|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان|
بلوچستان ایمپلائز اینڈ گرینڈ الائنس کے مرکزی کنوینر عبدالمالک کاکڑ نے 9 اپریل 2021ء کی شب 8 بجے بارہ روز سے جاری صوبے بھر کے ہزاروں محنت کشوں و ملازمین کے احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے احکامات دیے ہیں کہ آپ لوگ اس دھرنے کو ختم کریں تو ہم عدالتی کاورائی کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرتے ہیں۔ لہٰذا گرینڈ الائنس کے قائدین کی مشاورت سے ہم نے یہ طے کیا ہے کہ ہم صوبے کی اعلیٰ عدالت کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے فی الحال اس دھرنے کو موخر کررہے ہیں اور اگر عدالتی فیصلے کے پس منظر میں ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے تو ہم دوبارہ احتجاجی تحریک شروع کریں گے۔
کنوینر کی تقریر کے فوری بعد سٹیج کے سامنے بیٹھے ہوئے محنت کش و ملازمین شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے احتجاجی طور پر دھرنے سے اٹھ گئے اور مرکزی قائدین کے بار بار منتیں کرنے کے باوجود وہ ان کی مزید تقریریں سننے کو تیار نہیں تھے اور غصے سے بھرپور احتجاجی انداز میں اپنے اپنے گھروں اور جگہوں پر چلے گئے۔ یوں بلوچستان گرینڈ الائنس کی قیادت کی طرف سے صوبے کے محنت کش و ملازمین کے 12 روز سے جاری اس تاریخی احتجاجی دھرنے کو مطالبات کی ٹھوس منظوری کے بغیر موخر کر دیا گیا۔
بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس کی جانب سے تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے سمیت 18 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ کی منظوری کے لیے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ریلوے ہاکی چوک پر 29 مارچ سے احتجاجی دھرنا جاری تھا جس میں ہزاروں ملازمین شریک تھے۔ مطالبات کی منظوری اور حکومتی ہٹ دھرمی کے خلاف صوبے بھر میں پہیہ جام ہڑتال کی گئی اور صوبے کی تمام بڑی شاہراؤں کو بلاک کر دیا گیا۔ اس احتجاجی دھرنے میں مذکورہ الائنس میں شامل 32 تنظیموں کے علاوہ دیگر مزدور تنظیمیں بھی شامل تھیں۔ ان مزدور تنظیموں کے نمائندگان صوبے بھر سے اس احتجاجی دھرنے میں شرکت کے لیے آئے۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک اس دھرنے میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کر چکے ہیں جبکہ دھرنے کے مطالبات اور چارٹر آف ڈیمانڈ کے سلسلے میں صوبے بھر کے مزدور لاکھوں کی تعداد میں حرکت میں آچکے ہیں۔
گرینڈ الائنس نے حکومت کو 25 فی صد ریڈکشن الاؤنس سمیت 18 نکاتی ڈیمانڈ لسٹ 24 فروری 2021ء کو پیش کی تھی لیکن حکومت نے ان مطالبات کوتسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا کیونکہ ان کو محنت کشوں کی زندگی میں بہتری سے زیادہ اپنی لوٹ مار اور کرپشن عزیز ہے۔ سرمایہ داروں کے لیے خزانے کے منہ فوری کھل جاتے ہیں۔ اراکینِ اسمبلی کی اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ مقصود ہو تو بلا کسی تاخیر و تعمل کے بل پاس ہوجاتے ہیں۔ مگر جب محنت کشوں اور ملازمین کی بات آتی ہے تو طرح طرح کے حیلے بہانے بنائے جاتے ہیں اور خزانہ خالی ہونے کا رونا رویا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں گرینڈ الائنس نے ان مطالبات کو پوراکرنے کے لیے 29 مارچ کی ڈیڈ لائین دی تھی۔ چارٹر آف ڈیمانڈ پر کوئی عملدرآمد نہ ہونے اور حکومتی ڈھٹائی سے تنگ آکر بالآخر صوبے بھر کے محنت کشوں نے بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس کی قیادت میں کوئٹہ میں تاریخی دھرنا دیا جو کہ 12 دن تک جاری رہا۔ اس سلسلے میں 6 اپریل بروز سوموار ملازمین نے مطالبات منظور نہ ہونے کے خلاف بلوچستان بھر میں پہیہ جام کردیا اور صوبے بھر کی شاہراہوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے ہر طرح کی ٹریفک معطل کر دی۔ ملازمین نے حب، لسبیلہ، سونمیانی، قلات، ڈیرہ مراد جمالی، خضدار زیرو پوائنٹ، سبی، مستونگ، نوشکی، کوہلو، قلعہ سیف اللہ، نصیرآباد، لورالائی، ژوب، قلعہ عبداللہ، پشین، خانوزئی، چمن، خاران، واشک اور چاغی سمیت دیگر مقامات سے شاہراہیں بند کر رکھی تھیں۔ قومی شاہراہوں کو بند کرنے کی پاداش میں ریاستی مشینری نے مزدوروں پر نہ صرف تشدد کیا بلکہ کئی ایک کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ تاہم محنت کشوں کی جانب سے آنے والے شدید ردعمل سے خوفزدہ ہوکر ان سب گرفتار ملازمین اور مزدوروں کو رہا کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ اس پورے احتجاجی دھرنے میں صوبے بھر کی دیگر سیاسی و غیر سیاسی تنظیموں کی جانب سے بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا گیا اور دھرنے کو بڑے پیمانے پر عوامی پذیرائی ملی۔
احتجاجی دھرنے کے شروع دن سے لے کراختتام تک صوبے بھر میں تمام تر سرکاری دفاتر و ادارے تقریباً نیم مفلوج ہو چکے تھے جو کہ صوبے میں مزدور طبقے کے اتحاد و جڑت کی پہلی مثال ہے۔ پہلی بار کوئٹہ شہر کے اندر ریاست کی جانب سے راستوں کو بند کرنے کے لیے کنٹینرز کا استعمال کیا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو دیگر مقامات سے کوئٹہ شہر تعینات کیا گیا۔ محنت کش طبقے کے اس اتحاد اور جڑت نے ایک طرف اگر حکمران طبقے کی نیندوں کو حرام کیا ہے تو دوسری طرف دہائیوں بعد محنت کش و ملازمین کے اتحاد اور احتجاجی تحریک نے یہ ثابت کیا کہ بلوچستان میں تمام فالٹ لائنز کے ہوتے ہوئے مزدور طبقہ ہی وہ حقیقی قوت ہے جو یہاں پر تمام تقسیموں کو چیر کر وہ تحریک بناسکتا ہے جس کو اگر انقلابی و نظریاتی بنیادوں پر منظم کیا جائے تو یہاں پر موجود تمام مسائل پر عملی اور متحدہ جدوجہد کی جاسکتی ہے۔
کوئٹہ میں بارہ روز چلنے والے ہزاروں محنت کشوں کے اس احتجاجی دھرنے اور پھر اچانک قائدین کی طرف سے مطالبات حل ہوئے بغیر عدالتی حکم پر اس دھرنے کے موخر ہونے میں، عمومی طور پر مزدور تحریک اور بالخصوص ٹریڈ یونین میں فعال مزدوروں کی ہر اول پرتوں اور انقلابی کارکنان کیلئے، سنجیدہ سیاسی اسباق و نتائج موجود ہیں جن کی بنیاد پر اس احتجاجی تحریک کی بیلنس شیٹ نکال کر آنے والے عرصے میں ان غلطیوں سے سیکھتے ہوئے مزدور تحریک کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا جا سکتا ہے۔
اسباق و نتائج
1۔ کسی بھی طبقاتی معاشرے میں عدالت کا کردار مزدور دوست نہیں ہوتا۔ ریاست کے دوسرے اداروں مثلاًپولیس اور پارلیمان کی طرح عدالت بھی آخری تجزیے میں اس حکمران طبقے کے ہاتھ میں وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ محنت کشوں کی ہڑتالوں اور احتجاجوں کو توڑتے ہیں۔ حکمران طبقہ سرِعام قوانین کی دھجیاں اڑاتا ہے تو عدالت سے لے کر کوئی بھی قانون نافذ کرنے والا ادارہ کچھ نہیں کہتا لیکن جب مزدور و محنت کش اپنے بنیادی مطالبات کیلئے سڑکوں پر نکلتے ہیں تو ان پر جھوٹے مقدمات درج کیے جاتے ہیں اور لازمی سروس ایکٹ کے ذریعے ان سے یونین کا حق چھین کر ان کو جبر کے ذریعے دبایا جاتا ہے تاکہ حکمران طبقے کی مراعات کا ہر صورت دفاع کیا جائے۔ معاشی قتل عام کے خلاف جب مزدور اپنی بقاء کی خاطر وقت کے حکمرانوں سے اپنی محنت کی قیمت مانگتے ہیں تو یہ حکمران ان کے خلاف پہلے پولیس، کنٹینر اور آنسو گیس کا استعمال کرتے ہیں۔ جب اس ریاستی جبر کا مقابلہ کرتے ہوئے مزدور و محنت کش اپنے مطالبات کیلئے تحریک جاری رکھنا چاہتے ہیں تو حکمران قانون کے تقدس کے نام پر عدالت کے ذریعے ان کو خاموش کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان کی پوری تاریخ میں عدالت نے ہمیشہ فوجی آمروں اور حکمران طبقے کا ساتھ دے کر محنت کشوں، کسانوں اور طالب علموں پر کوڑے برسائے اور ان کی تحریکوں کو توڑا۔ بلوچستان میں بھی عدالتوں کا یہی کردار ہے۔ حالیہ عرصے میں اسی اعلیٰ عدالت نے لازمی سروس ایکٹ نافذ کرتے ہوئے صوبے کی 62 ٹریڈ یونینز پر پابندی لگائی اور مزدوروں کو یونین کے بنیادی حق سے محروم کیا۔ بلوچستان کے ہائی کورٹ کی طرف سے گرینڈ الائنس کے دھرنے کے متعلق احکامات کو اسی تناظر میں دیکھنا چا ہیے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ عدالت گرینڈ الائنس کے مطالبات کو حل کرے گی بلکہ مختلف پیشیوں اور سماعتوں کی تاریخیں دے دے کر عدالتی گھن چکر میں پھنسا کر مطالبات کو حل کرنے کی بجائے مزید طول دے گی۔
2۔ بارہ روز چلنے والے اس احتجاجی دھرنے میں قیادت اور سٹیج پر موجود ان کے نمائندوں کا ایک انتہائی غیر سیاسی اور تنگ نظر رویہ تھا۔ اس احتجاجی دھرنے میں جب نوجوان، سیاسی کارکنان اور دوسرے محنت کش اظہاریکجہتی کیلئے آتے اور ان سے کہتے کہ ہم تقریر کرکے آپ لوگوں سے اظہار یکجہتی کرنا چاہتے ہیں اوریہ پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ اس احتجاجی تحریک کا دائرہ کار وسیع کرکے اس میں صوبے کے تمام محنت کشوں اور نوجوانوں کو شامل کریں تو قیادت اور سٹیج پر موجود نمائندگان یہ کہہ کر اس کو رد کرتے کہ ہمارا مطالبہ 25 فیصد کا ہے اورہم نہ اس طرح کی یکجہتی چاہتے ہیں اور نہ ہی اس تحریک کا دائرہ کار وسیع کرسکتے ہیں۔ اس تنگ نظر اور فرقہ پرور رویے کی وجہ سے بہت سی مزدور تنظیمیں اور سیاسی کارکن ناراض بھی ہوئے اور مکمل طور پر دھرنے سے نہیں جڑ سکے۔
3۔ اس طویل دھرنے نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ اپنے مطالبات منوانے کیلئے دھرنے کا طریقہ کار ناکافی ہے۔ دھرنے کا احتجاجی طریقہ کار اپنی حدود کو پہنچ چکا ہے۔ ایک طویل دھرنا دے کر محنت کش و ملازمین تھک جاتے ہیں اور اس تھکاوٹ کے نتیجے میں وہ انتظار کرنے لگتے ہیں کہ اب کسی طرح یہ دھرنا ختم ہو جائے تاکہ وہ اپنے گھروں کو چلے جائیں۔ آج کی صورتحال میں اپنے مطالبات منوانے کیلئے بہترین طریقہ عام ہڑتال کا ہے۔ جب مزدور ہاتھ کھینچ لیتا ہے تو سب کچھ معطل ہو جاتا ہے اور حکمران طبقہ مجبورہو جاتا ہے کہ اس نظام کو بچانے کیلئے ان کے مطالبات مان لے۔
4۔ پاکستان میں پچھلی تین دہائیوں سے ٹریڈ یونین تحریک سے انقلابی نظریات بڑی چالاکی سے ختم کیے گئیہیں اور آج کی مزدور تحریک کی سب سے بڑی کوتاہی یہی ہے کہ ٹریڈیونین قیادتیں مزدور تحریکوں کو ٹریڈ یونینزم اور معیشت پسندی کی تنگ نظر حدود سے آگے نہیں نکال سکتیں اور ان تمام تر معاشی مطالبات کو ان کی بنیادوں میں پیوست سماجی و سیاسی عوامل سے نہیں جوڑ سکتیں۔ آج پاکستان میں سرمایہ داری جس بحران سے گزر رہی ہے اس میں معمولی سا مطالبہ حل کرنے کیلئے ماضی کے برعکس اس نظام اورا س کی پالیسیوں کی بنیادوں کو سمجھ کر مزدور تحریک کو سیاسی و انقلابی بنیادوں پر منظم کرنا ہوگا۔ مزدور تحریک کو اپنے نظریات یعنی مارکسزم اور سائنسی سوشلزم کی طرف رجوع کرنا ہوگا اور مزدور تحریک کی وسیع حمایت کے بلبوتے پر ایک انقلابی پارٹی تعمیر کرنا ہوگی تاکہ وہ بوسیدہ اور استحصال پر مبنی نظام کو اکھاڑ پھینک کر مزدور ریاست کا قیام عمل میں لا سکیں۔