تحریر:| ٹام ٹروٹیئر- جان پیٹرسن|
ترجمہ: |ولید خان|
10جون 2016ء
To read this article in English, Click Here
آخری سٹیٹ پرائمریز کے نتائج آ گئے ہیں اور حتمی نتائج کچھ زیادہ حیران کن نہیں۔ میڈیا، ڈیموکریٹک پارٹی مشینری اور بڑے مالیاتی مفادات کی حمایت کے ساتھ، آنے والے صدارتی انتخابات میں پارٹی امیدوار کیلئے، ہیلری کلنٹن کے پاس برنی سینڈرز سے زیادہ ڈیموکریٹک پارٹی کے نمائندوں کی ضمانتیں موجود ہیں اور کئی سو سپر نمائندوں کو اپنی جیب میں ڈالنے کے بعد کلنٹن ویسے ہی پارٹی امیدوار بن چکی ہے۔ بہرحال، برنی سینڈرز نے پارٹی امیدوار کی کیمپین میں 22 ریاستوں میں کئی ابتدائی انتخابات جیتے ہیں اور اسے 1.1 کروڑ ووٹ بھی پڑے ہیں۔ برنی کی شمالی ڈکوٹا اور مونٹانا میں حالیہ جیت اور باقی ریاستوں میں ٹھوس پرفارمنس کے بعد یہ بعد طے ہے کہ کروڑوں لوگ ہیلری کلنٹن بمقابلہ ڈونلڈ ٹرمپ کھیل دیکھنے کیلئے تیار نہیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی ساخت اور برنی سینڈرز کے خلاف نبرد آزما طاقتوں کو دیکھتے ہوئے سوشلسٹ اپیل کے نزدیک کلنٹن کو ہرانے کے امکانات نہایت محدود تھے۔ ہم نے ہمیشہ یہ نکتہ نظر رکھا ہے کہ سینڈرز کو ڈیموکریٹک پارٹی ، جو کہ بڑے مالیاتی اداروں کا ایک مظبوط ستون ہے، سے علیحدہ آزاد امیدوار کے طور پر صدارتی الیکشن لڑنا چاہئے ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سینڈرز کی یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ وہ ابھی بھی پارٹی کے اندر ہی اپنی کیمپین کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ سینڈرز کا یہ ماننا ہے کہ وہ جولائی میں ہونے والے پارٹی کنونشن تک ثابت قدم رہ کر پارٹی پلیٹ فارم پر اثر انداز ہو سکتا ہے ۔ لیکن یہ اس کی بھول ہے۔ امریکہ کے اندر اصل فیصلے وال سٹریٹ میں ہوتے ہیں اور ڈیموکریٹک پارٹی بشمول ریپبلیکن پارٹی کے ہر اس شخص کے خلاف ایڑی چوٹی کا زور لگائے گی جو کسی قسم کی اصلاحات کی کوشش کر کے حکمران طبقے کے مالیاتی مفادات کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش کرے گا، چاہے وہ اصلاحات کتنی ہی معمولی اور بے ضرر کیوں نہ ہوں۔
پارٹی کے سربراہان کا سینڈرز پر مستقل دباؤ ہے کہ وہ پارٹی لائن کی حدود میں واپس آئے۔ ان کی کوشش ہے کہ سینڈرز کو جلد از جلد پارٹی صدارتی امیدوار کی دوڑ سے فارغ کرایا جائے تا کہ کلنٹن کے ٹرمپ ساتھ مقابلے پر اپنی توجہ مرکوز کر سکے، لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کی یہ خواہش بھی ہے کہ سینڈرز اپنے زیادہ سے زیادہ حمایتیوں کو کلنٹن کی حمایت میں صف آرا کرے۔ یہ ایک انتہائی پر خطر مداری کھیل ہے اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ صدر اوبامہ کے ساتھ سینڈرز کی ملاقات کوئی امریکی باسکٹ بال کے فائنل کے بارے میں دوستانہ گفتگو نہیں تھی۔ درحقیقت سینڈرز نے ملاقات کے بعد واضح الفاظ میں کہا کہ ’’میں اپنی تمام قوتیں اور محنت ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ کا صدر نہ بننے کی کوششوں میں صرف کروں گا‘‘۔ ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ عنقریب وہ کلنٹن سے ملاقات کرے گا تاکہ ایک ’’مشترکہ لائحہ عمل‘‘ بنایا جائے کہ ٹرمپ کو کیسے ہرانا ہے۔ اس سے تو ایسے لگتا ہے کہ سینڈرز نے اپنا فیصلہ کر لیا ہے، ایسا فیصلہ جس سے اس کے لاکھوں کروڑوں حمایتی غم و غصے کے ساتھ ساتھ مایوسی کا بھی شکار ہوں گے۔
بہرحال، یہ ضروری نہیں کہ یہ اس کی کیمپین کا اختتام ہو! اس کے بجائے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حقیقی انقلابی تبدیلی کی ابتدا ہے۔
محنت کشوں کو اپنی سیاسی پارٹی چاہئے
امریکی عوام کی بھاری اکثریت محنت کشوں پر مشتمل ہے۔ اگر ہم اجرت کیلئے کام نہیں کرتے تو ہم روٹی نہیں کھا سکتے۔ ایک چھوٹی سی اقلیت اوپر بیٹھی ہے جس کا تمام بڑے مالیاتی و پیداواری اداروں پر تسلط ہے۔ یہ اوپری ایک فیصد نچلے 90فیصد سے زیادہ دولت رکھتا ہے۔ ایک حقیقی جمہوریت میں اکثریت کی حکمرانی ہوتی ہے۔ لیکن یہاں ایک واضح تضاد موجود ہے: امریکہ کے محنت کشوں کے سیاسی اظہار کیلئے کوئی پارٹی موجود نہیں ہے جو ان کے مفادات کا تحفظ کرے۔ کروڑ پتیوں اور ارب پتیوں کی دو سیاسی پارٹیاں ہیں: ریپبلیکن اور ڈیموکریٹک۔ جب ایک پارٹی کی ساکھ مجروح ہو جاتی ہے تو پھر وہ دوسری کا سیاسی استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک کھیل بنایا ہوا ہے جس میں عوام کو بیوقوف بنایا جاتا ہے کہ دونوں میں سے ’’چھوٹی برائی‘‘ کو ووٹ دیا جائے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ’’چھوٹی برائی‘‘ سرمایہ دارانہ نظام میں موجود نامیاتی مسائل کو حل نہیں کر پاتی جس کے نتیجے میں ’’بڑی برائی‘‘ نے آنا ہی آنا ہے۔ دونوں پارٹیاں سیاسی طور پر پچھلی چار دہائیوں میں دائیں کی طرف اتنا جھک چکی ہیں کہ عام لوگوں کو اب واضح ہی نہیں رہا کہ دونوں میں سے کون ’’بڑا‘‘ شاطر ہے۔
تضادات بڑھتے جا رہے ہیں اور اب محنت کش اپنا سیاسی اظہار کرنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے AFL-CIO, SIEU اور NEA کی قیادتیں آگے کا راستہ دکھانے سے قاصر ہیں۔ تمام یونینوں کی قیادت کئی دہائیوں اپنے ممبران کو یہی بتاتی رہی ہے کہ وہ ڈیموکریٹس کو منتخب کریں جس کا نتیجہ اب یہ نکلا ہے کہ محنت کش بند گلی میں پھنس گئے ہیں۔ ڈیموکریٹس کی آٹھ سال وائٹ ہاؤس پر حکومت کرنے کے باوجود، اس وقت جب سرمایہ دارانہ معاشی بحالی ہو رہی تھی، بیروزگاری اور کم روزگاری کی شرح ابھی بھی بہت بلند ہے، اجرتیں کم ہیں اور کام کی جگہیں مالکان اور ان کے منیجروں کی بد ترین آمریتیں بنی ہوئی ہیں۔
ان تمام وجوہات کی بنا پر محنت کش اور نوجوان برنی سینڈرز کی صدارتی امیدوار کے لئے کیمپین کو اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ اور جدوجہد کا محرک کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ سینڈرز اپنے آپ کو بطور سوشلسٹ پیش کرتا ہے اور اس کی کیمپین ’’ارب پتی طبقے کے خلاف سیاسی انقلاب‘‘ کی کیمپین ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر سینڈرز کو محنت کشوں میں بے پناہ مقبولیت ملی ہے۔ لاکھوں لوگوں نے رضاکارانہ طور پر اپنا وقت اور قوتیں اس کیمپین کو پھیلانے کیلئے صرف کیں۔ اگر سینڈرز کیمپین کے گرد اکٹھے لاکھوں لوگوں کو صحیح طرح سے منظم کیاجائے تو امریکہ میں ایک عوامی سوشلسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ محنت کشوں کی پارٹی۔ اس پارٹی کی ہر یونین، کام کی جگہ، گلی محلے اور سکول میں برانچیں بنائی جا سکتی ہیں۔ عالمی مارکسی رجحان(IMT) یہ سمجھتا ہے کہ برنی کو ڈیموکریٹس سے علیحدہ ہو کر اپنے حمایتیوں اور خاص طور پر منظم محنت کشوں کو ترغیب دیتے ہوئے ایسی پارٹی کے قیام کو عمل میں لانا چاہئے۔ اس کا مطلب سوشلزم کیلئے جدو جہد میں ایک نئے باب کا آغاز ہو گا اور ایک ایسی حکومت کے حصول کی جدو جہد جو حقیقت میں محنت کشوں کی اور محنت کشوں کیلئے ہو گی۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی بند گلی
’’امریکی جمہوریت‘‘ درحقیقت سرمایہ دار طبقے کی حکمرانی ہے۔ کسی بھی اہم مسئلے پر امریکی عوام کا کوئی اختیار نہیں۔ 2002ء میں امریکی صدر بش نے ہیلری کلنٹن کی حمایت کے ساتھ عراق پر حملہ کیا تو امریکی عوام کی اکثریت اس جنگ کے خلاف تھی اور لاکھوں لوگوں نے اس مہم جوئی کے خلاف احتجاج بھی کیا لیکن اس کے باوجود حملہ نہیں رکا۔ اسی طرح 2008ء میں بش اور کانگریس کے ڈیموکریٹس نے، اس وقت کے نامزد صدر اوبامہ اور سنیٹر ہیلری کلنٹن کی حمایت کے ساتھ بڑے بینکوں اور انشورنس کمپنیوں کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ اس بار بھی امریکی عوام کی بھاری اکثریت اس عمل کے خلاف تھی۔ امریکی عوام کی بھاری اکثریت ایک عوامی ادارے کے تحت صحت کی عوامی سہولیات کی حمایت کرتی ہے۔ لیکن اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ محنت کش اس ملک کو کنٹرول نہیں کرتے۔ امرا کرتے ہیں۔
حکمران طبقہ یہ سب کچھ کرنے میں اس لئے کامیاب ہے کیونکہ وہ دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ کئی قانونی رکاوٹیں، بے پناہ پیسہ اور میڈیا کا کنٹرول اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کوئی نئی پارٹی ابھر کر اس انتظام کو چیلنج نہ کر سکے۔شاید یہی وجہ تھی کہ برنی سینڈرز نے ’’عملی فیصلہ‘‘ کرتے ہوئے ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار بننے کی کوشش کی حالانکہ وہ ہمیشہ سے آزاد امیدوار رہا ہے اور ماضی میں ڈیموکریٹک پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بناتا رہا ہے۔اس ’’عملیت پسندی‘‘ کی وجہ سے وہ ’’باہر سے‘‘ ڈیموکریٹس کو سپورٹ کرتا رہا ہے او ر کانگریس میں ان کے ساتھ اشتراک میں کام بھی کرتا رہا ہے۔ حقیقت کو جانچنے میں عملیت پسندی کا جدلیاتی مادیت کے مقابلے میں مسئلہ یہ ہے کہ عملیت پسندی حقیقی عمل کا صرف ایک ہی رخ دکھاتی ہے، جس کی وجہ سے حقیقت کے بہت سارے پہلو چھپے رہ جاتے ہیں۔ برنی کو بطور ڈیموکریٹ امیدوار بے پناہ پذیرائی ملی جو شاید ایک آزاد امیدوار کے طور پر کبھی نہ ملتی لیکن اس کے بدلے میں برنی اب ڈیموکریٹک پارٹی کے اصولوں میں جکڑا گیا ہے۔ وہ اصول جن کی بنا پر برنی اور محنت کش طبقہ کبھی نہیں جیت سکتا۔
ایسا لگتا ہے کہ برنی کو خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنا کامیاب ہو جائے گا اور شاید اسی وجہ سے، ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار اور صدر بننے کی صورت میں کیا ہو گا، اس پر اس نے زیادہ سوچ بچار نہیں کیا۔ اسے اچھی طرح پتہ ہے کہ ریپبلیکن اور وال سٹریٹ تو ایک طرف، اسے کانگریس کے ڈیموکریٹس نے ہی سپورٹ نہیں کرنا تھا اور ہر مرحلے پر اسے سبوتاژ کرنے کی پوری کوشش کرنی تھی۔ ان مسائل کے خلاف لڑنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ ایک ایسی عوامی پارٹی تعمیر کی جائے جو محنت کشوں پر مشتمل ہو، انہی کے جمہوری کنٹرول میں ہو اور صرف انہی کو جوب دہ ہو۔ ایسی پارٹی میں کانگریس کے ممبران اپنی اجرت ایک مزدور کے برابر کرنے کا حلف لیں گے اور اپنی بقیہ اجرت محنت کش تحریک کو دیں گے۔ ان پر یہ فرض عائد ہو گا کہ وہ ان پالیسیوں کیلئے ووٹ اور جدوجہد کریں گے جن کا جمہوری طریقہ کار سے پارٹی کی عام ممبر شپ تعین کرے گی۔
ٹرمپ کا رجعتی کوڑا
مارکسسٹوں نے 2008ء اور 2012ء کے صدارتی انتخابات میں اوبامہ کی کامیابی پر وضاحت کی تھی کہ ’’ڈیموکریٹس کے سکول‘‘ میں محنت کشوں اور نوجوانوں کو یہ سکھایا جائے گا کہ پارٹی کے پاس ان کے مسائل کا کوئی حل موجود نہیں۔ اوبامہ کے ساتھ اس تجربے سے کچھ نتائج اخذ کرتے ہوئے بہت سارے لوگ برنی سینڈرز کے حمایتی ہو گئے۔ جب بائیں بازو کی طرف یہ ہو رہا تھا تو دوسری طر ف دائیں جانب سماج کی ایک پرت، جن میں ڈیموکریٹک پارٹی سے مایوس محنت کش اور سرمایہ داری کے بحران سے ڈرے ہوئے چھوٹے کاروباری شامل تھے، انھوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی دائیں بازو کی عوامی نعرہ بازی پر یقین کرنا شروع کر دیا۔
ٹرمپ نے کامیابی کے ساتھ لمبے عرصے سے سطح کے نیچے پلنے والے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف موڈ کو اپنے ساتھ جوڑ لیا اور ریپبلکن پارٹی کے تمام 17 امیدواروں کو ہرا دیا۔ ’’قدامت پرست‘‘ جو بش جونیئر کے وقت میں پارٹی کنٹرول کیا کرتے تھے اور ریگن کے زمانے کے روائتی ریپبلکن، سب کو کنارے لگا دیا گیا۔ ریپبلکن پارٹی کی پچھلی دہائیوں میں مقبولیت اس کی قدامت پرستی ہی تھی۔1930ء کی دہائی کے ہیجان، دوسری عالمی جنگ اور پھر 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں، پارٹی نے کامیابی کے ساتھ لاکھوں لوگوں کی؛ اپنی حاصلات کے تحفظ، اضطراب اور تبدیلی کو روکنے اور حالات کو بدستور قائم رکھنے کی امنگوں سے؛ اپنے آپ کو جوڑتے ہوئے کامیابیاں حاصل کیں اور سماج میں اپنی افادیت کو برقرار رکھا۔ لیکن سرمایہ داری کے خوفناک بحران نے جمود کو توڑ دیاہے اور اس کے ناکام حواری بری طرح اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔ اسی اضطراب اور بے چینی کا شخصی اظہار ڈونلڈ ٹرمپ کی ذات ہے اور اس نے بذاتِ خود سیاسی عدم استحکام کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔ قدامت پرست محققین ٹرمپ کو ’’قانون کی بالادستی کو لاحق خطرہ‘‘ کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور اس نے تنِ تنہا ریپبلکن پارٹی کی جدید ساخت کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔
ٹرمپ کھلم کھلا نسلی تعصبات کو ابھار رہا ہے جو کسی بھی سنجیدہ صدارتی امیدوار کے منہ سے شاید ہی سنا گیا ہو۔ نکسن اور ریگن ڈھکے چھپے الفاظ میں نسل پرستوں کی حمایت کرتے تھے لیکن کھلم کھلا کبھی بھی وہ الفاظ نہیں بولتے تھے جو ٹرمپ استعمال کر رہاہے۔ یہ پھر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ امریکی سرمایہ داری اور اس کے حواریوں کا انحطاط اور بوسیدگی کہاں جا پہنچی ہے۔
لیکن تاریخی تجربات ہمیں بار بار یہی سکھاتے ہیں کہ رجعتی حملے اپنی الٹ میں تبدیل ہو کر انقلاب کے شعلوں کو مزید بھڑکا سکتے ہیں۔ بہت سارے نوجوان ٹرمپ اور اس کے نسل پرستانہ متعصب گفتگو کو آسانی سے نہیں جانے دیں گے۔ اس کی ایک جھلک ہمیں سین ہوزے، کیلیفورنیا (San Jose, California) اور اس سے پہلے شکاگو میں نظر آئی۔ حتمی تجزیے میں، ٹرمپ کی رجعتی کیمپین زیادہ سے زیادہ سیاسی طور پر سرگرم نوجوانوں کو ٹرمپ اور اس کے طبقے کے خلاف جنگ میں دھکیل رہی ہے۔ اگر ٹرمپ صدر بن جاتا ہے تو کم از کم بھی اس کی صدارت انتہائی کمزور اور ناپائیدار ہو گی۔
لیکن یہی زندگی کی ناپائیداری اور معیارزندگی میں گراوٹ ٹرمپ جیسے فتنہ انگیزوں کو ابھارنے کا موجب بنتے ہیں۔ چھوٹی برائی کا انتخاب ٹرمپ کو نہیں ہرائے گا۔ یہ ’’چھوٹی برائی‘‘ اوبامہ کا انتخاب ہی تھا جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مایوسی ٹرمپ کو ایک سنجیدہ مقابل کے طور پر ابھارنے کا موجب بنی۔ ٹرمپ کو ہرانے کیلئے ہیلری کلنٹن کی حمایت کرنا مرحوم ڈیوڈ بووی کے الفاظ میں ’’پٹرول سے آگ بجھانے‘‘ کے مترادف ہے۔ کچھ رائے شماریوں کے مطابق اگر سینڈرز نومبر میں صدارتی الیکشن نہیں لڑتاتو سینڈرز کے حمایتیوں میں سے 20 فیصد تک ٹرمپ کو ووٹ دیں گے۔ ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کیلئے عوامی تحرک اور محنت کشوں کی حمایت لازمی ہے لیکن اس سے بڑھ کر ایک عوامی سوشلسٹ پارٹی کی ضرورت ہے جو ایسے پروگرام سے لیس ہو جس سے 99فیصد آبادی کے مسائل حل ہوں جن میں تمام لوگوں کیلئے روزگار، زیادہ سے زیادہ اجرت، مفت صحت اور تعلیم، تمام مالیاتی اور پیداواری اداروں کی عوامی ملکیت اور تمام کام کی جگہوں پر محنت کشوں کا جمہوری کنٹرول شامل ہو۔ ٹرمپ اور اس جیسوں کو ختم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ سرمایہ داری کو ختم کر دیا جائے!
1860ء کے انتخابات
ابراہیم لنکن 1860ء میں صدر منتخب ہوا۔ اس نے 40 فیصد سے کم ووٹ حاصل کئے۔عام طور پر 50 فیصد سے کم ووٹوں کا مطلب ہار ہے لیکن اس سال چار بڑے امیدوار انتخابات لڑ رہے تھے۔ ملک بحران سے دوچار تھا جبکہ اندرونی اختلافات کی وجہ سے شدید منقسم اور خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑا تھا۔ ایک ایسی دیوہیکل خانہ جنگی جس میں جنوبی زمیندار انہ غلامی اور شمالی صنعتی سرمایہ داری ایک دوسرے سے مدِ مقابل تھے۔ معاملات ابھی تک کچھ نہ کچھ کنٹرول میں تھے لیکن طبقات کے درمیان اور بذات خود حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں میں آپسی تضادات ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتے جا رہے تھے۔ حالات پر منحصر ہے کہ معاملات کس کروٹ بیٹھتے ہیں مگر 2016ء کا سال 1860ء جیسا ثابت ہو سکتا ہے۔ اپنے حریفوں کو ہرانے کے بعد، ٹرمپ (جو کسی زمانے میں ڈیموکریٹ ہوتا تھا) نے ریپبلکن پارٹی کے اندر ایک خانہ جنگی چھیڑ دی ہے جس کے نتیجے میں کافی سارے امیدوار انتخابات کے میدان میں اتر سکتے ہیں۔
دائیں بازو کی آزاد خیال پارٹی (The Libertarian Party) جو اپنے آپ کو ’’آزادی کی حامی‘‘ اور عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند کے طور پر پیش کرتی ہے ، اس کی کچھ رائے شماریوں کے مطابق 10 فیصد حمایت ہے۔ دائیں بازو کے کچھ لوگ، خاص طور پر وہ جو قدامت پسند تجزیہ نگار بل کرسٹول (Bill Kristol) کے گرد اکٹھے ہیں، سنجیدگی سے ٹرمپ اور ہیلری کے خلاف ایک اور ’’روائتی‘‘ قدامت پرست امیدوار کو کھڑا کرنے کا سوچ رہے ہیں۔
بائیں طرف، کچھ عرصے سے گرین پارٹی سینڈرز کو ساتھ ملانے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک چوہا ، ہاتھی سے مدد کی اپیل کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان انتخابات میں افراتفری کی وجہ گرین پارٹی میں دلچسپی بڑھ رہی ہے لیکن حتمی تجزیے میں یہ پارٹی روشن خیال درمیانے طبقے کی نمائندگی کرتی ہے۔ ان کی سوشلزم کے حصول اور سرمایہ داری کے خاتمے کی کوئی جدوجہد نہیں ہے اور ان کی کبھی بھی عوام میں وسیع مقبولیت نہیں رہی۔ ویسے تو تاریخ میں بڑے عجیب و غریب واقعات ہوتے رہے ہیں اور 2016ء جیسے سال میں کچھ بھی خارج الامکان قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن اس کے امکانات انتہائی محدود ہیں کہ سینڈرز اور اس کے لاکھوں حمایتی اس طرز کی ایک چھوٹی سی پارٹی میں شمولیت اختیار کریں گے جبکہ اس کے پاس وہ عوامی قوت موجود ہے جس کے ذریعے وہ خود اس سے بہت بلند اور وسیع پیمانے پر کچھ بنا سکتا ہے۔
جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، سینڈرز کیلئے ایک دیو ہیکل عوامی سوشلسٹ پارٹی لانچ کر کے پچاس ریاستوں میں، صرف پیغام پھیلانے کیلئے نہیں بلکہ جیت کیلئے انتخابات میں حصہ لینے کا یہ بہترین موقع ہے۔ زیادہ پارٹیوں کے حصہ لینے کے نتیجے میں سینڈرز کے جیت کے روشن امکانات ہیں۔ ٹرمپ اور کلنٹن پچھلی دہائیوں میں سب سے کم مقبولیت والے صدارتی امیدوار ہیں اور اگر سینڈرز ہار بھی جاتا ہے تو جو بھی صدر بنے گا اس کی صدارت کٹوتیوں، عدم استحکام اور گہرے معاشی بحران کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو گی۔ ان حالات میں مستقبل کیلئے زیادہ بڑے پیمانے پر سیاسی اور معاشی جدوجہد پنپ رہی ہے۔ بطور مارکسسٹ ہمارا موقف طبقاتی سیاست ہے نا کہ چھوٹی برائی کی سیاست۔
تاریخ میں فرد کا کردار
مارکسسٹوں کے مطابق حتمی تجزیے میں، طبقاتی جدوجہد؛ محنت کشوں کی تخلیق کردہ قدرِزائد پر کنٹرول کی جدوجہد؛ تاریخ کو آگے بڑھانے کیلئے انجن کا کام کرتی ہے۔ کبھی کبھی ایسے افراد کا ابھار ہوتا ہے جو عوام میں سے ہی اٹھتے ہیں اور طبقاتی قوتوں کے اظہار میں کردار ادا کرتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ یہ کردار وہ دانستہ طور پر ادا کر رہے ہوں۔ اس پیرائے میں ایک فرد اگر صحیح وقت اور جگہ پر موجود ہو تو طبقاتی تحریک کو آگے بڑھانے کا موجب بن سکتا ہے یا پھر تحریک کو مایوس کرتے ہوئے اسے مہنگی شکست یا غلط راستے کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔
برنی سینڈاس وقت تاریخ کے اہم دوراہے پر کھڑا ہے۔ کیونکہ وہ ایک آزاد سنیٹر تھا، 100 میں سے واحد جو اپنے آپ کو سوشلسٹ گردانتا ہے، وہ اس قابل ہوا کہ امریکی سیاست میں بائیں بازوکی طرف موجود وسیع خلا کو پر کر سکے اور محنت کشوں کی سب سے شعور یافتہ پرتوں کی سیاسی امنگوں کا محرک بن گیا۔ اس وقت، وہ تنِ تنہا اپنی کیمپین کو ایک نئی سیاسی پارٹی میں تبدیل کر کے امریکی سیاست کو یکسر تبدیل کر سکتا ہے۔
65 فیصد نوجوانوں اور 52 فیصد تمام حمایتیوں کی خواہش ہے کہ سینڈرز آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لے۔صرف 24فیصد نوجوانوں کی خواہش ہے کہ سینڈرز کو نامزدگی نہ ملنے کی صورت میں کلنٹن کی حمایت کر دینی چاہئے۔ اگر سینڈرز ، بے شک ’’اپنی شرائط‘‘ پر ہی کلنٹن کی حمایت کرتا ہے تو اس اقدام کی وجہ سے بے پناہ مایوسی پھیلے گی۔ اس کے نتیجے میں ایک عوامی پارٹی کی تعمیر کا کام کئی سالوں یا شاید اس سے بھی زیادہ عرصے کیلئے کھٹائی میں پڑ جائے گا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ بے تحاشہ غصہ پھیلے گا اور اس تجربے سے سیکھنے اور ابھرے سوالات کا جواب تلاش کرنے کی پیاس اور بھی شدید ہو گی۔ اگر معاملات کو وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو سینڈرز کی مکمل اور غیر مشروط دست برداری کا بھی عارضی اثر ہی پڑے گا کیونکہ حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ محنت کشوں کی اپنی سیاسی پارٹی ہو۔کسی بھی شکل میں یہ عمل ناگزیر ہے۔
وہ، جنہوں نے اس ساری کیمپین میں ایک سوشلسٹ مستقبل کا خواب دیکھا ہے، اس تجربے میں سے گزرنے کے بعد یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ وقتی طور پر مایوسی اور ناکامی کی گرد جھاڑنے کے بعد یہ لوگ مستقبل کی عوامی سوشلسٹ پارٹی کی بنیادیں رکھنے کیلئے بے قرار ہوں گے، چاہے برنی ہو یا نہ ہو۔ یہ راستہ نہ توآسان ہو گا اور نہ ہی سیدھا لیکن اس راستے پر امریکی محنت کشوں کو جلد ہی چلنا پڑے گا۔
محنت کشوں کی حقیقی قیادت کی تخلیق میں مدد کیجئے
اگر سینڈرز یا اس کے گرد اکٹھی تحریک ایک عوامی بائیں بازو کی پارٹی بنانے کی طرف جاتے ہیں تو IMT کے تمام حمایتی اس پارٹی کی تعمیر اور بڑھوتری میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کریں گے اور اس کے عام ممبران کو ایک انقلابی سوشلسٹ پروگرام پر قائل کریں گے جس میں سرمائے کی بالادستی کو ختم کیا جائے اور تمام بڑے مالیاتی اور پیداواری اداروں کو قومی تحویل میں لیا جائے۔ سینڈرز کے پاس ابھی بھی وقت ہے کہ وہ امریکی اور عالمی تاریخ پر موثر اور دیر پا اثرات ڈال سکے۔آج کی طرح کا اور کوئی وقت نہیں ہے! لیکن اگر وہ یہ تاریخی لمحہ ضائع کر دیتا ہے اور گولڈمین ساکس (Goldman Sachs) اور چارلز کوک (Charles Koch) کی امیدوار کلنٹن کی حمایت کا اعلان کر دیتا ہے تو اس کے حمایتیوں کو تاریخ کے طویل منظر کو ذہن میں رکھنا چاہئے: ابھی سوشلزم کی جدوجہد کی شروعات ہیں اور یہ قدرتی امر ہے کہ اس راہ میں کچھ ناکامیاں بھی مقدر بنیں گی۔
ہم ان تمام لوگوں کو دعوت دیتے ہیں جو محنت کشوں کی اپنی سیاسی پارٹی دیکھنا چاہتے ہیں اور جو سوشلزم کیلئے جدوجہد کرنا چاہتے ہیں کہ وہ آگے بڑھیں اور IMT میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے ہمارا ساتھ دیں۔ IMT کا مقصد محنت کش طبقے کی انقلابی سیاست اور سرمایہ داری کا خاتمہ ہے۔ صرف ایک سوشلسٹ سماج میں ہی وہ سماجی، نسلی اور ماحولیاتی انصاف قائم کیا جا سکتا ہے جس کی سینڈرز کے حمایتیوں کو شدید تمنا ہے۔ ہم اکٹھے مل کر وہ قوت بنا سکتے ہیں جو آنے والے وقت کی دیو ہیکل طبقاتی جنگوں میں موثر انداز سے مداخلت کرے اور ان کی قیادت کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ سماج کی بنیادیں رکھے۔