|تحریر: راب سیول؛ ترجمہ: ولید خان|
حال ہی میں انتخابی مہم کے دوران بورس جانسن، جیرمی کوربن اور جو سوینسن نے لندن میں برطانیہ کی کنفیڈریشن آف انڈسٹری کی ایک کانفرنس میں چوٹی کے صنعت کاروں سے خطاب کیا۔ سوینسن نے اس بات پر زور دیا کہ لبرل ڈیموکریٹس ”کاروبار کی فطری پارٹی“ ہیں کیونکہ وہ بریگزٹ کو روکنا چاہتے ہیں۔ جانسن نے وعدہ کیا کہ کاروبار پر عائد ٹیکسوں میں کمی کے ساتھ ”استحکام“ یقینی بنایا جائے گا۔
جانسن کا کہنا تھا کہ ”ادھر ادھر کی ہانکنے کی بجائے سیدھی بات یہ ہے کہ بڑے کاروبار کبھی بھی بریگزٹ کے حق میں نہیں تھے۔ آپ نے 2016ء میں یہ واضح کر دیا تھا اور اس ادارے نے سب سے زیادہ شور مچایا۔۔لیکن یہ بھی واضح ہے کہ اب آپ کو کیا چاہیے۔۔اور یہ پچھلے کچھ عرصے سے ایسا ہی ہے۔۔استحکام“۔
بڑے کاروباروں کا خوف
واقعی بڑے کاروبار بریگزٹ سے خوفزدہ ہیں۔ برطانیہ یورپی یونین کو 50 فیصد برآمدات کرتا ہے۔ قومی معاشی اور سماجی ریسرچ ادارے کے مطابق جانسن کے معاہدے کے بعد معیشت کو 70 ارب ڈالر کا دھچکا لگ سکتا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ دس سالوں میں جی ڈی پی 3.5 فیصد تک سکڑ جائے گا۔ اس وقت اندازوں کے مطابق بریگزٹ ووٹ کے بعد معیشت 2.5 فیصد سکڑ چکی ہے۔
جیرمی کوربن نے اپنی تقریر میں ماحول دوست صنعتوں میں اپرینٹس شپ اصلاحات کا اعلان کیا۔ اس نے مزید کہا کہ کاروبار لیبر کی فتح کے بعد ”بہت کچھ حاصل“ کر سکتے ہیں۔ اگرچہ امیر ترین افراد کو زیادہ ٹیکس دینا پڑے گا لیکن ”آپ کے خوابوں سے زیادہ سرمایہ کاری ہو گی“۔
لیبر قائد کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ اسے اندازہ ہے کہ کاروبار لیبر کے نیشنلائزیشن پروگرام کے حوالے سے محتاط ہیں لیکن یہ آزاد منڈی پر ”کوئی حملہ“ نہیں۔ اس کے برعکس نیشنلائزیشن کے یہ منصوبے برطانیہ کو یورپی ہمسایوں کے مساوی لا کھڑا کریں گے جہاں کلیدی سماجی سہولیات اور ٹرانسپورٹ پبلک کنٹرول میں ہیں۔
یہ الفاظ بڑے کاروباروں کو مطمئن کرنے کی ایک کوشش تھی۔ لیکن بڑے کاروبار بیوقوف نہیں ہیں۔ انہیں صرف ایک چیز سے غرض ہے۔۔منافع۔
سرمایہ دار اس لئے کوربن پر اعتماد نہیں کرتے کیونکہ وہ کوربن کے پیچھے موجود دحقیقی دباؤ سے خوفزدہ ہیں یعنی ریڈیکل مزدور اور نوجوان۔ اگرچہ بڑے کاروبار آزاد منش بورس جانسن سے کچھ زیادہ خوش نہیں ہیں لیکن انہیں بائیں بازو کی لیبر حکومت سے زیادہ خوف لاحق ہے جس پر محنت کش طبقے کا بے پناہ اثرورسوخ اور دباؤ ہو گا۔
برطانوی سرمایہ داری کا بحران
سرمایہ دار طبقے کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک مضبوط حکومت چاہیے۔ کیونکہ برطانوی سرمایہ داری کا مستقبل انتہائی تاریک دکھائی دے رہا ہے۔ اس سال کی دوسری سہ ماہی میں برطانوی صنعتی پیداوار پچھلے پانچ سالوں میں سب سے زیادہ تیزی سے گری ہے۔ اور یہ 2008ء کے معاشی بحران کے بعد ایک دہائی کے معاشی جمود کے بعد ہوا ہے۔ 2016ء کے وسط سے انتہائی نحیف سرمایہ کاری ہو رہی ہے اور اس سال جون تک کے تین مہینوں میں 0.4 فیصد مزید گر چکی ہے۔
برطانیہ اپنے مدِ مقابل تمام معیشتوں میں سب سے پیچھے ہے۔ برطانوی پیداواریت میں کمی OECD کے 36 ممالک کی 9 فیصد مجموعی اوسط شرحِ نمو سے بہت کم ہے۔ 2016ء میں برطانیہ میں سرمایہ کاری مضحکہ خیز حد تک کم تھی۔۔اگر GDP کے تناسب سے بات کی جائے تو برطانیہ کا 141 ممالک میں 116واں نمبر تھا۔
فنانشل سٹڈیز ادارے کے ڈائریکٹر پال جانسن کا کہنا ہے کہ ”کاروباری سرمایہ کاری ریفرنڈم کے بعد منہدم ہو چکی ہے اور مستقبلِ بعید تک اس کے پیداوار اور اجرتوں پر منفی اثرات پڑتے رہیں گے“۔
یعنی برطانوی سرمایہ داری اس وقت سست رو عالمی معاشی نمو کی موجودگی میں شدید بحران کا شکار ہے۔ آخری معاشی بحران کے دس سال بعد سابق بینک آف انگلینڈ گورنر میروین کنگ نے خبردار کیا ہے کہ پوری دنیا ایک مرتبہ پھر ”معاشی قیامت“ کے دہانے پر کھڑی ہے۔
امراء اور عوام
اس مایوس کن صورتحال میں امراء انسانی تاریخ کی بلند ترین شرحِ منافع اور دیو ہیکل دولت میں مزے لوٹ رہے ہیں۔ سنڈے ٹائمز کی شائع کردہ امیر ترین افراد کی فہرست کے مطابق برطانیہ کے 1 ہزار امیر ترین افراد اور خاندان اس وقت 771.3 ارب پونڈ پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں جس میں پچھلے سال کے مقابلے میں 47.8 ارب اضافہ ہوا ہے۔
دوسری طرف جوزف رونٹری فاؤنڈیشن (ایک تھنک ٹینک) کے مطابق برطانیہ میں 1.4 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے رہنے پر مجبور ہیں جن میں سے 80 لاکھ کا تعلق ایسے خاندان سے ہے جن میں سے کم از کم ایک فرد برسرِ روزگار ہے۔
نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے سیاسیات پروفیسر اور کتاب Oligarchy کے مصنف جیفری ونٹرز کا کہنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھا کرنے کی ہوس ناقابلِ تسکین ہے۔ ایک طرف عام عوام دو وقت کی روٹی بمشکل پوری کر رہی ہے اور دن رات اعصاب شکن کام کر کے کم تر اجرتیں اکٹھی کرنے پر مجبور ہے جبکہ دوسری طرف امیر ترین افراد ”اپنے پیسوں سے پیسہ بنا رہے ہیں“۔
دولت اور سرمایے کا ارتکاز برائے ارتکاز، یہ سرمایہ داری کا قانون ہے۔ اس کا نتیجہ ایک سرے پر بے پناہ دولت کا ارتکاز اور دوسرے سرے پر خوفناک غربت اور بدحالی ہے۔ اکیسویں صدی کی سرمایہ داری مبارک ہو۔
مینی فیسٹو
لیبر پارٹی کو اس سوال کا سامنا ہے کہ عوام کو درپیش مصیبتوں کو ختم کرتے ہوئے ایک اچھا معیارِ زندگی کیسے فراہم کیا جائے۔ کیا سرمایہ دارانہ نظام میں اصلاح کی جا سکتی ہے یا پھراس کو اکھاڑ پھینکنا ناگزیر ہے؟
یہ واضح ہے کہ کوربن کو اس مسئلے کا ادراک ہے۔ اس نے انتخابی مہم کے آغاز پر لیبر حامیوں کو کہا کہ ”ہم سب کو پتہ ہے کہ برطانیہ کو 1 فیصدی افراد کے ذاتی مفادات کے لئے چلایا جا رہا ہے۔ ہماری حکومت صرف امیر ترین افراد کے لئے کام کرتی ہے، ہمارا میڈیا ان کی جیب میں ہے اور ہمارا نظام دھاندلی زدہ ہے تاکہ ان کی زندگیاں پرسکون اور ہماری اجیرن بنائی جائیں“۔
بلیئر قیادت کے سالوں کے برعکس کوربن کی قیادت میں لیبر پارٹی بہت زیادہ بائیں طرف جھکی ہے۔ کوربن نے نام لے کر سپورٹس ڈائریکٹ کے ٹائکون مائک ایشلے، بڑے جاگیردار ڈیوک آف ویسٹ منسٹر، مالیاتی ادارے کے مالک کرسپن اوڈے اور میڈیا گاڈ فادر روپرٹ مرڈوک کو“ایک کرپٹ نظام“ کا نمائندہ قرار دیا۔
2017ء کا پارٹی مینی فیسٹو کئی دہائیوں میں سب سے زیادہ ریڈیکل تھا۔ آج برمنگھم میں ”حقیقی تبدیلی کا وقت آ پہنچا ہے“ کے عنوان سے لانچ ہونے والا مینی فیسٹو اس سے بھی زیادہ ریڈیکل ہے۔
How did I do?#RealChange #LabourManifesto pic.twitter.com/a1ryOvHvx4
— Jeremy Corbyn (@jeremycorbyn) November 21, 2019
اس میں وعدہ کیا گیا ہے کہ دولت اور طاقت رخ عوام کی جانب موڑا جائے گا۔ تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے جیرمی کوربن نے کہا کہ ”یہ مینی فیسٹو ان عوامی پالیسیوں سے بھرا ہوا ہے جن کو سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے ایک نسل سے روکا ہوا ہے“۔
اس مینی فیسٹو میں ٹیوشن فیس کا خاتمہ، 1 لاکھ 50 ہزار کونسل اور سماجی گھروں کی تعمیر، پٹرولیم انڈسٹری کے دیو ہیکل منافعوں پر ٹیکس، عوام کے لیے مفت فائبر آپٹک انٹرنیٹ، 10 پونڈ فی گھنٹہ کم از کم اجرت، زیرو آور کنٹریکٹ کا خاتمہ، عوامی بس سروس، کم قیمت عام ادویات کی فراہمی، 2030ء تک 30 گھنٹہ ہفتہ وار کام، شعبہ جاتی اجتماعی سودے بازی کا اجراء، NHS کے ذریعے عوام کو مفت ڈینٹل چیک اپ اور دیگر بے شمار اصلاحات شامل ہیں۔
اس کے علاوہ لیبر کلیدی صنعتوں کو قومیائے گی جن میں پانی، ریلوے، شاہی ڈاک، نیشنل گرڈ اور برٹش ٹیلی کام کا انٹرنیٹ حصہ اوپن ریچ شامل ہیں۔ ساتھ ہی آؤٹ سورسنگ اور نجی فنانس سکیموں کا بھی خاتمہ کیا جائے گا۔
لیبر کا ایک وعدہ ”ملکیتی فنڈ“ کا اجراء بھی ہے جس کے مطابق ہر کمپنی کے 10 فیصد شیئر نجی شیئر مالکان سے مزدوروں کو ٹرانسفر کئے جائیں گے۔ اس پالیسی کا اطلاق برطانیہ کی ہر اس کمپنی پر ہو گا جس میں مزدوروں کی تعداد 250 سے زیادہ ہے۔
اس کے علاوہ لیبر حکومت 400 ارب پونڈ کے نئے قرضے لے کر عوامی اخراجات، انفرسٹرکچر اور 10 لاکھ ماحول دوست نوکریوں میں سرمایہ کاری اور اضافہ کرے گی۔ یہ ایک سبز صنعتی انقلاب کا حصہ ہو گا تاکہ ماحولیاتی تباہ کاری کو روکا جا سکے اور ”رہائشی انقلاب“ کے ساتھ برطانوی رہائشی بحران کا خاتمہ کیا جائے گا۔
سوشلسٹ اپیل ہر اس قدم اور اصلاح کا خیر مقدم کرتا ہے جس کا مقصد محنت کش طبقے کی فلاح و بہبود ہو۔
فتح یاب ہونے کے لئے لیبر کو سختی کے ساتھ سرمایہ دارانہ میڈیا کے جھوٹ اور الزام تراشیوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ پارٹی کو سابق لیبر حکومتوں کے حوالے سے موجود خدشات ختم کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے عوام کو دھوکہ دیا اور ٹوری پارٹی کی اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار کی۔ پارٹی کو لیبر کونسلوں کے حوالے سے خدشات ختم کرنے کی ضرورت ہے جو شدید کٹوتیوں کی پالیسی پر عملدرآمد رہی ہیں۔ سب سے بڑھ کر لیبر پارٹی کو لاکھوں کروڑوں افراد کو ایک سوشلسٹ مستقبل میں یقین دلانے کی ضرورت ہے۔
معاشی بلیک میلنگ
کوربن کی قیادت میں لیبر حکومت برطانوی تاریخ کی سب سے زیادہ لیفٹ ونگ حکومت ہو گی۔ لیکن ایک لیفٹ ونگ ریڈیکل لیبر حکومت کے خطرے کو بڑے کاروباری اور لندن سٹی اتنے آسانی سے ہضم نہیں کریں گے۔ وہ کوربن کو اپنی طاقت اور نظام کے لئے مہلک سمجھتے ہیں۔ اگرچہ وہ زیادہ قرضوں کے حصول کو برداشت کر سکتے تھے (خاص طور پر انفرسٹرکچر کے لئے) لیکن انہیں ڈر لگتا ہے کہ کھانے سے بھوک کی اشتہا اور بڑھتی ہے۔ لیبر حکومت اور زیادہ شدید ریڈیکل ہو کر بہت زیادہ آگے بڑھ سکتی ہے۔
مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن EFF کے سابق چیف ٹیری سکولر کے مطابق ”دوبارہ قومیانے کا ایک نسبتاً معتدل پروگرام وسیع پیمانے پر قومیانے کے آغاز اور لبرل سرمایہ دارانہ ریگولیشن کو کمزور کرنے کا باعث بن سکتا ہے جس کی وجہ سے ملک میں اس قدر خوشحالی آئی ہے“۔
CBI کی ڈائریکٹر جنرل کیرولین فیئربین نے ایک لیبر حکومت کے نتائج سے خبردار کیا ہے۔ اس کے مطابق ”ہم تجویز کردہ پالیسیوں کو دیکھتے ہیں اور ہمیں خوف ہوتا ہے کہ یہ ہماری معیشت کی بنیادیں ہلا دیں گی“۔
ٹوری چانسلر ساجد جاویدکے مطابق ”چند ہی مہینوں میں معاشی بحران شروع ہو جائے گا“۔ یہ سرمایہ داروں اور بانڈ منڈی پر منحصر ہے جو وقت آنے پر ہڑتال کر دیں گے۔ وہ سب سے پہلے تو ماضی کی طرح لیبر حکومت کو بلیک میل کریں گے تاکہ ”کاروبار دوست“ پالیسیاں لاگو کی جائیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر وہ کوربن حکومت کو کمزور کرنے کے لئے ملک سے سرمائے کے اخراج اور شرح سود کو زبردستی بڑھانے کا سہارا لیں گے۔
بینک اور کارپوریشنوں کے پاس زیادہ تر حکومتی قرضہ (بانڈ)موجود ہے۔ اسے حکومتوں کو بلیک میل کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
تاریخ کے اسباق
جان میکڈونل کی معاشی مشیر این پیٹی فور کے مطابق بڑے کاروباروں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ حتمی تجزیے میں لیبر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرے گی۔ اس کا کہنا ہے کہ ”آپ صرف سابق لیبر حکومتوں کو ہی دیکھ لیں۔ پارٹی کاروباروں اور لندن سٹی کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہے“۔
لیکن یہی تو اصل مسئلہ ہے! اگر لیبر پارٹی سابق لیبر حکومتوں کا راستہ اپنائے گی اور سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنے کی کوشش کرے گی تو پھر بربادی ناگزیر ہے۔ ہمیں سابق لیبر حکومتوں کے تجربوں سے سیکھنا چاہیے تاکہ ہم مستقبل کی راہیں ہموار کر سکیں۔ جو تاریخ سے نہیں سیکھے گا، وہ اسے دہرانے پر مجبور رہے گا۔
جب ایک سابق لیبر وزیرِ اعظم ہیرلڈ ولسن نے معمولی اصلاحات کرنے کی کوشش کی تھی تو حکمران طبقے نے اس کی خوفناک مخالفت کی تھی۔ بعد میں ولسن نے حکومت کو ناکام بنانے کے لئے سرمائے کی ہڑتال کی خوفناک سازش کا پردہ فاش کیا تھا۔”مجھے یاد نہیں پڑتا کہ اس (ٹوری پارٹی قائد ایڈورڈ ہیتھ) نے کبھی سٹی میں اپنے دوستوں کی سرمایے کی ہڑتال کی سرزنش کی ہو، جس کا مقصد ایک لیبر حکومت کو مفلوج کرنا تھا تاکہ ہم ٹوری پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے پر مجبور ہو جائیں، تاکہ ہم (ہماری حکومت) ختم ہو جائیں“۔
بدقسمتی سے عوام کے سامنے اس سازش کو بے نقاب کرنے اور محنت کش طبقے کو متحرک کرنے کے بجائے ولسن نے اس بلیک میل کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ دیگر لیبر حکومتوں نے یہی راستہ اپنایا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنے کا حتمی نتیجہ یہی ہے۔ یہ ذاتیات یا ارادوں کا سوال نہیں۔ جہاں معیشت نجی ملکیت میں ہے وہاں حکومت منڈی کو نہیں چلاتی بلکہ یہ منڈی ہے جو حکومت کو چلاتی ہے۔
اگر لیبر کو وہ تمام اصلاحات کرنی ہیں جن کا پارٹی نے وعدہ کیا ہے تو پھر اسے سرمایہ داری سے اپنا ناطہ توڑنا پڑے گا۔ یہی 1918ء کی شق نمبر 4 کا اولین مقصد ہے جس میں ذرائع پیداوار کی اجتماعی ملکیت، تقسیم اور تبادلے کا ذکر ہے۔
صنعتی انحطاط
برطانیہ میں اور عالمی طور پر سرمایہ داری خوفناک بحران کا شکار ہے۔ بریگزٹ سے بہت پہلے برطانوی معیشت شدید انحطاط کا شکار ہے۔ ایک طویل عرصے پر محیط یہ انحطاط حکمران طبقے کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جنہوں نے عرصہ دراز سے برطانوی صنعت میں سرمایہ کاری کر کے اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
مینوفیکچرنگ برباد ہو چکی ہے اور یکے بعد دیگرے ہر سیکٹر کو بیرونی سرمایہ کارہڑپ کر گئے ہیں جو پہلے ہی برطانوی صنعت کو نوچنے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ ہندوستانی سرمایہ دار کی ملکیت ٹاٹا سٹیل نے اعلان کیا کہ وہ برطانیہ میں نوکریاں ختم کر رہے ہیں تاکہ ”اخراجات میں کمی“ کی جا سکے۔
برطانوی کاروباریوں نے اپنا پیسے سے بیرونِ ملک سرمایہ کاری کر رکھی ہے یا پھر پراپرٹی سٹہ بازی اور فنانشل ہیرا پھیری کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ ان کو طویل معیاد سرمایہ کاری کے بجائے فوری منافع میں دلچسپی ہے۔ سرمایہ کاری کرنے کے بجائے برطانیہ کے سرمایہ دار 700 ارب پونڈ دولت پر براجمان ہیں۔ صنعتیں یا تو بند کر دی گئی ہیں یا بیچی جا چکی ہیں۔ 2008-9ء کے معاشی بحران میں برطانیہ کے بڑے کاروباروں اور بینکوں کو 1 ہزار ارب پونڈ دے کر بچایا گیا تھا۔ پھر یہ سارا بوجھ ٹیکس کی مد میں عوام پر ڈال دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں جبری کٹوتیوں کی خوفناک پالیسی اپنائی گئی جو آج تک جاری ہے۔
صنعتوں میں زائد پیداوار کا شدید بحران ہے جو ابھی تک معاشی بحران کے اثرات سے سنبھل نہیں پایا ہے۔ اجرتیں دس سال بعد آج بھی 2008ء کے مقابلے میں کم ہیں۔
کینیشیئن ازم
یہ خیال کہ کینیشیئن ازم۔۔Deficit Financing۔۔سرمایہ داری کا بحران حل کر دے گی، ایک خام خیالی ہے۔ ہم اس بحران میں سے پیسہ خرچ کر کے باہر نہیں نکل سکتے۔ برطانیہ اور پوری دنیا کا قرضہ اس وقت تاریخی کی بلند ترین سطح پر ہے۔ گھریلو قرضہ ہوشربا سطح تک پہنچ چکا ہے۔ کئی سالوں کی جبری کٹوتیوں اور اجرتوں میں جمود نے لاکھوں خاندانوں کو غربت میں دھکیل دیا ہے۔
یہ سچ ہے کہ سرمایہ داری کو اس وقت مسلسل مانگ میں کمی کا مرض لاحق ہے۔ لیکن یہ محض نظام کی تاریخی متروکیت کا اظہار ہے۔ یہ سوال محض ”مانگ“ کا ہی نہیں بلکہ منافع بخش منڈیوں کا ہے جو اب شاذونادر ہی رہ گئی ہیں۔
پوری دنیا میں سرمایہ داری زائد پیداوار کے بحران کا شکار ہے۔ ایک محدود منڈی کے لیے بے پناہ سٹیل، گاڑیاں اور فیکٹریاں پیداوار میں مصروف ہیں۔ سرمایہ داری اپنی آخری حدود تک پہنچ چکی ہے اور ہر جگہ سست روی کا شکار ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ زائد پیداوار، سماجی ضروریات کے نکتہ نظر کے مطابق نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ منڈی کے منافعوں کے حوالے سے ہے۔ اگر مزدور پر ٹیکس لگایا جائے گا تو کھپت کم ہو جائے گی۔ اگر بڑے کاروبار پر ٹیکس لگایا جائے گا تو سرمایہ کاری مزید کم ہو جائے گی۔ یعنی راستہ کوئی بھی اپنایا جائے، مانگ میں کمی واقع ہو گی۔ اگر حکومت قرضہ لیتی بھی ہے تو پھر اس کو واپس بھی تو کرنا ہے۔۔سود سمیت۔ مفت کی روٹی نام کی کوئی چیز نہیں۔
سرمایہ داری کا بھیانک خواب
حتمی تجزیے میں معیشت بڑے کاروباروں کے ہاتھ میں ہے۔ اسے سرمایہ دارانہ بنیادوں پر چلایا جاتا ہے جس کا مقصد ہی زیادہ سے زیادہ شرحِ منافع کا حصول ہے۔ یہی ان کا واحد پیمانہ ہے۔ اگر وہ منافع نہیں بنا سکتے تو پھر وہ پیداوار نہیں کریں گے۔ یہ ایک سادہ سی حقیقت ہے۔
لیکن جیسا کہ مارکس نے تفصیلی بیان کیا تھا کہ منافع درحقیقت محنت کش طبقے کی غیر ادا شدہ اجرت ہے۔ پچھلے 30-40 سالوں میں سرمایہ داروں کی شرحِ منافع زیادہ سے زیادہ کرنے کی مسلسل کوششوں سے محنت کش طبقے کا استحصال شدید سے شدید تر ہوتا گیا ہے۔
ہر جگہ شدید دباؤ اور اعصاب شکن محنت ہے۔ اس سارے عمل میں محنت کش طبقہ برق رفتاری سے غربت اور افلاس کی اتھا گہرائیوں میں جا گر ا ہے جس کے نتائج آج ہم ہر طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہم صرف کام کرنے کے لئے زندہ ہیں تاکہ امیر، امیر تر ہوتا چلا جائے۔ یہ سرمایہ داری کا مکروہ نہیں بلکہ حقیقی چہرہ ہے۔
لیبر حکومت کے پاس اس بھیانک خواب کو ختم کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ جرات مند سوشلسٹ اقدامات کرتے ہوئے معیشت کو اپنے ہاتھوں میں لے۔ اس کا مطلب بینکاری، فنانس اداروں، زمین اور دیو ہیکل کمپنیوں کی نیشنلائزیشن ہے جو ہماری معیشت پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں۔
اس کام کو کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ فوری ایمرجنسی قانون سازی کی جائے۔ مال و دولت سے لدے ہوئے سرمایہ داروں کو بدلے میں ایک روپیہ دینے کی ضرورت نہیں۔ پوری صنعت کو مزدوروں کے جمہوری اور اجتماعی کنٹرول میں پلان کرنا چاہیے۔ اس طرح ہم معیشت کو منافع کے بجائے ضرورت کے تحت چلا سکتے ہیں۔
کام کا ہفتہ
اس بنیاد پر ہم سرمایہ داری کے پیدا کردہ ضیاع کو ختم کر سکتے ہیں۔ پھر ہی ہمیں وہ ذرائع میسر ہو سکتے ہیں جن کے ذریعے ہم ماحولیاتی آلودگی پر قابو پا سکتے ہیں اور سب کے لئے روزگار یقینی بنا سکتے ہیں۔
ہم بغیر کسی اجرتی کٹوتی کے فوری طور پر ہفتہ وار اور روزانہ کے کام میں کمی کر سکتے ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی، روبوٹیکس اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے اعصاب شکن کام کو ختم کیا جا سکتا ہے، اس کا بوجھ ہلکا کیا جا سکتا۔۔سرمایہ داری کی طرح نہیں کہ جس میں نئی ٹیکنالوجی متعارف ہونے کے بعد محض بیروزگاری ہی برھتی ہے۔
1930ء میں برطانوی معیشت دان جان مینارڈ کینزنے کہا تھا کہ ٹیکنالوجی میں ترقی اور پیداواری قوتوں میں اضافے کے نتیجے میں ایک وقت میں کام کا ہفتہ محض 15 گھنٹہ کا رہ جائے گا۔ لیکن آج زیادہ تر افراد 40 گھنٹہ یا اس سے زیادہ ہفتہ وار کام کرنے پر مجبور ہیں۔ آج ہمارے پاس وہ سائنسی اور پیداواری تکنیک اور ذرائع موجود ہیں کہ 15 گھنٹہ کام کا ہفتہ فوری متعارف کرا یا جائے۔ لیکن سرمایہ دارانہ بنیادوں پر یہ ناممکن ہے کیونکہ اس میں مقصد ہی زیادہ سے زیاد ہ منافع کا حصول ہے۔
صرف سرمایہ دارانہ پیداوار کے قونین کو ختم کر کے اور ایک جمہوری پلان کے تحت معیشت کو منظم کر کے ہی ہم ہفتہ وار کام کو کم کرتے ہوئے معیارِ زندگی بلند کر سکتے ہیں۔ 1-2 فیصد شرحِ نمو کے بجائے شرح نمو کو10، 20 اور یہاں تک کہ 30 فیصد سالانہ تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس کے ذریعے ہم نہ صرف لیبر پارٹی کی اعلان کردہ اصلاحات کو لاگو کر سکتے ہیں لیکن اس سے بھی آگے بڑھ کر حیران کن اور بے نظیر اصلاحات کر سکتے ہیں۔
پیسہ کہاں ہے؟
لیبر پارٹی کے ناقد ہمیشہ سوال پوچھتے ہیں کہ ان تمام اصلاحات کے لئے پیسہ کہاں سے آئے گا؟ یہ درست ہے کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر یہ ممکن نہیں ہے۔ سرمایہ داری بحران زدہ ہے اور اصلاحات کی رتی برابر گنجائش موجود نہیں۔ درحقیقت سرمایہ داری کے بحران کا مطلب یہ ہے کہ صرف ردِ اصلاحات ہی کی جا سکتی ہیں۔
مینی فیسٹو جاری کرنے کی تقریب میں کوربن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”آپ کے پاس حقیقی تبدیلی کا یہ پلان اس لئے موجود ہے کیونکہ آپ کو اس کو خریدنے کی ضرورت نہیں، آپ کو صرف ووٹ دینے کی ضرورت ہے“۔
دوسرے الفاظ میں لیبر کے تمام انتخابی وعدوں کی قیمت بڑے کاروبار اور امیر ترین افراد ادا کریں گے۔ کوربن اور میکڈونلڈ نے واضح کیا ہے کہ 95 فیصد ٹیکس دہندہ کوئی نیا ٹیکس یا موجودہ ٹیکسوں میں کوئی نیا اضافہ نہیں دیکھیں گے۔
لیکن پیسہ کہاں سے آئے گا سوال کا جواب امراء پر ٹیکس لگانا کچھ زیادہ تسلی بخش نہیں ہے۔ ہم امراء پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگانے کے حق میں ہیں۔ لیکن بہرحال اس کی بھی ایک حد موجود ہے۔ کیونکہ امراء وکلاء اور ماہرین کی ایک فوج پالے ہوئے ہے جن کا کام ہی ٹیکس افسر سے اپنی دولت چھپاناہے۔
ٹیکسوں پر دھیان دینے کے بجائے ہمیں ذرائع پیداوار پر قبضہ کرنا چاہیے جو پورے سماج میں دولت پیدا کرتے ہیں۔جب محنت کش طبقہ مجموعی طور پر معیشت کا مالک ہو گا اور اس کی منصوبہ بندی کرے گا تو پھر ہم وہ دولت اور ذرائع پیدا کریں گے جن سے معیارِ زندگی میں بے پناہ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ سرمایہ داری کے بحران میں ہم صرف جبری کٹوتیاں اور گرتا ہوا معیارِ زندگی ہی دے سکتے ہیں۔
آج بھی بے پناہ پیداواری قوت کے بیکار پڑے رہنے کے باوجود برطانیہ کا GDP اس وقت 2.16 ٹریلین پونڈ ہے۔ پیداوار میں صرف 10 فیصد اضافے کا مطلب 216 ارب پونڈ سالانہ اضافہ ہے۔ 20 فیصد کا مطلب سالانہ 432 ارب پونڈ اضافہ ہے۔ ہم اپنا GDP پانچ سالوں میں دگنا کر سکتے ہیں۔
یہ وہ راستہ ہے جس کے ذریعے حقیقی اصلاحات کے لئے پیسہ آئے گا، پیداوار کی سوشلسٹ پلاننگ اور منافع کے بجائے ضرورت کے لئے سرمایہ کاری۔ ذرا تصور کریں کہ ایک منصوبہ بند معیشت کے ذریعے کیا کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ہم برطانیہ میں موجود اس وقت ہر مرد، عورت اور بچہ کی زندگی ہمیشہ کے لئے تبدیل کر سکتے ہیں۔
سوشلسٹ تبدیلی
سرمایہ داری کی پیوند کاری ایسے ہی ہے جیسے مردہ کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش۔ لیبر حکومتوں کی پوری تاریخ اس کا واضح ثبوت ہے۔
کلیدی اور بنیادی تبدیلی کے یہ خیالات خام خیالی نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ہیں۔ حقیقی سوشلزم کے لئے درکار مادی بنیادیں آج موجود ہیں۔
صرف ایک جرات مند سوشلسٹ پروگرام۔۔سرمایہ داری کا خاتمہ۔۔ ہی انسانیت کو آگے بڑھنے کا حقیقی راستہ دکھا سکتا ہے۔ محض سرمایہ داری کے ساتھ ٹامک ٹوئیاں مارنے سے مایوسی اور ناکامی ہی ملے گی۔ جیسا کہ پرانی کہاوت ہے جس پر آپ کا کنٹرول نہیں اسے آپ پلان نہیں کر سکتے اور جو آپ کی ملکیت نہیں وہ آپ کے کنٹرول میں نہیں۔
ہم اب مزید انتظار نہیں کر سکتے۔ اگلی لیبر حکومت کا حقیقی فرض سماج کی سوشلسٹ تبدیلی ہے۔