اسی طرح بہت کم لوگ یہ بھی مانتے ہیں لیبر پارٹی اپنے وعدے پورے کرنے کی طرف جائے گی۔ یہ دونوں اعداد و شمار دراصل بورس جانسن جب حکومت میں آیا تھا اسے بھی بہت حد تک کم ہیں“۔

غزہ میں نسل کشی کے حوالے سے ٹوری اور لیبر رہنماؤں کے بے حس رویے کو دیکھ کر لوگوں میں پائی جانے والی نفرت مزید بڑھ گئی ہے۔ اس کا عکس کل بڑی تعداد میں فلسطین کے حامی آزاد امیدواروں کے حق میں ڈالے گئے احتجاجی ووٹوں کی شکل میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

خاص طور پر، سابق بائیں بازو کے لیبر رہنما جیریمی کاربن، جس نے سٹارمر کے پارٹی سے نکالے جانے کے بعد آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لیا اور اسلنگٹن نارتھ کی نشست بڑے فرق سے جیتنے میں کامیاب ہوا۔

دوسری جگہوں پر بھی جیسے کہ بلیک برن، ڈیووسبری اور بیٹلی، لیسٹر ساؤتھ اور برمنگھم پیری بار میں فلسطین کے حامی آزاد امیدوار لیبر پارٹی کے ہاتھ سے فتح چھیننے میں کامیاب رہے۔ بہت سے امیدوار جیت نہ سکے، لیکن انہوں نے خاطر خواہ ووٹ حاصل کیے۔

مزید برآں جیس فلپس اور ویس سٹریٹنگ جیسے دائیں بازو کے لیبر اراکین پارلیمنٹ فلسطین کے حامی امیدواروں کے ہاتھوں اپنی نشست سے محروم ہونے کے قریب پہنچ گئے۔ مشرقی لندن کے بیتھنل گرین اور سٹیپنی میں موجودہ لیبر ایم پی روشن آرا علی نے اپنی 34 ہزار کی اکثریت کو محض 1800 ووٹوں تک گھٹتے ہوئے دیکھا۔ اپنے ہی حلقہ انتخاب ہالبورن اور سینٹ پینکراس میں سٹارمر، جس کا مقابلہ ایک فلسطین کے حامی آزاد امیدوار سے تھا، نے بھی اپنے ووٹوں کو 36 ہزار سے نصف ہو کر 18 ہزار ہوتے دیکھا۔

اس تناظر میں ایسی نفرت کی ایک اور علامت یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں، جن میں لیبر اور ٹوریز دونوں شامل ہیں، کو دیے جانے والی ووٹوں میں 1918ء کے بعد سب سے بڑی کم دیکھی گئی۔ اس کے علاوہ، ووٹرز کی تعداد میں 1945ء کے بعد سے اب تک سب سے بڑی کمی دیکھنے میں آئی، جو مین سٹریم کی سیاست کا عوام کی جانب سے مسترد ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔

بحران زدہ حکومت

سناک نے اپنا ساز و سامان باندھ لیا ہے اور نمبر 10 (وزیراعظم ہاؤس) چھوڑ دیا ہے۔ سٹارمر بادشاہ کی انگوٹھی چومنے اور حکومت بنانے کی اجازت مانگنے کے لیے جلدی سے پہنچ گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سٹارمر کے ماننے والے خوشی سے چمک رہے ہوں گے۔

لیکن لیبر رہنما کی مسکراہٹ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گی۔ ان کی حکومت کو برطانوی سرمایہ داری کے بحران کے پیش نظر مسائل کے ایک سیلاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

فئیرنس فاؤنڈیشن کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، اگلے پانچ سالوں میں برطانیہ دولت، صحت اور رہائش کے لحاظ سے بڑھتی ہوئی خلیج کے ساتھ زیادہ غیر منصفانہ اور غیر مساوی ہو جائے گا۔ لیکن یہ بھی صرف ایک جھلک ہے کہ آنے والے سالوں میں مزدوروں، غریبوں اور نوجوانوں کو کن معاشی حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سٹارمر سرمایہ داری سے وابستہ ہے اور بڑے کاروباروں کے مفادات کو فروغ دینے کی طرف جائے گا۔ نظام کے بحران کا مطلب عام لوگوں پر مزید حملے ہوں گے۔ یہ اسے محنت کش طبقے کے ساتھ تصادم کے راستے پر لے جائے گا، جو مزید کفایت شعاری اور معیار زندگی میں کٹوتیوں کی مخالفت کریں گے۔

”لیبر پارٹی کی بھاری اکثریت اس وقت توجہ کا مرکز ہے، لیکن یہ کمزور بنیادوں پر قائم ہے،“ فنانشل ٹائمز نے وضاحت کی۔ ”جیسا کہ جیمز کاناگاسوریم، پولنگ فرم فوکلڈاٹا کے چیف ریسرچ آفیسر کا کہنا ہے، ووٹروں کا اتحاد، جس نے سٹارمر کو 10 ڈاؤننگ سٹریٹ میں بٹھایا دیا ہے، اسے ایک مضبوط عمارت کے بجائے ریت کا قلعہ سمجھنا بہتر ہے۔ آنے والے چند سالوں میں جب سمندر کی لہریں آئیں گی، تو یہ قلعہ بھی بالکل اسی طرح بہہ سکتا ہے جیسے اس ہفتے کنزرویٹو پارٹی سے ساتھ ہوا ہے۔“۔

لہٰذا ہم پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ سٹارمر کی پارلیمنٹ میں بڑی اکثریت بالکل اسی طرح ہے جیسے بورس جانسن اور ٹوری پارٹی نے 2019ء میں حاصل کی تھی۔ اس حکومت کی اپنی بنیادوں میں ہی بارود شامل ہے۔ یہ نئی لیبر حکومت پہلے دن سے ہی بحرانوں سے بھری ہو گی۔

مستقبل کی موسیقی

موجودہ انتخابات، جن میں کوئی حقیقی آپشن ہی موجود نہیں تھا، سماج میں موجود موڈ کی ایک وقتی جھلک ہی فراہم کر سکتے ہیں۔

نائجل فراج کی جیت، جس کی پارٹی ریفارم یوکے نے چار نئی سیٹیں حاصل کیں ہیں اور ووٹ کا 14.3 فیصد حصہ حاصل کیا ہے، جس کے بعد یہ ملک کی تیسری سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے، انتہائی خطرناک انتباہ ہے۔ فراج نے اپنی پارلیمانی ممبرشپ کو استعمال کرتے ہوئے منصوبہ بندی کے ذریعے رجعتی قوتوں کو بڑھانے کے لیے استعمال کرنا ہے۔

”یہ کنزرویٹیو پارٹی کے اختتام کا آغاز ہو رہا ہے،“ یہ بات فاراج صاحب نے بہت خوشی سے کہی۔ ”برطانوی سیاست میں مرکز کے دائیں طرف ایک بڑا خلا پایا جاتا ہے، اور میرا کام اس خلا کو بھرنا ہے۔“

ٹوری پارٹی میں برپا ہونے والا بحران، جو کہ دراصل اپنی موت کا انتظام کرنے کی طرف جا رہی ہے، مستقبل میں دائیں بازو کی سیاست میں بہت بڑی تبدیلیوں کو جنم دے گا۔ ون نیشن ”اعتدال پسند“ ٹوریز تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔

”کنزرویٹیو انتہائی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں،“ سابق لارڈ چانسلر روبرٹ بکلینڈ نے افسوس کے ساتھ یہ بات کہی۔ اس نے مزید یہ بات بھی کہی کہ پارٹی کی قیادت کا مقابلہ ”ایک گنجے گروہ کی لڑائی کی طرح ہو گا جو کنگھی کے لیے لڑ رہے ہوں گے“۔

مشرقی لندن کے سٹریٹفورڈ اور باؤ میں، بائیں بازو کی جانب لوگوں کے بڑھتے ہوئے رحجان کو دیکھتے ہوئے تو فیونا لالی، جو کہ انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے کمیونسٹ پروگرام پر آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں کھڑی ہوئی، کو 1791 دیے گئے۔ ہزاروں لوگ اس کیمپئن کا حصہ بنے جنہوں نے باقیوں کی بھی آگاہ کیا۔ ان میں سے بہت سے لوگ بعد میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی (آر سی پی) میں شامل ہو گئے ہیں۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی، جس کی بنیاد صرف مئی کے ابتدائی دنوں میں رکھی گئی تھی، نے فیونا کو عام انتخابات میں کھڑا کیا تاکہ سماجی ماحول کا جائزہ لیا جا سکے اور انقلاب کے سرخ جھنڈے کو بلند کیا جا سکے۔

یہ بھرپور کامیابی ثابت ہوئی ہے، جس میں ہماری کمپیئن سماج کی وسیع تر پرتوں تک پہنچی اور ان کے دل کی گہرائیوں میں انقلابی جذبہ پیدا کیا۔ یہ ہماری پارٹی کے لیے پہلی بار ہے کہ جب ہم نے عوامی کام میں شمولیت اختیار کی ہے۔ لیکن یہ صرف آغاز ہے، مستقبل کئی امکانات سے بھرپور ہے۔

سٹارمر کی کڑوی دوائی

موجودہ دور بہت بڑی جدوجہدوں سے بھرپور ہے! یہ لیبر حکومت برطانوی سرمایہ داری کو ٹھیک کرنے کی کوشش میں ٹوریز سے مختلف انداز میں کام نہیں کرے گی۔

سٹارمر اسرائیل کو جنگی مشینری فراہم کیے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ وہ امریکی سامراج کی ہدایات پر عمل کرنا جاری رکھے گا۔ اور وہ ٹوری معاشی پالیسیوں کو بھی ساتھ ساتھ جاری رکھے گا، جس کا مطلب ہے مزید کٹوتیوں کی کڑوی دوا۔ لیبر پارٹی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ”عوامی خدمات پر اخراجات کی طرف ہمارا رویہ سخت معاشی اصولوں پر قائم ہے اور انہی اصولوں کی بنیاد پر ہم اپنے دور حکومت میں فیصلے کریں گے“۔

برطانیہ کی نئی چانسلر، ریچل ریوز نے کہا کہ وہ امید کرتی ہے کہ اب سرمایہ کاروں کے لیے برطانیہ کو ”محفوظ جگہ“ سمجھا جائے۔ ان کی امیدیں مستحکم ہیں۔ مارکیٹس نے بھی انتخابی نتیجے کا بہت مثبت جواب دیا، جس کے نتیجے میں ایف ٹی ایس ای 250 انڈیکس دو سال سے زیادہ عرصے کے بعد اپنی اعلیٰ سطح پر پہنچ گیا!

کاروباری رہنما اور سرمایہ کار سٹارمر کی فتح پر خوش ہوں گے کہ اب اقتدار ”محفوظ ہاتھوں“ میں ہے۔ سٹارمر معقول نگران ہے جو دراصل مالکان کے مفادات کی حفاظت کرے گا، اسی وجہ سے سرمایہ کار اس کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔

لیبر پارٹی سے کام کرنے والے کارکنان کی تمام امیدیں بھی جلد ہی دھندلا جائیں گی۔ اصلاحات کی بجائے، آنے والے عرصے میں حاصلات پر زیادہ سخت حملوں کی تیاری ہو گی۔ سٹارمر کی حکومت کا پس منظر برطانوی سرمایہ داری کے گہرے بحران کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

اس عمل میں سٹارمر کی لیبر پارٹی عوام کے لیے کنزرویٹیو پارٹی سے زیادہ قابل نفرت بن جائے گی۔

جدوجہد کی تیاری کرو

مزدور طبقے کو آنے والے واقعات کے لیے تیار ہونا چاہئے۔ ٹریڈ یونین کے رہنماؤں کو اپنے گھٹنوں سے اٹھنا ہو گا اور ہوائی باتیں کرنے کے بجائے عمل کی تیاری کرنی ہو گی۔ لیبر پارٹی کے ’بائیں‘ بازو کو ہمت دکھانی ہو گی اور سٹارمر کے خلاف کھڑے ہونا ہو گا۔ دبے پاؤں ہر کام کرنے کا وقت اب ختم ہو چکا ہے۔

بس بہت ہو گیا! ایک دہائی سے زائد میں جمود اور زوال کے بعد، مزدور طبقے کو اس سرمایہ دارانہ بحران کا بوجھ اٹھانے سے انکار کرنا ہو گا۔ امیر افراد اور بینکاروں کو اس بحران کی قیمت ادا کرنی ہو گی!

گارڈین کالم نویس اور لبرل معاشیات دان، ول ہٹن، ٹریڈ یونیوسٹوں پر طنزاً ہنستے ہوئے کہتا ہے کہ ”انہیں تو بس اچھی کام کی جگہیں چاہئیں، یہ کوئی پرولتاری انقلاب کا صنعتی ونگ نہیں ہیں، ایسا انقلاب جو کبھی نہیں آنا“۔

ہم نے دیکھ لیا ہے کہ مالکان کے ساتھ ’شراکت داری‘ کس نہج تک لے جاتی ہے۔ جنوبی ویلز کے سٹیل ورکرز سے پوچھیں جنہیں بڑی تعداد میں نکالے جانے کے خطرے کا سامنا ہے۔ ان سے پوچھیں کہ اس طبقاتی مفاہمت نے ان کو کہاں پہنچایا ہے؟

ہم اصلاح پسندی کے خدمت کاروں اور ’لیبر‘ پارٹی کے سیاستدانوں کی ان دغا بازیوں سے تنگ آ چکے ہیں۔ ان کو صرف اپنے کیریئر کی پرواہ ہوتی ہے۔

انقلابی پارٹی کی تعمیر

انقلابی کمیونسٹ پارٹی اپنے سٹریٹفورڈ اور باؤ کی کامیابی کو بنیاد بناتے ہوئے ایک تحریک کی تعمیر کرنے میں مدد کرے گی جو کہ سٹارمر حکومت کے حملوں کا مقابلہ کر سکے۔

فلسطینیوں کی نسل کشی کی حمایت کرنے والی برطانوی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لڑنے کے لیے ہم ملکی سطح پر ایک کمپیئن کا آغاز کر رہے جو کہ سامراجیت اور جنگی جنونیت کے خلاف ہو گی۔ اس کام میں، ہم دوسروں کے ساتھ ایک متحدہ فرنٹ بھی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ ہم سٹارمر اور جنگی جرائم کے خلاف جدوجہد کو ایک ساتھ جوڑ سکیں۔

ہم برطانیہ میں معیاری طور ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ آنے والا عرصہ مزید طوفان اور سماجی دھماکوں کا ہو گا، جو خاص طور پر نوجوانوں سے شروع ہو کر عوامی سطح پر شعور کو تبدیل کرے گا۔

ہم برطانیہ میں اور عالمی سطح پر انقلابی عہد میں داخل ہو چکے ہیں۔ ان واقعات کے پیش نظر، ایک انقلابی پارٹی کا قیام ضروری ہے۔ یہ وہ کام ہے جو ہم یعنی آر سی پی، نے اپنے آپ کو تاریخ کا تقاضا سمجھتے ہوئے سونپا ہے۔

ہم ان سبھی لوگوں سے درخواست کرتے ہیں جنہوں نے فیونا کے لیے ووٹ کیا تھا اور ان سب سے بھی جنہوں نے ہماری نیشنل کمپیئن میں حمایت کی، کہ ہمارے ساتھ شامل ہوں اور آنے والے برطانوی انقلاب کے لیے تیاری کریں۔

 

 

Comments are closed.