|تحریر: سوشلسٹ اپیل ایڈیٹوریل بورڈ، ترجمہ: ولید خان|
9 جون 2017ء
ابھی بریگزٹ کے تہلکہ مچا دینے والے واقعے کو سال بھی نہیں ہوا تھا کہ برطاانیہ میں ایک نیا سیاسی بھونچال آ گیا ہے۔ تھریسا مے کو سیاسی موت کا سامنا ہے۔ قبل از وقت انتخابات ٹوری پارٹی کی بربادی بن چکے ہیں۔ ٹوری پارٹی کے متوقع دیو ہیکل جیت کے خواب، جس کے بعد پارٹی نے دہائیوں برطانیہ پر حکومت کرنی تھی،خاکستر ہو چکے ہیں۔ اس کے برعکس آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ حکومت کی اکثریت کا جیرمی کوربن کی قیادت میں دوبارہ سے متحرک لیبر پارٹی کے ہاتھوں صفایا ہو چکا ہے۔
ڈیوڈ کیمرون نے جوا کھیلا اور ہار گیا، اب تھریسا مے بھی جوا کھیلنے کے بعد لٹ چکی ہے۔ حالیہ انتخابات کے نتائج نے ملک کو سیاسی بحران اور عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ٹوری پارٹی کیلئے یہ نتائج جان لیوا ثابت ہوئے ہیں۔ 2015ء میں ٹوری پارٹی کے پاس پارلیمنٹ میں 331 سیٹیں موجود تھیں۔ آج مکمل نتائج سامنے آنے کے بعد 318 سیٹیں ہی جیت پائے ہیں۔ اس کا واضح مطلب عدم استحکام سے دوچار ایک معلق پارلیمنٹ ہے (ایک ایسی پارلیمنٹ جس میں کسی سیاسی پارٹی کے پاس سادہ اکثریت موجود نہیں)۔
مسز مے نے ایک ’’مضبوط اور مستحکم‘‘ حکومت کا وعدہ کیا تھا جو بریگزٹ مذاکرات کے کٹھن دو سالہ عمل میں پر اعتماد اور ٹھوس ثابت ہو گی۔ لیکن مے کے ’’مضبوط‘‘ ڈھونگ کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ انتخابات کے نتائج نے بڑے کاروباروی حلقوں میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے جس کا اظہار منڈی کے ہیجانی رد عمل سے ہوا۔ ڈالر اور یورو کے مقابلے میں پاؤنڈ 2فیصد سے زیادہ مالیت کھو بیٹھا۔ UBSویلتھ مینجمنٹ کے برطانوی دفتر کے سربراہ جیوفری یو کا کہنا ہے کہ،’’یہ واضح ہے کہ منڈی اس طرح کے نتائج کی توقع نہیں کر رہی تھی اور فی الحال ان نتائج کو اچھا نہیں سمجھا جا رہا کیونکہ ان کا مطلب مزید عدم استحکام ہے۔‘‘
اپنی اکثریت کو اور زیادہ تقویت دینے کیلئے قبل از انتخابات سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی غلطیوں میں سے ایک ثابت ہوا ہے۔ ذرائع ابلاغ کو تھریسا مے کے ’’مضبوط اور مستحکم‘‘ مفروضے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور جیرمی کوربن پر نیچ حملے، کردار کشی اور بدنام کرنے کیلئے متحرک کیا گیا۔ لیکن لوگ جتنا زیادہ روبوٹ نما مسز مے کو دیکھتے جاتے تھے ان کی نفرت اتنی ہی زیادہ بڑھتی جاتی تھی۔ ابتری اور اناڑی پن سے بھرپور مینی فیسٹو کے ذلت آمیز وعدوں میں بوڑھوں سے زبرستی سوشل کئیر کیلئے پیسے نکلوانا اور پینشن پر گزارہ کرنے والوں کی سردیوں میں ایندھن کی سبسڈی ختم کرنا شامل تھا۔ نفرت آمیز عوامی رد عمل سے گھبرا کر ان دونوں وعدوں سے فوراً انحراف کر لیا گیا۔ ان وعدوں کی مینی فیسٹو میں موجودگی اور پھر گھبراہٹ میں ریاکاری سے بھرپور فراری نے بہت سارے کٹر ٹوری ووٹروں کو متنفر کر دیا۔ صورتحال پہلے ہی کافی خراب تھی لیکن تھریسا مے کا لیڈرشپ مباحثوں میں شرکت سے کترانا اور عام لوگوں کے سوالات کے جواب دینے سے انکار نے صورتحال کو اور زیادہ گھمبیر بناتے ہوئے سیاسی بزدلی کا تاثر دیا۔
تھریسا مے اس وقت اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور اس کی سیاسی اتھارٹی نہ صرف اپنے ووٹ بینک میں بلکہ اپنی پارٹی میں بھی برباد ہو چکی ہے جہاں سے فوری استعفے کا مطالبہ بھی آ چکا ہے۔ اس تمام تر صورتحال کے باوجود اس نے فیصلہ کیا ہے (ظاہر ہے اس میں ٹوری لیڈروں کی مرضی بھی شامل ہے جو متبادل سے انتہائی خوفزدہ ہیں)کہ وہ اقلیتی ٹوری حکومت بنائے گی۔ لیکن یہ ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی (DUP) کے ساتھ ایک گلے سڑے مکروہ معاہدے کے بعد ہی ممکن ہوا ہے جس کی پارلیمنٹ میں دس سیٹوں نے وقتی طور پر مے کی سیاسی چمڑی بچا لی ہے۔
لیکن DUP کی حمایت کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ دونوں پارٹیوں کے آپسی سیاسی اختلافات ہیں اور یہ اقدام آنے والے طوفانی حالات کے تھپیڑے برداشت نہیں کر پائے گا۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق: ’’۔۔۔قطع نظر، اس معاہدے کا مطلب یہ ہے کہ مسز مے انتہائی متضاد مفادات کے اتحاد پر حکومت کرے گی۔‘‘
انتخابی مہم کے دوران مے نے خبردار کیا تھا کہ کوربن کی حکومت ’’ مکمل انتشار‘‘ ہو گی۔ اب وہ جس قسم کی لرزتی کانپتی حکومت بنانے جا رہی ہے اس کیلئے یہ وضاحت بڑی عمدہ ہے۔ یہ ایک پر انتشار اور مختصر معیاد کی حکومت ہو گی۔ انتخابات کے تباہ کن نتائج نے پہلے ہی ٹوری پارٹی کو بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔ ٹوری ممبر پارلیمنٹ اینا سوبری پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ ’’آفت آمیز مہم‘‘ چلانے کے بعد وزیر اعظم کو ’’اپنی پوزیشن کا از سرِ نو جائزہ لینا چاہیے۔‘‘
پس پردہ بورس جانسن جیسے رذیل لوگ وزارت عالیہ کی کرسی کیلئے چالیں چل رہے ہیں۔ خنجر ہاتھوں میں تھام لئے گئے ہیں لیکن قاتل جان لیوا وار کرنے سے گھبرا رہے ہیں کہ فی الحال وار کرنے سے کہیں ٹوری پارٹی میں خانہ جنگی نہ شروع ہو جائے جس کے نتیجے میں پارٹی کا شیرازہ بکھر سکتا ہے۔ اسی لئے وہ فی الحال بدنام سیاسی طور پر دیوالیہ، تھریسا مے کے ساتھ پھنسے ہوئے ہیں اور نئی لیڈر شپ کے انتخابات کی مہم چلانے کیلئے موزوں وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن کچھ سنجیدہ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ناپائیدار جڑت گرمیوں کی چھٹیوں تک ہی جاری رہ سکے گی۔
کوربن کی فتح
ان انتخابات کا اصل فاتح جیرمی کوربن ہے۔ اور اس نے تمام تر مشکلات کے باوجود یہ فتح حاصل کی ہے۔ تمام ٹوری ذرائع ابلاغ اور اسٹیبلشمنٹ تھریسا مے کی حمایت کر رہے تھے۔ جب انتخابات کا اعلان کیا گیا تو دی سن جیسے اخبارات مے کو ’’نئی میگی‘‘(تھیچر) کہہ کر پکار رہے تھے جس کے ہاتھوں لیبر پارٹی کی موت ہو گی۔
انتخابات سے ایک دن پہلے دی ڈیلی میل نے اپنے اخبار کے 13صفحات کوربن پر انتہائی گھٹیا حملوں کیلئے استعمال کئے۔ رذیل پریس اور میڈیا نے اُس کی کردار کشی کرتے ہوئے اسے دہشت گردی اور دیگر جرائم کا ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی۔ انہوں نے مانچسٹر اور لندن کے دہشت گرد حملوں کو استعمال کرتے ہوئے کوربن کو دہشت گردی کا معذرت خواہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی۔ اخباروں کے یہ ارب پتی مالکان، جو یہ سمجھتے تھے کہ عوامی رائے کو توڑنا مروڑنا بچوں کا کھیل ہے اب اپنے خصی پن کے خلفشار کا شکار ہیں۔
مختلف رائے شماریوں میں پیش گوئی کی جا رہی تھی کہ ٹوری پارٹی اپنی اکثریت میں 150 سیٹوں تک کا اضافہ کر سکتی ہے۔ اب یہ تمام پیش گوئیاں کوڑے دان کا حصہ بن چکی ہیں۔ یہاں تک کہ جب انتخابات اپنے اختتام کو پہنچ رہے تھے، اس وقت بھی اسٹیبلشمنٹ جغادری دعویٰ کر رہے تھے کہ تمام اعدادو شمار ٹوری پارٹی کی دیو ہیکل فتح اور کوربن کی ذلت آمیز شکست کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ لیکن تمام تر بلند و بانگ دعوے مٹی کا ڈھیر ثابت ہوئے۔ جب انتخابات کے حتمی نتائج آنا شروع ہوئے تو ٹوریوں کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ کچھ دیر تو وہ نتائج کو ماننے سے ہی انکار کرتے رہے۔ جب بالآخر انہیں حقیقت کا احساس ہوا تو ان کے چہرے صدمے، حیرانی اور مایوسی کا آئینہ دار تھے۔
اسٹیبلشمنٹ اور ذرائع ابلاغ کے تابڑ توڑ گھٹیا حملوں کے ساتھ ساتھ جیرمی کوربن کو اپنی پارٹی سے بھی کینہ پرور حملوں کا سامنا تھا۔ لیبر پارٹی کا دائیاں بازو مسلسل پیش گوئی کر رہا تھا کہ لیبر کی شکست ہو گی اور 1980ء کی دہائی میں مارگریٹ تھیچر کی دیو ہیکل فتح کی طرح ٹوری پارٹی ایک بار پھر فاتح ہو گی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمانی لیبر پارٹی کے بلئیرائٹس ایسے نتائج کیلئے ہی پر امید تھے تاکہ وہ کوربن کوپارٹی لیڈر شپ سے فارغ کرانے کیلئے ایک نئی مہم چلا سکیں۔ لیکن ان کی ساری منصوبہ بندی برباد ہو چکی ہے۔
تمام تر مشکلات کے باوجود لیبر پارٹی کی شاندار کامیابی کی برطانیہ کی سیاسی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ رائے شماریوں میں پارٹی نئی بلندیوں تک جا پہنچی اور تمام مبصرین کی بھاری شکست کی پیش گوئیوں کے باوجود اپنی سیٹوں میں اضافہ کیا۔ سیٹوں سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ لیبر نے برطانوی ووٹ بینک میں اپناحصہ 40فیصد کر لیا ہے۔ یہ پچھلے انتخابات کے مقابلے میں 10فیصد زیادہ ہے جب ایڈ ملی بینڈ کی قیادت میں لیبر پارٹی کو شکست ہوئی۔ یہ گورڈن براؤن، یہاں تک کہ ٹونی بلئیر کی قیادت میں لڑے جانے والے 2005ء کے انتخابات سے بھی زیادہ ہے۔ یہ نیل کینوک کے دور سے تو بہت ہی زیادہ ہے جس کی پیش گوئی یہ تھی کہ کوربن کچلا جائے گا۔
ان نتائج سے یہ واضح ہوتا ہے کہ رائل میل، ریلوے اور دوسرے اداروں کو قومیانے کے مطالبات کے ساتھ یہ مینی فیسٹو، جو 1950ء کے بعد کسی بھی پارٹی کا سب سے زیادہ ریڈیکل بائیں بازو کا مینی فیسٹو ہے، عوام میں بے حد مقبول تھا۔ اس کی وجہ سے عام لیبر ممبران میں بے پناہ تحرک پیدا ہوا اور عوام کی ایک اکثریت میں جوش و جذبہ پیدا ہوا، خاص کر نوجوانوں میں جن کی بھاری اکثریت نے لیبر کو ووٹ دیا۔ یہ نتائج لیبر کی شاندار کامیابی ہیں جنہوں نے کوربن کے تمام ناقدین کے اوسان خطا کر دئیے۔
عوامی تحریک
لاکھوں نئے لوگوں نے ان انتخابات میں ووٹ ڈالے اور اس طرح ان انتخابات میں ووٹروں کی شرح پچھلے 25 سالوں میں سب سے زیادہ رہی۔ اس کی وجہ لیبر کی عوامی مہم، اس کا بائیں بازو کا مینی فیسٹو اور نوجوانوں کی بے شمار پرتوں کی انتخابی عمل میں شمولیت تھی۔ انتخابی مہم کے شروع میں لیبر پارٹی، ٹوری پارٹی سے 20 پوائنٹ پیچھے تھی لیکن جیرمی کوربن کی پرجوش مہم نے چند ہی ہفتوں میں اس کمی کو پورا کر دیا۔ نوجوانوں نے خاص طور پر بڑی تعداد میں لیبر کی حمایت کی۔ چھٹی کے دن YouGov کی ایک رائے شماری کے مطابق 18-24سال کی سماجی پرت میں کوربن کو71فیصد حمایت حاصل تھی جبکہ ٹوری پارٹی کی حمایت 15فیصد تھی۔ ان انتخابات میں نوجوانوں کی بھاری اکثریت نے پولنگ اسٹیشنز کا رخ کیا جو کہ 1987ء کے بعد سب سے بڑی تعداد تھی۔
لیبر کی عوامی ریلیوں میں، اور خاص طور پر جب کوربن تقریر کرتا تھا تو موڈ انتہائی پرجوش ہوتا تھا۔ وہ امریکہ میں برنی سینڈرز کی طرح برطانوی سماج میں موجود سیاسی ومعاشی عدم اعتماد تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس معاملے میں سیاسی تجزیہ نگار اندھے ہیں اور وہ اس صورتحال کی کوئی بھی تسلی بخش تشریح کرنے سے قاصر ہیں۔ سیاسی جغادری شکستہ اعصابوں کے ساتھ گم سم پڑے ہیں۔
ٹوریوں کو لیبر کے ہاتھوں وہاں بھی شکست ہوئی جس کا کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا۔ کینٹر بری کی پارلیمانی سیٹ پچھلے 100 سالوں سے ٹوری پارٹی کے قبضے میں تھی لیکن وہاں ٹوری پارٹی کے 10,000 ووٹوں کی اکثریت کو پلٹ دیا گیا۔ یہ حیران کن فرق 8000 نئے لوگوں نے، جن میں زیادہ تر نوجوان تھے،ووٹنگ کیلئے اس شہر میں رجسٹر ہو کر ڈالا۔ لیبر نے ہیسٹنگز میں ٹوری سیکرٹری داخلہ ایمبر روڈ کو بھی تقریباً شکست دے دی تھی۔ سب سے زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ کنسینگٹن میں ٹوری کی محفوظ سیٹ کو بھی لیبر بس لے ہی اڑی تھی جہاں مقابلہ انتہائی سخت ہونے کی وجہ سے دو مرتبہ دوبارہ ووٹوں کی گنتی کے بعد گنتی کو موخر کر دیا گیا۔ پورے ملک میں لیبر نے کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ انہوں نے ویلز میں ویل آف کلائڈ، بیٹر سی،سٹاکٹن ساؤتھ اور دیگر سیٹیں ٹوری سے جیتیں۔ بہت سارے ایسے علاقوں میں جہاں لیبر جیت نہیں سکی، انہوں نے ٹوری ووٹ بینکوں پر کاری وار کئے۔ ٹوری پارٹی کے آٹھ منسٹر اپنی سیٹوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
لبرل ڈیموکریٹس ، ٹوری اور لیبر کے درمیان پس کر رہ گئے اور انہیں خوفناک شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لبرل ڈیموکریٹس کے سابق لیڈر اور سابق ڈپٹی وزیر اعظم نک کلیگ کو اس کی سابقہ غداریوں کی وجہ سے شیفیلڈ سے ٹھوکر مار کر پرے پھینک دیا گیا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ مے کو مکمل بربادی سے بچانے میں سکاٹ لینڈ میں ٹوری پارٹی کے ابھار نے خاص کردار ادا کیا جہاں ٹوریوں کو کچھ ’’اتحاد‘‘ کی حامی کی پرتوں میں حمایت مل گئی۔ اس فتنہ انگیزی اورSNP سے قدرے مایوسی کی وجہ سے ٹوریوں کو 12 سیٹیں مل گئیں جبکہ SNP کے ووٹ میں 13فیصد کمی واقع ہوئی۔ ان کے زیادہ تر ووٹ ٹوری کو ملے جس کے ووٹ بینک میں 14فیصد اضافہ ہوا۔ لیبر کے ووٹ بینک میں بھی 3فیصد کا معمولی اضافہ ہوا جس کی بڑی وجہ کوربن ہے۔ اس حقیقت کا سکاٹش لیبر پارٹی کے بلئیرائٹ لیڈروں نے بددلی سے اعتراف بھی کیا ہے۔
قبل از وقت انتخابات کے اعلان کے بعد ویلز میں ایک رائے شماری کے مطابق ٹوری پارٹی کو 10فیصد سبقت حاصل تھی۔ مے اس روایتی لیبرقلعے میں فتح کی اتنی پرامید تھی کہ اس نے انتخابی مہم کے دوران تین مرتبہ ویلز کا دورہ کیا۔ لیکن جیسے جیسے انتخابی مہم آگے بڑھتی گئی، رائے شماریوں کی قلعی کھلتی گئی جس نے ٹوریوں کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
دائیں بازو کی مہاجر مخالف UKIP صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔ لیکن یہ خیال کہ پارٹی کے ووٹر خود رو انداز میں ٹوری حمایتی بن جائیں گے غلط ثابت ہوا۔ لیبر کی کٹوتیوں کے خلاف پالیسیوں کی وجہ سے بہت سارے ووٹر لیبر کی طرف پلٹ گئے۔ حتمی تجزئیے میں بریگزٹ ایک ایسا کتا ثابت ہوا جو بھونکتا نہیں کیونکہ لوگوں کیلئے نوکریوں، پینشن، بے روزگاری اور NHS جیسے سماجی مسائل زیادہ اہم تھے۔
بلئیر ازم کی موت
لیبر کے زیادہ تر ممبر پارلیمنٹ کوربن کے شدید مخالف تھے۔ انہوں نے ہر موقع پر پوری کوشش کی کہ کسی طرح کوربن سے جان چھڑا لی جائے، یہاں تک کہ انہوں نے عدم اعتماد کا ووٹ بھی منظور کیا اور ایک ناکام کُو کی کوشش بھی کی۔ انتخابات میں یہ کدورت شرمناک حد تک بڑھ گئی جب لیبر کے دائیں بازو کے دھڑے نے مقامی لٹریچر شائع کیا جس میں صرف یہ لکھا گیا کہ وہ ’’مقامی لیبر‘‘ ہیں (ان میں جیرمی کوربن کا کوئی ذکر نہیں تھا) اور لیبر مینی فیسٹو کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔ کچھ تو ایسے بھی تھے جنہوں نے یہ لیف لیٹ نکالے کہ تھریسا مے کی فتح ہو گی اور کوربن کبھی بھی وزیر اعظم نہیں بن سکتا! یہ لیبر انتخابی مہم کو سبوتاژ کرنے کی کھلم کھلا سازش تھی۔ یہ حکمت عملی اب بری طرح پٹ چکی ہے اور لیبر کے دائیں بازو کے دھڑے کے اپنے ہی الفاظ اس کا منہ چڑا رہے ہیں۔ اب ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ موزوں وقت کا انتظار کریں اور بددلی سے کوربن کی مہم کو مبارکباد پیش کریں۔ جیک سٹرا، ٹام واٹسن، پیٹر ہین، مارگریٹ بیکیٹ اور دیگر کو اپنے منہ بند کر کے جیرمی کی طرف خیر سگالی کے اشارے دینے پڑے ہیں۔ لیکن یہ سب ریاکاری ہے۔ پس پردہ سازشیں پوری شدت سے جاری ہیں۔ دائیاں بازوں کبھی بھی کوربن کے خلاف اپنی سازشوں کو لگام نہیں دے گا۔
وہ مبصرین جنہوں نے انتخابی مہم کے آغاز میں ہی لیبر پارٹی کو فارغ قرار دے دیا تھا اب سر پکڑے بیٹھے ہیں۔ ایسا تو کبھی بھی نہیں ہونا تھا۔ بائیں بازو کی پالیسیاں تو غیر مقبول تھیں! گارڈین اخبار کے ’’بائیں بازو‘‘ کے اوون جونز کی بھی آخری رات تک یہی حوصلہ شکن باتیں تھیں لیکن اب اس کی باتیں ہی بدل گئی ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ برطانوی سیاست کا پینڈولم اب فیصلہ کن انداز میں بائیں جانب مڑ چکا ہے۔ ایک بہت حد تک ریڈیکل اصلاحات سے بھرپورپروگرام نے، جس میں قومی اداروں کو قومی تحویل میں لینا بھی شامل ہے، عوام کی بڑی اکثریت کو اپنی طرف مبذول کر لیا ہے۔ وہ خیالات جنہیں عوامی شعور سے کھرچ کر نکال دیا گیا تھا اب فیصلہ کن انداز میں دوبارہ ایجنڈے پر آ چکے ہیں۔ نیو لیبر اور بلئیرازم کو شکست تسلیم کرنی پڑی ہے۔
ان نتائج کی وجہ سے کوربن کی دوبارہ سے فعال لیبر پارٹی میں اتھارٹی اور زیادہ بڑھے گی۔ انتخابات کے آغاز سے اب تک 100,000 نئی رجسٹریشن کے ساتھ پارٹی کی ممبر شپ 600,000 تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے نتیجے میں لیبر میں بائیاں بازو اور زیادہ مضبوط ہو گا۔ حقیقت میں اس وقت دو لیبر پارٹیاں ہیں: ایک طرف عوامی ممبر شپ والی جو کوربن کی حمایت کرتی ہے اور دوسری طرف پارلیمانی لیبر پارٹی میں دائیاں بازو اور افسر شاہانہ مشینری۔
یہ صورتحال زیادہ عرصہ نہیں چل سکتی۔ کوربن کو اب اس سبوتاژ کا سد باب کرنا چاہیے۔ اسے لیبر ممبر پارلیمان کو از سر نو منتخب کرنے کے قانون کو فعال کرنا چاہیے تاکہ ان دھوکے باز پیشہ ور اور ٹوریز کے ہم پلہ ممبران کو پارٹی سے باہر نکالا جا سکے جو پارٹی کو اندر سے توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
نئے باب کا آغاز
ان انتخابات کے بعد برطانیہ بالکل نئی صورتحال سے دوچار ہے۔ مشکل اور پر پیچ بریگزٹ مذاکرات سر پر آئے کھڑے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی مرتبہ برطانوی سیاست میں دائیں اور بائیں بازو کی اتنی شدید پولرائزیشن ہوئی ہے۔ یہ تمام صورتحال سرمائے کے حکمت کاروں کیلئے انتہائی تشویش ناک ہے۔
اس وقت دونوں بڑی پارٹیوں، ٹوری اور لیبر، کا ووٹ بینک 80فیصد سے زیادہ بڑھ چکا ہے۔ یہ سیاسی مظہر دہائیوں بعد دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ٹوری پہلے سے زیادہ دائیں جانب مڑ رہے ہیں جبکہ کوربن کی قیادت میں لیبر تیزی سے بائیں بازو کی جانب مڑ رہی ہے۔ یہ سیاسی پولرائزیشن درحقیقت برطانوی سماج میں طبقات کی بڑھتی پولرائزیشن کی عکاسی ہے۔ اس تمام تر پولرائزیشن میں لبرل ڈیموکریٹس، جو کبھی ’’درمیانی راہ‘‘ کے نمائندے ہوا کرتے تھے اب اپنی موت آپ مر رہے ہیں۔
ہم بے پناہ سیاسی، معاشی اور سماجی عدم استحکام کے دور سے گزر رہے ہیں۔ اگر ٹوری پارٹی کسی طرح سے ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی سے کوئی معاہدہ کر کے اقلیتی حکومت بنانے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو بھی یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چلے گی۔ کم از کم چار سال تو کسی صورت پورے نہیں کر سکے گی۔ پارلیمنٹ سے باہر حکومت مخالف ایک کے بعد ایک تحریک حکومت پر بے پناہ دباؤ ڈالے گی۔ ٹوری مکمل طور پر اپنی ساکھ کھو بیٹھیں گے۔
برطانیہ کو جلد ہی نئے انتخابات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ سیاسی انتشار 2008ء میں شروع ہوئے معاشی انتشار کی عکاسی کرتا ہے جو پوری شدت سے مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ اس ساری صورتحال میں اچانک اور تیز تر تبدیلیاں رونما ہوں گی جس کی وجہ سے لیبر پارٹی اور بائیں بازو کیلئے نئے مواقع کھلیں گے۔ سارا سیاسی منظر نامہ یکسر تبدیل ہو چکا ہے۔ سرمایہ داری کے پاس محنت کشوں کے مسائل کیلئے کوئی حل موجود نہیں اور اس وجہ سے سماج کی تبدیلی کی ضرورت اور زیادہ تقویت حاصل کرتی جائے گی۔ آنے والے دور میں حقیقی سوشلزم اور مارکسزم کے نظریات کیلئے بے پناہ حمایت بڑھے گی۔ ہمارے سامنے انسانی تاریخ کا ایک نیا اور ولولہ انگیز باب کھل رہا ہے۔