|تحریر:IMT برازیل سیکشن، ترجمہ: ولید خان|
برازیلی عام انتخابات کے پہلے مرحلے میں بولسونارو فتحیاب ہو کر جمہوریہ کا ممکنہ صدر بننے کی مضبوط پوزیشن میں آ گیا ہے۔ 14.7 کروڑ ووٹروں میں سے 33 فیصد نے اس کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ ہداد (ورکرز پارٹی، PT کا امیدوار) کو 21 فیصد ووٹ پڑے۔ تمام ووٹروں میں سے 27.32 فیصد (4کروڑ سے زائد)نے کسی امیدوار کو ووٹ نہیں ڈالا۔ گلی محلے کی سطح پر کم و بیش یہی جذبات موجود ہیں۔
انتخابی کورٹ کی نام نہاد ’’درست ووٹوں‘‘ کی گنتی سے یہ تاثر ملتا ہے کہ فاتح کو عوامی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔
PSDB کا تو صفایا ہو گیا: 2014ء میں 54 ممبران پارلیمنٹ اب گھٹ کر 29 رہ گئے ہیں۔ MDB کے ممبران 66 سے گھٹ کر 34 رہ گئے ہیں۔ PT کے پاس 56 کی تعداد کے ساتھ ابھی بھی سب سے زیادہ ممبران پارلیمنٹ موجود ہیں حالانکہ 2010ء (88) اور 2014ء (69) کے بعد اس تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
بولسونارو کی PSL کی تعداد ایک سے بڑھ کر اب 52 ہو چکی ہے۔ صدارتی منصب سے کوسوں دور رہنے کے باوجود PSOL کے ممبران 6 سے بڑھ کر 10 ہو چکے ہیں۔ 513 میں سے صرف 240 ممبران ہی دوبارہ منتخب ہو سکے ہیں۔ شدید سیاسی پولرائزیشن کی موجودگی اور یہ نتائج برازیل میں ایک نئی صورتحال کو جنم دے رہے ہیں۔
محنت کش طبقے کی کوئی سیاسی نمائندگی موجود نہیں
2015ء میں مارکس وادیوں نے PT چھوڑتے وقت واضح کیا تھا کہ پارٹی محنت کش طبقے اور نوجوانوں سے ناطہ توڑنے کے بعد ان میں اپنی روایتی حمایت کھو چکی ہے۔ ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ ممکن ہے PSOL کو محنت کشوں کے متبادل سیاسی اظہار کے طور پرتعمیر کیاجا سکے۔ تین سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد ان انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج نے PT کے حوالے سے ہمارے تجزیئے کو درست ثابت کیا ہے جبکہ PSOL ابھی تک عوامی مزدور پارٹی بننے سے کوسوں دور ہے۔
PT کو تمام محنت کش علاقوں میں اسی طرح شکست ہوئی جس طرح دو سال پہلے بلدیاتی انتخابات میں شکست ہوئی تھی۔ ساؤ پالو، ریو ڈی جنیرو، میناس جیریس اور یقیناًتمام بڑے شہروں کے مزدور علاقوں میں پارٹی کو شرمناک شکست ہوئی۔ اس وقت PT ایک ایسی پارٹی بن چکی ہے جو محنت کشوں اور نوجوانوں کے بجائے ہر گزرتے دن کے ساتھ دوردراز کے علاقوں میں حمایت کے بل بوتے پر زندہ ہے۔ انتخابی نقشہ بشمول شمال مشرقی علاقوں کے یہی بتاتا ہے۔
PSOL نے پارلیمنٹ میں اپنی تعداد میں اضافہ تو کیا ہے لیکن فی الحال یہ دور دور تک عوامی پارٹی نہیں ہے۔ اس کے صدارتی امیدوار بولوس کو پارٹی کی تاریخ میں سب سے کم ووٹ ملے۔ اس سے سوشلزم کا دفاع کرنے کے بجائے ’’دوسریPT‘‘ بننے کے ’’لائحہ عمل‘‘ کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ اگر ساؤ پالو میں پارٹی کو کسی بھی دوسری ’’بائیں بازو‘‘ کی پارٹی سے زیادہ ووٹ پڑے تو اس میں اس کا کوئی کمال نہیں بلکہ یہPT کے دیوالیہ پن کا نتیجہ ہے۔
مزدوروں کی سیاسی نمائندگی کے مکمل دیوالیہ پن کے نتیجے میں صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کی اصطلاح میں ’’قدامت پسند لہر‘‘ یا ’’دائیں بازو کی لہر‘‘ نے بولسونارو کو پہلے مرحلے میں تقریباًصدر بنا ہی دیا تھا۔
یہ انتہائی نازک صورتحال ہے۔ PT کے موجودہ لائحہ عمل میں کوئی خاص تبدیلی کی امید نہیں۔ مارکس وادیوں کے لئے خصوصی اور سوشلسٹوں اور مزدور تحریک میں متحرک ہونے کے خواہش مند افراد کے لئے عمومی سوال یہ ہے کہ بولسونارو کا مقابلہ کرنے کا بہترین طریقہ کار کیا ہے؟
بولسونارو کس مظہر کی علامت ہے؟
اگر ہم بولسونارو کو عالمی صورتحال کے تناظر میں دیکھیں تو یقینی طور پر اس کا موازنہ دیگر انتہائی دائیں بازو کے سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں سے بنتا ہے: امریکہ میں ٹرمپ، فرانس میں میری لی پین، اٹلی میں دی لیگ، جرمنی میں AfD وغیرہ وغیرہ۔ مثلاً، امریکہ میں ٹرمپ تحفظاتی اقدامات اور مقامی نوکریوں کی تخلیق کاری کا داعی ہے۔ بولسونارو اور اس کا معیشت دان پاؤلو گویدیس انتہائی لبرل معاشی پالیسی، عالمی منڈی کی غلامی (بولسونارو نے امریکی جھنڈے کو سیلوٹ بھی کیا ہے)، ریاستی تحویل میں موجود ہر چیز کی نجکاری، موجودہ مزدور حقوق جیسے ’’تیرہویں تنخواہ‘‘ (ہر سال ایک اضافی تنخواہ کا حق)، چھٹیوں، پنشنوں وغیرہ کے خاتمے کے داعی ہیں۔ ظاہر ہے ’’برے افراد‘‘ کے خلاف عوام کو مسلح کرنے کی لفاظی صرف فریب ہے جس کے ذریعے وہ پولیس کے پاس موجود قتل کی اجازت کے دائرہ کار کو اور زیادہ بڑھاتے ہوئے مزدور اور طلبا تنظیموں کی سرکوبی کی حوصلہ افزائی کرے گا۔
عالمی صورتحال کی مثالوں اور بولسونارو میں واحد مشترک قدر یہ ہے کہ تمام مظاہر کی واحد وجہ سماج کی بنیادوں میں موجود شدیداسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات ہیں۔ ان تمام مظاہر کا ایک ہی نکتہ آغاز ہے: عالمی سیاسی عدم استحکام اور دائیں اور ’’بائیں‘‘ بازو کے ’’اعتدال پسند‘‘ اشتراک کی مایوسی جو باریاں لگا لگا کر اس نظام کو چلاتے ہیں، ان کی بنیاد میں گہرا ہوتا خوفناک سرمایہ داری کا بحران۔
اس عالمی تناظر میں بولسونارو کا تجزیہ کرتے ہوئے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے حامیوں کی اکثریت نسل پرست، مردانہ جاہ پرست، آمریت پسند اور فاشسٹوں پر مشتمل نہیں۔ گو کہ ان کی حمایت بہرحال اسے حاصل ہے۔ لیکن اس کے ووٹروں میں مزدور شامل ہیں جو منشیات فروشوں اور پولیس کے درمیان پھنسے اپنے خاندانوں کا تحفظ چاہتے ہیں۔ ان میں نوجوان بھی شامل ہیں جو موجودہ سیاست سے شدید نالاں ہیں اور کسی ایسے شخص کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں جو اس گلے سڑے نظام کو زمین بوس کر دے۔ اور ظاہر ہے کہ ساتھ ہی کچھ پیٹی بورژوا عناصر بھی شامل ہیں جو بحران سے خوفزدہ ہو کر ٹیکسوں اور مزدور حقوق میں کمی کے ذریعے اپنے معیار زندگی کو بہتر کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن آج کوئی عوامی فاشسٹ پارٹی موجود نہیں ہے جو ہجوم اکٹھے کر کے محنت کش تنظیموں پر منظم حملے کرے ، حالانکہ سماجی پولرائزیشن کے اس ماحول میں فاشسٹ گروہ اپنے تحرک میں پر اعتماد بھی ہیں۔ ننگی آمریت کو قائم و جاری رکھنے کے لئے کوئی سماجی بنیاد موجود نہیں ہے۔ فوجی آمریت کے حامی جتنا مرضی واویلا مچا لیں، حقیقت یہی ہے کہ وہ اقلیت میں ہیں۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ریاستی مشینری کے ذریعے مزدوروں اور نوجوانوں پر حملہ کر کے انہیں دبانا اور جرائم میں ڈبونا آج بورژوازی کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک آمریت یا فاشسٹ حکومت کو محنت کش طبقے کو شکست دینی پڑے گی جو اس وقت منتشر تو ضرور ہے لیکن شکست خوردہ نہیں۔
درحقیقت بولسونارو اسٹیبلشمنٹ اور سیاست دانوں کے خلاف سماج کی مختلف پرتوں کی نفرت کا مسخ شدہ اور تعفن زدہ اظہار ہے۔ اس کی پالیسیاں پرتشدد جبر، عوامی سہولیات کی تباہی اور لامتناہی نجکاری پر مبنی ہیں اور ناگزیر طور پر ان کے نتائج مزید بیروزگاری اورتکلیف دہ اذیت ہوں گے۔ بولسونارو کی حمایت میں کوئی فاشسٹ پارٹی تو موجود نہیں لیکن وہ یقیناًریاست کے جبری آلات کو استعمال کرتے ہوئے اپنے رجعتی ایجنڈے کو لاگو کرے گا۔ اس امکان کو خارج تو نہیں کیا جا سکتا لیکن اس ہدف کے لئے بنیادی شرط مزدور تنظیموں کی شکست اور تباہی ہو گی تاکہ وہ اپنے مطالبات سے بھی دستبردار ہو جائیں۔
پھر ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ (کچھ عرصہ پہلے تک) بولسونارو کو قومی اور بین الاقوامی بورژوازی کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ پہلے مرحلے میں برازیل کی انتہائی قدامت پسند دیہی پرتیں، سابق پولیس افسران اور مکروہ ترین مذہبی فرقے اس کے سب سے پرجوش حامی تھے۔در حقیقت دوسرے مرحلے میں بورژوازی کی حمایت کا مطلب یہ ہے کہ وہ بولسونارو کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ بدترین استحصال قائم رکھتے ہوئے اپنی عیش و عشرت جاری رکھنے کے خواہش مند ہیں۔
فوجی بغاوت، ممکنہ فاشزم اور آمریت سے خوفزدہ ہو کر کچھ بائیں بازو کے سرگرم کارکنان کو PT ، لولا اورڈیلما کی حکومتوں میں ایسی خوبیاں نظر آنی شروع ہو جائیں گی جو کبھی ان میں موجود تھیں ہی نہیں۔ واقعات کے دباؤ میں وہ ہتھیار ڈال رہے ہیں۔ دیگرکو انتہائی دائیں جانب موجود بولسونارو اور بورژوا مزدور پارٹی PT(لینن کی سوشل ڈیموکریسی کی تشریح ) کے درمیان فرق سمجھ نہیں آ رہا۔ یہ وہ فرقہ پسند ہیں جن کے مطابق کوئی فرق نہیں پڑتا کہ فاتح کون ہے اور یہ یقیناًانتخابات کے دوسرے مرحلے میں گند پھیلائیں گے۔
اس وقت موجودہ سیاسی صورتحال خوفناک آتش گیر مادہ ہے۔ بورژوازی کو اچھی طرح ادراک ہے کہ ایک بھی غلط قدم صورتحال کو دھماکہ خیز انقلابی جدوجہدکی طرف دھکیل سکتا ہے۔ آج بھی جون 2013ء کا بھوت ان پر منڈلا رہا ہے۔
ورکرز پارٹی (PT)
PT اور اس کی حکومت نے محنت کش طبقے کو ناقابل تلافی دھوکہ دیا، ان پر خوفناک معاشی حملے کیے اور عالمی سرمائے کے سامنے سر سنگوں ہو گئے۔ لولا اور دیگر PT قائدین نے ایک عوامی پارٹی کو تباہ وبرباد کر دیا جسے محنت کش طبقے نے جدوجہد کے ایک اوزار کے طور پر تعمیر کیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جدوجہدیں منتشر ہیں اور موجودہ صورتحال اس بوکھلاہٹ کا منطقی انجام ہے۔
اس وجہ سے PT نے شہری پرولتاریہ، فیکٹریوں اور نوجوانوں میں اپنی حمایت کھو دی اور اب اس کی انتخابی بنیادیں صرف ماضی کی یادوں پر قائم ہیں جب کچھ معاشی ترقی کے نتیجے میں نوکریاں موجود تھیں اور آسان قرضوں پر اشیائے صرف کا حصول ممکن تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج مقامی اور عالمی معاشی صورتحال تبدیل ہو چکی ہے: پینترے بدلنے کے لئے درکار خلا اب موجود نہیں۔ حکمرانوں کے پاس مزدوروں پر حملوں کے علاوہ اور کوئی راستہ موجود نہیں۔ پرولتاریہ کو اپنے راستے میں موجود رکاوٹوں کو روندتے ہوئے از سر نو منظم ہو کر جدوجہد کے لئے متحرک ہونے کا چیلنج قبول کرنا پڑے گا۔
PSOL کے نتائج
PSOL کی طرف سے انتخابات میں ایک ایسا صدارتی امیدوار میدان میں اتارا گیا جس کی شخصیت انتخابی موقع پرستی کے زیر اثر اصلاح پسند لفاظی اور پیٹی بورژوا رجحانات کا بھرپور اظہار تھی۔ اس وجہ سے پارٹی اپنے آپ کو بطور PT متبادل پیش کرنے میں ناکام رہی۔ محنت کش طبقے اور نوجوانوں کے نکتہ نظر سے ان کی صریحاً غلط پالیسی کی عکاس ان کا انتخابی منشور’’50 بولوس تراکیب‘‘ تھا۔ اس منشور کو ایک اشیاء خوردونوش کی ترکیبی کتاب کی طرز پر پیش کیا گیا جو اسپین میں تیزی سے ابھرنے والی بائیں بازو کی پوڈیموز پارٹی کے لیڈر پابلو اگلیسیاس کی واضح نقالی تھی (اگلیسیاس نے اپنے پروگرام کو IKEA کی فرنیچر فہرست کی طرز پر پیش کیا تھا)۔ اپنے پروگرام میں بولوس نے ’’فروغِ کاروبار‘‘ کی تعریف کرتے ہوئے PT کی طرح ترغیبی پالیسیاں پیش کیں تاکہ سرمایہ داری کو اور زیادہ ترقی دی جا سکے۔
انتخابی مہم میں شکست کو سامنے دیکھتے ہوئے آخری لمحات میں بولوس نے پینترا بدلتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ ’’نظام کے خلاف‘‘ ہے۔ لیکن 50 ترکیبوں کی موجودگی اور PT او ر لولا سے اپنے آپ کو منفرد کرنے میں ناکامی کی وجہ سے یہ داؤ ناکام گیا۔
ان تمام وجوہات کی وجہ سے PSOL ان افراد کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی جن کا موجودہ سیاسی نظام سے اعتماد اٹھ گیا ہے، حالانکہ شدید محدودیت کے باوجود اس ضمن میں اسپین میں پوڈیموز، فرانس میں ملینشاں کی انسومی، برطانیہ میں کوربن، یہاں تک کہ امریکہ میں برنی سینڈرز بھی یہ حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
بولوس کی نامزدگی اور انتخابی مہم PSOL قیادت کی ناقابل تلافی غلطیاں ہیں۔ انہوں نے پارٹی کے ممکنہ متبادل امکانات کو معدوم کر دیا، اس کی جنگجو خوبیوں کو ٹھنڈا کر دیا اور پچھلے انتخابات کے مقابلے میں دیو ہیکل پسپائی اختیار کی۔ یہ مہم بغیر شناخت، بغیر شخصیت اور ایک دائیں بازو کے اصلاح پسندپروگرام پر مبنی تھی، یہاں تک کہ اس مہم میں ’’فروغِ کاروبار‘‘ کا دفاع بھی کیا گیا۔ یعنی نوجوانوں اور محنت کشوں کو سرمایہ داری میں کامیابی کی راہ پر گامزن کیا جائے۔ اس سارے ڈرامے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بولوس کو PSOL کی تاریخ میں بدترین ووٹ پڑے جو پارلیمنٹ میں ممبران کی تعداد میں اضافے کے برخلاف ہے۔
PSOL کو ہر صورت اپنے آپ کو ان پالیسیوں سے دور کرنا پڑے گا جن کی وجہ سے PT کا انہدام ہوا، ورنہ اس کے لیے حقیقی سوشلسٹ پارٹی بننا ناممکن ہے۔ تمام مارکس وادیوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایک آزاد حقیقی سوشلسٹ پارٹی کے قیام میں اپنی تمام تر معاونت فراہم کریں۔
انہی اہداف کے ساتھ مارکس وادیوں نے انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے فعال افراد اور حامیوں کو سیاسی طور پر منظم کرنے کی مہم کی۔ یہ طبقاتی آزادی کا جنون تھا جس کی وجہ سے ہم نے انتخابی فنڈ اور فریقین کی جانب سے پیش کردہ بورژوا ریاستی پیسے کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ یہ تمام تر مہم ہمدردوں کے پیسوں سے فنڈ کی گئی تھی جس کی وجہ سے حقیقی سیاسی آزادی ضمانت تھی۔
ابھی بھی کچھ حتمی نہیں۔ وہ 27.32 فیصد افراد، جنہوں نے ووٹ نہیں دیا اور دیگر امیدواروں کے ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے اب ایک کھلی جنگ شروع ہو گی۔دوسرے مرحلے میں ہم بولسونارو کو شکست دینے کی جدوجہد کریں گے۔
مارکس وادی اپنے تمام حامیوں کو انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بولسونارو کے خلاف ووٹ ڈالنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ہم ہداد کے پروگرام پر ایک لمحہ اعتبار کیے بغیر PT کو ووٹ ڈالیں گے۔ ہمارا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ بولسونارو کا راستہ روکا جائے۔ ہماری جدوجہد اس گلے سڑے نظام کا خاتمہ اور ایک حقیقی مزدور حکومت کا قیام ہے، مالکان کی نجی ملکیت پر قبضہ اور معیشت کی جمہوری منصوبہ بندی ہے۔
اگست 1917ء میں بالشویکوں نے لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں سیکھا کہ کورنیلوف کی رد انقلابی بغاوت کا کرنسکی حکومت کی حمایت کیے بغیر کیسے مقابلہ کیا جائے جس نے جولائی 1917ء میں بالشویکوں کی سرکوبی کرتے ہوئے ٹراٹسکی کو گرفتار کر لیا اور لینن کو جلا وطنی پر مجبور کر دیا۔ 1930ء کے اوائل میں سٹالن کے احکامات پر کمیونسٹ پارٹی نے نازی ازم کے خلاف جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت سے انکار کر دیاجنہیں وہ ’’سوشل فاشسٹ‘‘ گردانتے تھے۔ اس مجرمانہ بائیں بازو کی حکمت عملی کے نتیجے میں نازی ازم کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقع مل گیا جس کے بعد انہوں نے کمیونسٹوں اور سوشل ڈیموکریٹس کا بے رحم قتل عام کیا۔
ٹراٹسکی نے 1932ء کے ایک خط میں جرمن صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
’’موسیقی میں سات سر ہیں۔ یہ سوال کہ’سا‘، ’رے ‘یا’ گا‘ میں سے کونسا سر’بہتر‘ ہے، ایک بے معنی سوال ہے۔ لیکن موسیقار کو معلوم ہونا چاہیے کہ کب بجانا ہے اور کن سروں کو بجانا ہے۔ یہ تجریدی سوال کہ بروننگ یا ہٹلر میں سے کونسی کم تر برائی ہے، یہ بھی بے معنی ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کونسا سر بجانا ہے۔ کیا یہ واضح ہے؟ جن کی سمجھ میں نہیں آیا، ان کے لئے ایک اور مثال: اگر میرا ایک دشمن روزانہ مجھے زہر کی قلیل مقدار کھانے پر مجبور کرے، اور ایک اور دشمن، ایک گلی میں چھپ کر مجھے گولی مارنے لگے تو میں دوسرے دشمن کا ہاتھ پکڑ لوں گا تاکہ مجھے اپنے پہلے دشمن سے چھٹکارا حاصل کرنے کا موقع مل جائے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ زہر پستول سے ’کم تر‘ برائی ہے۔‘‘
انتخابی مرحلے کے دوسرے دور میں مسئلہ یہ ہے کہ بولسونارو سے ’’پستول چھیننا‘‘ ہے اور ’’زہر‘‘ کے خلاف جدوجہد جاری رکھنی ہے؛ PT حکومت کے ناگزیر حملوں کے خلاف جدوجہد۔ ان دونوں ممکنہ انتخابات میں بہتر ہے کہ محنت کش طبقہ اپنی قوتوں کو پہچانے اور مستقبل کی فتوحات کی تیاریاں کرے۔
وہ تمام ریاستیں جہاں بورژوا پارٹیوں کے درمیان گورنرشپ کا مقابلہ ہے، مارکس وادی تمام فعال افراد اور حامیوں کو ان کے ووٹ خراب کرنے یا ووٹنگ سے اجتناب کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
کوئی شکست، کوئی مایوسی یا فاشزم ہمارا انتظار نہیں کر رہی۔ اس وقت سماجی پولرائزیشن، ناکام ریاست، انقلابی قیادت کی عدم موجودگی اور محنت کش طبقے کے روایتی قائدین کے دھوکے موجود ہیں۔ لیکن عوام کی اکثریت جدوجہد کرنا چاہتی ہے، جو موقع ملتے ہی اپنے غم و غصے کا اظہار کرے گی۔ آنے والے وقت میں طبقاتی جدوجہد میں مزید شدت آئے گی اور یہ گلیاں، فیکٹریاں، کام کی جگہیں اور سکول ہیں جہاں ہم نے اپنے دشمنوں کو شکست دینی ہے۔
مارکس وادی کھلے عام دعوت دیتے ہیں کہ ہماری منظم کردہ کھلی میٹنگوں میں آ کر پہلے مرحلے کے نتائج پر بحث کی جائے۔ ہم تمام سرگرم افراد، ہمدردوں اور حامیوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ہماری تنظیم میں شمولیت اختیار کریں، ہمارے ساتھ مل کر جدوجہد کریں اور محنت کش طبقے کی ضرورت، ایک پرولتاری پارٹی کی تخلیق میں اپنا کردار ادا کریں۔