|تحریر: باحییا شوہدی؛ ترجمہ: ولید خان|
3 جولائی کو بر سر اقتدار آنے والی فوجی آمریت پچھلے چند دنوں سے پھرایک نئے بحران کی لپیٹ میں ہے۔ مختلف شہروں میں اشیا پر دی جانے والی سبسڈیوں میں کٹوتیوں کے خلاف۔۔خاص کر روٹی پر دی جانے والی سبسڈی میں کٹوتی کے خلاف۔۔ السیسی کے محنت کشوں اور غریبوں پر حملوں کے خلاف سینکڑوں مشتعل مصری جارحانہ احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔
To read this article in English, click here
سبسڈی میں کٹوتیوں کا اعلان اس ہفتے کے اوائل میں اس وقت کیا گیا جب سابق مصری آمر حسنی مبارک کے زمانے کے جرنیل اور السیسی کے نئے نامزد سپلائی منسٹر محمد علی مسلیحی نے، اپنے تئیں نچلے درجے کے سبسڈی کارڈ رکھنے والوں کیلئے مقررکردہ اشیا پر سبسڈی میں کٹوتیوں کا فیصلہ کیا جس سے سب سے زیادہ غریب ترین پرتیں متاثر ہوئی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس درجے کا نام ’’سنہرا درجہ‘‘ رکھا گیا ہے جس میں وہ لوگ شامل ہیں جن کے پاس کاغذی کارڈ ہیں یا سرے سے کارڈ موجود ہی نہیں۔ ہر حکومتی بیکری کو اس درجے میں 1500 ڈبل روٹیاں سبسڈی پر موصول ہوتی تھیں جن کو کم کر کے صرف 500کر دیا گیا ہے۔ انفرادی کارڈ رکھنے والے جو پہلے 20 ڈبل روٹیاں سبسڈی پر خرید سکتے تھے، ان کا راشن کم کر کے انہیں 5 ڈبل روٹیوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ وہ بھی اس صورت میں کہ اگر انہیں ڈبل روٹی مل جائے۔ اس اقدام کے سماج کی غریب ترین پرتوں پر تباہ کن اثرات پڑیں گے۔
پیر کے دن فیصلے کے بعد مختلف دور افتادہ شہروں میں چھوٹے چھوٹے احتجاج پھٹ پڑے۔ پہلے تو ان مظاہرین پر میڈیا نے کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ لیکن، منگل کو بڑے شہری مراکز جیسے اسکندریہ، جیزہ، منیا اور کافر الشیخ میں بھی احتجاج شروع ہو گئے۔
غریب علاقے امبابا(گیزا) میں پولیس کے آنے سے پہلے کئی سو لوگوں نے حکومتی سبسڈی کنٹرول دفتر پر دھاوا بول دیا اور کئی حکومتی اہلکاروں سے ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ بپھرا ہوا ہجوم صبح سویرے اپنا روزانہ کا راشن لینے کیلئے قطار میں کھڑا تھا لیکن انہیں یہ بہیمانہ فیصلہ سنا دیا گیا۔
اسکندریہ میں، المنسیشا اور دخیلا سمیت جو کہ محنت کشوں کے گڑھ ہیں، فسادات تیزی سے پھیل گئے جن میں احتجاج کے ساتھ ساتھ سڑکیں بھی بند کر دی گئیں۔ مظاہرین کو ڈرانے دھمکانے میں پولیس مکمل طور پر ناکام رہی جبکہ لوگ وزیر اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کرتے رہے۔
شمالی مصر کے شہر دسوق میں مشتعل مظاہرین نے’’ہمیں روٹی چاہیے‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے اہم شاہراہیں اور ریلوے لائنیں بند کر دیں۔
منگل کو رات گئے سپلائی منسٹر نے ٹی وی پر آ کر اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ بیکری مالکان کی کرپشن اور ان لوگوں کے خلاف کھڑا ہوا ہے جو جعلی سبسڈی کارڈ بنوا کر سستی ڈبل روٹی حاصل کرتے ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وزیر محمد علی غریبوں کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے۔
یہ فیصلہ واضح طور پر مصر کی غریب ترین پرتوں پر حملہ ہے اور مصری ریاست کے ان معاشی حملوں کی ہی ایک کڑی ہے جس کے نتیجے میں دیگر سبسڈیوں میں کٹوتیاں کر کے پبلک ٹرانسپورٹ، تیل اور دوائیوں کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ عوام پر یہ دباؤ اور بھی بڑھ گیا جب حکومت نے مصری پاؤنڈ کو حکومتی کنٹرول سے نکال کر کرنسی کی قدر کو منڈی کی طلب و رسد کے مطابق طے ہونے کیلئے چھوڑ دیا جس کے باعث اس کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں تیزی سے کم ہو گئی۔ السیسی کی پراپیگنڈہ مشینری سمیت اس کی تمام سفارتی اور حکومتی کٹھ پتلیاں پوری دنیا میں اس فیصلے کا دفاع کر رہی ہیں۔ لیکن یہ فیصلہ، جس کے متعلق مصری مرکزی بینک کے گورنر کا کہنا تھا کہ اس سے ’’میری بیوی بہت خوش ہے‘‘،عام مصریوں کیلئے تباہ کن ثابت ہوا ہے جو پہلے ہی غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔
مصر میں روٹیوں پر فسادات ایک مخصوص قسم کی روایت ہیں؛ 2008ء میں روٹیوں پر فسادات ایسے احتجاجوں میں تبدیل ہو گئے جن میں پولیس کے تشدد کی وجہ سے کئی اموات ہوئیں۔۔ روٹی کے شہدا۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس وقت سے اب تک کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا ہے: علی مسیلحی۔۔جو پہلے مبارک کی آمر پارٹی کے پالیسی سیکرٹریٹ کا حصہ ہوتاتھا اب انقلاب کے بعد مصری پارلیمان کی معاشی کمیٹی کا چیئرمین ہے اور بنیادی اشیائے زندگی کی سپلائی کا ذمہ دار ہے۔ وہی پرانے چہرے، جو پہلے مبارک کے مصر میں حکمران ٹولے کا حصہ تھے آج دوبارہ انہی کرسیوں پر واپس آ رہے ہیں۔
اسی دوران بدنام زمانہ مصری خفیہ ایجنسی ’’مخابرات‘‘ نے ملک کی عالمی سطح پر ساکھ بہتر کرنے کیلئے دو امریکی پبلک ریلیشن کمپنیوں کو کروڑوں ڈالر دیئے ہیں۔ جولیو ریجینی اور حالیہ میکسیکو کے باشندوں سے بھری بس کے فوج کے ہاتھوں قتل کے بعد ریاست اپنی سیاحت کی انڈسٹری کو دوبارہ پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔
السیسی ملک کے کروڑوں غریبوں کے بل بوتے پر انتخابات جیت کر آیا تھا جو آج فوج اور السیسی کی خوفناک پالیسیوں تلے پس رہے ہیں، جبکہ مصر، سفارت اور سیاحت جیسے طفیلی شعبوں میں اپنا مقام بہتر کرنے کیلئے بیرون ملک کروڑوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔
منگل کے احتجاجوں کو السیسی اور آمریت کے خلاف ابھرنے والی چھوٹی چھوٹی بغاوتوں کے حوالے سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ پورٹ سعید سٹیڈیم کے قتل و غارت میں شامل نام نہاد دس لوگوں کی سزائے موت کے خلاف پورٹ سعید کے لوگوں نے فروری کے شروع میں شہر کی تمام بتیاں بجھا دیں۔ کاپٹک مردوں(عیسائی فرقہ) نے عباسیہ کتھیڈرل پر داعش کے بم حملے کے نتیجے میں 27جانوں کے ضیاع سے متعلق ناکام حکومتی اقدامات کے خلاف نومبر 2016ء میں احتجاج کیا۔ اسی سال ستمبر میں مختلف شہروں میں بچوں کیلئے فارمولا دودھ (جس پر سبسڈی دی جاتی ہے) کی قلت کے خلاف احتجاج ہوئے جس کے بعد فوج نے اس صنعت پر قبضہ کرتے ہوئے اپنی اجارہ داری قائم کر لی۔
ان تمام تر واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ مصری سرمایہ داری اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔ شدید گلے سڑے ہونے کی وجہ سے یہ اب عام شہریوں کو بنیادی سہولیات زندگی دینے کے قابل بھی نہیں رہی۔ آج، روسی انقلاب کے سو سالوں بعد ایک بار پھر مصری عوام نے ’’ روٹی!‘‘ کا نعرہ لگایا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ روسی محنت کشوں اور کسانوں کی طرح آگے بڑھ کر اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیا جائے اور اس گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کر دیا جائے۔