تحریر: |سوشلسٹ اپیل، برطانیہ|
ترجمہ: |اسدپتافی|
برطانیہ ایک بحران کی لپیٹ میں آچکا ہوا ہے۔ اس وقت یہاں سیاسی بحران پیدا ہو چکاہے جوآگے چل کر ایک آئینی بحران کو جنم دے گا۔ سکاٹ لینڈ میں آزادی ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہے۔ یورپی یونین کی انتظامیہ خوفزدہ ہو چکی ہے کہ بریکسٹ کے بعد ان کی اکائی کا خطہ سرکشیوں کی زد میں آ سکتا ہے۔ لیبر پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ بیری گارڈنر نے کہا ہے کہ ’’ہم عمل اور ردِ عمل کے ایک ایسے چکرمیں پھنس چکے ہیں کہ جس سے نکلنے کا کوئی رستہ نظر نہیں آرہا‘‘۔
To read this article in English, Click here
دوسال پہلے ایک ریفرنڈم میں سکاٹ لینڈ نے برطانیہ سے تقریباً الگ ہونے کا فیصلہ کر دیا تھا۔ اب برطانیہ نے یورپی یونین سے الگ ہونے اور کیمرون کو طوعاًو کرہاً مستعفی ہونے کا فیصلہ کرناپڑگیا ہے۔ جبکہ لیبر پارٹی میں ایک ’’خانہ جنگی ‘‘شروع ہو چکی ہے۔
جُوئے کا انجام
کیمرون اپنی ذات کے اندر ہی بارود کابھرا ہوا ایک ڈبہ تھااُس نے پہلے ہی ٹوری پارٹی کو خبردار کیا ہواتھا کہ وہ یورپ بارے پھٹنے سے گریز کریں اور پھر وہ خود ہی اس بارے پھٹنے کو تیار ہو گیا اور ریفرنڈم کے نتائج آتے ہی بالآخر’’ پھٹ‘‘ گئے۔ برطانوی سماج اس وقت بے یقینی اور بے چینی کی ایک ایسی دیگ بن چکا ہے جو پھولتی ہی چلی جارہی ہے۔ اس دوران کہ جب لندن اور سکاٹ لینڈ نے یورپی یونین کے ساتھ رہنے کا اظہار کیا شمالی انگلینڈ، مڈ لینڈز اور ویلز کے سابقہ صنعتی علاقوں میں بہت سوں نے چھوڑ دینے کیلیے ووٹ دیا۔ اس میں مختلف رحجانات شامل تھے جن میں غیرملکیوں سے نفرت کرنے والے اور رجعتی عناصر بھی تھے لیکن اس سب کے نیچے ایک شدید غم وغصہ موجود تھا جو کہ صنعتوں کے بند ہونے، بیروزگار ہو جانے اور اجرتوں کے انتہائی کم ہونے جیسے عوامل بھی تھے۔ کوئلے کی ایک سابقہ کان کی جگہ پر بنے سپورٹس ڈائریکٹ کے گودام پر کام کرنے والے کے بقول یہ سب برطانیہ کے بڑے کاروباروں کا شاخسانہ ہے۔
لیبر کے ووٹروں اور خاص طور پر نوجوانوں کی بھاری تعداد نے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دیا۔ اس کی بڑی وجہ فراج اور ٹوری پارٹی کی بدبودارقوم پرستی اور نسل پرستی تھی۔
بریکسٹ ریفرنڈم بہر حال سٹیٹس کو اور انتظامیہ کے خلاف ایک بغاوت تھا۔ لوگ عرصے سے خود کو دبے ہوئے محسوس کرتے آرہے تھے۔ کیونکہ معاملات بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے تھے۔ یہ عوامل و عناصر کا اجتماعی اور مشترکہ ہنگام تھا ۔ یہ ووٹ اکیسویں صدی کی’’ کسان بغاوت‘‘ قرار دی جا سکتی ہے۔
نیاموں سے باہر نکلتی تلواریں
نتیجے نے بڑے کاروباروں کی بنیادیں ہلا دی ہیں جن کے بڑے مفادات یورپ سے وابستہ تھے۔ کاروبار کا تقاضا تھا کہ وہ مالکوں کے کلب کے ساتھ وابستہ رہیں۔ تاکہ آزاد منڈی، بڑے منافعوں اور مزدوروں کے استحصال سے جُڑارہ سکے۔ لیکن اب ان کی ایک سانس آ رہی تو ایک جا رہی ہے جس کی وہ کبھی توقع نہیں کر رہے تھے۔ وہ سب کیمرون پر چڑھ دوڑے ہیں کہ یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا۔ کیونکہ اُس نے اپنے وزیر اعظم بن جانے کی خوشی میں ریفرنڈم کا وعدہ کیاتھا۔ اب سب کیمرون کو برا بھلا کہہ رہے ہیں جس کے نتیجے میں کیمرون کو اپنی دُم اپنی ٹانگوں میں دبا کر استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑگیاہے۔ یہ واضح ہو چکا ہے کہ جارج اوسبورن اب گینگسٹروں کے ٹولے کی سربراہی سنبھالے گا۔
لیکن دیگر مراعات یافتہ کروڑ پتیوں کی طرح ان میں سے کوئی بھی خسارے میں نہیں جائے گا۔ ان کے لیے لندن شہر اور بڑے کاروباروں میں سے بہت کچھ بٹورنے کا مواقع بھی میسر آئیں گے۔ تاہم ٹوری پارٹی کی قیادت کی لڑائی ایک خون آشام معاملہ ہوگی۔ بورس یا پھر جو کوئی بھی قیادت پہ آئے گا ، اُس کوایک جاری و ساری بحران کا سامنا رہے گا۔ اب انہیں کرچیاں چُننی پڑیں گی۔ اس فیصلے کے نتیجے میں کئی اور دردناک فیصلے کرنے پڑیں گے۔ قیادت کو سمجھ آجائے گی کہ شیر پر سواری کرنا کتنا آسان لیکن اس سے اترنا کتنا مشکل ہے!
ہم ایک دھڑام کی جانب لڑھک رہے ، کہ سرمایہ کاری گر چکی اور حاصلات زوال کی زد میں آچکی ہیں۔ کٹوتیوں کو مزید کٹوتیوں سے تیز کیا جائے گا۔ بہت عرصے سے ہر چند یہ کھلواڑ چل رہاتھا لیکن اب اس میں مزید شدت آجائے گی۔ ریٹنگ ایجنسیوں نے قراردیا ہے کہ برطانیہ کو اس کی ٹاپ کریڈٹ ریٹنگ سے محروم کر دیا جائے گا۔ برطانیہ کا ادائیگیوں کا خسارہ بہت ضخیم ہے ۔ جو کہ بیرونی سرمایہ کاروں کی مہربانی اور اجازت سے سنبھلا چلا آرہا تھا۔ اور یہ ایک ایسا جذبہ ہے کہ جو کسی بھی وقت ہوا میں تحلیل ہو سکتا ہے۔ بینک آف انگلینڈ کے سربراہ نے کہا ہے کہ’’ ہماری بنیادیں مستحکم ہیں‘‘ یہ الگ بات کہ معیشت کاسر چٹانوں سے ٹکرا نے جارہا ہے!
برطانیہ کو یورپی یونین سے الگ ہونے میں دس سال لگ سکتے ہیں۔ یورپی یونین کے قائدین نہیں چاہیں گے کہ ایسا اتنی سادگی یا خوشی سے ہو جائے۔ وہ اس کے دوررس اور خطرناک اثرات سے سہمے ہوئے ہیں۔ ان کیلیے برطانیہ کا اخراج ایک ناخوشگوار عمل ہوگا۔ کچھ تو جوابی کاروائی کابھی سوچ رہے ہیں۔ یہ جو بھی سوچیں یا کریں،کسی بات کی کوئی ضمانت نہیں اور برطانیہ کو بجھے ہوئے دل کے ساتھ باہر ہونا پڑے گا۔
بریکسٹ نے یورپ میں رجعتی قوتوں کو سراٹھانے میں بڑی مدد کی ہے۔ جیسا کہ فرانس میںNFکوجنہوں نے فرانس میں بھی اسی طرح کے ریفرنڈم کا مطالبہ کردیاہے۔ پنڈورا بکس کھلتا ہی
چلا جا رہاہے۔ کوئی چیز بھی پہلی والی جگہ پر نہیں رہنے والی۔ اس بیماری کے متعدی ہونے کے خدشے نے یورپی یونین کے سارے منصوبے کو ہی چوپٹ کردیناہے۔ جریدہ فنانشل ٹائمز لکھتاہے کہ ’’یورپی یونین کی مکمل تحلیل اب ایک حقیقی امکان بن چکاہے‘‘۔ ایک چنگاری بھڑکا دی گئی ہے جو سب کچھ کو آگ لگا سکتی ہے۔ مارٹن وولف کے الفاظ میں ’’برطانیہ نے قیادت کرتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی سے چھلانگ دی ہے، باقیوں کو اس کے پیچھے جانا پڑ سکتا ہے‘‘۔
غیر متحدہ برطانیہ
اس سب کے علاوہ اور بھی مسائل سامنے آئیں گے۔ سکاٹ لینڈ نے گرمجوشی سے یورپ کے ساتھ رہنے کیلیے ووٹ دیاتھا۔ سکاٹش پارلیمان نے ریفرنڈم کے نتائج کو ویٹوکرنے کی دھمکی دی ہے۔ اس سے ایک آئینی بحران پیداہوسکتاہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ سکاٹ لینڈ کی آزادی کا پراناقضیہ بھی دوبارہ میز پر آسکتاہے۔ رائے عامہ کہہ رہی ہے کہ60فیصد آزاد ی کے حق میں ہیں اور مزاحمت میں تیزی آرہی ہے،ہم صاف دیکھ سکتے ہیں کہ مستقبل میں متحدہ برطانیہ ’’غیر متحدہ‘‘ ہو سکتاہے۔ شمالی آئرلینڈکے ایک ابتدائی جائزے کے مطابق آنے والے دنوں میں وہاں متحدہ برطانیہ کے بہت کم حمایتی موجود ہوں گے۔
ہر چیزبکھری بکھری نظر آرہی ہے اورپہلے والا یقین کہیں بھی کسی طرف بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ برطانیہ کو سیاسی، آئینی،سماجی اور معاشی بدحالی کی طرف دھکیل دیا گیاہے۔ اس سال کے اواخر یا نئے سال کے شروع میں عام انتخابات ہو سکتے ہیں۔ اور ایک نیا ٹوری لیڈر اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں گے۔ بلیرائیٹ ارکان کو بھی جو کہ اس وقت ہاتھ دھو کر جیرمی کوربن کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں،اس الیکشن میں جانا پڑ ے گا۔ بلیرائیٹ کئی سالوں سے محنت کش طبقے کے ساتھ غداری کرتے چلے آرہے ہیں۔ وہ عرصے سے لیبرپارٹی کے خلاف شدید مزاحمت بھی کرتے آرہے ہیں۔ اسی کے ردِعمل میں ہی جیرمی کوربن نے پارٹی کی قیادت جیت لی تھی۔ انہی بلیرائٹوں کی بدولت ہی پارٹی کا سکاٹ لینڈ میں سیاسی خاتمہ ہوا۔ یہ سب لبرل ڈیموکریٹس اورٹوریوں کے ساتھ ایک صوفے پر جا بیٹھے اور جس سے یہ اپنی ساکھ گنواتے چلے گئے۔ ریفرنڈم میں بھی ایسا کیا گیا۔
بلیرائٹ اس وقت جیرمی کوربن کو باہر نکالنے کے لیے پاگل اور وحشی ہوئے پھرتے ہیں۔ عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے وہ اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ چکے ہیں۔ شیڈوکابینہ کی اکثریت بھی مستعفی ہو کر اس کے خلاف کُو میں شامل ہو چکی ہے۔
لیکن بہت ہو چکی! کوربن کے پاس کوئی رستہ نہیں کہ وہ اب دلیری سے اس سب کا مقابلہ کرے اورمخالفین کو آڑے ہاتھوں لے۔ پارٹی کے اندر کوربن انقلاب ایک ادھورا انقلاب تھا جسے مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ کوربن کو ایک ایمرجنسی لیبرپارٹی کانفرنس بلانی چاہیے تاکہ پارٹی کی قیادت کے معاملے کافیصلہ ہو سکے۔ پارٹی کی قیادت کون کرے گا؟پارٹی کا منتخب شدہ صدر یا بلیرائٹ ارکان پارلیمان۔ کوربن کو چاہیے کہ وہ فوری طورپر ممبران پارلیمان پر عائد فرائض کے قواعد کو سامنے لائے تاکہ لیبر میں ٹوری رحجان کی صفائی کی جا سکے۔
محنت کشوں کو نہیں، مالکوں کو قیمت چکانی چاہیے!
یورپی یونین ریفرنڈم واضح کرتا ہے کہ کس طرح سے سماج میں موجود بے چینی، رجعتی عناصر کے لیے کارگر اور کارفرما ہو سکتی ہے۔ سٹیٹس کو برقرار رکھنے سے یہ بے چین و مضطرب پرت مطمئن نہیں ہوسکتی تھی۔ یہ مضطرب لوگ تبدیلی چاہ رہے تھے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ لیبر پارٹی یورپی یونین کے مالکان کے خلاف اور یورپ کی سوشلسٹ تبدیلی کے حوالے سے کوئی پروگرام دیتی۔ اسی واحد طریقے کی بدولت ہی روزگار، اجرتوں اور رہائش جیسے مسائل سے نمٹا جا سکتا۔ ہم نے متنبہ بھی کیا تھا کہ لوگوں میں پنپتا اضطراب کسی اور شکل میں بھی اپنا اظہار کر سکتا ہے۔
اس بات سے ہٹ کر کہ لوگوں نے کس انداز میں اور کیا سوچ کر ووٹ دیا۔ یہ طے ہے کہ ساتھ رہنے اور چھوڑ دینے والے دونوں ووٹروں کے ساتھ غداری اور دھوکہ دہی کا ارتکاب کیا جائے گا۔ اور ایک بارپھر ہم محنت کشوں کو کہا جا رہاہے کہ وہ اس بحران کی قیمت اداکریں۔
ہم ایک ایسے عہد میں رہ رہے ہیں کہ جب سرمایہ دارانہ نظام زوال پذیری کی طرف گامزن ہے۔ جو صرف اور صرف کٹوتیوں کے بل بوتے پر ہی جاری رہے گا۔ یورپی یونین کے اندر رہا جائے یا باہر، اس سے محنت کشوں کی حالت اور حالات میں ابتری ہی آئے گی۔
خود سرمایہ داری کے ماہرین ایک پیشین گوئی کر رہے ہیں ’’عدم استحکام کے یہ سبھی عوامل وعناصر، نہ صرف برطانیہ ، یورپ بلکہ دنیا بھر میں، آنے والے دنوں میں ایک دوسرے کے ساتھ جُڑتے ہوئے حیران کن واقعات کو جنم دیں گے‘‘۔ یہ انتباہ جریدے فنانشل ٹائمز نے دیاہے۔ یہ اپنی بات ان الفاظ میں ختم کرتاہے کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ اس کے لیے تیار ہوچکاہے، سیاسی سماجی اور معاشی دھماکہ خیزیوں کے لیے‘‘۔
سرمایہ دارانہ نظام ایک شدید نوعیت کے بحران کی زد میں ہے۔ یہ ماضی کی سبھی حاصلات کے لیے خطرہ بنتا چلا جا رہاہے۔ سرمایہ داری کے اس جبر کے خلاف ایک روزافزوں مزاحمت ہر طرف اور ہر جگہ سراٹھا رہی ہے۔ جو مختلف کیفیتوں میں اپنا اظہار کر رہی ہے۔ جریدہ فنانشل ٹائمز جو کہ بڑے کاروباروں کا حقیقی ترجمان ہے،واضح طورپر دلیری سے بیان کر رہاہے کہ’’گلوبلائزیشن کام نہیں کر رہی۔ بڑے کاروبار بدنام سیاسی خبر بنتے جا رہے ہیں۔ 2008ء کے بعد سے غیر شفافیت کٹوتیوں کے ہاتھوں اور بڑھتی جا رہی ہے۔ امیر ترین1فیصد کو بحران کی ہوا تک نہیں چھو سکی۔ سرمایہ دارانہ نظام کو بچت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ٹیکس دہندگان کی رقوم سے مالیاتی اداروں کو بیل آوٹ کرنے کے عمل سے حکومتوں نے دباؤ کو منڈیوں کی بجائے سیاست کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اگر لبرل ڈیموکریسی کو بچانا ہے تو لازم ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں اصلاحات کی جائیں‘‘۔
لیکن معاملہ یوں ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ایسی گنجائش اس لیے نہیں کہ اس کی بنیاد اور دارومدار ہی محنت کشوں کے استحصال پر ہے۔ سرمایہ دار محنت کشوں کی غیر ادا شدہ اجرتوں سے ہی سب کچھ کشید کرتے اور مستفید ہوتے ہیں۔ نابرابری منافعوں کی پیدائش اور نجی ملکیت کا ناگزیر عنصر ہے۔ ایک مستقل زوال کی لپیٹ میں آچکے نظام کی بساط لپیٹنی ہوگی تاکہ پیداواری صلاحیتوں سے بھرپوراستفادہ کرتے ہوئے ان کو انسانوں کی ضروریات کی تکمیل کی لیے کام میں لایا جا سکے نہ کہ صرف ارب پتیوں کی عیاشی کے لیے۔ ہمیں بحران کو سرمایہ داری کو بیل آؤٹ کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے عمل پیراہونا چاہیے۔