|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، پروگریسو یوتھ الائنس، سندھ|
21 جنوری 2024ء کو انقلاب روس 1917ء کی قیادت کرنے والی پارٹی (بالشویک پارٹی) کے قائد لینن کی 100ویں برسی کے موقع پر ریڈ ورکرز فرنٹ اور پروگریسو یوتھ الائنس کے زیر اہتمام پریس کلب حیدر آباد میں عالمی شہرت یافتہ کمیونسٹ رہنما ایلن ووڈز کی تصنیف ’بالشویزم: راہ انقلاب‘ کے اردو ایڈیشن کی تقریب رونمائی کی گئی۔
اس تقریب میں طلبہ اور محنت کشوں سمیت ترقی پسند سیاسی کارکنان نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ کتاب کے مترجم اور ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی نائب صدر یاسر ارشاد نے بھی اس تقریب میں خصوصی شرکت کی۔
تقریب میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض پروگریسو یوتھ الائنس سندھ کے آرگنائزر کامریڈ مجید نے ادا کیے۔ پروگریسو یوتھ الائنس سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام کے آرگنائزر مرتضیٰ نے انقلابی نظم سنا کر تقریب کا آغاز کیا۔
اس کے بعد ریڈ ورکرز فرنٹ حیدرآباد کے آرگنائزر کامریڈ علی عیسیٰ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ دیگر مقررین میں حیدرآباد روشن خیال فورم کے کنوینر و ادیب ڈاکٹر حمید سومرو، عالمی مارکسی رحجان (IMT) کے رہنما پارس جان، سندھ یونیورسٹی کے استاد پروفیسر ہنس راج، عوامی ورکرز پارٹی کے وفاقی سیکرٹری جنرل بخشل تھلو اور محنت کشوں کے ملک گیر تنظیم ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی نائب صدر اور کتاب کے مترجم یاسر ارشاد تھے۔
علی عیسیٰ نے شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج پوری دنیا میں محنت کش طبقہ معاشی بدحالی، جنگ اور قتل و غارت گری کا سامنا کر رہا ہے جبکہ حکمران طبقہ اپنی عیاشیوں اور آپسی نورا کشتی میں مصروف ہے۔ بالخصوص پاکستان کا حکمران طبقہ اس حوالے سے اپنی مثال آپ ہے، جس کا اظہار نام نہاد الیکشن کے نام پر سجنے والے سرکس میں نظر آرہا ہے۔ جبکہ لبرل دانشور حضرات اس تمام تر جبر کے نظام کو قائم رکھنے کے لئے سرمایہ دارانہ جمہوریت کو ہی حل بنا کر عوام کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ لہٰذا ہم بحیثیت محنت کش طبقے کے سپاہی اور لینن کے شاگرد کے، لینن کی ہی زبانی یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ”جمہوریت؟ کونسے طبقے کیلئے؟“ اسی طرح آج یہ کہا جارہا ہے کہ انقلاب ناممکن ہے جبکہ تمام تر موجودہ تحریکیں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ یہ دنیا ایک نئے عہد میں داخل ہوچکی ہے۔ اس عہد کو بلاشبہ ایک نظام کے مرنے اور دوسرے کے جنم کا عبوری عہد کہا جاسکتا ہے۔ مگر یہ تبدیلی کامیابی سے ہمکنار تب ہی ہو سکتی ہے جب انقلابی پارٹی موجود ہو۔ مارکسزم کے سائنسی نظریات سے لیس بالشویک پارٹی کی طرز کی ایک انقلابی پارٹی ہی اس تبدیلی کی کی کامیابی کی ضامن ہے۔
اس کے بعد پروفیسر ہنس راج اوڈ کو مدعو کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وقت و حالات کے مطابق نظریات کو عملی طور پر عوام، بالخصوص محنت کش طبقے میں لے جانے کا سہرا بلاشبہ لینن اور اس کی بالشویک پارٹی کو ہی جاتا ہے۔
ڈاکٹر حمید سومرو نے کتاب کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ لینن نے تاریخ کے مختلف واقعات میں اپنی نظریاتی پختگی اور واضح سیاسی پوزیشنز کے ذریعے نہ صرف سامراجی قوتوں کے خلاف مظلوموں کی حقیقی آواز کو بلند کیا بلکہ انٹرنیشنل پارٹی بناکر مارکسزم کے نام پر تمام تر موقع پرستی پر مبنی رحجانات کے خلاف عملی جدوجہد بھی کی۔
عوامی ورکرز پارٹی کے وفاقی سیکرٹری جنرل بخشل تھلو نے لینن کی برسی کی مناسبت سے تقریب کے منتظمین اور مترجم کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ لینن اور بالشویک پارٹی کی روایات آج بھی مشعل راہ ہیں۔
اس کے بعد ”لبرل ازم پر مارکسی تنقید“ نامی کتاب کے مصنف اور عالمی مارکسی رحجان (IMT) کے رہنما کامریڈ پارس جان نے عہد حاضر میں لینن ازم اور بالشویک پارٹی کی اہمیت پر بات کی۔
تقریب کے اختتامی کلمات کتاب کے مترجم کامریڈ یاسر ارشاد نے ادا کیے۔ یاسر ارشاد نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ عہد میں سماج کی انقلابی تبدیلی کی خواہش رکھنے والے ہر نوجوان کیلئے مارکسزم، لینن ازم اور بالشویزم کو پڑھنا لازم ہے۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ حکمران کس طرح اپنے جعلی اور دقیانوسی نظریات کے ذریعے محنت کش طبقے میں دراڑیں ڈالتے ہیں۔ گزشتہ سال بھی اسی طرح غلیظ حکمرانوں نے بحران کا سارے کا سارا ملبہ افغان مہاجرین کے سر ڈال دیا جو کہ درحقیقت اپنی نااہلی چھپاتے ہوئے اپنے آقاؤں کی روایت ”تقسیم کرو اور حکمرانی کرو“ کی پالیسی کو سماج پر لاگو کرنا تھا۔ لہٰذا ان تمام تر تعصبات کو سمجھنے اور ان سے لڑنے کیلئے لینن ازم ہی مشعل راہ بن سکتا ہے۔ آج کے انقلابی عہد کے اندر پاکستان اور پوری دنیا میں ابھرنے والی تحریکوں کے پس منظر میں صرف بالشویک پارٹی کی طرز پر بنی ایک انقلابی مارکسی پارٹی ہی استحصال، مہنگائی، بیروزگاری اور جبر اور ظلم کا خاتمہ کرسکتی ہے۔
اختتام پر ریڈ ورکرز فرنٹ سندھ کے آرگنائزر کامریڈ رشید آزاد نے قرار دار پیش کی جس میں مندرجہ ذیل نکات شامل تھے:
1۔ واپڈا کے محنت کشوں کی آواز کو دبانے کی غرض سے پاور سیکٹر میں یونین کی بندش کے فیصلے کو فوری واپس لیتے ہوئے تمام آئی پی پیز کو سرکاری تحویل میں لے کر عوام کو مفت بجلی مہیا کی جائے۔
2۔ ریلوے میں ورکشاپ اور اوپن لائن میں ایک ہی ریفرنڈم کیا جائے۔
3۔ بلوچوں سمیت تمام مظلوم قومیتوں پر جاری جبر کا خاتمہ کرتے ہوئے لاپتہ افراد کو فی الفور بازیاب کیا جائے۔
4۔ کشمیر اور گلگت بلتستان میں جاری عوامی تحریک کے تمام تر مطالبات کو تسلیم کیا جائے۔
5۔ طلبہ یونین کے فوری الیکشن کرائے جائیں اور مفت تعلیم کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
6۔ محنت کش، کسان اور طلبہ کی جدوجہد کو منزل مقصود تک پہنچانے کا واحد ذریعہ سوشلسٹ نظریات ہیں۔
ہال میں موجود تمام شرکا نے قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالا۔