|تحریر: راب سیول، ترجمہ: یار یوسفزئی|
سوشلسٹ اپیل، مزدوروں اور نوجوانوں میں مارکسزم کی آواز، کو برطانوی لیبر پارٹی سے بے دخل کیا جا چکا ہے، جن کے بارے میں دائیں بازو کا کہنا ہے کہ وہ پارٹی کے ’اہداف اور اقدار‘ کے لیے ’بیگانے‘ اور ’زہر آلود‘ ہیں۔ مگر برطانوی مزدور تحریک اور لیبر پارٹی میں مارکسزم کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ اس مضمون میں حالیہ جھوٹ، کردار کشی اور بہتان تراشی کا جواب دیا گیا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
لیبر پارٹی کی قومی مجلسِ عاملہ (این ای سی) کی جانب سے سوشلسٹ اپیل پر پابندی کا فیصلہ اور لیبر پارٹی سے ہمارے حامیوں کی بے دخلی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دائیں بازو نے مارکسزم اور پارٹی پر اس کے اثر و رسوخ کے خاتمے کی غرض سے ماضی میں کئی دفعہ ایسا کیا ہے۔
یہ ہمارے لیے حیران کن نہیں ہونا چاہئیے۔ لیبر پارٹی کا دایاں بازو، جو ابھی سر کیئر سٹارمر کے تحت پارٹی قیادت پر غالب ہے، ہماری تحریک کے اندر کھلم کھلا حکمران طبقے کے کارندوں کا کردار نبھا رہا ہے، جن کا کام پارٹی کو سرمایہ داری کے لیے بے ضرر بنائے رکھنا ہے۔ اس کے لیے وہ لیبر پارٹی کے پرخچے اڑانے پر بھی اتر سکتے ہیں۔
بہرحال، اس خصوصی کوشش کے فوری نتائج چاہے جو بھی نکلیں، سرمایہ داری کے نامیاتی بحران کے ہوتے ہوئے یہ بات یقینی ہے کہ مارکسزم کی قوت میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ اس حوالے سے ہمیں کوئی شکوک و شبہات نہیں۔ مارکسزم ماضی کی نسبت آج کہیں زیادہ موزوں ہے۔ دائیں بازو نے تاریخ کا ایک آسان سبق بھلا دیا ہے کہ؛ کرہ ارض کی کوئی بھی قوت اس نظریے کو نہیں روک سکتی جس کا وقت آ چکا ہو۔
میکارتھی ازم
1950ء کی دہائی میں، جب بعد از جنگ معاشی ترقی کا دور تھا، دایاں بازو اپنی طاقت کو اس لیے برقرار رکھ پایا کیونکہ سرمایہ داری میں بعض اصلاحات کی گنجائش موجود تھی۔ مگر ابھی صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی آ چکی ہے۔
آج، سرمایہ دارانہ بحران کے باعث ہر جگہ پر ردّ اصلاحات اور آسٹیریٹی کے اقدامات لیے جا رہے ہیں۔ دائیں بازو کی اصلاح پسندی کی مادی بنیادیں ختم ہو چکی ہیں۔ اس کی وجہ سے بحران در بحران دیکھنے کو ملے گا۔ ایک مخصوص مرحلے پر، دائیں بازو کا غلبہ ناگزیر طور پر منہدم ہونے کی طرف جائے گا۔
مارکسزم، ہمارے ناقدین کے نزدیک، ’زہریلا‘ اور ’قاتل‘ ہے۔ ہمارے خیال میں، یہ بات سرمایہ داری کے خلاف ہماری ثابت قدم مزاحمت کے بارے میں کی جاتی ہے، جس کے باعث لیبر پارٹی کا دایاں بازو ہم سے شدید نفرت کرتا ہے۔ ان کے مطابق، منڈی کی معیشت اور منافعے کی حکمرانی کے تمام مخالفین ’زہریلے‘ اور ’قاتل‘ ہیں۔ سرمایہ داری کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونے والوں سے آپ اور کس چیز کی توقع کر سکتے ہیں؟
ان کی جانب سے مارکس وادیوں پر کیے جانے والے حملوں کو ریاستی مشینری اور حکمران طبقے کی پشت پناہی حاصل ہے، یعنی ان آقاؤں کی جن کی وہ ایمانداری سے خدمت گزاری کرتے ہیں۔ مارکس وادیوں اور بائیں بازو کے اراکین کو بے دخل کرنے کا مقصد لیبر پارٹی کو سرمایہ داری کے لیے بے ضرر بنائے رکھنا ہے؛ اس کے علاوہ اس کی کوئی وجہ نہیں۔
سر کیئر سٹارمر، ہمارا نام نہاد سپہ سالار، بائیں بازو پر ایسی پابندیاں لگانے کی تجویز دے رہا ہے جیسی ماضی میں کبھی دیکھنے کو نہیں ملیں۔ اب آپ کو کسی کمینے یا بیوروکریٹ کے کہنے پر بغیر کسی تحقیات کے بے دخل کیا جا سکتا ہے، اور آپ کو اپیل کرنے کا حق بھی حاصل نہیں ہوگا۔ لیبر پارٹی کے اراکین کے جمہوری حقوق تاخیر کیے بغیر کوڑے دان میں پھینکے جا رہے ہیں۔
بلاشبہ سوشلسٹ لٹریچر فروخت کرنے والے سوشلسٹ اپیل کے سٹالوں پر جاسوسی کرنے کے لیے بھی کرائے کے ٹٹو بھیجے جائیں گے، تاکہ بے دخلی کی فہرست کو ترتیب دیا جا سکے۔
یہ امریکی ریاست کے اندر میکارتھی ازم (40ء اور 50ء کی دہائی میں سرد جنگ کے دوران کمیونزم کے خلاف بہتان تراشی اور جھوٹے پراپیگنڈے کا طریقہ جو امریکی سینیٹر جوزف میکارتھی سے منسوب ہے) کے بد نامِ زمانہ طریقے ہیں، جس میں بلیک لسٹ کرنا متعارف کروایا گیا تھا (جس میں شامل لوگوں پر کمیونسٹ ہونے کا الزام لگا کر روزگار سے محروم رکھا جاتا تھا)۔ تعمیراتی کام کے محنت کشوں کو بلیک لسٹ کرنے والے سکینڈل کی طرح (جس میں برطانیہ کے تعمیراتی شعبے میں ٹریڈ یونین کے سرگرم کارکنان یا دیگر مسائل پر آواز اٹھانے والوں کو بلیک لسٹ کر دیا جاتا)، سوشلسٹ اپیل کے حامی بھی سٹارمر کے بلیک لسٹ میں درج کیے جا چکے ہیں۔
تاریخ اور روایات
’زہریلے‘ ہم نہیں بلکہ دائیں بازو والے یہ تخریب کار اور حکمران طبقے کے چمچہ گیر ہیں۔
برطانیہ میں مارکسزم کی ایک لمبی تاریخ ہے، حتیٰ کہ لیبر پارٹی سے بھی پرانی۔ سر سٹارمر کے برعکس، لیبر پارٹی کا پرانا قائد کلیمنٹ ایٹلی ہماری تحریک کے مارکسی رہنماؤں کو سراہا کرتا تھا۔
”]مارکسزم کے[ حامیوں نے اس وقت بے پناہ جرأت دکھائی تھی جب سوشلزم کا پرچار کرنے والوں کو اکثر جسمانی جبر کے ذریعے دبا دیا جاتا تھا،“ جنگ سے پہلے کلیمنٹ ایٹلی نے وضاحت کی۔ ”سوشلسٹ کارکنان خطرات سے لڑتے ہوئے زندگی گزارتے اور 1880ء اور 1890ء کی دہائیوں کی صنعتی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ مارکسزم کی خدمات بیش بہا ہیں۔۔۔“ (ایٹلی، لیبر پارٹی کا تناظر)
حقیقت تو یہ ہے کہ برطانیہ میں محنت کش طبقے کی اوّلین پارٹیوں میں سے ایک سوشل ڈیموکریٹک فیڈریشن (ایس ڈی ایف) تھی۔ اس کا قیام 1881ء میں کھلے عام بطورِ مارکسسٹ پارٹی عمل میں لایا گیا تھا، جس کے تقریباً 20 سال بعد کہیں جا کر لیبر پارٹی قائم کی گئی۔
اس کے اراکین نے برطانیہ کے اندر بڑی بڑی ٹریڈ یونینز بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ایٹلی لکھتا ہے، ”]ٹریڈ یونینز کے[ سب سے نامور قائدین سوشل ڈیموکریٹک فیڈریشن کے اراکین تھے، اور شاید اسی حوالے سے اس پارٹی نے برطانوی سوشلسٹ تحریک کی سب سے بڑی خدمت کی۔“
1900ء میں، ایس ڈی ایف نے ہی وہ پارٹی قائم کی تھی جس کا ابھی سٹارمر قائد ہے، اور اس کو این ای سی میں دو مستقل سیٹ دی گئی تھیں۔
بد قسمتی سے، ایس ڈی ایف کے قائدین فرقہ پروری کا شکار تھے، جس پر اینگلز نے بھی اپنی موت سے قبل تنقید کی تھی۔ نتیجتاً جب پارٹی مکمل سوشلسٹ پروگرام اپنانے میں ناکام رہی تو مارکس وادی اسے چھوڑ کر جانے لگے۔
بین الاقوامیت
سٹارمر ہم پر حملے اس لیے کر رہا ہے کیونکہ ہمارا تعلق عالمی مارکسی رجحان (آئی ایم ٹی) سے ہے، جو دنیا بھر کے مارکسی گروہوں پر مبنی ہے۔ مگر جہاں تک ہماری بین الاقوامیت کی بات ہے، جو عالمی سوشلزم کی جدوجہد کا کلیدی حصّہ ہے، ہم کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔
1907ء میں، لیبر پارٹی نے خود دوسری انٹرنیشنل کے ساتھ الحاق کر لیا تھا، جو باقاعدہ ایک عالمی مارکسی تنظیم تھی اور دنیا بھر کی سوشلسٹ پارٹیوں کو یکجا کر رہی تھی۔
لیبر پارٹی کے الحاق کی تجویز پیش کرنے والا کارل کاؤتسکی ہی تھا، جس کی لینن نے حمایت کی تھی۔ لینن اس اقدام کو ”شعوری طبقاتی پالیسی اور سوشلسٹ مزدور پارٹی کی جانب برطانیہ کی حقیقی پرولتاری تنظیموں کا پہلا قدم“ کے طور پر دیکھتا تھا۔ (لینن برطانیہ پر، صفحہ 97)
1912ء میں، ایس ڈی ایف نے برطانوی سوشلسٹ پارٹی کا نام اپنایا، جو لیبر پارٹی سے ملحق ایک مارکسی تنظیم کے طور پر کام کر رہی تھی۔ اس کی سب سے مشہور شخصیت گلاسگو سے تعلق رکھنے والا جان مک لین تھا۔
انقلابِ روس سے متاثر ہو کر، لیبر پارٹی نے 1918ء میں سوشلسٹ دستور اپنایا جس میں مشہور شق چہارم بھی درج تھی، جس کے تحت پارٹی ذرائع پیداوار، اشیاء کی تقسیم اور تبادلے کو اجتماعی ملکیت میں لینے کی حامی تھی۔
1995ء میں ٹونی بلیئر نے اس شق کو منسوخ کر دیا۔ البتہ، یہ سوشلسٹ اپیل ہی تھی جس نے ’لیبر 4 کلاز 4‘ مہم کا آغاز کر کے اس کی بحالی کے لیے جدوجہد شروع کی، جس کو 2019ء کی لیبر پارٹی کانفرنس میں مقامی مندوبین میں سے 62 فیصد مندوبین کی حمایت حاصل ہوئی۔
1920ء میں، نوزائیدہ برطانوی کمیونسٹ پارٹی، جس میں برطانوی سوشلسٹ پارٹی ضم ہو چکی تھی، نے لیبر پارٹی کے ساتھ الحاق کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔ مگر اس درخواست کو رد کر دیا گیا، کیونکہ اس کی بناوٹ اس طرح تھی کہ اسے قبول نہیں کیا جاتا تھا۔ البتہ، 1925ء میں ہونے والی لیور پول کانفرنس تک کمیونسٹ پارٹی کے اراکین کو اجازت تھی کہ وہ اب بھی انفرادی طور پر لیبر پارٹی کی رکنیت میں رہ سکتے ہیں۔
دایاں بازو، بشمول ٹریڈ یونین قائدین، نے پابندیاں لگا کر بائیں بازو کو روکنے کا پختہ ارادہ کر لیا تھا۔
بے دخلیاں
اس کے بعد سے، لیبر پارٹی کا دایاں بازو اپنی سرمایہ داری پرور پالیسیوں کے لیے مارکسی بائیں بازو کو خطرہ سمجھنے لگے۔ جن کی وہ تطہیر کر سکتے تھے، انہیں ان کے نظریات کی پاداش میں بے دخل کیا جاتا رہا۔
1938ء میں این ای سی نے ایم پی (ممبر پارلیمنٹ) سٹافورڈ کرپس کو بے دخل کیا، جس کے بعد ایم پی اینورین بیون اور ایم پی جارج سٹراؤس کو بے دخل کر دیا گیا۔
اس کے بعد مائیکل فوٹ اور سڈنی سلور مین، جو دونوں لیبر پارٹی کے ایم پی تھے، کو بے دخل کیا گیا، جیسے آج کاربن کو کیا گیا ہے۔ اس تطہیری عمل میں دیگر افراد بھی بے دخل کیے گئے اور بائیں بازو کے اخبارات وغیرہ پر پابندی لگا دی گئی۔
بیون نے لکھا تھا، ”اگر پارٹی پالیسی تبدیل کرنے کی ہر منظم کوشش کا مطلب بذاتِ خود پارٹی کے اوپر منظم حملہ کرنا ہے تو پھر پارٹی کی جانب سے مسلط کی گئی پابندیاں اس کی موت کا باعث بنیں گی۔“ اس نے خبردار کیا کہ لیبر پارٹی کو دھیان رکھنا چاہئیے کہ یہ خود کو ”دانشوروں کے کنسنٹریشن کیمپ (قید خانے)“ میں تبدیل نہ کرے۔
دایاں بازو آج بھی اینورین بیون، قومی شعبہ صحت (این ایچ ایس) کا بانی، کی تعریف کرتا ہے جو کسی ستم ظریفی سے کم نہیں۔ مگر جیسا کہ مائیکل فوٹ نے اپنی سوانح حیات میں لکھا، ”وہ ]بیون[ ایک پکّا مارکس وادی تھا۔“
”وہ سماجی تبدیلی کے لیے درکار نظریات کے بارے میں مارکسی مؤقف کو قبول کرتا تھا اور یہاں تک کہ سوشل ڈیموکریٹک قیادت سے وابستہ کمزوریوں اور نا اہلیت پر مارکسی تجزیہ بھی تسلیم کرنے کی طرف گیا تھا۔“ (فوٹ، اینورین بیون 1897-1945ء،صفحہ 150)
مارکس اور اینگلز
1947ء میں، لیبر پارٹی نے مارکس اور اینگلز کا لکھا ہوا کمیونسٹ مینی فیسٹو تک چھاپ دیا، جس کا تعارف ہیرولڈ لاسکی نے لکھا تھا۔ یہ مینی فیسٹو کے سو سال پورے ہونے کے موقع پر کیا گیا۔ پیش لفظ میں وضاحت کی گئی تھی:
”کمیونسٹ مینی فیسٹو کی صد سالہ برسی کے موقع پر اسے چھاپ کر، جس کا پروفیسر لاسکی نے قیمتی اور تاریخی تعارف لکھا ہے، لیبر پارٹی مارکس اور اینگلز کی مقروض ہونے کو تسلیم کرتی ہے، وہ دو آدمی جو محنت کش طبقے کی پوری تحریک کی ہمت افزائی کرتے رہے ہیں۔
”برطانوی لیبر پارٹی کی جڑیں برطانیہ کی تاریخ میں پیوست ہیں۔۔۔مگر برطانوی سوشلسٹوں نے یورپی برّ اعظم پر موجود اپنے ساتھیوں سے خود کو کبھی الگ نہیں کیا۔ ہمارے اپنے خیالات مارکس کی جانب سے پیش کیے گئے پورے برّ اعظم کے سوشلزم والے خیال سے مختلف ہیں، مگر ہمیں بھی کئی حوالوں سے یورپی مفکرین اور کارکنان نے متاثر کیا ہے، خاص کر مینی فیسٹو کے مصنفین نے۔
”برطانیہ مارکس اور اینگلز کی زندگی اور جدوجہد کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ مارکس نے اپنی پختہ عمر کا زیادہ تر حصّہ یہاں پر گزارا اور یہیں ہائی گیٹ قبرستان میں دفن ہے۔ اینگلز کی جوانی مانچسٹر شہر میں گزری، جو سرمایہ دارانہ صنعت کاری کا نمونہ تھا۔ جب انہوں نے بورژوا استحصال پر لکھا تو ان کا مشاہدہ زیادہ تر انگلستانی تجربے پر مبنی تھا۔“
ظاہر ہے، مارکس اور اینگلز کے بارے میں چند تعریفی کلمات ادا کرنا ایک چیز تھی، مگر لیبر پارٹی کے اندر مارکس وادیوں کو منظم ہونے کی اجازت دینا کافی مختلف چیز تھی۔ حتیٰ کہ انہوں نے پارٹی کے بائیں بازو کو خطرہ گرداننا شروع کر دیا۔
این ایچ ایس بنانے پر تعریفیں وصول کرنے کے باوجود، دائیں بازو کی قیادت نے ایک دفعہ پھر بیون اور اس کے ’بیوَنائٹ‘ حامیوں کو بے دخل کرنے کا پکا ارادہ کر لیا۔ اگرچہ وہ 1951ء میں بے دخلی سے بال بال بچ گیا، مگر بیونائٹ تنظیم پر پابندی عائد کر دی گئی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر بیون آج سٹارمر کی لیبر پارٹی میں ہوتا تو اسے ضرور بے دخل کر دیا جاتا۔
ٹونی بین
1980ء کی دہائی میں، میلیٹنٹ تنظیم کو ’پارٹی کے اندر پارٹی‘ قرار دے کر اس پر پابندی لگا دی گئی۔ مگر یہ محض کینوک کے تحت بائیں بازو کی عمومی تطہیر اور پارٹی کے دائیں جانب جھکاؤ کی تیاری کا پیش خیمہ تھا، جس کا اظہار بعد میں ٹونی بلیئر اور نیو لیبر کی صورت میں ہوا۔
میلیٹنٹ پر اس لیے حملہ نہیں کیا گیا کیونکہ وہ منظم تنظیم تھی، آخر دایاں بازو بھی تو منظم تھا، بلکہ اس پر حملے کی وجہ اس کی کامیابی تھی۔
انہوں نے ایڈیٹوریل بورڈ کو بے دخل کرنے سے آغاز کیا۔ جس کے بعد مزید 220 بے دخلیاں کی گئیں۔
ٹونی بین، جو اگرچہ مارکس وادی نہیں تھا، پھر بھی میلیٹنٹ کا دفاع کرنے لگا۔ بین کا کہنا تھا، ”میرا ماننا ہے کہ آج سیاسی جمہوریت کا کوئی بھی رجحان خود کو برقرار نہیں رکھ سکتا اگر وہ اپنے آپ کو مارکس اور مارکسزم کے اثر و رسوخ سے بچا کے رکھے۔“
”کمیونسٹ مینی فیسٹو، اور مارکسی فلسفے کی دیگر کئی کتابیں، ہمیشہ سے برطانوی مزدور تحریک اور برطانوی لیبر پارٹی کے اوپر گہرے اثرات مرتب کرتی رہی ہیں، اور ہماری سمجھ بوجھ میں اضافہ کر کے ہماری سوچ کو بہتر کیا ہے۔
”لیبر پارٹی کو مارکس کے بغیر تعمیر کرنا ایسا ہی ہوگا، جیسا کہ یونیورسٹی میں فلکیات، بشریات یا نفسیات کے شعبہ جات کو کوپرنیکس، ڈارون یا فرائڈ کی تعلیمات پڑھنے کی اجازت دیے بغیر قائم کرنا، اور اس کے بعد بھی ان شعبہ جات کا مذاق نہ اڑائے جانے کی توقع کرنا۔“
ٹونی بین نے ٹراٹسکی کی اہم کتاب کا حوالہ بھی دیا:
”ٹراٹسکی کو سوویت یونین کے حزبِ اختلاف کی سب سے اہم شخصیت کے طور پر یاد رکھنے کی ضرورت ہے، جس کا سٹالن پیچھا کرتا رہا اور بعد میں اسے قتل کر دیا۔ سٹالنزم پر اس کی تنقید کا گہرا مطالعہ کرنا چاہئیے، اور اپنی کتاب ’برطانیہ کہاں جا رہا ہے؟‘ میں 1920ء کی دہائی کے بعض لیبر قائدین کے ملاوٹی سوشلزم کے اوپر اس کی بے رحمانہ تنقید ہماری تاریخ میں اسے ایک اعلیٰ مقام عطا کرتی ہے۔“
اس نے بات کو یوں سمیٹا: ”۔۔۔میں لیبر پارٹی سے ٹراٹسکی کے حامیوں کو غیر قانونی قرار دینے، بے دخل کرنے یا نکال دینے کی کسی بھی کوشش کی انتہائی مخالفت کرتا ہوں۔“
مائیکل فوٹ کی سوانح عمری لکھنے والے کینیت مورگن کے مطابق:
”]مائیکل فوٹ اور ٹونی بین[ دونوں مارکس کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں، جس کے برطانوی سوشلسٹ تحریک میں کردار کو سرد جنگ کے سالوں میں تقریباً بھلا دیا گیا۔ اگرچہ ان دونوں میں سے کوئی بھی ایک حقیقی مارکسی سوشلسٹ نہیں تھا، پھر بھی مارکس ان پر کافی عرصے سے اثر انداز ہوتا رہا۔
”دونوں نے طبقے کی تاریخی ضرورت اور اہمیت کے بارے میں مارکس کے نقطہ نظر کو اپنایا۔ فوٹ، جیسا کہ ہم نے دیکھا، جب سوشلسٹ لیگ میں تھا تو مارکسی جدلیات کو پڑھتے ہوئے وقت گزارا کرتا تھا، اور باربرا بیٹس کو بنیادی مارکسی تعلیمات کی روشنی میں ہدایات دیتا۔ بین نے اپنی زندگی میں مارکس کو کافی دیر سے دریافت کیا، اور پہلی دفعہ کمیونسٹ مینی فیسٹو تب پڑھا جب اس کی عمر پچاس سے تجاوز کر چکی تھی۔“ (مورگن، مائیکل فوٹ، صفحات 407-408)
یہ سچ ہے کہ مارکسزم سے متاثر شخصیات کی اکثریت بعد میں مختلف سیاسی سمت کی جانب چل دیے، اور حتیٰ کہ مارکسزم کی مخالفت پر اتر آئے، مگر اس کے باوجود اس تمام تر تاریخ سے مارکسزم کی اہمیت اور برطانوی لیبر پارٹی پر اس کے اثرات کا اظہار ہوتا ہے۔
مارکسزم کی مقبولیت کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ سماج کی طبقاتی فطرت اور 1930ء کی دہائی کے معاشی بحران کی وضاحت کرتا تھا، اور حالات و واقعات کا معقول تجزیہ پیش کرتا تھا۔
برطانوی مزدور تحریک میں عموماً نظریے کو حقارت سے دیکھا جاتا رہا ہے، جس کا انحصار زیادہ تر عملیت پسندی کے اوپر رہا ہے۔ یہ اس کی بنیادی کمزوری تھی، جس کے باعث اصلاح پسند خیالات اور طبقاتی مفاہمت کو ابھرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔
طاقتور ہوتی قوت
سر کیئر سٹارمر نے حکمران طبقے کے کارندے کے طور پر اب اُسی طرز پر تطہیری روایت کے راستے پر چلنے کا پختہ ارادہ کر لیا ہے جیسا کہ جارج آرویل کے ناول ’1984ء‘ کی پولیس لوگوں کو ان کے خیالات پر سزا دیتے ہیں۔ وہ تطہیری عمل کا نیا جنرل بن چکا ہے، جس نے پارٹی کو ’زہریلے‘ انقلابیوں سے صاف کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔
اسے بائیں بازو کا خاتمہ کرنے کے احکامات ملے ہیں۔ کاربن کی جیت سے حکمران طبقہ خوفزدہ ہو گیا تھا۔ ایسا پہلی دفعہ ہوا تھا کہ لیبر پارٹی ان کے قابو سے باہر ہو گئی۔ ان کی حمایت کی بنیادیں محض پی ایل پی (لیبر پارٹی کے منتخب شدہ اراکینِ پارلیمنٹ)، پارٹی کی افسر شاہی، اور بعض مقامی کونسلرز میں ہی حاصل تھیں۔
غلیظ طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے وہ دائیں بازو کی تخریب کاری کے ذریعے لڑتے رہے، تاکہ پارٹی کو واپس اپنے قابو میں کر لیں۔ سٹارمر کے تحت اختیارات واپس لینے کے بعد، وہ کسی بھی صورت ماضی کے تجربے کو نہیں دہرانا چاہتے۔ موجودہ تطہیر کی یہی وجہ ہے، جو ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔
دایاں بازو سوشلسٹ اپیل پر ’میلیٹنٹ کا تسلسل‘ ہونے کا الزام لگاتا ہے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے حامیوں میں سے وہ افراد بھی شامل ہیں جو 30 سال قبل میلیٹنٹ کے فخریہ حامی تھے۔ ہم نے مارکسزم کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم لیبر پارٹی کے اندر بالخصوص اور مزدور تحریک میں بالعموم مارکسی رجحان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
سازشیں کرنے والے ہم نہیں بلکہ دائیں بازو کے کیریئر اسٹ اور تخریب کار ہیں جو پی ایل پی میں گھس کر ریاستی مشینری کی کٹھ پُتلی کا کردار ادا کرتے ہیں۔
سوشلسٹ اپیل نے اپنی جدوجہد 1992ء سے جاری رکھی ہوئی ہے، تقریباً اس 30 سالہ عرصے میں اس کے اوپر کبھی پابندی نہیں لگی۔ ابھی ان حملوں کی وجہ حالیہ عرصے میں سوشلسٹ اپیل کی کامیابیاں ہیں۔ ہماری قوت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
یہ نمایاں بڑھوتری لیبر کے بائیں بازو پر بھی اثر انداز ہوتی رہی ہے۔ نتیجتاً، ہم دائیں بازو کے حلق کا کانٹا بن چکے ہیں۔
ہم اپنی جدوجہد کبھی نہیں روکیں گے۔ سب سے بڑھ کر، ہم ایک بیباک سوشلسٹ پروگرام کے حق میں بولنا جاری رکھیں گے جس کا مقصد سرمایہ داری کا خاتمہ کرنا ہو۔ محنت کش طبقے کو درپیش مسائل کا یہی واحد حل ہے۔
اس قسم کے خیالات کو کافی حمایت حاصل ہو رہی ہے، نہ صرف لیبر پارٹی کی صفوں کے اندر، جس کا اندازہ شق چہارم کو دوبارہ متعارف کروانے کی حمایت سے ہوتا ہے، بلکہ بالعموم محنت کشوں اور نوجوانوں کے اندر بھی۔
🚩 MODEL MOTION: Say no to proscriptions! #FightThePurge! 🚩
— Revolutionary Communist Party (@revcommunists) July 20, 2021
Today, the #Labour NEC decided to proscribe Socialist Appeal & 3 other left-wing groups.
We call on activists to pass this motion in your CLP, and as a motion for conference.
Motion text: https://t.co/Z5giX8MSxg pic.twitter.com/B8xdXYPszZ
تاریخ کی دھارا
تطہیر کرنے والے دائیں بازو کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ اس نظریے کو روکا نہیں جا سکتا جس کا وقت آ چکا ہو۔ سرمایہ داری اپنی 300 سالہ تاریخ کے بد ترین بحران کا شکار ہے۔ اور مارکسزم پہلے کبھی اتنا زیادہ موزوں نہیں رہا جتنا آج ہے۔
سوشلسٹ اپیل پر پابندی پیچھے کی جانب قدم ہوگا۔ مگر ہمارا جذبہ اس سے ہر گز ماند نہیں پڑنے والا۔ اور یقیناً یہ ہماری موت کا پیغام تو بالکل بھی نہیں۔ در حقیقت، اس صورتحال میں ہم اپنی کوششیں دُگنی کرنے کی طرف جائیں گے!
سرمایہ داری کا گہرا بحران شعور کے اوپر انقلابی اثرات مرتب کرے گا اور پوری صورتحال کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گا، یہ عمل بارہا ہوتا ہوا نظر آئے گا۔ ہم گہرے اور اچانک تبدیلیوں کے عہد میں جی رہے ہیں۔
اس عمل میں، آنے والے سالوں کے دوران سطح کے اوپر نئی عوامی تنظیموں کا ابھار دیکھنے کو ملے گا۔ کاربن کی مقبولیت کے سالوں میں جو کچھ ہم نے دیکھا، وہ آنے والے واقعات کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ بایاں بازو پھر ابھرے گا، جو تجدید شدہ اور فولاد کی مانند سخت گیر ہوگا؛ اور جس کی حمایت ماضی کی نسبت کہیں زیادہ ہوگی۔
مارکسزم برطانوی مزدور تحریک اور نوجوانوں کے بیچ ایک طاقتور رجحان کے طور پر ابھرے گا۔
اصلاح پسندوں کے برعکس، مارکسزم تاریخ کے اوپر بڑی گہری نظر رکھتا ہے۔ ہم ہر چھوٹی بڑی مشکل سے اپنے ہوش و حواس نہیں کھو دیتے، بلکہ سطح کے نیچے پڑے ان تضادات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں جو جلد یا بدیر سطح کے اوپر اپنا اظہار کریں گے۔
ساری جدلیات کا یہی ماخذ ہے، جو چیزوں کو ایک جامد شے کے طور پر نہیں، بلکہ تضادات سے بھرپور عمل کے طور پر دیکھتا ہے۔
مزدور تحریک کی پوری تاریخ میں طبقاتی جدوجہد کبھی رواں دواں ہوتی ہے تو کبھی رکاوٹوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ کاربن ازم کی شکست کے بعد سے، بایاں بازو پیچھے کی جانب جا رہا ہے۔ اس میں زیادہ تر خود ان کا قصور ہے۔
دائیں بازو کی خوشامد کرنے کی بجائے، جو وہ مسلسل کرتے رہے، بائیں بازو کو جارحانہ اقدامات لینے چاہئیے تھے۔ ان کی کمزوری دیکھ کر دائیں بازو کی ہمت بندھ گئی۔ کیونکہ کمزوری پر جارحیت کا غلبہ پانا ناگزیر ہے۔ اور دفاع کرنے کا بہترین طریقہ دھاوا بولنا ہے۔
بہرحال، سرمایہ دارانہ بحران کی مزید گہرائی ایک نئے عہد کے لیے راہ ہموار کرے گی، جو صورتحال اور بائیں بازو کی تبدیلی کا باعث بنے گا۔ ان حالات کے پیشِ نظر مارکسزم اپنی حیثیت کو مضبوط کر سکتا ہے۔ ان واقعات کی بنیاد پر، دائیں بازو کی بالا دستی ریزہ ریزہ ہو جائے گی۔ وہ تاریخ کی مخالف سمت میں چل رہے ہیں۔
مارکسزم کی قوتیں
ہم عوامی تنظیموں، لیبر پارٹی، یا ٹریڈ یونینز کی جانب اپنا رویہ تبدیل نہیں کریں گے، جن کے اندر جلد یا بدیر طبقاتی جدوجہد اپنا اظہار کرے گی۔
دایاں بازو چاہے جو بھی کرے، مزدور تحریک سے مارکسزم کو الگ کرنا کسی بھی صورت ممکن نہیں۔
بلاشبہ، ہم فرقہ پرور رویہ نہیں اپنائیں گے۔ تاریخ چھوٹے چھوٹے فرقہ پرور گروہوں کے ملبے سے بھری پڑی ہے، جنہوں نے مزدور تحریک کو پہلے سے بنائے گئے اپنے منصوبوں کے تحت چلانے کی کوشش کی اور ناکام ہوئے۔
ہمارا فوری فریضہ، جو سب سے اہمیت کا حامل ہے، اس تطہیر کے خلاف لڑنا ہے۔ البتہ، اس فریضے کو لازمی طور پر مارکسزم کی قوتیں تعمیر کرنے کی جدوجہد کے ساتھ جوڑنا ہوگا، تاکہ ہم آنے والے ہنگامہ خیز واقعات میں فیصلہ کن مداخلت کرنے کے اہل ہوں، اور مستقبل کی تیاری کر سکیں۔
مختلف اراکینِ پارلیمنٹ، یونینز، پارٹی قائدین یا افسر شاہی کی ذاتی خواہشات چاہے جو بھی ہوں، کرہ ارض پر ایسی کوئی قوت موجود نہیں جو مارکسی خیالات کی بڑھوتری کو روک پائے۔
ہم سرمایہ داری کو جڑ سے اکھاڑنے اور استحصال، ہوس اور جنگوں سے آزاد ایک بہتر زندگی تعمیر کرنے کی خاطر محنت کش طبقے کی جدوجہد میں فیصلہ کن شرکت جاری رکھیں گے۔
چنانچہ ہم ان تمام افراد سے اپیل کرتے ہیں جو اس لڑائی کو جاری رکھنا چاہتے ہیں؛ لیبر پارٹی کے اندر جو بھی ہو، ہمارا حصّہ بنیں اور مارکسزم کی قوتیں تعمیر کریں۔ اس تطہیر کا مقابلہ اسی صورت ممکن ہے۔