بائیڈن صدارت کی دوڑ سے باہر! ٹرمپ کا راستہ کون روک سکتا ہے؟

|تحریر: انقلابی کمیونسٹس آف امریکہ، ترجمہ: ولید خان|

امریکی سیاست ایک اندوہناک ڈرامہ بن چکی ہے جس میں نیا موڑ جوبائیڈن کی صدارتی انتخابات سے دستبرداری ہے۔ انتخابات سے محض 108 دن پہلے امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک مرتبہ صدر بننے والے شخص نے ایسا فیصلہ کیا ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

تاریخ میں اس کی قریب ترین مثال 1968ء میں مل سکتی ہے جب لینڈن جانسن نے ویتنام جنگ مخالف تحریک کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے صدارتی انتخابات میں دوسری مرتبہ حصہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔ وائٹ ہاؤس میں نسل کش بائیڈن کا دور بے قابو افراط زر اور جنگ سے عبارت تھا اور 56 فیصد عوامی نفرت کے ساتھ اب یہ دور اختتام پذیر ہے۔

مخالف امیدوار پر ناکام قاتلانہ حملے کے باوجود 27 جون کو امیدواروں کے مابین منعقد ہونے والے تباہ کن بحث مباحثے کے بعد نوشتہئ دیوار تبدیل نہیں ہو سکا۔ کئی مہینوں سے وائٹ ہاؤس ڈھٹائی سے اصرار کر رہا تھا کہ صدر کی ذہنی اور جسمانی صحت ”ہمیشہ کی طرح تیز دھار“ ہیں۔ لیکن بالآخر حقیقت نے سب سے زیادہ جانثار وائٹ ہاؤس اہلکاروں کو بھی سچ ماننے پر مجبور کر دیا ہے۔

موجودہ صدر کی ہچکچاہٹ اور دیر سے فیصلہ ٹرمپ مخالف حکمران دھڑے اور ڈیموکریٹک پارٹی کے کلیدی حلقوں کے شدید دباؤکا نتیجہ تھا جو نومبر میں شرمناک شکست اور دور رس نتائج سے خوفزدہ ہیں اگر بائیڈن اپنی پوزیشن پر ہٹ دھرمی سے اڑا رہتا اور بالآخر پارٹی امیدوار بن جاتا۔ کانگریس قائدین جیسے چارلس شومر، حکیم جیفریز، نینسی پیلوسی اور دیگر نے بائیڈن سے اصرار کیا کہ رائے شماریوں کے نتائج پر آنکھیں کھولو!

توقعات کے مطابق بائیڈن نے اشارہ دیا ہے کہ باراک اوبامہ کے نمائندے بھی اس کی دستبرداری کے مطالبے میں شامل تھے اگرچہ اوبامہ خود معنی خیز طور پر خاموش ہے۔ 21 جولائی کو بائیڈن کے اعلان سے پہلے نیو یارک ٹائمز اخبار نے لکھا کہ، ”آٹھ سالہ شراکت داری کے پس منظر میں پس پردہ لیکن واضح طور پر محسوس ہوتی اوبامہ کی موجودگی نے جاری ڈرامے کو ایک شیکسپیئر (ڈرامے کا) رنگ دے دیا ہے۔“

سیاست دانوں کا سب سے بڑا خوف انتخابات میں شکست ہوتا ہے۔ لیکن اس مرتبہ سب کچھ ہی داؤ پر لگا ہوا ہے کیونکہ حکمران طبقے کی اکثریت واضح طور پر جانتی ہے کہ ٹرمپ کی دوسری صدارت کا مطلب مزید انتشار اور بورژوا اداروں کی ساکھ کا مزید جنازہ نکلنا ہے۔ اس کے اسٹیبلشمنٹ مخالف پاپولزم نے پہلے ہی سماج میں آگ لگا رکھی ہے اور حکمران طبقہ پاگل ہوا پھر رہا ہے کہ کسی طرح سے سماجی امن قائم ہو۔ پچھلے تین سال بائیڈن پر تکیہ کرنے کے بعد اب ڈیموکریٹک پارٹی نے فیصلہ کر لیا ہے کہ نقصان برداشت کرو اور اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرو۔

ہیرس: نئی بوتل میں پرانی شراب

توقعات کے مطابق بائیڈن نے اپنی نائب صدر کمالہ ہیرس کے حق میں دستبرداری کا اعلان کیا ہے۔ بل اور ہیلری کلنٹن، پیلوسی، شومر، جیفریز اور دیگر ڈیموکریٹک پارٹی اشرافیہ نے چند گھنٹوں میں یہی راگ الاپنا شروع کر دیا۔ ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کے چیئرمین جیمی ہیرسن نے بائیڈن کے اعلان کے بعد ایک بیان میں کہا کہ بائیڈن کے اعلان کے بعد پارٹی ”ایک شفاف اور منظم عمل کے ذریعے ایک متحد ڈیموکریٹک پارٹی کے طور پر امیدوار کا انتخاب کرے گی جو نومبر میں ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست فاش کرے گا۔“

بین السطور، ہیرس کی امیدواری پر شدید تضادات اور شکوک و شبہات ہیں۔ اگرچہ کمالہ ان کی پہلی ترجیح نہیں ہو گی لیکن حتمی طور پر بائیڈن کی دستبرداری سے متعلق انتشار کو مزید طول نہیں دیا جا سکتا تھا اور وہ یقینا امیدوار بنے گی۔ دیگر سرفہرست امیدوار جیسے گاون نیوسوم اور گریچن وہیٹ مر 2024ء کے زہر قاتل سے بچنا چاہیں گے اور ان کی نظریں 2028ء اور مستقبل پر ٹکی ہوئی ہیں۔

ہیرس سابقہ سان فرانسیسکو ڈسٹرکٹ اٹارنی اور کیلیفورنیا اٹارنی جنرل ہے اور 2017-21ء کے دوران امریکی سنیٹر رہی ہے۔ ملک کی چوٹی کی ”قانون محافظ“ رہنے کی بنیاد پر اس نے 2020ء میں صدارتی امیدوار بننے کی ناکام کوشش کی اور آئیوا کاکس (Iowa Caucus) [ہر امریکی ریاست میں موجود ڈیموکریٹک پارٹی کے منتخب مندوبین کاکس میں پارٹی کو صدارتی امیدوار نامزد کرتے ہیں۔ مترجم] سے پہلے ہی دستبردار ہو گئی۔ بائیڈن نے اسے 2020ء انتخابات میں نائب صدر نامزد کیا اور بائیڈن-ہیرس جوڑی نے موجود صدر کے خلاف جذبات کی لہر پر ٹرمپ کو شکست دی۔

ٹرمپ صدارت کے چار سالوں میں گلتی سڑتی امریکی سرمایہ داری کا کوئی ایک مسئلہ حل نہیں ہوا اور بائیڈن صدارت بھی مختلف نہیں تھی۔ بائیڈن صدارت ایک بھیانک خواب سے بھی بدتر رہی ہے۔ 2020ء سے اب تک اخراجات زندگی میں دیوہیکل اضافہ ہوا ہے اور بنیادی اخراجات جیسے کرایوں میں خاص طور پر تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس کی حکومت نے یوکرین میں روس کے ساتھ گراں قدر جنگ کا آغاز کیا اور اس نے ذاتی طور پر غزہ میں نتن یاہو کی نسل کش جنگ کی حمایت کی ہے۔

جب اس کی حکومت کے دوران سپریم کورٹ نے رو بمقابلہ ویڈ (Roe v. Wade) کیس [امریکہ میں خواتین کے اسقاط حمل کے حق کے حوالے سے تاریخی فیصلہ۔ مترجم] پر نظر ثانی کر کے اسقاط حمل کے حق کو ختم کر دیا تو بائیڈن کے ڈیموکریٹوں نے قومی سطح پر اس حق کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی حالانکہ اس وقت کانگریس کے دونوں ایوانوں میں انہیں اکثریت حاصل تھی۔ غزہ میں امریکی معاونت سے برپاء نسل کشی کے ساتھ اندرون ملک فلسطین یکجہتی احتجاجوں پر بھی شدید جبر کیا گیا۔

نیو یارک ٹائمز کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ اگرچہ غزہ میں سامراجی نسل کشی کے خلاف احتجاجی تحریک ویتنام جنگ مخالف تحریک کے عروج سے بہت چھوٹی تھی لیکن کم و بیش ایک ہی تعداد میں افراد گرفتار ہوئے ہیں۔ صدر ہیرس اگر فاتح یاب ہوتی ہے تو کچھ بھی نہیں بدلے گا کیونکہ بہرحال وہ بھی سرمایہ داری ہی کی محافظ ہے۔

یہ ممکن ہے کہ ایک تازہ دم امیدوار ڈیموکریٹک پارٹی کے امکانات کو کچھ روشن کر دے۔ ہیرس نے اپنی انتخابی مہم کے پہلے چوبیس گھنٹوں میں عام عوام سے 81 ملین ڈالر چندہ اکٹھا کیا ہے۔ لیکن زیادہ تر امریکی سٹیٹس کو سے شدید تنگ ہیں اور کروڑوں افراد کے لیے بائیڈن-ہیرس حکومت کی مخالفت کا مطلب ٹرمپ کو ووٹ دینا ہے۔ پھر، الیکٹورل کالج (Electoral College) [امریکہ میں صدر براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب نہیں ہوتا بلکہ ووٹوں کی بنیاد پر کالج میں مندوبین کوٹہ کے ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے۔ مترجم] میں دانستہ اور متعصبانہ طور پر قدامت پرست دیہی پیٹی بورژوازی کی اکثریت کا مطلب ہے کہ وہ کم عوامی ووٹ حاصل کر کے بھی صدارت جیت سکتا ہے۔ 2016ء میں ایسے ہی ہوا تھا۔

اصلاح پسندی کی ناکامی اور پاپولزم

2016ء میں امریکی محنت کشوں کے غصے کا اظہار دو امیدواروں کے ذریعے ہوا تھا: برنی سینڈرز اور ڈونلڈ ٹرمپ۔ ڈیموکریٹک پارٹی اشرافیہ نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر برنی کو پارٹی امیدوار بننے سے روک دیا۔ سینڈرز کے پاس تاریخی موقع تھا کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی کمر توڑتے ہوئے ایک عوامی سوشلسٹ پارٹی کی بنیاد رکھ دیتا۔ اس کے برعکس اس نے ہیلری کلنٹن کی حمایت کا اعلان کر دیا۔

2020ء میں برنی سینڈرز نے ڈیموکریٹک پارٹی کا امیدوار بننے کے لیے ایک مرتبہ پھر قسمت آزمائی اور سرمایہ دار طبقہ تیزی سے چوتھے نمبر پر موجود اسی سالہ بڈھے جو بائیڈن کے گرد اکٹھا ہو گیا تاکہ اس کا راستہ روکا جا سکے، ایک ایسی چال جس کی دردناک قیمت آج ادا کی جا رہی ہے۔ برنی نے ایک مرتبہ پھر اسٹیبلشمنٹ امیدوار کی حمایت کا اعلان کر دیا؛ اس جرم میں DSA (ڈیموکریٹک سوشلسٹس آف امریکہ) ممبران بھی شامل تھے جنہیں کانگریس میں نام نہاد ”سکواڈ“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کانگریس ویمن الیگزینڈریا اوکازیو کورٹیز (Congresswoman AOC)نے غزہ میں اسرائیلی نسل کشی پر بائیڈن کی حمایت کے ساتھ بائیڈن کے لیے ووٹ بھی دیا جب نام نہاد ”یونین نواز“ صدر نے ریل کے محنت کشوں پر ایک معاہدہ مسلط کر دیا اور ان کے لیے احتجاج غیر قانونی قرار دے دیا۔

سینڈرز، الیگزینڈریا اور کانگریس میں موجود DSA کے دیگر نمائندوں نے اپنی پوزیشن کو استعمال کرتے ہوئے سرمایہ داری کے خلاف منظم ہونے کے برعکس اسی اسٹیبلشمنٹ کی شب و روز حفاظت کی ہے۔ سرمایہ داری کا بحران اصلاح پسندی کا بھی بحران ہے۔ ظاہر ہے اصلاحات کے بغیر اس کی بطور پالیسی یا تناظر کوئی اوقات نہیں ہے۔ بس جیکوبن میگزین (DSA کی سرکاری آواز) کے اوراق ہی سرمایہ داری کے ساتھ پرامن ہمبستری کے خوابوں سے بھرے پڑے ہیں اور DSA ممبر شپ کی طرح اس کے قائرین بھی تیز ترین رفتار سے کم ہو رہے ہیں۔

اس ساری صورتحال میں ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے نائب صدر امیدوار جے ڈی وینس کے لیے میدان کھلا پڑا ہے کہ پاپولسٹ ”محنت کش دوست“ پتے کھیلے جائیں اور ان کے ذریعے کئی بپھرے اور مایوس نوجوانوں کے کانوں میں رس گھولا جائے جن میں قابل ذکر تعداد میں سیاہ فام اور لاطینی محنت کش بھی شامل ہیں۔

ایک انقلابی متبادل تعمیر کرو!

ساڑھے تین مہینوں میں بہت کچھ ہو سکتا ہے لیکن اگر آج انتخابات ہوں تو یقینا ٹرمپ ہی فاتح یاب ہو گا۔ محنت کش طبقہ ڈیموکریٹوں کے مایوس کن اور کرب ناک مدرسے میں مسلسل زیر جبر رہا ہے جن میں اوبامہ کے آٹھ سال اور بائیڈن کے چار سال شامل ہیں۔ اگر موجودہ رائے شماریاں مستقبل میں بھی یہی رہتی ہیں تو کروڑوں غم و غصے میں ڈوبے مایوس زدہ محنت کش جلد ہی ٹرمپ مدرسے کے دوسرے دور میں داخل ہو جائیں گے۔ وہ چاند تاروں کو توڑ لانے کی باتیں کرتا ہو گا لیکن سرمایہ دارانہ بحران کی حقیقت بہت مختلف ہے اور اس مرتبہ وہ پچھلی بار کی طرح کورونا وباء کا بہانہ کر کے جان بھی نہیں چھڑا سکے گا۔

عوام کی اکثریت محنت کش طبقہ ہے لیکن ایک سرمایہ دارانہ حل کوئی حل نہیں ہے۔ مستقبل کی واحد حقیقی امید ایک عوامی کمیونسٹ پارٹی کی تعمیر ہے جو محنت کشوں کو ایک مزدور ریاست کی تعمیر میں رہنمائی فراہم کرے تاکہ جمہوری بنیادوں پر منصوبہ بند معیشت کا آغاز ہو، انسانی ضروریات پوری ہوں اور ہم سب اپنے بھرپور جوہر اور امکانات سے استفادہ حاصل کر سکیں۔ محنت کش اور نوجوان جو اسٹیبلشمنٹ مخالف متبادل کی حقیقی تلاش میں ہیں، ان کا فرض ہے کہ وہ یہ پارٹی تعمیر کریں۔ یہی RCA کا اولین ہدف ہے۔ آج ہی انقلابی کمیونسٹس آف امریکہ کے ممبر بنیں!

Comments are closed.