|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان|
گوادر شہر چین کے سامراجی منصوبے یعنی سی پیک کے آغاز کے بعد ہی وقتاً فوقتاً احتجاجوں اور مظاہروں کا مرکز بنا رہا۔ احتجاجی مظاہروں کے حوالے سے اگر مفصل لکھا جائے تو شاید کئی صفحات پر مشتمل ایک چھوٹا سا کتابچہ بن جائے۔ مگر گزشتہ سال کے وسط یعنی شدید گرمیوں میں گوادر سمیت پورا مکران ڈویژن احتجاجی مظاہروں اور ہڑتالوں کی وجہ سے پورے پاکستان میں چھایا رہا۔ جب بجلی کی بندش اور پانی کی عدم موجودگی کے خلاف گوادر شہر سمیت پورے مکران ڈویژن کے محنت کش عوام نے سڑکوں پر احتجاجی دھرنوں کا آغاز کیا۔ یہ گو کہ آغاز نہیں تھا بلکہ اس پانچ یا چھ سال سے نام نہاد سامراجی منصوبے کے آغاز کے بعد لوگوں میں غم و غصے کی لہر کو معیاری شکل دینے والی چتاؤنی تھی۔ ان چھوٹے چھوٹے مظاہروں اور احتجاجوں میں خواتین کا کردار انتہائی شاندار اور قابل ستائش عمل تھا جہاں پر گوادر شہر کی خواتین نے نام نہاد روایتی قوم پرست پارٹیوں کو مسترد کرتے ہوئے خودرو طریقے سے تمام احتجاجوں کو منظم کرنا شروع کیا۔ واضح رہے کہ احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کے مطالبات نہ صرف معاشی مطالبات تھے، بلکہ ان میں قومی جبر، محرومی و پسماندگی کے خلاف بھی مطالبات شامل تھے۔
ان چھوٹے چھوٹے احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں نے بالآخر گزشتہ سال کے آخر میں ایک بڑے احتجاجی دھرنے کی شکل میں اظہار کیا جو کہ 32 روز تک انتہائی جرات اور حوصلے کے ساتھ جاری رہا۔ بالآخر اس احتجاجی دھرنے نے حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتے ہوئے اپنے تمام تر مطالبات منوا لیے۔ احتجاجی دھرنے میں پورے گوادر شہر کی خواتین کا کردار انتہائی شاندار تھا جن میں ماسی زینی جیسی خواتین بھی شامل تھیں جنہوں نے تحریک میں ہر اول کردار ادا کیا۔
ایک چیک پوسٹ پر ماسی زینی کو روکتے ہوئے سکیورٹی اہلکاروں نے جب اس کی تلاشی لیتے ہوئے سوال پوچھا کہ اس کے پاس کیا ہے تو ماسی نے جواب میں کہا کہ”خانہ خرابو! اگر میرے پاس بم ہوتا تم لوگوں پر مار گراتی۔ مجھے موت سے ڈر نہیں لگتا، میری تو عمر ویسے بھی تمام ہو گئی ہے۔“
سیاسی تحریک معاشرے میں موجودہ اخلاقیات، رسم و رواج، خیالات اور سوچ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ صدیوں پرانی روایت اور خوف و ڈر مٹ جاتے ہیں۔ ان کی جگہ جذبہ اور دلیری آتی ہے۔ اسی طرح گوادر کی تحریک میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح وہاں کے آرٹ میں تبدیلی آئی۔ پہلے جو حکمرانوں کا آرٹ تھا اس کی جگہ عوامی آرٹ نے لی۔ ایسے ہی اس تحریک کے زیر اثر عام ماہی گیر جنہیں معاشرے سے کٹا ہوا سمجھا جاتا تھا، نے اپنے وجود کو منوایا اور اپنے ہونے کا ثبوت دیا۔ پل بھر میں جو فوجی اور ایف سی اہلکار گوادر میں حاکم تھے، وہ صرف چوکیداری تک محدود ہوئے۔
اس تحریک میں مکران اور خاص کر گوادر کی عورتوں کا جرات مندانہ کردار رہا ہے۔ بلکہ اس تحریک کی داغ بیل ہی گوادر کی عورتوں نے ڈالی تھی۔ اپریل سے گوادر میں گرمیاں شروع ہوتی ہیں اور ساتھ ساتھ پانی اور بجلی کا مسئلہ بھی۔ اس سال بھی ایسا ہی ہوا، جس کے خلاف مقامی عورتوں نے احتجاج کرنا شروع کیے۔ حالانکہ یہ احتجاجی دھرنے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نہیں تھے۔ جو محلے ایئر پورٹ روڈ کے قریب ہیں وہ ایئرپورٹ روڈ بند کرتے تھے، جو آب ٹانکی کے قریب تھے وہ وہاں جا کر احتجاج کرتے تھے۔ ستمبر تک شاید ہی گوادر کا کوئی ایسا روڈ بچا ہو جس پہ احتجاج نہیں ہوا۔ ان پانچ مہینوں میں شاید ہی کوئی ایسا ہفتہ گزرا ہو جس میں دو سے تین احتجاج نہ ہوئے ہوں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر احتجاجات کی قیادت عورتیں کر رہی تھیں۔
گوادر میں موجودہ تحریک سی پیک کے عملی کام کے ساتھ ہی شروع ہوئی ہے۔ حالانکہ اس کا ایک معیاری اظہار ”حق دو“ تحریک کی شکل میں ہواجس کی قیادت مولانا کر رہے ہیں۔ سی پیک کی وحشت اور جبر کو بھی یہاں وقفے وقفے سے گوادر کی عورتیں ہی للکار رہی ہیں۔
پچھلے سال جب کرونا کی وجہ سے ماہی گیروں کو سمندر میں اترنے نہیں دے رہے تھے تو اس وقت بھی ہزاروں عورتوں نے احتجاج کرکے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت ہمیں پیسے دے یا کام کرنے کی اجازت دے۔ جس پر ماہی گیروں کو سمندر میں جانے کی اجازت ملی تھی۔ اس ایک مہینے کے دھرنے سے کچھ ماہ پہلے بھی ایک بڑا احتجاج ہوا تھا۔ مشرق کی جانب بننے والی سڑک کی وجہ سے جب ماہی گیروں کو سمندر میں جانے سے روکا گیا تھا اور سمندر میں رہنے والوں کو باہر نہیں آنے دیا جا رہا تھا، تب بھی وہاں عورتوں نے جا کر (جی گیٹ) کو بند کر دیا اور جو ماہی گیر سمندر میں تھے انہیں بھی نکلنے کی اجازت مل گئی تھی۔
حالیہ”حق دو بلوچستان کو“ جاری دھرنے کی قیادت جماعت اسلامی کے کیڈر کے پاس ہونے کی وجہ سے آغاز میں عورتوں کو دھرنے سے دور روکا گیا تھا لیکن پھر بھی ان کی جرات اور ہمت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ دھرنے میں عورتوں کے کردار کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ عورتوں نے نظم و ضبط کے لیے کمیٹیاں بنائیں جو گھر گھر جا کر لوگوں کو بلاتی تھیں۔ دھرنے میں لوگوں کے لیے کھانا بھی یہی عورتوں کی کمیٹیاں بناتی تھیں۔
اس دھرنے کے دوران ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے ماسی زینی کا خصوصی انٹرویو لیا گیا جو دھرنے میں عورتوں کی جانب سے مرکزی کردار ادا کر رہی تھیں۔ انٹرویو میں ماسی زینی کا سی پیک کے حوالے سے موقف پاکستان کے پروفیسروں اور سیاست دانوں کے منہ پرطمانچہ ہے جو سی پیک کی مالا جپھتے نہیں تھکتے ہیں۔ جن کے منہ میں سی پیک کا نام سن کر پانی آتا ہے، جو سی پیک کو کوئی جادو کی چھڑی بنا کر پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سی پیک سے پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ ماسی زینی نے سی پیک کے خلاف دلیلیں دیں اور اس کے ماہی گیروں پر وحشیانہ اثرات کے بارے میں بتایا کہ کس طرح یہ سی پیک گوادر میں لوگوں کی روزی روٹی کا دشمن اور تذلیل کا سامان بنا ہے۔
اسی طرح پورے بلوچستان کی تاریخ میں عورتوں کی سب سے بڑی ریلی گوادر میں نکالی گئی تھی جس میں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 25 ہزار کے لگ بھگ عورتوں نے حصہ لیا۔ اس ریلی میں زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والی عورتوں نے حصہ لیا تھا۔ اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کئی گاڑیاں جو گرد و نواح سے ریلی میں آنا چاہتی تھیں، جگہ کی تنگی اور بڑی تعداد میں ہونے کی وجہ سے انہیں واپس بھیجا گیا تھا۔
اس تحریک میں عورتوں کے کردار اور جرات کا 10 دسمبر کی ریلی میں اندازہ لگایا جا سکتا تھا جب قیادت کی طرف سے عورتوں کو ایک بار پھر ریلی میں آنے سے منع کیا گیا تو انہوں نے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی اور ریلی کے دن نہ صرف گوادر بلکہ پورے مکران سے ہزاروں عورتوں نے شرکت کی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ گوادر تحریک کی کامیابی میں سب سے بڑا کردار عورتوں کی ایک دلیرانہ جدوجہد کا ہی تھا جنہوں نے اپنے مرد محنت کش ساتھیوں کے ساتھ مل کر حکمرانوں کے خلاف ایک ایسی لڑائی لڑی کہ تحریک کے سارے مطالبات منوا لیے گئے۔ اسی بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے کے اندر مرد اور خواتین کی جدوجہد کوئی الگ تھلگ جدوجہد نہیں بلکہ مرد اور خواتین کی مشترکہ جدوجہد ہی کامیابی کی ضمانت دیتی ہے۔ اور معاشرے میں مرد و عورت ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں۔ گوادر کی تحریک میں عورتوں کے شاندار کردار نے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کی محنت کش خواتین کو شاندار جرات اور حوصلہ عطا کیا۔ جبکہ دوسری جانب بلوچستان کی سیاست میں ایک نئے باب کا آغاز کیا ہے۔ انہوں نے نام نہاد فرسودہ قبائلی معاشرے کا راگ الاپنے والے مڈل کلاسیے اور مذہبی جنونیت سے بھرپور ملاؤں کو اپنی اوقات یاد دلادی کہ اس معاشرے اور اس نظام کے اندر اگر کوئی جدوجہد کامیاب ہوتی ہے تو اس میں خواتین کا حصہ ناگزیر ہے۔
ہم گوادر سمیت پورے مکران ڈویژن کی محنت کش خواتین کو سلام پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے انتہائی پسماندگی و محرومی اور نام نہاد قبائلی فرسودگی کے باوجود وہ سب کچھ کر دکھایا جس کی بہت کم امید کی جاتی تھی۔