|تحریر: زین العابدین|
10اکتوبر کو پنجاب کے تمام امتحانی بورڈز نے انٹرمیڈیٹ پارٹ ون کے نتائج کا اعلان کیا۔ نتائج کا اعلان کیا ہوا جیسے زلزلہ آگیا ہو۔ پورے پنجاب میں تمام امتحانی بورڈز کے خلاف طلبہ سڑکوں پر آگئے اور اعلان کئے گئے نتائج کو ماننے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ ان کے خلاف ڈٹ گئے۔ لاہور، ملتان، راولپنڈی، فیصل آباد، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، گوجرانوالہ اور دیگر شہروں میں بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے دیکھنے کو ملے۔ طلبہ کا کہنا تھا کہ پرچوں کی چیکنگ انتہائی ناقص کی گئی ہے۔ جان بوجھ کر سٹوڈنٹس کو فیل کیا گیا ہے۔ ہر شہر میں طلبہ نے اعلان کئے گئے نتائج کو مسترد کیا اور ری چیکنگ کا مطالبہ کیا۔ لاہور سے شروع ہونے والے مظاہرے جنگل کی آگ کی طرح پورے پنجاب میں پھیل گئے اور نوجوان اس کھلی ناانصافی اور ظلم کے خلاف سراپا احتجاج بن گئے۔ انٹر پارٹ ون کے نتائج نے ہزاروں طلبہ کی محنت پر پانی پھیر دیا اور ان کے مستقبل کو تاریک کر دیا۔
طلبہ کے احتجاجوں نے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کو معاملے کا نوٹس لینے پر مجبور کر دیا۔ پنجاب حکومت نے روایتی ہتھکنڈوں کا استعمال کرتے ہوئے بورڈ کے چند افسروں کو معطل کرنے کا حکم صادر کیا مگر طلبہ اس پر بھی راضی نہ ہوئے اور اپنے ری چیکنگ کے مطالبے پر ڈٹے رہے۔ بالآخر تمام امتحانی بورڈز نے فری ری چیکنگ کا اعلان تو کر دیا مگر یہ سب محض نوجوانوں کو وقتی طور پر ٹھنڈا کرنے کے لئے لالی پاپ دینے کے مترادف ہے اور خانہ پری کے لئے ری چیکنگ کی درخواستیں طلب کر لی گئیں۔ ری چیکنگ دراصل ری کاؤنٹنگ ہوتی ہے مگر ادھر مسئلہ ہی ناقص چیکنگ کا ہے جس میں صحیح سوالوں کو غلط اور غلط کو صحیح مارک کیا گیا ہے۔ ہمیں اس پر واضح ہونا چاہئے اور کسی دھوکے کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔
پنجاب بھر میں ہونے والے احتجاجوں نے اس امتحانی نظام کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے اور کرپٹ حکمرانوں کی تعلیم دشمنی عیاں کر دی ہے۔ یہ حکمران نہیں چاہتے کہ اس ملک کا کوئی بھی بچہ پڑھ لکھ سکے۔ ’پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب‘ کے نعرے لگانے والے ان حکمرانوں کی پالیسیاں ان کھوکھلے نعروں کی حقیقت واضح کر دیتی ہیں۔ یہ اپنی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لئے اس ملک کے کروڑوں نوجوانوں کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ امتحانی نتائج کے خلاف یہ مظاہرے اور احتجاج پہلی بار نہیں ہوئے۔ قریباً ہر سال ہی نتائج کا اعلان ہوتے ہی طلبہ کی جانب سے احتجاج دیکھنے کو ملتے ہیں مگر اس بار نوجوانوں نے بڑے پیمانے پر اس ظلم کے خلاف متحرک ہو کر ان حکمرانوں اور امتحانی بورڈز کی کرپٹ افسر شاہی کو شٹ اپ کال دی ہے۔ ہر سال ہونے والے ایسے احتجاج امتحانی بورڈز کی تعلیم اور طلبہ دشمنی کو ثابت کرتے ہیں۔ اپنی نااہلی اور کرپشن کو چھپانے کے لئے سارا ملبہ طلبہ پر ڈال دیا جاتا ہے کہ جتنا پڑھا اتنے نمبر آگئے۔ کیونکہ اگر وہ پاس ہوگئے تو آگے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے نکلیں گے جس کے لئے موجود یونیورسٹیاں ہی آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ پڑھ لکھ کر روزگار مانگیں گے جو موجود ہی نہیں۔ بے روزگاری اس وقت نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کا حل ان حکمرانوں کے پاس نہیں ہے۔ تعلیم اور صحت سے یہ ویسے ہی ہاتھ اٹھا چکے ہیں جس کا نتیجہ تعلیمی نظام کی بربادی کی شکل میں ہمارے سامنے آرہا ہے جس کا خمیازہ طلبہ بھگت رہے ہیں۔ نہ یہ نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں گے اور نہ ہی روزگار کا مطالبہ کر سکیں گے کیونکہ وہ میرٹ پر پورا ہی نہیں اترتے۔ یہ حکمران اور تعلیمی نظام تعلیم دشمن ہیں اور یہ امتحانی نظام مکمل طور پر کرپٹ، ناقص اور طالبعلم دشمن ہو چکا ہے۔ انٹر پارٹ ون کے رزلٹ کے خلاف اس بڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاجوں نے اس امتحانی نظام کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس بار ایسا کیا ہوا کہ ناقص چیکنگ کی انتہا ہوگئی؟ تھوڑا سا غور کیا جائے تو اس سوال کا جواب مل جائے گا۔ اس میں سب سے اہم بات سمجھنے کی یہ ہے کہ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا۔ ایک لمبے عرصے سے امتحانی بورڈز اور امتحانی نظام میں موجود نقائص( جو وقت گزرنے کے ساتھ کم نہیں ہوئے بلکہ بڑھتے ہی رہے) نے اب آکر سطح پر اپنا اظہار کیا ہے۔ پہلے بورڈز کی پالیسی ہوتی تھی کہ پرچوں کی چیکنگ سرکاری کالجز کے تجربہ کار اساتذہ ہی کر سکتے ہیں مگر اب ایسا نہیں ہوتا۔ پرچوں کی چیکنگ کے لئے سنٹرل مارکنگ کا نظام ہے جس میں پیپر چیکرز بورڈ کی متعین کردہ جگہ پر آکر پیپر مارک کر سکتے ہیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ پرچوں کی چیکنگ کے عوض ملنے والا معاوضہ انتہائی کم ہونے کے باعث سرکاری کالجز کے اکثر اساتذہ اس کام سے انکار کر دیتے ہیں جس کا فائدہ بورڈ کے افسران اٹھاتے ہیں اور پرائیویٹ کالجز کے نا تجربہ کار اساتذہ کو اس کام کے لئے رکھ لیا جاتا ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ ذرائع کے مطابق قریباً تمام امتحانی بورڈز میں پرچوں کی چیکنگ پرائیویٹ کالجز کے ناتجربہ کار اور نان کوالیفائیڈ ٹیچروں سے کروائی گئی جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ پرائیویٹ کالجز کے انتہائی کم تنخواہوں اور مراعات کے بغیر کام کرنے پر مجبور ٹیچرز چار پیسے زیادہ کمانے کے لئے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیپر چیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بنڈلز کے ریٹ لگتے ہیں۔ مقابلے بازی ہوتی ہے کہ کون کم وقت میں زیادہ پیپر چیک کرتا ہے۔ امتحانی فیسوں اور سندوں کی مد میں سالانہ کروڑوں روپیہ اکٹھا کرنے والے بورڈز کی کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم پیسہ خرچ ہو۔ تعلیم دشمن حکومت کی جانب سے تعلیمی بجٹ انتہائی کم ہونے کا باعث بورڈ اپنے معاملات چلانے کے لئے سارا پیسہ طلبہ سے اکٹھا کرتے ہیں جس سے بورڈ ملازمین کی تنخواہوں سے لے کر بورڈ افسران کی عیاشیوں کا سامان کیا جاتا ہے۔ اس حکومت کے پاس سی پیک اور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں کے لئے تو پیسے ہیں مگر جب بات عوام کے لئے بنیادی سہولتوں کی فراہمی پر آتی ہے تو ان کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ نام نہاد شفافیت کے نام پر ہونے والے اس کھلواڑ کا شکار سال بھر محنت کرنے والے طلبہ بنتے ہیں۔ اس گھن چکر میں لاکھوں نوجوانوں کے سہانے سپنے اندھیر کر دئیے جاتے ہیں۔
ایک اور بات جو اس سارے معاملے میں سامنے آئی ہے وہ کمپیوٹرائزڈ چیکنگ میں ہونے والی غلطیاں ہیں۔ بورڈ امتحا نات میں ہر پرچہ دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے جس میں اوبجیکٹو ٹائپ(معروضی طرز) اور سبجیکٹو ٹائپ(انشائیہ طرز) شامل ہیں۔ اوبجیکٹو ٹائپ حصے کی چیکنگ کمپیوٹرائزڈ سسٹم سے کی جاتی ہے جس کے لئے OMRشیٹس متعارف کروائی گئیں تھیں مگر اس سب کے باوجود کمپیوٹرائزڈ چیکنگ میں بڑے پیمانے پر غلطیوں کا سامنے آنا سمجھ سے بالاتر نظرآتا ہے۔ مگر حقیقت میں یہ غلطی کمپیوٹر نہیں کرتا بلکہ کمپیوٹر چلانے والے کرتا ہے جس کا نتیجہ سٹوڈنٹس بھگت رہے ہیں۔
سب سے اہم بات جو غورطلب ہے کہ ناقص امتحانی نظام کا نشانہ بننے والے لاکھوں نوجوانوں پر اس کے کیا اثرات ہوتے ہیں۔ اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ برے رزلٹ کا سارا ملبہ طالبعلم کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے کہ تم نے محنت ہی نہیں کی، پڑھا ہی نہیں اگر محنت کی ہوتی ٹھیک سے پڑھا ہوتا تو اچھے نمبر آجاتے۔ دیکھو دیکھو فلاں کے بچے کے کتنے اچھے نمبر آئے ہیں۔ مگر اس سارے معاملے نے اصل حقیقت کو سامنے لا کھڑا کیا ہے کہ مسئلہ طلبہ کا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ تعلیمی اور امتحانی نظام کا ہے۔ سال بھر محنت کرنے کے بعد جب محنت کا ثمر نہیں ملتا تو ایک طرف جہاں شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہیں والدین اور معاشرے کے دیگر لوگوں کی تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑتا ہے۔ اکثر طلبہ تو امتحانی نتائج سے مایوس ہو کر تعلیم کو ہی خیرآباد کہہ دیتے ہیں یا مالی مشکلات کا شکار والدین ان کو پڑھائی سے ہٹا کر کسی کام دھندے پر لگا دیتے ہیں۔ بورڈ امتحان کے نتائج کی بنیاد پر ہی یونیورسٹیوں کا میرٹ بنتا ہے۔ وہ نوجوان جو رزلٹ آنے سے پہلے تک ڈاکٹر اور انجینئر بننے کے خواب دیکھ رہے تھے، ان نتائج کے بعد بالکل مایوس ہوچکے ہیں اور یہ مایوسی ان کو کسی بھی طرف لے کر جاسکتی ہے۔ ان طلبہ کا مستقبل تاریک کر دیا گیا ہے۔ کسی اچھے ادارے میں ان کو داخلہ نہیں مل سکتا۔ میٹرک میں نوے فیصد سے زائد نمبر لینے والے طلبہ پارٹ ون میں کئی مضامین میں فیل ہیں۔ مایوسی کا شکار یہ نوجوان منشیات کی دلدل میں بھی دھنس سکتے ہیں تو دوسری طرف راہ فرار حاصل کرنے کے لئے خودکشیاں بھی کر سکتے ہیں۔ اکثر امتحانی نتائج کا اعلان ہونے کے بعد اخبارات میں اس قسم کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ایسے ہی نظام کے ستائے ہوئے نوجوان دہشت گرد تنظیموں کے لئے خام مال بنتے ہیں۔ مگر نام نہاد دہشت گردی کے خلاف لڑنے والی حکومت خود دہشت گردوں کے لئے خام مال تیار کر کے دے رہی ہے۔
مگر جو سوال اب ہمارے سامنے کھڑا ہے وہ یہ ہے کہ اس سب سے نجات کیسے حاصل کی جائے اور ان مسائل کے خلاف کیسے لڑا جائے۔ پنجاب بھر میں طلبہ جس طریقے سے اس سارے ظلم کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں اور جس جرات کے ساتھ انھوں نے اس گلے سڑے امتحانی نظام کو چیلنج کیاہے اس پر وہ داد کے قابل ہیں۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کامیابی کیسے حاصل کی جائے؟ ہماری ڈیمانڈز کیا ہونی چاہئیں؟ کیسے حکومت کو اپنی ڈیمانڈز ماننے پر مجبور کیا جائے؟ اس سب کا جواب حاصل کر نے کے لئے ابھی تک ہونے والے تمام احتجاجوں کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو جو بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ اپنے تمام تر جوش و جذبے کے باوجود طلبہ غیر منظم ہیں جس کے باعث وہ خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کر پا رہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ طلبہ یونینز کا نہ ہونا ہے۔ اگر طلبہ یونینز موجود ہوتیں تو اس لڑائی کو بہتر طریقے سے لڑا جا سکتا تھا۔ جوش کے ساتھ ہوش بھی لازمی ہے۔ طلبہ کو لڑائی مربوط طریقے سے آگے بڑھانے کے لئے خود کو منظم کرنا ہوگا۔ انتظامیہ کے کسی بھی دباؤ میں آئے بغیر طلبہ اکثریتی رائے سے اپنی قیادت خود چنیں جو انھیں طلبہ کو جوابدہ بھی ہو۔ اسی طرح تمام کالجز کے نمائندوں پر مشتمل ڈسٹرکٹ لیول کی باڈیز تشکیل دی جائیں۔ طلبہ دشمن اور غنڈہ گرد طلبہ تنظیموں کو تحریک میں مداخلت کر نے سے روکا جائے اور ان کا بائیکاٹ کیا جائے۔ باہمی مشاورت سے چارٹر آف ڈیمانڈز ترتیب دیا جائے جو کے احتجاج کے دوران میڈیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ سب سے پہلا مطالبہ رکھا جائے کہ تمام بورڈز کے انٹر پارٹ ون کے نتائج کو منسوخ کیا جائے اور نئے سرے سے پرچوں کی چیکنگ تجربہ کار اور کوالیفائیڈ اساتذہ سے کرائی جائے۔ ناقص امتحانی نتائج کے ذمہ دار بورڈ چیئرمین، سیکرٹری بورڈ، کنٹرولر امتحانات اور دیگر افسران فوری طور پر مستعفی ہوں جن پر تحقیقات کے بعد مقدمات چلائے جائیں۔ بورڈ انتظامیہ اس بار پیپر چیک کرنے والے ٹیچرز کا ڈیٹا میڈیا کے سامنے لائے تاکہ نا تجربہ کار ٹیچرز کو رکھنے والے افسران کی نااہلی سامنے آئے۔ آئندہ پیپر چیکنگ تجربہ کار اور کوالیفائیڈ اساتذہ سے کرائی جائے۔ پیپر چیکنگ کا معاوضہ بڑھایا جائے تاکہ معیاری چیکنگ کو ممکن بنایا جاسکے۔ امتحانی نظام میں طلبہ کو نمائندگی دی جائے اور طلبہ کے منتخب نمائندے سنٹرل مارکنگ کی جگہ پر موجود ہوں تاکہ شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ جوش اور ہوش کے اس ملاپ سے ہی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ نوجوانی کا یہ جوش بظاہر ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے۔ ہمت، حوصلے اور صبر سے آگے بڑھتے ہوئے ہی فتح حاصل کی جاسکتی ہے۔