|تحریر: آمنہ فاروق|
بورژوازی نے اپنے مفادات کے لیے جہاں مجموعی طور پر محبت کش طبقے کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کر رکھا ہے وہاں آبادی کے نصف حصے کو شعوری طور پر غیر سیاسی باور کرانے کے لیے صنف نازک کا نام دیا ہے ۔ خواتین جنھیں عمومی طور پر سماج کی سب سے پسماندہ پرت سمجھا جاتا ہے انھوں نے تاریخ میں با رہا انقلابات جیسی غیر معمولی کیفیا ت میں بھی ہراول کردار ادا کیا ہے ۔ ماضی کے عظیم ترین انقلاب، انقلابِ روس کو دیکھیں تو ایسی ہزاروں خواتین کے نام سامنے آتے ہیں جنہوں نے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ نے اور انقلاب کی تعمیر کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں ۔ انقلابِ روس کی تاریخ کا جائزہ لیں تو پہلی عالمی جنگ کے دوران خواتین بڑی تعداد میں ورک فورس کا حصہ بنیں ۔ جب جنگ شروع ہوئی تو اس وقت کل صنعتی مزدوروں کا تقریباًایک تہائی حصہ خواتین پر مشتمل تھا اور ان کی بھی زیادہ تر تعداد ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ تھی۔ جب مزدوروں کو فوج میں لڑائی کی غرض سے جبراً بھرتی کیا گیا تو اس تعداد میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔
محنت کش خواتین نے روس کے سامراجی جنگ کا حصہ بننے کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی مشکلات کے خلاف ہونے والے مظاہروں اور ہڑتالوں میں بھرپور شرکت کی تھی۔ جنگ کی تباہ کارویوں کے سب سے زیادہ اثرات عورتوں پر مرتب ہوئے تھے ۔ مردوں کو محاذ جنگ پر بھیج دینے کے باعث خواتین کو جبر اً فیکٹریو ں میں بھرتی کیا گیا تھا۔ اور ان محنت کش خواتین کو جنگ کی سماجی تباہ کاریوں کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ان تلخ حالات سے سیکھتی جا رہی تھی اور خود کو منظم کر رہی تھیں۔ ٹیکسٹائل کی صنعت میں نصف سے زیادہ خواتین تھیں جن سے سخت مشقت کرائی جاتی تھی ان خواتین کو سیاسی طور پر منظم کرنے کا کام بالشویک پارٹی نے کیا اس مقصد کی خاطر انہوں نے 1914ء میں عورتوں کے ایک اخبار کا اجرا بھی کیا تھا۔ جس کا نام ‘‘محنت کش خاتون‘‘ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ پراودا میں ایک صفحہ عورتوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے مختص کیا گیا تھا۔ لینن اپنی تحریروں اور تقاریر میں پرولتاری خواتین میں کام کی اہمیت پر زور دیتا تھا۔ بالشویک پارٹی میں خواتین کو منظم کرنے کا ہی نتیجہ تھا کہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر خواتین باہر نکلیں اور مظاہرے کیے، یہ احتجاج ایک تحریک کی صورت اختیار کر گیا اور 1917ء کے عظیم انقلاب کا نقطہ آغاز بھی۔
اس انقلاب نے محنت کش خواتین کو جو مراعات دیں وہ اس سے قبل کبھی حاصل نہیں ہوئی تھیں ۔ حمل اور زچگی کے دوران خصوصی ریلیف اور مراعات دیں گئیں ۔ عورتوں کو برابری کی سطح پر شہری اور خاندانی حقوق حاصل ہوئے۔ بچوں کی دیکھ بھال کے خصوصی مراکز اور اجتماعی ریستوران بنائے گئے۔ غرض یہ کہ عورت کی حیثیت کو بدلنے کے لیے تمام قوانین وضع کیے گئے لیکن انقلاب کے سبوتاژ ہونے کے بعد وہ تمام مراعات واپس چھین لی گئیں۔ آج پھر ملکی اور عالمی سطح پر خواتین کو انتہائی گھٹن زدہ حالات میں زندگی گزارنی پڑ ھ رہی ہے۔ سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران نے عورت کو پھر ماضی کی پسماندگی میں دھکیل دیاہے۔ آج بالشویک انقلاب کا سبق یہی ہے کہ خواتین کے مسائل کی جدوجہد کو محنت کش طبقے کی عمومی جدوجہد کے ساتھ جوڑتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کے لیے جدوجہد کی جائے۔ یہی نجات کا واحد راستہ ہے اور اس ادھورے مشن کی تکمیل بھی اسی جدوجہد کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔