|تحریر: برائس گورڈن، ترجمہ: عرفان منصور|
31 مارچ کو ”امیریکن جابز پلان“ کے نام سے صدر بائیڈن نے دو ٹریلین ڈالر پر مشتمل تعمیراتی منصوبہ پیش کیا۔ پٹزبرگ میں اظہار خیال کرتے ہوئے اس نے کہا کہ اگر یہ منصوبہ منظور ہوگیا تو یہ دہائیوں میں حکومت کی طرف سے کیے جانے والے اخراجات میں سب سے بڑا ہوگا۔ اسے اس نے ایک منصوبہ قرار دیا جو پوری ایک نسل میں ایک ہی بار تشکیل پاتا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس کی وسعت بیان کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ یہ کوئی عام سا منصوبہ جسے تیار کرنے کیلئے اتنی تگ و دو کی جائے، نہیں ہے اور اس کی وسعت کا موازنہ 1950ء کی دہائی میں تعمیر ہونے والے بین الریاستی ہائی وے کے نظام سے اور 1960ء کی دہائی میں جاری رہنے والی خلائی دوڑ سے کیا ”اس منصوبے کا مقصد قطعاََ یہ نہیں کہ ان لوگوں سے پیسہ لیا جائے (ٹیکس کے ذریعے) جو خوشحال ہیں بلکہ یہ ہر کسی کے لیے مواقع پیدا کرے گا۔“
یہ منصوبہ چار حصوں میں منقسم ہے۔ 621 ارب ڈالر سڑکوں، ریلوے، پُلوں، ہوائی اڈوں، آبی گزرگاہوں اور برقی گاڑیوں جیسے ذرائع نقل وحمل کی تعمیر میں خرچ ہونگے۔ 650 ارب ڈالر سکولوں اور گھروں کو جدید بنانے اور جدت کو برقرار رکھنے کے لیے پانی اور انٹرنیٹ جیسی دیگر سہولیات فراہم کرنے کیلئے خرچ کیے جائیں گے۔ بوڑھے اور معذور افراد کے لیے 400 ارب ڈالر کی تخصیص کی گئی ہے۔ آخر میں 300 ارب ڈالر ورکر کی تربیت اور ریسرچ اینڈ ڈیلپمنٹ خصوصاً سیمی کنڈکٹر کی تیاری، آرٹیفیشل انٹیلی جنس، 5جی اور بائیوٹیکنالوجی پر خرچ کیے جائیں گے۔
منصوبے کے مقاصد بیان کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس سے جاری کردہ پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ ”امیریکن جابز پلان“ ایک ایسی سرمایہ کاری ہے جو لاکھوں نوکریاں پیدا کرے گی، ہمارے ملک کا انفراسٹرکچر دوبارہ سے استوار کرے گی اور ریاست ہائے متحدہ کو اس قابل بنائے گی کہ وہ چین سے سبقت لے جائے۔ نسلی امتیاز اور ماحولیاتی تبدیلی کا تدارک بھی اس منصوبے کا حصہ ہے جو کہ یقیناً انفراسٹرکچر سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس منصوبے کے لیے درکار رقم کے حصول کے لیے انتظامیہ نے کارپوریٹ ٹیکس کو 21 فی صد سے بڑھا کر 28 فی صد کرنے کا منصوبہ پیش کیا ہے، جو کہ ابھی بھی اس 35 فی صد شرح سے کم ہے جو ٹرمپ کی لاگو کی گئی ٹیکس کٹوتیوں سے پہلے عائد تھا۔
ابھی تک اس ضمن میں کسی قسم کی قانون سازی بھی سامنے نہیں آئی علاوہ ازیں یہ پردوں کے پیچھے ہونے والی ہارس ٹریڈنگ ہی ہوگی جو یہ طے کرے گی کہ کیا چیز منصوبے میں شامل کی جائے گی اور کون اس کی قیمت ادا کرے گا۔ بائیڈن کا جلد ہی ”امیریکن فیملیز پلان“ کے نام سے دوسرا منصوبہ پیش کرنے کا بھی ارادہ ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں یہ منصوبے کیا گُن کھلاتے ہیں۔ تاہم، اگر یہ منظور ہوجاتے ہیں تو یہ یقیناً دہائیوں میں معیشت میں ہونے والی سب سے اہم سرمایہ کاری ہوگی۔ اس لیے انقلابی سوشلسٹوں کے لیے یہ اہم ہوجاتا ہے کہ وہ اس منصوبے کی پٹاری کھولیں اور اس کو درست سیاق و سباق میں سمجھیں۔
دہائیوں پر محیط انفراسٹرکچر کی تباہی
پورے سیاسی منظر نامے پر کوئی بھی شخص اس بات کا انکاری نہیں کہ امریکہ کا انفراسٹرکچر بہت بڑی مرمت کا طلب گار ہے۔ ملک کی شاہراہوں، پُلوں اور پانی کی سپلائی کے نظام کا بڑا حصہ 1950 کی دہائی یا اس سے بھی پہلے کا تعمیر کردہ ہے اور وفاقی انفراسٹرکچر کے سرمائے میں دہائیوں سے کٹوتیاں ہوئی ہیں جس نے بڑے پیمانے پر تباہی کو جنم دیا جس کی چند ایک مثالیں زنگ آلود ٹوٹتے پُل، ٹوٹے پھوٹے روڈ اور خراب نکاسی آب کا نظام ہیں۔ کچھ کاؤنٹیز میں آج بھی پینے کے پانی کی ترسیل کے لیے لیڈ پائپ استعمال ہوتے ہیں۔ ہوائی اڈوں، بحری اڈوں اور آبی راستوں کو بھی موجودہ وقتی استعمال کے اہل بنانے کے لیے فوری طور پر اوورہالنگ کی ضرورت ہے۔ بطور کل امریکی انفراسٹرکچر شدید انحطاط پذیر اور آبادی کی بڑھتی ضروریات کے لیے ناکافی ہے۔
قومی سطح پر 43 فی صد عوامی شاہراہوں کی حالت ناقص یا عامیانہ ہے۔ امریکی ڈیمز کی عمومی عمر 57 سال ہے۔ امریکی انفراسٹرکچر کے بحران کی زندہ مثال مشی گن ہے جہاں صرف ایک چوتھائی حکومتی پُل قدرے بہتر حالت میں ہیں۔ ملک بھر میں سینکڑوں دیہی پُل عمر رسیدگی یا خستہ حالی کے سبب بند ہوچکے ہیں۔ امیریکن سوسائٹی آف سول انجینئرز نے 2021ء کے رپورٹ کارڈ میں کرۂ ارض کے سب سے امیر ملک کے انفراسٹرکچر کو ”سی منفی“ گریڈ سے نوازا ہے۔
2016ء اور 2020ء کی صدارتی مہم کے دوران ٹوٹتے پھوٹتے انفراسٹرکچر کو سنبھالنے کے لیے برنی سینڈرز کے نوکریوں کے نعرے کی گونج بِنا کسی وجہ کے ہی سنائی نہیں دی تھی۔ درحقیقت، 2016ء کی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے بھی انفراسٹرکچر کے منصوبے کا مطالبہ کیا تھا اور ایسا کرنے والا وہ اپنی پارٹی کا واحد شخص نہیں تھا۔ سرمایہ دارانہ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کے تعمیر نو کے لیے ریپبلیکنز اور ڈیموکریٹس بنا کسی تفریق کے کسی نہ کسی منصوبے کی حمایت کرتے ہیں۔ تاہم، ریپبلیکنز بائیڈن کے منصوبے کے مکمل طور پر خلاف ہیں اور اسے بڑھائے گئے کارپوریٹ ٹیکسز پر ایسے ٹروجن ہارس سے تعبیر کرتے ہیں جو ان پراجیکٹس کے لیے استعمال ہوں گے جو ان کے نزدیک انفراسٹرکچر سے تعلق نہیں رکھتے ہیں۔
سرمایہ داری میں عوامی منصوبے
بائیڈن کی سیاسی تاریخ، خصوصاً اس کے وعدے کہ اگر وہ منتخب ہو جاتا ہے تو”کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئے گی“، کو دیکھتے ہوئے اس منصوبے کو سن کر بائیں بازو کے کچھ لوگ ششدر رہ گئے ہوں گے جو کہ سرمایہ دارانہ پالیسیوں کی حدود میں رہتے ہوئے پہلی نظر میں ایک جرات آمیز قدم لگتا ہے۔ علاوہ ازیں، موجودہ نسل نے انفراسٹرکچر میں اتنی سنجیدہ سرمایہ کاری کبھی نہیں دیکھی۔ حالیہ دہائیوں میں ”ریاست کی کم سے کم مداخلت“ کے راگ نے دونوں پارٹیوں کو جکڑ رکھا تھا اور بائیڈن کا منصوبہ اس سوچ سے راستہ جدا کرتا نظر آتا ہے۔
مگر سرمایہ داری کے وسیع تناظر میں بائیڈن کا منصوبہ کوئی نیا نہیں اور انقلابی تو قطعاً نہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ وقتاً فوقتاً سرمایہ دارانہ ریاست مخصوص شعبوں میں عوامی فنڈز لگاتی ہے جو باقی معیشت کو درست انداز میں کام کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ مناسب پُلوں، سڑکوں، نہروں اور پانی کے نظاموں کے بغیر خام مال، اشیاء صرف، ناکارہ مواد، مسلح اداروں اور قوت محن کی ترسیل بھی ناممکن ہوجائے گی۔
بین البراعظمی ریل روڈ ”ایری کینال“ اور بین الریاستی ہائی وے سسٹم ایسی ہی سرمایہ کاری کی مثالیں ہیں جو ریاست معیشت کا پہیہ چلانے اور پورے براعظم پر اپنی حاکمیت میں سہولت کے وسیلے کے لیے کرتی ہے۔
تاریخی ارتقاء کی سطح کو دیکھتے ہوئے معیشت کے لیے درکار سرمایہ کاری مختلف ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ معاشروں میں سرمایہ دار طبقہ پبلک سکولوں کو قائم کرتا ہے کیونکہ ان کو ایک تعلیم یافتہ محنت کش طبقہ چاہئیے ہوتا ہے جو مہارت سے کام کرسکے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو بائیڈن اور اس کے دیگر پیٹی بھائیوں کی یہ پالیسی کہ ”غیر روایتی انفراسٹرکچر“ جیسے براڈ بینڈ انٹر نیٹ پر خرچ کیا جائے، دیگر حکمرانوں کی نسبت بہر حال زیادہ دور اندیشی کا مظاہرہ ہے۔
انہی اسباب کے تحت سرمایہ دار طبقے کی طرف سے عمومی طور پر اس پلان کو پر جوش انداز میں کے ساتھ خوش آمدید کہا گیا ہے۔ بشمول تعمیرات، پیغام رسانی، نقل وحمل و انرجی، یقیناً کچھ صنعتیں اس منصوبے سے بلاواسطہ فائدہ اٹھائیں گی۔ ان کمپنیوں کے علاوہ بھی شاید ہی کوئی کمپنی مالک ہو جو بہتر سڑکوں، تیز انٹرنیٹ اور ان تمام جدتوں کا مخالف ہو جو یہ منصوبہ اپنے ساتھ لائے گا۔ تاہم، یہ لازمی امر ہے کہ وہ محنت کش طبقے کے کندھوں پر جس قدر ممکن ہو بوجھ لادنے کی کوشش کریں گے اور کارپوریٹ گروہوں نے پہلے ہی یہ واضح کردیا ہے کہ اس منصوبے کی قیمت چکانے کے لیے ”دوسرے راستے“ تلاش کیے جانے چاہئیں۔
نئی نوکریاں، انفراسٹرکچر کی تعمیر نو اور چین پر سبقت
گزشتہ برس امیر اور غریب کی خلیج کو ہم نے انتہاؤں پر پہنچتے دیکھا ہے۔ لاکھوں لوگ نوکریاں کھو چکے ہیں اور حکومتی اعدادوشمار اس حقیقت کو دھندلا دیتے ہیں کہ ان سے کہیں زیادہ وہ لوگ ہیں جو ناامید ہوچکے ہیں یا انتہائی نامناسب نوکری کی سزا بھگت رہے ہیں۔ یہ سب امریکی سامراج کی لمبے عرصے سے کم ہوتی طاقت کا نتیجہ ہے جو آج چینی سامراج کی بڑھتی طاقت اور اثر و رسوخ کی صورت میں نظر آ رہا ہے۔
چین کے بارے میں بات کرتے ہوئے فروری میں سینیٹرز کے ایک گروہ کو بائیڈن نے بیان کیا کہ ”ٹرانسپورٹیشن اور ماحولیات سے متعلق تمام مسائل سے نمٹنے اور دیگر کافی سارے مسائل سے نمٹنے کے لیے وہ اربوں ڈالر لگا رہے ہیں“ مزید یہ کہ ”ہمیں پیش قدمی کرنا ہی پڑے گی اگر ہم نے یہ نہ کی تو وہ ہمارے نوالے تک کھا جائیں گے۔“
جیسا سوویت یونین سے خلائی دوڑ میں ہوا تھا، انتظامیہ یہ خواہش رکھتی ہے کہ یہ منصوبہ ان کو اس قابل بنادے گا کہ وہ چینی سرمایہ داری سے آگے چھلانگ لگا پائیں گے۔ ایسے منصوبے کے نتائج کا معقول فائدہ یہ ہوگا کہ یہ نوکریاں پیدا کرے گا اور اسی کے ساتھ ساتھ ڈیموکریٹس کے ”محنت کش طبقے کی پارٹی“ کے کمزور ہوتے خیال کو دوبارہ مظبوط کرے گا۔
کارپوریٹ ٹیکس کو بڑھانے، ٹیکسوں میں چور راستوں کوناممکن بنانے، گلوبل کم از کم ٹیکس کے تعارف اور منصوبے کے لیے دیگر ٹیکسز سے استثنیٰ جات کو ختم کرنے جیسی باتوں کی وجہ سے بائیڈن کو ”چپ چاپ کام کرنے والا“ کہا گیا ہے۔ مگر اچانک سے تریاق دریافت کرلینے یا امیروں پر ٹیکس لگانے کے فوائد جان جانے کے برعکس یہ منصوبہ ڈیموکریٹس کی چند سرمایہ داروں کی قیمت پر نظام کو بطور کل بہتر بنانے کی سمجھ بوجھ کا اظہار ہے۔ سامراجی بے چینی اور اندرونی سطح پر بڑھتا ہوا عدم اطمینان، درحقیقت پالیسی کی تبدیلی کے بنیادی محرکات ہیں۔
یقیناً، یہ کوئی بری بات نہیں ہے کہ امریکہ کے قابل رحم انفراسٹرکچر کو انتہائی ضروری اوور ہالنگ مل جائے مگر ہمیشہ کی طرح اہم سوال نہ صرف یہ ہے کہ کون فائدہ اٹھائے گا بلکہ یہ بھی کہ کون قیمت چکائے گا۔ ابتدائی مسودے میں کارپوریٹ ٹیکس سے منصوبے کو مکمل کرنے کے پلان کے باوجود انتظامیہ پہلے ہی اس ضمن میں سازباز کا عندیہ دے چکی ہے۔ مارکس وادی ڈائریکٹ ٹیکسز، ”خریدار پر ٹیکس کا بوجھ ڈالنا“ یا ایسے کسی اور حیلے سے ورکنگ کلاس کے خون سے قیمت نچوڑنے کی ہر کاوش کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں۔
اب تک جاری منصوبے کی تعریف و تحسین کے بجائے ’اے ایف ایل سی آئی او‘ کو ایسے کسی بھی قدم کے خلاف لڑائی کے لیے خود کو تیار کرنا چاہئیے۔ اس پروگرام کی نہ صرف یہ کہ حدود کو مزید وسعت دی جانی چاہئیے بلکہ سرمایہ داروں سے پروگرام کی 100 فی صد قیمت وصول کی جانی چاہیے۔
اچھی اجرت کے ساتھ سب کے لیے روزگار حاصل کیا جاسکتا ہے اگر ٹھیکیداروں کو 100 فی صد یونین لیبر استعمال میں لانے کا کہا جائے۔ محنت کشوں کے ہر علاقے میں یونین کے زیر اثر مزدور ہال تعمیر کیے جائیں جن کا آغاز انتہائی بے روزگارمکینوں والے علاقوں سے کیا جائے۔ حقیقی کام کرنے والے محنت کشوں کے ساتھ ساتھ، وسیع محنت کش طبقے کے نمائندوں پر اس پروگرام کی راہمنائی کی ذمہ داری ہونی چاہئیے۔ اور اگر سرمایہ دار قیمت دینے سے یا پروگرام کی تکمیل میں محنت کش طبقے کے مطالبات و شرائط ماننے سے انکار کریں تو ان کی دولت اور ان کی کمپنیوں کو ضبط کر لینا چاہئیے اور جمہوری منصوبہ بند معیشت کے تحت عوامی مفاد کے لیے استعمال کیا جانا چاہئیے۔
پورے نظام کو بچانے کیلئے بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں
اس وقت امریکی عوام امیریکن جابز پلان پر منقسم ہے۔ 36 فی صد لوگ اس کی حمایت کرتے ہیں، 33 فی صد لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں جبکہ 31 فی صد غیر جانبدار ہیں۔ تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ منصوبے کی تفصیلات نے وسیع حمایت حاصل کی ہے۔ مثال کے طور پر 87 فی صد امریکیوں نے سڑکوں اور پُلوں کی مرمت کی حمایت کی ہے۔ اور اہم بات یہ ہے کہ سینیٹ کے ارکان پارلیمنٹ نے یہ عندیہ دیا ہے کہ اس منصوبے کو مفاہمت سے منظور کروایا جاسکتا ہے، دوسرے الفاظ میں، عام اکثریت سے، جو ڈیموکریٹس کو اس چیمبر میں حاصل ہے۔
اگر اس پر عمل ہوجاتا ہے تو ممکن ہے کہ یہ منصوبہ عوام کی کچھ پرتوں میں سرمایہ داری کے قابل عمل ہونے کے فریب کو وقتی طور پر جان بخش دے۔ جیسے فنانشل ٹائمز انتہائی چالاکی سے دسمبر کے ایڈیٹوریل میں لکھتا ہے کہ ”فرینکلن روزویلٹ، جان مینڑڈ کینیز اور دیگر مابعد جنگ کے عالمی آرڈر کے بانیوں نے 1930 کی دہائی میں ہی یہ معلوم کر لیا تھا کہ سرمایہ داری کی سیاسی قبولیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کے عیوب کو دور کرنے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔“ تاریخ گواہ کہ ہمیشہ لبرلز اس نصیحت کو سر آنکھوں پر لیتے ہیں۔
ہم دیکھتے رہیں گے کہ یہ منصوبہ کیا کھیل دکھاتا ہے۔ آخری نتیجہ جو بھی ہو، اہم امر یہ ہے کہ دہائیوں تک حکومت کا معیشت میں کردار کم کرنے کے بعد بھی سرمایہ دارانہ نظام کے بحران اور طبقاتی جدوجہد نے دوبارہ سے ”ثالث“ ”Sacranton Joe“ کو یہ کردار ادا کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
نظام کو خود اسی نظام کی پیدا کردہ تباہی سے بچانے کی خاطر، انتظامیہ کو کسی بھی حد تک جانے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ مگر شومئی قسمت کہ ملک کے انفراسٹرکچر کی یہ حالت گزشتہ حکومت کی طویل عرصے سے چلی آرہی کم سرمایہ کاری کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے بطور کل نامیاتی زوال کا اظہار ہے جو دہائیوں سے جاری ہے اور جسے کوئی بھی منصوبہ، خواہ جتنا بھی وسیع اور کامل کیوں نہ دکھائی دیتا ہو، سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے نہیں سدھار سکتا۔
مارکس وادی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ملکی انفراسٹرکچر کو شدید ترین مرمت کی ضرورت ہے۔ ٹیکنالوجی اور دیگر وسائل کو درست انداز میں استعمال کرکے ہم ایک انتہائی مناسب ٹرانسپورٹیشن اور کمیونیکیشن کا نظام تعمیر کرسکتے ہیں، ہر ایک کی ضرورت کا پاس رکھ سکتے ہیں اور بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ مگر یہ کرنے کے لیے محنت کش طبقے کو نظام کو اپنی شرائط پر قائم کرنا ہوگا یعنی محنت کش حکومت کے تحت جمہوری منصوبہ بند معیشت کے ذریعے۔ عالمی محنت کش طبقے کی مدد کے ساتھ ہم ایک ایسا جدید عالمی انفراسٹرکچر ترتیب دے سکیں گے جس کی بنیاد پر معیشت ہر کسی کو روزگار، صحت اور گھر مہیا کرنے کا منصوبہ ترتیب دے سکے گی۔