|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|
پروگریسو یوتھ الائنس نے 23 مارچ 2021ء بروز منگل کو بھگت سنگھ کی پھانسی کے 90 سال بعد بھگت کی یاد میں لاہور شہر میں موجود ان تاریخی مقامات کے دورے کا انعقاد کیا جہاں بھگت سنگھ مقیم رہا، تعلیم حاصل کی اور سیاسی جدوجہد کی۔
اس دورے کو ”Bhagat Singh in Lahore: legacy of a Revolutionary“ کا نام دیا گیا۔ اس دورے میں لاہور میں موجود بھگت سنگھ سے منسوب جگہیں جیسا کہ ریلوے سٹیشن، بریڈلے ہال، ہائی کورٹ اور شادمان چوک کا دورہ کیا گیا۔ ان جگہوں کا بھگت سنگھ کے حوالے سے تاریخی پس منظرعالمی مارکسی رجحان کے مرکزی رہنما آدم پال نے بتایا۔ اس سفر میں لاہور کے مختلف تعلیمی اداروں جن میں پنجاب یونیورسٹی، نمل یونیورسٹی، لیڈز یونیورسٹی، ورچوئل یونیورسٹی اور نیشنل کالج آف آرٹس کے طالب علموں اور لاہور کے سیاسی کارکنوں نے شرکت کی۔
دورے کے لئے ایک بس کا بندوبست کیا گیا تھا جسے پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان نے سیاسی انداز میں سجایا۔ بس کی دونوں اطراف پر بینر لگائے گئے تھے جن پر ”سوشلسٹ انقلاب زندباد!” اور ”بھگت کی راہ ہماری ہے، جنگ ہماری جاری ہے!“ لکھا گیا تھا۔ بس کے آگے بھگت سنگھ کی تصویر لگائی گئی، پیچھے پروگریسو یوتھ الائنس کا جھنڈا اور بس کے اندر ہتھوڑے اور درانتی کے جھنڈے لگائے گئے تھے۔
دورے کا آغاز پروگریسو یوتھ الائنس لاہور کے ایبٹ روڈ پر واقع دفتر سے پرجوش نعروں کے ساتھ کیا گیا۔ سب سے پہلے شرکاء انقلابی گیت گاتے ہوئے لاہور ریلوے سٹیشن پہنچے۔ ریلوے سٹیشن پر آدم پال نے ریلوے سٹیشن کا تاریخی اور سیاسی پس منظر بتاتے ہوئے کہا کہ ریلوے سٹیشن برطانوی سامراج کے دور میں سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہوا کرتا تھا۔ برطانیہ سے آنے والے ”سائمن کمیشن“ کے خلاف مقامی لوگوں نے پورے ہندوستان میں احتجاج شروع کر دیے۔ سائمن کمیشن کے لوگوں نے لاہور ریلوے سٹیشن پر اترنا تھا۔ یہاں پر بھی لالہ لجپت رائے کی قیادت میں سائمن کمیشن کی مخالفت میں احتجاج ہو رہا تھا جس پر پولیس نے شدید لاٹھی چارج کیا۔ جس کے نتیجے میں لالہ لجپت رائے اور سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے۔ لالہ لجپت رائے بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے۔ لالہ لجپت رائے اس دور کے بڑے سیاسی لیڈروں میں سے ایک تھے جو برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے۔ عوام میں ان کی موت کے بعد غصہ اور بھی بڑھ گیا اور برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت بڑھتی چلی گئی۔ اسی اثنا میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے لالہ لجپت رائے کے قتل کا بدلہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ مزید انہوں نے کہا کے بھگت سنگھ اس سٹیشن سے اپنا بھیس بدل کر لاہور سے دیگر شہروں میں بھی گیا تھا۔
اس کے بعد کارواں بریڈلے ہال پہنچا۔ آدم پال نے اس جگہ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ یہ جگہ ماضی میں لاہور کا سیاسی اور ثقافتی مرکز ہوا کرتی تھی۔ لالہ لجپت رائے نے اس ہال میں 1920ء میں ہندوستان کے نوجوانوں کے لیے نیشنل کالج بنوایا۔ جس میں بھگت سنگھ نے 1922ء سے لے کر 1926ء تک اپنی تعلیم حاصل کی۔ بھگت سنگھ جو اپنی کم عمری سے ہی انقلابی تھا، اس کو مزید سیاسی ماحول میں رہنے کا موقع ملا اور اسی جگہ سے اس کے انقلابی سفر کا آغاز ہوا۔ نیشنل کالج کے ایک پروفیسر ودیا لنکر کے توسط سے بھگت سنگھ ”ہندوستان ریپبلیکن ایسوسی ایشن“ کا حصہ بنا جو اس وقت کی واحد انقلابی پارٹی تھی۔ اس سارے عرصے کے دوران روس میں ہونے والے سوشلسٹ انقلاب کے اثرات برِصغیر پر بھی پڑ رہے تھے اور بھگت سنگھ بھی ان لوگوں میں سے تھا جن پر سوشلزم کے نظریات نے بہت اثر کیا۔ مارکسزم کے نظریات سے روشناس ہونے کے بعد بھگت سنگھ نے ”ہندوستان ریپبلیکن ایسوسی ایشن“ کا نام بدل کر ”ہندوستان سوشلسٹ ریپبلیکن ایسوسی ایشن“ رکھا جو بھگت سنگھ کے مارکسزم کے نظریے پر یقین کی واضح مثال ہے۔
قافلے کا اگلا پڑاؤ ہائی کورٹ تھا۔ ہائی کورٹ کی عمارت کے سامنے شرکاء سے مخاطب ہوتے ہوئے آدم پال نے بھگت کے حوالے سے اس جگہ کی تاریخی اہمیت بتاتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں بھگت سنگھ پر مقدمہ چلایا گیا تھا۔ بھگت سنگھ اسی عدالت سے اپنے نظریات پریس کے ذریعے عوام تک پہنچاتا تھا۔ یہ بات برطانوی سامراج کے لئے پریشان کن تھی۔ انہوں نے اس لئے بھگت سنگھ کے مقدمے کو غیر معمولی تیزی کے ساتھ چلایا اور اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین اور تمام تر انسانی اصولوں کو روند تے ہوئے بھگت سنگھ کو پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ عدلیہ اور پولیس کا نظام انگریزوں نے متعارف کروایا تھا اور ان اداروں کا مقصد صرف اور صرف برطانوی سامراج کے ظالمانہ عزائم کی حفاظت کرنا تھا اور عوام میں خوف پیدا کرنا تھا۔ آج بھی ان اداروں کا کردار کوئی مختلف نہیں ہے۔ آج بھی یہ ادارے سرمایہ داروں، وڈیروں اور حکمرانوں کے تحفظ کیلئے ہیں نہ کہ عوام کے مسائل کے حل کیلئے۔ منافع پر مبنی اس نظام نے ہر چیز کو ایک جنس بنا کر رکھ دیا ہے اور انصاف بھی ایک بھاری قیمت کے ساتھ اس منڈی میں دستیاب ہے، جو اس کو خریدنے کی سکت رکھتا ہے وہ خرید سکتا ہے اور جو نہیں خرید سکتا اس کے لیے اس نظام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس بات کی نشاندہی بھگت سنگھ نے کی تھی کہ انگریزوں کے جانے کے بعد عام آدمی کی زندگی میں کوئی فرق نہیں آئے گا، انگریزوں کے بعد یہاں کے سرمایہ دار اور وڈیرے اقتدار سنبھال لیں گے۔ مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر ایک ایسی آگ لگے گی جس کو بجھاتے بجھاتے ہماری نسلیں ختم ہو جائیں گی۔ اس لیے ہمارا مقصد صرف انگریزوں سے آزادی حاصل کرنا نہیں بلکہ اس استحصال پر مبنی پورے نظام کو بدلنا ہے۔ اور بھگت سنگھ کا یہ مشن آج بھی ادھورا ہے۔
آخر میں قافلہ شادمان چوک کی طرف روانہ ہوا۔ سفر کے دوران بس میں پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان نے انقلابی نظم ”سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے“ گا کر سنائی۔ انقلابی گیتوں کے ساتھ بس شادمان چوک پہنچی۔ آدم پال نے اس جگہ کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا کہ یہ چوک پہلے لاہور سینٹرل جیل کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ اسی جگہ پر بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی راج گرو اور سکھ دیو کو ان کی پھانسی کی تاریخ سے ایک دن پہلے رات کی تاریکی میں پھانسی دی گئی تھی۔ بھگت سنگھ اوراس کے ساتھیوں کے انقلابی نظریات عوام تک پہنچ چکے تھے اور ان کی پھانسی کے خلاف عوام سراپا حتجاج تھے۔ اس لیے عوام کی بغاوت سے بچنے کیلئے بھگت اور اس کے ساتھیوں کو پھانسی کی مقرر کردہ تاریخ سے ایک دن پہلے ہی پھانسی دے دی گئی۔ شرکاء نے شادمان چوک پر پرجوش نعرے بازی کی۔
ساتھیو! بھگت سنگھ کے حقیقی نظریات اور کردار انقلابیوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ جس طرح اس نے برطانوی سامراج کے جبر کا مقابلہ کیا اور مشکل ترین حالات میں بھی اپنے نظریات سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا وہ تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ پھانسی کے پھندے کو جس خوشی اورمسکراہٹ سے اس نے چوما تھا اس نے بھگت سنگھ کو تاریخ میں امر کر دیا ہے۔ اور اب بھگت کے مشن کو پورا کرنا آج کے انقلابی نوجوانوں کا انقلابی فریضہ ہے تا کہ ایسا سماج تعمیر کیا جائے جس میں ظلم و جبر، غربت اور ناانصافی کی کوئی گنجائش ہی نہ ہو۔
بھگت کی راہ ہماری ہے جنگ ہماری جاری ہے!
سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!
نوٹ: اس دورے پر پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے ایک ڈاکومنٹری بھی تیار کی جا رہی ہے جو جلد ہی ریلیز کی جائے گی۔