|تحریر: فریڈ ویسٹن، ترجمہ: ولید خان|
اسٹیبلشمنٹ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں کہ جو بائیڈن 2020ء صدارتی انتخابات جیت چکا ہے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ سے تنگ کروڑوں امریکیوں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ لیکن امریکی سماج میں پولرائزیشن بدستور موجود ہے اور خود بائیڈن اسی حکمران سیاست کا نمائندہ ہے جس کا اظہار ٹرمپ تھا۔ مزدوروں اور نوجوانوں کو حقیقی طبقاتی بنیادوں پر ڈیموکریٹک پارٹی کے متبادل کی اشد ضرورت ہے۔
امریکی صدارتی انتخابات میں جو بائیڈن کی فتح کے موقع پر حال ہی میں نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والے دو مضامین پر یہاں تبصرہ ضروری ہے۔ ایک کانگریس ممبر اور ڈیموکریٹک سوشلسٹس آف امریکہ الیگزینڈرا اوکازیو کورٹیز (AOC) کا انٹرویو ہے۔ دوسرا مضمون ٹرمپ کی مستقبل میں منصوبہ بندی سے متعلق ہے۔ پہلے مضمون سے ڈیموکریٹک پارٹی کی حقیقی فطرت ظاہر ہوتی ہے جبکہ دوسرے سے پتہ چلتا ہے کہ ٹرمپ مظہر کے اختتام کا کوئی امکان نہیں۔
الیگزینڈرا کورٹیز کی ڈیموکریٹک پارٹی میں وجہ شہرت بطور لیفٹ سیاست دان ہے اور انٹرویو میں اس نے برملا اعتراف کیا کہ اس کے تجربے میں ڈیموکریٹک پارٹی میڈی کیئر فار آل اور بلیک لائیوز میٹر وغیرہ جیسے ترقی پسند مقاصد سے خائف رہی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ”بیرونی طور پر بے تحاشہ حمایت موجود تھی۔ لیکن اندرونی طور پر یہ (پارٹی۔ مترجم) ہر اس چیز کے شدید خلاف ہے جس میں ترقی پسندی کی ہلکی سی رمق بھی موجود ہو“۔
یہاں الیگزینڈرا وہی کچھ بتا رہی ہے کہ جس کا ہمیں پہلے سے ادراک ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی حکمران طبقے کی ایک نمائندہ پارٹی ہے اور یہ سرمایہ دار طبقے کے اسلحہ خانے میں اہم اوزار میں سے ایک ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک پانچ ڈیموکریٹک صدور 75 میں سے 36 سال ا قتدار پر قابض رہے ہیں یعنی تقریباً نصف عرصہ۔ خارجہ پالیسی میں ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز دونوں نے ایک ہی حکمران طبقے کے مفادات کا تحفظ کیا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے برسرِ اقتدار سالوں میں ہم نے امریکی حکومت کی پالیسی میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں دیکھی جسے کسی بھی حوالے سے ایک سوشلسٹ پالیسی کہا جائے۔
وجہ یہ ہے کہ شہری حقوق کے سوالوں پر جیسے اسقاطِ حمل، ہم جنس پرست شادیاں وغیرہ پر ان کا رجحان تھوڑا بہت ترقی پسندانہ یا کم از کم ’لبرل‘ رہا ہے، ان مسائل کو امریکی مزدوروں کے سامنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور پارٹی کو حاصل ٹریڈ یونین اشرافیہ کی حمایت اس خیال کو تقویت بھی دیتی ہے۔ لیکن حقیقت میں ڈیموکریٹک پارٹی 19 ویں صدی کی برطانوی لبرل پارٹی والا کردار ادا کر رہی ہے۔ آخر کار محنت کش طبقے (برطانوی۔ مترجم) نے درست نتیجہ اخذ کیا کہ انہیں لبرلز سے علیحدہ ہونا پڑے گا اور انہوں نے اپنی پارٹی (لیبر پارٹی۔ مترجم) کی بنیاد ڈالی۔ آج امریکہ میں بھی یہی صورتحال ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ اور باقی دنیا میں لیفٹ کے کئی حضرات ڈیموکریٹک پارٹی کو ایک ایسی ترقی پسند قوت بنا کر پیش کرتے ہیں جس کے ساتھ سوشلسٹ کام کر سکتے ہیں یا پھر کم از کم یہ پارٹی ایک ایسا پلیٹ فارم بن سکتی ہے جس کے ذریعے امریکہ میں ایک حقیقی مزدور پارٹی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ اس سوچ سے امریکہ میں محنت کش طبقے کی جدوجہد کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ اس کے برعکس یہ سوچ ایک آزاد قوت کی تعمیر کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جسے عبور کر کے ہی امریکی محنت کش اپنی حکومت کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔
ٹرمپ 2016ء میں کیوں جیتا؟
2016ء میں اوبامہ۔بائیڈن حکومت کے آٹھ سالہ اقتدار کے بعد ٹرمپ نے وہ کر دکھایا جو اکثر کی رائے میں ناممکن تھا یعنی صدارت کی فتح۔ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ کیسے ممکن ہوا۔ اس کی وجہ امریکہ کے مسلسل زوال میں پنہاں ہے۔ حالیہ دہائیوں میں کئی امریکی صنعتیں بند ہوئی ہیں اور کئی نوکریاں ختم ہو چکی ہیں۔ محنت کشوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑے اور اوبامہ حکومت میں ان کے حالات میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی۔
ٹرمپ نے اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور’’امریکہ کو دوبارہ عظیم بناؤ“ کا نعرہ لگاتے ہوئے نوکریاں دینے اور معیارِ زندگی کو بہتر کرنے کا وعدہ کیا۔ وہ کلاسیکی بورژوا پاپولسٹ تھا جس نے قوم پرستی، نسل پرستی، خواتین سے نفرت اور ایک بہتر زندگی کے وعدے کا ملغوبہ پیش کیا۔ اس وجہ سے امریکی محنت کش طبقے کے ایک حصے نے اسے ووٹ ڈالا۔ ڈیموکریٹس نے ان کے لئے کبھی کچھ نہیں کیا اور یہ بات ریپبلیکنز کے حوالے سے بھی درست ہے۔ لیکن ٹرمپ کو روایتی سیاست میں اجنبی کے طور پر دیکھا گیا جس نے اس کے عروج میں کلیدی کردار ادا کیا۔
وہ امریکی حکمران طبقے کی غلاظت کا کھلم کھلا اظہار تھا کیونکہ وہ خود اسی طبقے کا حصہ ہے، بھلے وہ اسٹیبلشمنٹ مخالف ہونے کی جتنی بھی مکاری کرے۔ اس نے کھل کر نسل پرستی کا اظہار کیا، خاص طور پر بلیک لائیوز میٹر تحریک کے دوران، اور سفید فام بالادستی پرستوں اور دیگر رجعتی گروہوں کو واضح پیغام دیا کہ ان کا ایک دوست وائٹ ہاؤس میں موجود ہے۔ اس طرح ٹرمپ امریکی سماج میں انتشار پھیلا رہا تھا اور زیرِ سطح قوتوں کو ایسے متحرک کر رہا تھا جس نے حکمران طبقے کو پریشان کر دیا۔ انہیں خوف لاحق ہو گیا کہ زیرِ سطح طبقاتی قوتیں بے قابو ہو سکتی ہیں۔ مئی میں جارج فلائیڈ کے قتل پر پورے امریکہ میں پھٹنے والی باغیانہ قوتوں نے ان کے بھیانک ترین خوابوں کو حقیقت میں بدل کر رکھ دیا۔
یہ وہ ساری صورتحال تھی جس میں امریکی سماج کی ایک قابلِ ذکر پرت جس میں نوجوان، محنت کش، خواتین اور سیاہ فام سب شامل تھے، ٹرمپ سے جان چھڑانا چاہ رہے تھے۔ حکمران طبقے نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے منظورِ نظر جو بائیڈن کو ایک ایسی ترقی پسند قوت بنا کر پیش کیا جو ٹرمپ کی اذیت سے آزادی دلا سکتی ہے لیکن اگر اس (بائیڈن۔ مترجم) کے ماضی پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو اس سارے فریب کی قلعی کھل جاتی ہے۔
یہی جائزہ لینا کافی ہے کہ بائیڈن کی مالی معاونت کس نے کی۔ انتخابات میں 14 ارب ڈالر سے زیادہ خرچہ ہوا اور ڈیموکریٹس نے ریپبلیکنز سے دگنے پیسے خرچ کئے۔ بڑی دوا ساز کمپنیوں نے بائیڈن کو 6 ملین ڈالر دیئے اور ٹرمپ کو محض 1.5 ملین ڈالر۔ تمام اعدادوشمار وضاحت کرتے ہیں کہ امریکی حکمران طبقے کی بھاری اکثریت نے بائیڈن کی مالی اور دیگر معاونت کی۔ ان افراد کے لئے بائیڈن کی انتخابی مہم میں سرمایہ کاری کرنے کا مطلب مستقبل میں دیو ہیکل منافع خوری ہے جس کا امریکی محنت کش طبقے سے دور دور کا تعلق نہیں۔
شدید منقسم سماج
اگرچہ لبرل میڈیا بائیڈن کی جیت پر بغلیں بجا رہا ہے لیکن اگر ہم سطحی دھمال چوکڑی سے نیچے تجزیہ کریں تو ہمیں سماج مکمل طور پر منقسم نظر آتا ہے۔ اس تقسیم کو ٹرمپ اور بائیڈن کے حامیوں کے درمیان خلیج بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقی خلیج طبقاتی ہے۔ آج سے پہلے امریکی سماج کبھی اس قدر پولرائزیشن کا شکار نہیں تھا اور حکمران طبقہ شدید خوفزدہ ہے کہ آخر امریکہ جا کدھر رہا ہے۔
انہوں (حکمران طبقہ۔ مترجم) نے ٹرمپ کی مخالفت اس لئے نہیں کی کہ وہ دائیں بازو کا ہے، بلکہ اس کی اصل وجہ اس کی اشتعال انگیزی اور تبصرے تھے جس سے امریکی سماج میں اور زیادہ انتشار پھیلنے کا خطرہ بن رہا تھا۔ یہ کوئی حادثہ نہیں کہ اپنی پہلی تقریر میں بائیڈن نے تمام امریکیوں سے اتحاد اور ایک قوم بننے کی اپیل کی۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ تمام امریکیوں کا صدر ہو گا۔ اس کا خیال ہے کہ اس کے لطیف الفاظ سے امریکی سماج میں موجود تضادات مدہم پڑ جائیں گے۔ لیکن شیریں الفاظ سماج میں موجود دولت کی شدید پولرائزیشن کو ختم نہیں کر سکیں گے جس میں ایک طرف سامج کی بے پناہ دولت مرتکز ہے اور دوسری طرف بڑھتی دیو ہیکل غربت۔
اگر آپ درست سوال کریں گے تو ہی آپ کو درست جواب ملے گا، لہٰذا پہلا سوال یہ ہے کہ ”بورژوا اسٹیبلشمنٹ نے بائیڈن کی حمایت کیوں کی؟“ قدامت پسند برطانوی سرمایہ داری کی آواز ’دی اکانومسٹ‘ نے ”بائیڈن کیوں ضروری ہے؟“ کے نام سے ایک مضمون شائع کیا۔ دی نیویارک ٹائمز نے ایڈیٹورئل بورڈ کی ایک رائے ”امریکہ۔۔جو بائیڈن کو منتخب کرو“ شائع کی، جس کے مطابق ”اس وقت ہماری قوم کو سابق نائب صدر جیسے قائد کی ضرورت ہے۔۔ملک چار سال پہلے سے زیادہ کمزور، غصیلا، مایوس اور منقسم ہو چکا ہے۔۔اس (بائیڈن۔ مترجم) کی توجہ تقسیم پر مرہم رکھنے اور مشترکہ اقدار کے گرد قوم کو متحد کرنے پر ہو گی“۔
یہاں کن مشترکہ اقدار کی بات ہو رہی ہے؟ کیسے ”مشترکہ اقدار“ کی بات کی جا سکتی ہے جب عوام دیو ہیکل سماجی تضادات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں؟ آج بھی 3 کروڑ امریکیوں کی صحت سہولیات تک رسائی نہیں ہے۔ اس وجہ سے ہر سال 40-60 ہزار قیمتی جانیں قابلِ علاج بیماریوں کی نظر ہو جاتی ہیں۔ ان افراد کی قاتل غربت ہے۔ امریکہ میں صحت عامہ درحقیقت ایک دیو ہیکل منافع بخش مشین ہے۔ یہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ بڑی دوا ساز کمپنیوں نے بائیڈن مہم کو اس لئے تو پیسے نہیں دیے تھے کہ کل کو انہیں منافع کمانے سے روکا جائے۔
2018ء میں 3.8 کروڑ شہری غربت کا شکار تھے جن میں سیاہ فام، لاطینی امریکی اور آبائی امریکی سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ اسی سال 11 فیصد امریکی گھرانے ”اشیائے خوردونوش کے حوالے سے عدم تحفظ“ کا شکار تھے۔ درمیانے طبقے کی اجرتیں پچھلے چند سالوں سے جمود یا گراوٹ کا شکار ہیں۔ اس کڑی صورتحال میں اب وباء تباہی مچا رہی ہے جس میں بیروزگاری کا اژدھا بے قابو ہو چکا ہے۔
یہ تو ایک امریکہ ہے جو محنت کشوں کا ہے، لیکن ایک امریکہ ارب پتیوں کا بھی ہے۔ صرف اس سال 400 امیر ترین امریکیوں نے 240 ارب ڈالر کما کر اپنی مجموعی دولت میں 3.2 ٹریلین ڈالر اضافہ کیا۔ عوام کی بالائی 1 فیصد کی مجموعی دولت 34.2 ٹریلین ڈالر ہے جبکہ نچلی 50 فیصد کی اجرتیں جمود کا شکار ہو کر گرتی جا رہی ہیں۔
آج دولت، کام اور پیداوار کرنے والی عوام کی اکثریت سے مسلسل بیٹھی مٹھی بھر اقلیت کو منتقل ہو رہی ہے اور بائیڈن جتنی مرضی تقریریں کر لے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہو گی۔ دولت کی یہ پولرائزیشن پچھلی چار دہائیوں سے مسلسل جاری ہے اور جب بائیڈن اوبامہ کا نائب صدر تھا اس وقت بھی اس ارتکاز کی سمت تبدیل نہیں ہوئی تھی۔
اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ بائیڈن 1 فیصد کے ساتھ ٹکر لے گا تو اسے دو سال پہلے 2018ء میں بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کی ایک تقریب میں امراء کے حوالے سے بولے گئے الفاظ یاد رکھنے چاہئیں، ”میرا نہیں خیال کہ 500 ارب پتی ہمارے مسائل کی وجہ ہیں۔ اوپر بیٹھی اشرافیہ برے لوگ نہیں ہیں“۔
بائیڈن سرمایہ دار طبقے کا ملازم ہے
بائیڈن کے ساتھ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ کبھی بھی اپنے سرپرست سرمایہ دار طبقے پر حملہ نہیں کرے گا۔ اس نے کئی اصلاحات کا وعدہ کیا ہوا ہے اور اسے فوری طور پر امریکہ میں بے قابو وباء سے نبرد آزما ہونا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابتداء میں معیشت کو سہارا دینے کے لئے اسے دیو ہیکل عوامی اخراجات کو جاری رکھنا پڑے گا۔ لیکن جلد یا بدیر یہ پالیسی تبدیل ہو گی۔ عالمی سطح پر موجودہ اخراجات سرمایہ دار طبقے پر مجبوراً مسلط ہو گئے ہیں کیونکہ وہ سماجی انقلاب کے پھٹنے سے شدید خوفزدہ ہیں۔ سرمایہ دار طبقے کو محنت کش طبقے کی حقیقی قوت کا پورا ادراک ہے اور ان کو خوف ہے کہ ایک بحران میں مزدوروں کے پاس جدوجہد کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچے گا۔
اس لئے فی الحال بائیڈن شہد میں ڈوبے الفاظ میں اپنے آپ کو تمام امریکیوں کا صدر بنا کر پیش کر رہا ہے۔ لیکن آج کے الفاظ اور کل کو اپنے طبقے کے مفادات کے تحفظ میں اٹھائے جانے والے اقدامات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
یہاں پھر ایک اور سوال اٹھتا ہے۔ ٹرمپ کو ان انتخابات میں سب سے بڑی برائی بنا کر پیش کیا گیا اور ہمیں بتایا گیا کہ اس بدی کو روکنے کے لئے چھوٹی برائی کی حمایت لازمی ہے یعنی ڈیموکریٹک پارٹی کا امیدوار۔ اس کے باوجود کروڑوں امریکیوں نے ٹرمپ کو ووٹ ڈالا جن کی تعداد 2016ء سے بھی زیادہ بنتی ہے۔
اگر یہ سمجھا جائے کہ ٹرمپ قصۂ ماضی ہو چکا ہے تو یہ بہت بڑی بھول ہو گی۔ اب ہم نیو یارک ٹائمز کے دوسرے مضمون کی طرف آتے ہیں۔ اس میں لکھا ہے کہ ”پیر کے دن نمائندوں کے مطابق صدر ٹرمپ ایک نام نہاد قائدانہ سیاسی ایکشن کمیٹی کا منصوبہ بنا رہا ہے، ایک وفاقی فنڈ اکٹھا کرنے والی مشین جس کے ذریعے ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ صدارت چھوڑنے کے بعد بھی ریپبلیکن پارٹی کو کنٹرول کرتا رہے“۔
ٹرمپ نے ایک قابلِ ذکر حمایت (سماجی۔ مترجم) بنا لی ہے اور وہ اسے ایسے ہی ضائع نہیں کرے گا۔ اسی مضمون کے مطابق:
”زیادہ تر امکانات ہیں کہ یہ ایک ایسی مشین ہو گی جس کے ذریعے مسٹر ٹرمپ ایک ایسی پارٹی میں اپنے اثرورسوخ کو برقرار رکھے گا جو پچھلے چار سالوں میں اس کی پرچھائی بن چکی ہے۔۔ایک ریپبلیکن حکمت کار میٹ گورمن کے مطابق’صدر ٹرمپ اتنی جلدی کہیں نہیں جانے والا۔ وہ اپنے کسی بھی پیش رو کے برعکس اپنے آپ کو قومی سطح کی بحث میں فعال رکھے گا‘۔۔انتخابات سے پہلے مسٹر ٹرمپ نے اپنے مشیروں کو کبھی مذاق میں اور کبھی سنجیدگی سے کہا کہ اگر وہ بائیڈن سے ہار گیا تو وہ 2024ء میں دوبارہ انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے“۔
”بڑی برائی“ کی واپسی ممکن ہے
بائیڈن، ٹرمپ مظہر کا قلع قمع نہیں کر سکتا۔ وہ یہ انتخابات تو جیت گیا ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ ٹرمپ نے اپنی حمایت میں دیو ہیکل اضافہ کیا ہے اور اس مرتبہ اسے 7.1 کروڑ ووٹ ملے ہیں۔ 2024ء انتخابات میں یہ ووٹ ٹرمپ کی فتح میں تبدیل بھی ہو سکتے ہیں۔ بائیڈن کو اقتدار میں چار سال رہنے دو اور ہم دیکھیں گے کہ عوام کا رویہ کیسے تبدیل ہوتا ہے۔ کیونکہ آخر وہ کیا معاشی پروگرام دے سکتا ہے؟
اس وقت ہر ملک میں حکمران طبقہ مجبوراً دیوہیکل عوامی اخراجات کر رہا ہے کیونکہ سب کو معاشی بربادی کا خوف ہے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر سماجی استحکام کو کم سے کم سطح پر بھی برقرار رکھنا ہے تو انہیں عوام کو کم از کم اجرت ہر صورت دینی پڑے گی۔۔اتنی کہ وہ اپنی رہائش کا کرایہ، گھر کی قسط اور میز پر کھانا یقینی بنا سکیں۔ اگر وہ یہ بھی فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو کل کو کروڑوں اربوں عوام کے حالات آج سے زیادہ بدتر ہوں گے۔ ان دیو ہیکل اخراجات نے پوری دنیا میں قومی قرضوں کا بوجھ بے پناہ بڑھا دیا ہے۔
ابتداء میں بائیڈن ان اخراجات کو جاری رکھنے میں مجبور ہو گا لیکن جلد یا بدیر قرضہ وبالِ جان بن جاتا ہے۔ آغاز میں تو یہ بفر کا کردار ادا کر سکتا ہے لیکن ایک مخصوص سطح سے تجاوز کرنے کے بعد یہ اپنے الٹ میں تبدیل ہو جاتا ہے جس کے بعد حکومتیں اپنے اخراجات محدود کرنے پر مجبور ہوں گی تاکہ قرضوں کی ادائیگی کی جا سکے۔ ان حالات میں ہمیں بائیڈن حکومت کی جانب سے کوئی ترقی پسند اصلاحات دیکھنے کو نہیں ملیں گی۔
ایک وقت آنے پر بائیڈن سے مایوسی ہو جائے گی اور موجودہ حالات میں اس نہج تک پہنچنے میں زیادہ وقت درکار نہیں ہو گا۔ حالات کے اس نہج پر پہنچنے کے بعد ٹرمپ جیسی شخصیت ڈرامائی انداز میں واپس آ سکتی ہے۔ اس کی ابھی بھی مضبوط انتخابی بنیادیں موجود ہیں اور اس کی حمایت میں اضافے کے لئے زیادہ عوامل درکار نہیں ہوں گے۔
ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز دونوں میں سے کسی کی بھی حمایت نامنظور
اب ہم ان کو جواب دیتے ہیں جو یہ الزام لگاتے ہیں کہ مارکس وادیوں کو کوئی پرواہ نہیں کہ 2020ء میں ٹرمپ جیتتا ہے یا ہارتا ہے۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ ٹرمپ ایک نسل پرست، عورت دشمن، رجعتی غلاظت ہے جو امریکی سماج کی سب سے پسماندہ اور رجعتی قوتوں کو ابھار رہا ہے۔ ہم مارکس وادی ایک صدارتی مدت کے بجائے ہمیشہ کے لئے ٹرمپ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اسی لئے ہم نے ٹرمپ اور بائیڈن کی مخالفت کا اصولی موقف اپنایا ہے۔
ہمیں بھولنا نہیں چاہیئے کہ یہ اوبامہ۔بائیڈن ٹیم تھی جس نے 2016ء میں ٹرمپ کی فتح کی راہ ہموار کی۔ ہم ایک بار پھر ماضی کو دہرانا نہیں چاہتے۔ ایسی صورتحال سے بچنے کا واحد حل یہ ہے کہ ایک ایسی سیاسی قوت تعمیر کی جائے جس کی بنیاد مجموعی طور پر امریکی محنت کش طبقہ ہو، ایک ایسی حقیقی مزدور پارٹی جو ریپبلیکنز اور ڈیموکریٹس دونوں کا مقابلہ کرے۔
یہ جواب بھی آ سکتا ہے کہ یہ تناظر مستقبلِ بعید کا ہے اور ہمیں برائی کو آج روکناہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بائیڈن سے یہ امید کرنا کہ وہ آج کی نام نہاد ”بڑی برائی“ کا مقابلہ کرے گا، ایسے سازگار حالات پیدا کردے گا جس کے نتیجے میں مستقبل میں وہی ”بڑی برائی“ زیادہ وحشی ہو کر نازل ہو جائے گی۔
یہ بحث بھی ہو سکتی ہے کہ بڑی برائی کا راستہ آج روکا جائے اور پھر مستقبل میں ایک متبادل مزدور پارٹی کی جدوجہد کی جائے۔ یہاں اس نکتے پر زور دینا ضروری ہے کہ ایک تیسری قوت کی تعمیر کا کام اور بھی زیادہ مشکل ہو جاتا ہے جب ایک تیسری مزدور سیاسی پارٹی کی تعمیر کے دعویدار بائیڈن کی حمایت کے جرم میں داغدار ہوں۔
ایسے دور بھی آتے ہیں جب مارکس وادیوں کو عمومی حالات کے مخالف جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ 1939ء میں ٹراٹسکی نے وضاحت کی تھی کہ ”۔۔عوام تشخیصی نظریاتی خیالات کے تحت شعور حاصل نہیں کرتے بلکہ اپنی زندگی کے عمومی تجربات سے روشنا س ہوتے ہیں“۔ یہ بات آج بھی اتنی ہی درست ہے۔ امریکی عوام اپنے تجربات سے سیکھے گی کہ بائیڈن کے پاس ان کے دیرینہ مسائل کا کوئی ایک بھی حل موجود نہیں ہے۔
مارکس وادیوں کا فرض ہے کہ وہ حالات کے دباؤ میں موقع پرست پوزیشن لینے کے بجائے مزدوروں اور نوجوانوں کو سچ سے آگاہ کریں۔ درحقیقت بائیڈن کی حمایت کرنے والے امریکی محنت کش طبقے سے مایوس ہو چکے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ (امریکی محنت کش۔ مترجم) رجعتی ہیں اور اس لئے یہ ایک انقلابی پوزیشن کو نہیں سمجھ سکتے۔ یہ دعویٰ جھوٹ ہے۔
ٹھوس تجربات کی بنیاد پر امریکی محنت کش درست نتائج اخذ کریں گے کہ انہیں اپنی ایک سیاسی پارٹی کی ضرورت ہے۔ ایسی پارٹی کی تعمیر اور اسے مشق میں ڈالتے ہوئے سب سے شعور یافتہ پرتیں انقلابی نتائج اخذ کریں گی اور انہیں تلاش کریں گی جو انہیں سچ بتاتے رہے ہیں۔ اس عمل کے ذریعے امریکی محنت کش طبقے کی ایک آزاد پارٹی بنے گی اور ان حالات میں مارکسی رجحان ایک طاقتور قوت بن کر ابھرے گا۔ اور اس وقت امریکی مزدور اور نوجوان امریکہ کو حقیقی سوشلسٹ بنیادوں پر تبدیل کرنے کے عمل کا آغاز کریں گے۔