|منجانب: عالمی مارکسی رجحان، ترجمہ: اختر منیر|
سعودی عرب کا ولی عہد اور اصلی حکمران محمد بن سلمان بدھ کو برطانیہ کے تین روزہ دورے پر آ رہا ہے جہاں وہ بڑی بڑی کاروباری شخصیات کے علاوہ تھریسا مے اور بورس جانسن سے بھی ملاقات کرے گا۔
(یہ آرٹیکل IMT کے لیف لیٹ کے طور پر 7 مارچ کو لندن میں محمد بن سلمان کے شاہی دورے کے خلاف ہونے والے احتجاج میں تقسیم کیا جائے گا۔)
برطانیہ کے ان ’’جمہوری‘‘ حکمرانوں کا اس استبدادی کے متعلق رویہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان کے حقیقی مفادات کیا ہیں۔ وہی لوگ جو جمہوریت کو فروغ دینے کی خاطر کسی بھی ملک پر جنگ مسلّط کرنے سے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے، انہیں دنیا کی سب سے رجعتی حکومت سے گہرے مراسم رکھنے میں کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں ہے۔
مغرب کے لبرل میڈیا میں محمد بن سلمان کو سعودی عرب کا جدت پسند اصلاح کار بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، کیونکہ پہلی بار وہاں عورتوں کو ڈرائیونگ کی اجازت ملی ہے اور سینما گھروں کو بھی کام کرنے اجازت ملی ہے۔ مگر محمد بن سلمان نے اپنے خاندان کی سفاک حکومت کے کسی بنیادی ستون کو نہیں چھیڑا۔
ابھی بھی سعودی عرب میں عورتوں کی حیثیت دوسرے درجے کے شہری کی ہے۔ سعودی عورتوں کو قانونی طور پر نابالغ تصور کیا جاتا ہے اور ان کے لیے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے، شادی کرنے اور پاسپورٹ بنوانے کے لیے کسی مرد رشتہ دار کی اجازت لینا ضروری ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اہل تشیع کو نصاب اور میڈیا میں روزانہ کی بنیاد پر برا بھلا کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں سیاسی قیدی حکومت پر معمولی تنقید کے جرم میں سلاخوں کے پیچھے سڑ رہے ہیں۔
ریاست کی اساس وہابیت پر ہے اور یہ داعش سے قطعی مختلف نہیں ہے جسے عراق اور شام میں مغربی مداخلت کا جواز بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ درحقیقت سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں داعش اور اسلامی بنیاد پرستی کا سب سے بڑا سہولت کار ہے۔ حالیہ وقتوں میں ان درندوں کو شام اور عراق میں ابھارنے میں محمد بن سلمان کا بہت بڑا ہاتھ موجود ہے۔
اسی محمد بن سلمان نے، جو بورس جانسن کے مطابق ’’ایک غیر معمولی نوجوان ہے‘‘، یمن کے لوگوں کے خلاف ایک یکطرفہ خونریز جنگ کا آغاز کیا۔ ہزاروں لوگ زخمی ہوئے اور مارے گئے، لاکھوں لوگ ہجرت پر مجبور ہوئے، جبکہ وحشیانہ بمباری اور آپریشن کی وجہ سے بہت سی عمارتیں تباہ و برباد ہو گئیں اور 70 لاکھ لوگ قحط کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ جبکہ القاعدہ کھلے عام دندناتی پھر رہی ہے اور اس سعودی آپریشن میں حصہ بھی لے رہی ہے۔ یقیناً یہ سب برطانیہ اور امریکہ کی فوجی امداد کے بغیر ممکن نہیں تھا جو اس سب میں ان کا برابر ساتھ دے رہے ہیں۔
اپنے عروج کے دور میں برطانوی سلطنت خلیجی ریاستوں کو خلیج فارس میں اپنے سمندری راستوں کی حفاظت کے لیے رقم ادا کیا کرتا تھی۔ اب پانسہ پلٹ چکا ہے اور برطانوی سرمایہ داری خلیجی ریاستوں کے لیے ’’کرائے کے قاتل‘‘ کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اب محمد بن سلمان، مے، جانسن اور لندن میں بیٹھے طفیلیوں کے آگے 100 ارب ڈالر لہرا رہا ہے۔ اس رقم کی خاطر یہ خواتین و حضرات کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں، جس میں مشرق وسطیٰ کی سب سے رجعتی حکومت کو سہارا دینا بھی شامل ہے۔ جس طرح وہ خود برطانیہ میں محنت کشوں اور نوجوانوں پر کٹوتیوں کے حملے کر رہے ہیں، اسی طرح وہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں محنت کشوں کے سب سے بڑے دشمن کا بھی ساتھ دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے لیے مشرق وسطیٰ کے عوام کی سعودی حکمرانوں کے خلاف جدوجہد بھی اسی طرح ہے جس طرح ہمارے اپنے گھر میں حکمران طبقے کے خلاف ہماری اپنی جدوجہد۔
برطانوی اور سعودی حکومتوں کی ڈیل مردہ باد!
ٹوری حکومت مردہ باد!
گلی سڑی سعودی حکومت مردہ باد!