|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: عرفان منصور|
ایک قدیم چینی کہاوت ہے: ”کسی انسان کی سب سے بڑی بدقسمتی اس سے بڑھ کر کچھ نہیں کہ وہ دلچسپ عہد میں زندہ ہے۔“ یہ قدیم دانائی اب اچانک مغربی دنیا کے حکمرانوں پر آشکار ہوئی ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے درمیان ہونے والی کھلی محاذ آرائی دنیا پر ایک طوفانی سونامی کے مانند ٹوٹی ہے۔
مغربی رہنماؤں نے اوول آفس سے جنم لینے والے ان حیران کن مناظر کو حیرانی، صدمے اور خوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ دیکھا ہوگا۔ اور یہ حیرت بجا بھی تھی۔
بظاہر، اوول آفس میں ہونے والے اس بے مثال تنازعے کی وجہ انتہائی معمولی معلوم ہو سکتی ہے۔ اس تاریخی ملاقات سے کئی ہفتے قبل، ڈونلڈ ٹرمپ بڑے فخر سے یہ دعویٰ کررہا تھا کہ اس نے کیف کے رہنما کے ساتھ ایک شاندار معاہدہ طے کر لیا ہے، جس کے تحت امریکہ کو یوکرین کی زمین کے نیچے چھپے ہوئے وسیع معدنی وسائل پر کنٹرول حاصل ہو جائے گا— یا کم از کم ایسا ہمیں بتایا گیا۔
صدر زیلنسکی کے واشنگٹن آنے کا مقصد دراصل صرف اور صرف اسی معاہدے پر دستخط کرنا تھا۔ مگر پھر جو ہوا، وہ یکسر مختلف کہانی تھی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ معدنی وسائل کا ذکر سب سے پہلے خود زیلنسکی کی زبان سے ہوا، جس کا بظاہر مقصد امریکیوں کو رشوت دینا تھا۔ اس نے نایاب معدنی دولت کا لالچ دے کر مستقبل میں ہتھیاروں کی مسلسل ترسیل کا وعدہ چاہا، تاکہ امریکہ کو اس جنگ میں مزید الجھا کر کیف کے لیے مالی اور عسکری معاونت کی راہ ہموار کی جا سکے۔
شومئی قسمت کہ ٹرمپ نے اس تجویز کو اور ہی معنی عطا کردیے۔ اس کا مؤقف تھا کہ امریکہ پہلے ہی یوکرین کو جنگ کے لیے بھاری مالی امداد فراہم کر چکا ہے— ایک تخمینے کے مطابق 350 ارب ڈالر۔ ایسے میں، وہ اس سرمایہ کاری پر کسی نہ کسی قسم کے منافع کی توقع کررہا تھا۔
وائٹ ہاؤس میں بیٹھا ہوا ٹرمپ نامی تاجر خالص تجارتی اصولوں پر سوچ رہا تھا۔ اس کا مدعا یہ تھا کہ مستقبل میں فراہم کیے جانے والے ہتھیاروں کی پیشگی قیمت کے بجائے، یوکرین ماضی کی سخاوت کے بدلے معدنی وسائل کے حقوق ہمارے حوالے کرے۔
یہ دونوں رہنما ایک دوسرے سے بالکل الٹ بات کر رہے تھے۔ غلط فہمیوں سے بھری ہوئی یہ مزاحیہ کہانی مستقبل میں المیے سے بھرپور سنگین نتائج کو جنم دینے والی تھی۔
مختلف فریقین کے جنگی مقاصد کیا ہیں؟
اس ساری صورتحال کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لیے، سب سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اس تنازعے میں شامل مختلف فریقین کے جنگی مقاصد کیا ہیں۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران، ٹرمپ نے نہایت واضح الفاظ میں بار بار کہا تھا کہ اس کا ارادہ یوکرین کی جنگ کو فوری طور پر ختم کرنے کا ہے، یا کم از کم امریکہ کو اس تباہ کن تنازعے سے مکمل طور پر الگ کر لینے کا ہے، جسے اس کے پیشرو، جوزف روبینیٹ بائیڈن جونیئر نے امریکی مفادات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے جنم دیا تھا۔
ٹرمپ آج بھی اسی مؤقف پر قائم ہے، اور اس کا موقف بالکل وہی ہے جو ابتدا میں تھا۔
تاہم، اس فیصلے کو ٹرمپ کی عمومی حکمتِ عملی اور عالمی نقطہ نظر سے علیحدہ کر کے سمجھنا ناممکن ہے۔ اور عام تاثر کے برعکس، اس کے پاس واقعی ایک حکمتِ عملی موجود ہے، جس پر وہ اس قدر یکسوئی کے ساتھ کاربند ہے کہ جو صرف ٹرمپ ہی کا خاصا ہے۔
یورپ کے کئی رہنما (اور ظاہر ہے بالخصوص یوکرینی حکام) اس حقیقت کے ادراک میں سخت دشواری کا شکار ہیں۔ وہ مسلسل ڈونلڈ ٹرمپ کو اُس کی حقیقی اوقات سے کم تر سمجھتے آ رہے ہیں۔ اور ہمیشہ یہی فرض کرتے آ رہے ہیں کہ جب بھی وہ کوئی بیان دیتا ہے، تو اُس کا حقیقت سے زیادہ تعلق نہیں ہوتا۔ لیکن پھر جب انہیں وہ بات عملی طور پر سامنے دکھتی ہے، تو پھر وہ حیرت زدہ ہو جاتے ہیں۔
ان خواتین و حضرات کی مستقل حیرانگی کی واحد وجہ ٹرمپ کو سنجیدہ نہ لینے کی ضد ہے۔ مگر حالات انہیں زبردستی مجبور کر رہے ہیں کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی اس سکون آور غلط فہمی کو اب چھوڑ دیں۔ اس حقیقت کو ماننے پر سب سے آخر میں آمادہ ہونے والے افراد میں فرانس کا صدر ایمانوئل میکرون اور برطانیہ کا وزیرِاعظم سر کیئر سٹارمر ہیں — اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ تمام خود پسند اور کم عقل یورپی رہنماؤں کی صف میں سب سے زیادہ خود پسند اور کم عقل ہیں۔ لیکن ان پر بعد میں بات ہوگی۔
جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے، ٹرمپ یہ سمجھ چکا ہے کہ امریکہ عالمی سطح پر اپنی حدود سے کہیں زیادہ آگے بڑھ چکا ہے۔ ملک پر 36 کھرب ڈالر سے زائد کا بھاری قرض ہے، اسلحے کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں، اور وہ مشرق وسطیٰ اور ایشیا و بحرالکاہل میں ایسے ممکنہ تنازعات کا سامنا کر سکتا ہے جن کے لیے وہ پوری طرح تیار نہیں۔
اس صورتحال کے پیشِ نظر، ٹرمپ نے فیصلہ کیا ہے کہ امریکہ کو اپنی عالمی ذمہ داریوں کو خیر باد کہہ کر اپنی قدرتی تزویراتی سرحدوں — جن میں کینیڈا، پانامہ کینال، میکسیکو اور گرین لینڈ شامل ہیں — کے اندر سمٹ جانا چاہیے۔ اب یہ اس کی اولین ترجیحات میں شامل ہے، اور یورپ کو امریکی خارجہ پالیسی میں پسِ منظر میں دھکیل دیا گیا ہے۔
اس حکمتِ عملی کا ایک کلیدی عنصر روس کے ساتھ تعلقات کی بحالی ہے، جو بائیڈن انتظامیہ کی جارحانہ سامراجی پالیسیوں کے سبب شدید متاثر ہوئے۔ یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ گزشتہ تین برسوں میں امریکہ اور روس کے درمیان کسی بھی سرکاری حیثیت میں کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ حالانکہ سرد جنگ کے سب سے کشیدہ برسوں میں بھی ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔
روس کے ساتھ تعلقات کی بحالی اب ڈونلڈ ٹرمپ کے ایجنڈے میں ترجیحی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی دارالحکومتوں، اور خاص طور پر کیف میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھی ہیں، جہاں زیلنسکی اور اس کے ساتھی خوفزدہ ہیں کہ کہیں امریکہ، روس کے ساتھ مذاکرات میں انہیں بلی کا بکرا نہ بنا دے۔
اس لیے یوکرینی قیادت کے جنگی مقاصد واشنگٹن کے مقاصد کے بالکل برعکس ہیں۔ امریکیوں کا مقصد روس کے ساتھ کسی معاہدے کے ذریعے یوکرین میں امن قائم کرنا ہے، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ ہاری جا چکی ہے۔ لیکن زیلنسکی کے لیے امن تقریباً خودکشی کے مترادف ہے۔ اس کا مطلب یوکرین میں لگے ہوئے غیر اعلانیہ مارشل لاء کا خاتمہ ہوگا، جو انتخابات کے انعقاد میں واحد سنجیدہ رکاوٹ ہے۔
زیلنسکی کی صدارت کی آئینی مدت کب کی ختم ہو چکی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ نے اسے ”آمِر“ کہہ کر مخاطب کیا، جو انتخابات کروانے سے انکاری ہے۔ اب امریکہ یوکرین میں انتخابات کے انعقاد پر زور دے رہا ہے— اور ظاہر ہے کہ اس کی وجہ زیلنسکی سے بیزاری ہے، کیونکہ وہ اسے اقتدار سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ اور تمام تر دعوؤں کے برعکس، یہ بات کسی بھی شک سے بالاتر ہے کہ اس وقت شفاف انتخاب میں زیلنسکی کی شکست یقینی ہے۔
لہٰذا، یوکرین کے جنگی اہداف بالکل سادہ ہیں: جنگ ہر قیمت پر جاری رہے، جب تک کہ روس مکمل طور پر شکست نہ کھا جائے اور تمام مقبوضہ علاقوں سے باہر نہ نکل جائے۔ اگرچہ یہ ایک انتہائی غیر حقیقت پسندانہ مقصد ہے، جسے کوئی بھی سنجیدہ نہیں لے سکتا، لیکن کیف کی حکمران اشرافیہ اسے ہر صورت پورا کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ انہیں انسانی جانوں کی قیمت کی کوئی پرواہ نہیں، چاہے یہ جنگ کتنی ہی بے مقصد کیوں نہ ہو چکی ہو۔
اس سے چند چیزیں واضح ہوتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر، یوکرین کو ہر حال میں امریکہ کو جنگ سے الگ ہونے سے روکنا ہوگا۔ یوکرین مکمل طور پر امریکہ کی مالی اور عسکری امداد پر سانس لے رہا ہے۔ اگر یہ مدد بند ہو گئی تو یوکرین کے لیے یہ ایک مہلک ضرب ہوگی۔ اور لندن اور پیرس کی تمام تر بڑھکوں کے باوجود، یورپی ممالک کسی بھی صورت میں امریکی امداد کی کمی کو پورا نہیں کر سکتے۔ زیلنسکی اس حقیقت سے مکمل طور پر آگاہ ہے اور اس کا برملا اعتراف بھی کر چکا ہے۔
اسی پس منظر میں، ہمیں معدنی وسائل کے حقوق پر ہونے والی شدید بحث، اور اوول آفس میں پیدا ہونے والے تنازعے کی شدت کو سمجھنا ہوگا۔
روسی افواج کی مسلسل پیش قدمی اور یوکرینی فوج کے تیزی سے گرتے ہوئے حوصلے نے کییف کو شدید اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے۔ وہ کسی بھی طرح امریکہ کو اس تنازعے میں مداخلت پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم اس حقیقت کو سمجھ لیں، تو گزشتہ چند ہفتوں میں ہونے والی تمام تر سفارتی چالیں واضح ہو جاتی ہیں۔
اور پھر آتے ہیں میکرون اور سٹارمر
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور برطانوی وزیرِاعظم سر کیئر سٹارمر کا واشنگٹن کا حالیہ دورہ اسی حکمتِ عملی کا حصہ تھا، جو کییف کے رہنماؤں کے ساتھ خفیہ طور پر ترتیب دی گئی۔ اس کا واحد مقصد امریکہ کو روس کے ساتھ کسی معاہدے سے باز رکھنا تھا، اور ساتھ ہی امریکہ کے ممکنہ یورپی انخلاء کو روکنا تھا— جو یورپی رہنماؤں کے لیے سب سے بڑا خوف ہے۔
اس مقصد کے لیے، انہوں نے سب کو نظر اور سمجھ آنے والی چند ’چالاکیاں‘ دکھائیں۔ میکرون اور سٹارمر نے نام نہاد ”یورپی امن فورس“ کے قیام کے حق میں آواز بلند کی، جسے مبینہ طور پر یوکرین میں تعینات کیا جانا تھا، تاکہ جنگ بندی کو یقینی بنایا جا سکے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکی شمولیت کے بغیر ایسی کوئی بھی مہم قطعی ناممکن ہوگی۔
اگر وہ وائٹ ہاؤس کے مقیم (ٹرمپ)سے نام نہاد امریکی ”سیکیورٹی ضمانت“ قبول کروا لیتے تو، اگلا قدم واضح تھا۔ یوکرینی قیادت کسی بہانے روس کو اشتعال دلا کر کسی ایسی کارروائی پر مجبور کر دیتی جسے جنگ بندی کی خلاف ورزی قرار دیا جاتا۔ اس کے بعد، امن قائم رکھنے والی نام نہاد یورپی فوج حرکت میں آتی اور یہ ریچھ کے منہ میں سر دینے جیسا ہوتا کیونکہ روسی فوج کو افرادی قوت اور اسلحے میں واضح برتری حاصل ہے۔
اس کے بعد، یورپی امریکہ سے درخواست کرتے کہ وہ اپنی سیکیورٹی ضمانت کے تحت ان کی مدد کرے۔ جواباً، امریکہ جنگ میں کود پڑتا اور روس کے خلاف براہِ راست محاذ کھول دیتا۔ اس کا لازمی نتیجہ تیسری عالمی جنگ کی صورت میں نکلتا، جو ہر ذی شعور شخص کے لیے تباہ کن ہوتی، ماسوائے زیلنسکی کے گروہ اور ان کے حمایت یافتہ نیو نازی یوکرینی قوم پرستوں کے لیے، جن کے لیے یہ ایک بڑی کامیابی سمجھی جاتی۔
سوچ تو کم و بیش یہی تھی۔ لیکن سوچ اور عمل کے درمیان ہمیشہ ایک فاصلہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں، یورپی حکمرانوں کی ایک بنیادی کمزوری یہ رہی ہے کہ وہ مسلسل ڈونلڈ ٹرمپ کو خاطر میں نہیں لاتے رہے ہیں۔ انہیں یہ گمان تھا کہ خوشامد اور چالوں کے ذریعے وہ اسے دھوکہ دے کر اپنی پوزیشن تبدیل کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ بُری طرح ناکام رہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کچھ بھی ہو سکتا ہے، مگر وہ بیوقوف نہیں ہے۔ میکرون واشنگٹن پہنچا، فرانسیسی دلکش انداز کا مظاہرہ کیا، وائٹ ہاؤس میں اپنے ”دوست“ کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے، اس کے لطیفوں پر ہنستا رہا (حالانکہ وہ اسے بالکل مزاحیہ نہیں لگے ہوں گے)، اور شاہی دربار کے مسخرے کا سا کردار ادا کیا۔
ٹرمپ نے بھی جوابی طور پر اپنے ”دوست“ پر اسی قدر تعریف کے ڈونگرے برسائے، گرم جوشی سے ہاتھ ملایا، مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا اور نہایت خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا۔ لیکن اس ساری گفتگو کے دوران، اس نے نہایت مہارت سے فرانسیسی صدر کی اس فوری درخواست پر کوئی واضح جواب دینے سے گریز کیا، جو یوکرین میں نام نہاد امن فوج کے لیے امریکی حمایت حاصل کرنے سے متعلق تھی۔
جب میکرون نے محسوس کیا کہ یہ سفارتی کھیل اسے ایک دائرے میں گھمانے کے سوا کچھ نہیں، تو وہ بیزار ہو کر فرانسیسی زبان میں بولنے لگا۔ اس بے تکلفانہ مگر غیر شائستہ حرکت پر ٹرمپ نے ذرا بھی پریشانی ظاہر نہ کی اور بولا: ”کتنی خوبصورت زبان ہے! میں ایک لفظ بھی نہیں سمجھا!“
بعد ازاں، میکرون جب پیرس لوٹا تو اس کے دونوں ہاتھ ویسے ہی خالی تھے جیسے جاتے ہوئے۔ یہ ذلت سے لبریز قصہ ہے۔ اسے اپنے ہم وطن، چارلس ڈیگال کے وہ الفاظ یاد رکھنے چاہیے تھے کہ ”ملکوں کے دوست نہیں ہوتے، صرف مفادات ہوتے ہیں۔“
میکرون چلا جاتا ہے، اور اب آتا ہے سر کیئر سٹارمر
بحرِ اوقیانوس کے اس پار بیٹھے سر کیئر سٹارمر نے اس فرانسیسی مزاحیہ ڈرامے کو دلچسپی سے دیکھا اور اندازہ لگایا کہ امریکی صدر کو قائل کرنے کے لیے کچھ مختلف حربے اختیار کرنے ہوں گے۔ چنانچہ، فرانسیسی صدر کی ناکامی سے قطع نظر، اس نے اپنے ماہر سفارتی مشیروں کے تعاون سے ایک مختلف حکمتِ عملی تیار کی۔
چونکہ وہ حاضر دماغ اور چالاک میکرون کی طرح نہیں ہے، اور ایک انتہائی غیر لچکدار، حس مزاح سے عاری اور خود سے کچھ بھی نیا سوچنے کی صلاحیت سے محروم برطانیہ کا ایک امیر طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص ہے، لہٰذا اُسے وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کے سامنے کچھ خاص پیش کرنا تھا۔ چنانچہ، اس نے اپنی اندرونی جیب میں ایک خفیہ ہتھیار چھپایا — ایک ایسی چیز جو کسی بھی امریکی صدر کو ضرور متاثر کرتی، اور ٹرمپ تو ہر صورت ہی ڈھیر ہو جاتا۔
ہمارے وزیرِاعظم نے اپنی فطری سخت مزاجی اور انسانوں سے بات کرنے کی صلاحیت کی کمی کو دور کرنے کے لیے غیر معمولی جسمانی زبان کا سہارا لیا۔ وہ گرمجوشی سے ہاتھ ملاتا رہا، حتیٰ کہ ایک لمحے کے لیے اس نے ہمت کر کے امریکی صدر کے کوٹ کی آستین کو بھی چھو لیا۔
یہ معلوم نہیں کہ اس بے ساختہ اپنائیت کا دنیا کے سب سے طاقتور لیڈر پر کیا اثر ہوا، لیکن برطانوی وزیرِاعظم کے چہرے پر جمی ہوئی گھبرائی ہوئی مسکراہٹ سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اپنی اس ”کامیابی“ پر بہت خوش تھا۔
یوں لگ رہا تھا جیسے ٹی وی پر کسی دوسرے درجے کا کامیڈی پروگرام چل رہا ہو جس میں انتہائی سطحی اور بھونڈے سکرپٹ پر کامیڈی کی جا رہی ہو، اور لوگ اسے دیکھ کر شرمندگی محسوس کرتے ہوئے ہنس رہے ہوں۔ اسے دیکھ کر برطانیہ کا ہر ذی شعور شخص کتنی زیادہ شرمندگی محسوس کر رہا ہوگا، اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ شاید سب سے بہترین تبصرہ ایک برطانوی صحافی نے کیا، جس نے بے دردی سے سر کیئر سٹارمر کا موازنہ سکول کے ایک کمزور، پڑھاکو بچے سے کیا، جو سکول کے بدمعاش کے ساتھ خوشامدانہ انداز میں گھلنے ملنے کی کوشش کر رہا ہو۔
چلیں اس دلچسپ تشبیہ کی تھوڑی وضاحت کرتے ہیں۔ ہر سکول میں ایک بدمعاش بچہ ہوتا ہے، جو دوسروں کو ڈرا دھمکا کر ان کی زندگی کو اذیت ناک بنانے میں لطف محسوس کرتا ہے۔ ایسے بچوں کے ساتھ عام طور پر ایک نحیف، کمزور لڑکا بھی ہوتا ہے، جو خود تو کسی کو ستانے کی ہمت نہیں رکھتا، مگر یہ خیال کرتا ہے کہ اگر وہ طاقتور بدمعاش کے قریب رہے تو شاید وہ بھی طاقتور نظر آئے۔
یہ برطانیہ اور امریکہ کے درمیان اس ”خصوصی تعلق“ کی نہایت موزوں تشریح ہے، جہاں امریکہ سکول کے بدمعاش کی حیثیت رکھتا ہے، اور برطانیہ وہی نحیف لڑکا ہے۔ اس تصویر کو مکمل کرنے کے لیے بس اتنا اضافہ کر لیجیے کہ جب بھی کمزور لڑکا سکول کے بدمعاش لڑکے کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو بدمعاش انتہائی حقارت اور غصے سے اُسے جھڑک دیتا ہے۔
اپنے تئیں بے حد خوش (شاید اس وجہ سے کہ ابھی تک امریکی صدر نے اسے براہِ راست دھتکارا نہیں تھا)، سر کیئر سٹارمر نے آخرکار وہ خفیہ خط نکالا، جو باہر نکلنے کیلئے اب تک تقریباً جیب میں سوراخ کر چکا تھا۔
ایک شاہانہ انداز کے ساتھ، جو کسی وفادار نوکر کے صبح کا ڈاک اپنے آقا کے قدموں میں رکھنے جیسا تھا، اس نے اس قیمتی دستاویز کو انتہائی احتیاط سے اس کے معزز وصول کنندہ کے حوالے کیا۔ بڑے فخر سے اعلان کیا کہ یہ کوئی عام دعوت نامہ نہیں ہے، بلکہ یہ بقلم خود بادشاہ چارلس سوم کی جانب سے محترم ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ہے کہ پہلی فرصت میں وہ اپنی بیوی اور بچوں سمیت محل میں تشریف فرما ہوں۔
اب، کسی نامعلوم وجہ سے، برطانوی اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا میں عام خیال یہ پایا جاتا ہے کہ تمام امریکی سیاستدان اور صدور برطانوی شاہی خاندان سے بے حد متاثر ہوتے ہیں — شاید اس لیے کہ ہمارے پاس اب فخر کرنے کے لیے اور کچھ زیادہ باقی نہیں رہا۔
چنانچہ، سٹارمر اس موقع کو نظرانداز نہ کر سکا اور ایک شاندار تقریر جھاڑ ڈالی، جس میں اس نے واضح کیا کہ یہ دعوت ”انتہائی خاص“ ہے۔ یہ پوری انسانی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ کسی امریکی صدر کو دوسری بار شاہی محل میں مدعو کیا جا رہا ہے! کیا شاندار اعزاز ہے!
لیکن حیرت انگیز طور پر، ٹرمپ کے چہرے پر اس خبر کو سن کر کوئی خاص تاثر نہیں ابھرا، اگرچہ اس نے باوقار انداز میں دعوت نامہ قبول کر لیا اور (شاید غلطی سے یا شاید جان بوجھ کر) جواب میں کہا کہ یہ اس کے لیے باعثِ مسرت ہو گا کہ وہ اپنے شاہی میزبان کو شرفِ ملاقات بخشے۔
ملاقات کے باقی حصے پر مٹی ڈالو، کیونکہ سر سٹارمر کے ساتھ بھی ویسا ہی ہو جو اِس سے پہلے فرانسیسی صدر کے ساتھ ہوا تھا۔ آخرکار، سٹارمر نے ساری ہمت مجتمع کر کے وہ سوال پوچھ ہی لیا، جو مسلسل اس کے ذہن میں مسلسل کھٹک رہا تھا: کیا امریکہ کوئی سیکیورٹی ضمانت فراہم کر سکتا ہے؟
البتہ، اس نے یہ الفاظ استعمال کرنے سے احتراز کیا، کیونکہ امریکی اب اس اصطلاح سے کچھ زیادہ ہی حساس ہو گئے تھے۔ چنانچہ، اس کی جگہ اس نے ”بیک سٹاپ“ کا ذکر کیا— جو کچھ بھی اس سے مراد ہو۔
اور پھر، جو کچھ اچھا چل رہا تھا، یکدم پلٹ گیا۔ یہ بالکل پریوں کی کہانیوں جیسا تھا کہ گھڑی پر بارہ بجتے ہی سنڈریلا کا خوبصورت لباس پھٹ کر چیتھڑے ہوجاتا ہے اور شاندار رتھ ایک قد آور کدو میں تبدیل ہو جاتا ہے، جسے چوہوں کی ایک ٹیم کھینچ رہی ہو۔
ٹرمپ نے ایک شریر مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ اسے ایسی کسی ضمانت کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، کیونکہ برطانوی فوج ایک شاندار ادارہ ہے، جس میں بہادر نوجوان موجود ہیں، جو اپنے دفاع کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ اور پھر، گویا زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے، اس نے پوچھا کہ کیا برطانیہ روس کے خلاف تنہا مقابلہ کر سکتا ہے؟ اس کے جواب میں سٹارمر کے پاس سوائے ایک شرمندہ کن قہقہے کے کچھ نہیں تھا۔
فرانسیسی صدر کی طرح، جب برطانوی وزیرِاعظم بھی لندن واپس پہنچا تو اس کے بھی دونوں ہاتھ خالی تھے۔ ہاں، اسے ایک امریکی فٹبال کی جرسی تحفے میں ضرور ملی— جو شاید ایک انتہائی خاص شاہی دعوت کے بدلے میں خاصا بے وقعت تحفہ ہے۔
لیکن یوکرین میں امریکہ کو عسکری مداخلت پر مجبور کرنے کی یہ کوشش مکمل طور پر ایک مضحکہ خیز تماشا بن کر رہ گئی۔ اب تک تو ایسا لگنے لگا تھا کہ اب اِس سے برا تو اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ مگر ٹھہریے، اصل تباہی تو اب آنی ہے۔
ٹاکرا
جو کچھ اس کے بعد پیش آیا، وہ ہونا بنتا نہیں تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ— جو پہلے ہی زیلنسکی کے ارادوں پر شکی تھا— نے جمعہ کے روز طے شدہ ملاقات منسوخ کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس کے خدشات اس وقت مزید بڑھ گئے، جب زیلنسکی نے امریکی صدر کے پیغام کو نظرانداز کرتے ہوئے اصرار کیا کہ وہ بہرحال واشنگٹن آئے گا۔
یہاں تک پہنچتے پہنچتے کافی کچھ بگڑ چکا تھا۔ مگر اس کے باوجود، ٹرمپ نے یہ بیان دیا کہ یوکرینی صدر واشنگٹن محض ایک معاہدے پر دستخط کرنے آ رہا ہے، جو پہلے ہی طے پا چکا ہے اور جس میں معدنی وسائل کے حقوق پر اتفاق ہو چکا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے کییف سے آئے مہمان کا اندازِ گفتگو خاصا عجیب و غریب ہے۔ مثال کے طور پر، جب وہ ہاں کہتے ہیں، تو ان کا مطلب نہیں ہوتا ہے۔ جب وہ نہیں کہتے ہیں، تو حقیقتاً ان کا مطلب ہاں ہوتا ہے۔ اور جب وہ کہتے ہیں شاید، تو ان کا مطلب ہوتا ہے کچھ بھی نہیں۔ اسی طرح، جب وہ امن کے حق میں ہونے کا اعلان کرتے ہیں، تو درحقیقت ان کا مطلب جنگ کی حمایت ہوتا ہے۔ اور یوں ایک غیر مختتم سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
یہی معاملہ معدنی حقوق کے مشہور معاہدے میں بھی دیکھنے کو ملا۔ کیا زیلنسکی نے اس معاہدے پر دستخط کرنے پر رضامندی ظاہر کی؟ جی ہاں، کی۔ مگر یہ کوئی سخاوت کا مظاہرہ نہیں تھا، نہ ہی یہ امریکہ کی دی ہوئی بے پناہ مالی و عسکری امداد کے اعتراف میں تھا۔ ہرگز نہیں! اتنی بیش قیمت چیز سے دستبردار ہونا کوئی معمولی بات نہ تھی— اس کے بدلے میں کچھ بھی حاصل کیے بغیر وہ کسی بھی حال میں دستخط کرنے والا نہیں تھا۔
اور وہ کیا چاہتا تھا؟ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو وہ ایک دوٹوک اعلان چاہتا تھا کہ امریکہ یوکرین کو سیکیورٹی گارنٹی فراہم کرے گا۔ لیکن وہ اس مطالبے کو بے شمار بار دہرا چکا تھا اور ہمیشہ اسے سختی سے مسترد کر دیا گیا تھا۔ مزید برآں، اسے شدید ناگواری ہوئی جب اس نے دیکھا کہ اس کے دوست، میکرون اور سٹارمر، واشنگٹن کے دورے کے باوجود ایسی کوئی ضمانت حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔
یوں، یوکرین کے صدر کی طبیعت خوشگوار نہ تھی— بلکہ وہ پہلے ہی سخت برہم تھا۔ مگر اس کا یہ بگڑا ہوا موڈ اس وقت مکمل غصے میں بدل گیا جب اس نے اس دستاویز کا متن پڑھا جو امریکیوں نے تیار کی تھی اور جس پر اس سے دستخط کی توقع کی جا رہی تھی۔
اگرچہ میں نے اس معاہدے کی عبارت خود نہیں دیکھی، لیکن جو کچھ معلوم ہوا ہے، اس کے مطابق یہ ایک نہایت عجیب و غریب دستاویز تھی— ایک عمومی، مبہم اعلان، جس میں کوئی ٹھوس تفصیل درج نہیں تھی۔ یہ تقریباً ویسی ہی بے وقعت کاغذی دستاویز تھی جیسی کہ وہ معاہدہ، جسے سٹارمر کییف سے لے کر لوٹا تھا اور جس کے تحت برطانیہ اور یوکرین کے درمیان ناقابلِ شکست معاہدہ کم از کم سو برس کے لیے طے پایا تھا— گو کہ خود سٹارمر بھی بخوبی جانتا تھا کہ اگر امریکہ کی عسکری مدد واپس لے لی گئی تو یوکرین کا سو دن تک بھی قائم رہنا مشکوک ہے، سو سال تو بہت دور۔
لیکن قانونی باریکیوں کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اس معاہدے میں جس بے پناہ معدنی دولت کا ذکر تھا، اس کے واقعی موجود ہونے کا کوئی حتمی ثبوت نہیں تھا، اور اگر وہ موجود بھی ہوتی، تب بھی اس کا نکالا جانا اور پراسیس کیا جانا اتنا آسان نہیں۔ لہٰذا یہ خیال کہ امریکی اس سودے سے بے پناہ منافع حاصل کر سکتے ہیں، خود خاصی مشکوک بنیادوں پر قائم تھا۔
مگر یہ سب بھی چھوڑ دیجیے۔ زیلنسکی کو قانونی موشگافیوں یا ارضیاتی حقائق سے زیادہ جو چیز پریشان کر رہی تھی، وہ وہ بات تھی جو اس معاہدے میں موجود نہیں تھی۔ اس میں کہیں بھی سیکیورٹی گارنٹی کا ذکر تک نہ تھا! زیلنسکی اس پر سیخ پا ہوگیا۔
یہ پورا معدنی وسائل کا معاملہ، جو خود زیلنسکی نے چھیڑا تھا، دراصل امریکہ سے سیکیورٹی گارنٹی حاصل کرنے کی ایک چال تھی— ایک ایسی گارنٹی جو امریکہ کو ناگزیر طور پر یوکرین کی جنگ میں جکڑ دیتی، اور بالآخر اسے روس کے ساتھ براہِ راست تصادم میں دھکیل دیتی۔ یہ سارا پیچیدہ کھیل محض اسی مقصد کے تحت رچایا گیا تھا۔
لیکن اب، جو کچھ اس کے سامنے رکھا گیا تھا، وہ ایسا معاہدہ تھا جس کے تحت امریکی رشوت تو وصول کر لیتے، مگر اس کے بدلے کچھ بھی نہ دیتے۔ یہ صورتحال اس کے لیے کسی بھی صورت قابلِ قبول نہ تھی۔ اس نے فوراً فیصلہ کیا کہ وہ واشنگٹن جائے گا اور ایسا طوفان برپا کرے گا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ سمجھ آجائے کہ وہ کسی نتھو خیرے سے ڈیل نہیں کررہا۔
یہی وہ پس منظر تھا جس کے تحت بعد کے واقعات رونما ہوئے۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے کوشش کی کہ ٹرمپ اور وینس پر یہ الزام دھرا جائے کہ انہوں نے زیلنسکی کے لیے ایک ’گھات‘تیار کی تھی— یہ کہ تنازع کو جان بوجھ کر ہوا دی گئی، اور خاص طور پر وینس نے شعوری طور پر جھگڑے کو بڑھایا۔
لیکن اگر تمام دستیاب ویڈیوز کا بغور جائزہ لیا جائے، تو فوراً یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ جارحیت کا آغاز امریکیوں کی طرف سے نہیں ہوا، بلکہ اس کا اصل ذمہ دار خود ولودیمیر اولیکساندرووچ زیلنسکی تھا۔
ابتداء ہی سے، اس نے دفاع کے بہترین طریقے کے طور پر حملے کی راہ اختیار کی۔ مگر یہ اس نے کسی نجی ملاقات میں نہیں کیا— بلکہ براہِ راست ٹی وی کیمروں کے سامنے، یعنی لاکھوں حیران و پریشان امریکی ناظرین کے سامنے کیا۔
اسے آمد سے پہلے ہی واضح طور پر بتا دیا گیا تھا کہ معاہدے کے متن پر کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے؛ یہ پہلے سے مکمل طور پر طے شدہ تھا اور زیلنسکی کی رضامندی بھی شامل تھی؛ اور اس میں کسی بھی قسم کی ترمیم یا اضافہ ممکن نہ تھا۔ معاہدے کی کاپیاں چھپ چکی تھیں، قلم تیار تھے، اور بس دستخط ہونا باقی تھے۔
اس کے باوجود، زیلنسکی نے ٹی وی کیمروں کے سامنے سیکیورٹی گارنٹی کے اپنے مطالبات کو دہرایا اور کچھ ایسی باتیں بھی کیں جو اس کے میزبانوں کے لیے سخت برہمی کا باعث بنیں — یہاں تک کہ وہ بھی پھٹ پڑے۔ عمومی طور پر یہ پہلا اور واحد موقع تھا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے کسی غیر ملکی رہنما کے ساتھ عوامی سطح پر اپنا تحمل کھو دیا۔ یہ بلا شبہ ایک حیرت انگیز منظر تھا۔
بہت سے لوگوں نے اس واقعے کو دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا۔ لیکن بعض— بشمول میرے— نے اسے خاصا مضحکہ خیز پایا، اگرچہ اصل مدعا اپنی جگہ پر انتہائی سنجیدہ اثرات کا حامل ہے۔
میرا ایک دوست، جس نے اوول آفس میں ہونے والی یہ جھڑپ براہِ راست دیکھی، مجھ سے کہنے لگا: ”میں ہنسی روک نہیں سکا۔ لیکن اس معاملے میں ایک گہرا نکتہ پوشیدہ ہے۔ لاکھوں ناظرین نے اس واقعے کے ذریعے حقیقت کے وہ پہلو دیکھ لیے، جن پر پچھلے تین برسوں سے نام نہاد آزاد صحافت پردہ ڈالتی چلی آرہی تھی۔“
اس کی بات میں دم ہے۔ جب اس گرما گرم بحث کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے زیلنسکی پر تیسری عالمی جنگ کے ساتھ کھیلنے کا الزام لگایا، تو وہ بالکل بجا تھا۔ زیلنسکی یہ کھیل مسلسل کھیلتا آ رہا تھا، اور اس معاملے میں اسے جوزف بائیڈن اور اس کے جنگ پسند وزیرِ خارجہ، اینٹونی بلنکن، کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ اگر ان کی کوششیں ناکام رہیں، تو اس کا سہرا صرف اور صرف روسیوں کے ضبط و تحمل کے سر جاتا ہے۔
ویسے، آج بھی جبکہ یوکرین شکست کے دہانے پر کھڑا ہے، زیلنسکی اسی پرانی چال کو دہرا رہا ہے۔ درحقیقت، اگر ٹرمپ کی جوئے والی اصطلاح مستعار لی جائے، تو یہی اس کے پاس بچا ہوا آخری پتا ہے۔
تفصیلات میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ اب تک ہر شخص اس واقعے کی ویڈیو بارہا دیکھ چکا ہوگا۔ صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ اس جھگڑے نے یوکرین اور امریکہ کے تعلقات میں ایک گہری اور شاید ناقابلِ اصلاح دراڑ ڈال دی ہے۔ اس کا عالمی اثر بھی شدید رہا، بالخصوص یورپ میں، جہاں اس واقعے نے لیڈروں کو شدید صدمے اور حیرت میں مبتلا کر دیا۔
ٹاکرے کے بعد
اب اس تباہی کے ملبے سے جو کچھ بھی بچایا جا سکتا ہے، اسے بچانے کی بیتاب کوششیں ہو رہی ہیں۔ مگر یہ کہنا جتنا آسان ہے، کرنا اتنا ہی مشکل۔ اوول آفس کے ہنگامے کے فوراً بعد، یوکرینی صدر فاکس براڈکاسٹنگ کمپنی کے سٹوڈیو میں ایک اور انٹرویو کے لیے نظر آیا۔
بلاشبہ، اس کے کان مروڑے گئے ہوں گے کہ وہ وائٹ ہاؤس میں کھلم کھلا تصادم کو جنم دینے والی اپنی غلطی کو کسی نہ کسی طرح سدھارنے کی کوشش کرے۔ مگر زیلنسکی میں اتنی خود پسندی، تکبر اور انا پرستی ہے کہ وہ کبھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کرے گا، اور یوں اس نے اپنی پوزیشن مزید خراب کر لی۔
اس سے کئی مرتبہ پوچھا گیا کہ کیا وہ صدرِ امریکہ سے معافی کے خواستگار ہے؟ لیکن زیلنسکی نے حسبِ عادت سوال کو ٹال دیا اور صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا: ”میں صدر کا احترام کرتا ہوں، اور میں امریکی عوام کا بھی احترام کرتا ہوں۔“
بظاہر، اس کے محدود ذخیرہ الفاظ میں ”معذرت خواہ ہوں“ جیسے الفاظ شامل نہیں۔
جلتی پر تیل یہ کہ زیلنسکی کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس نے جو کچھ کہا وہ بالکل درست تھا۔ اس نے کہا: ”میرا خیال ہے کہ ہمیں بالکل واضح اور دیانت دار ہونا چاہیے، اور مجھے نہیں لگتا کہ ہم نے کوئی غلط کام کیا ہے۔“
بعد میں، کییف کے نژاد نے یہ تو تسلیم کیا کہ یہ ٹکراؤ ”اچھا نہیں تھا“، مگر وہ اب بھی پرامید تھے کہ اس کے اور ٹرمپ کے تعلقات کو بچایا جا سکتا ہے۔
”میں صرف ایماندار رہنا چاہتا ہوں، اور میں چاہتا ہوں کہ ہمارے شراکت دار صورتحال کو صحیح طریقے سے سمجھیں، اور میں بھی سب کچھ درست طور پر سمجھنا چاہتا ہوں۔ یہ ہے ہمارا مقصد، نہ کہ ہماری دوستی کو قربان کرنا۔“
یہ ایک بظاہر قابلِ قدر جذبہ ہے، مگر ڈونلڈ جے ٹرمپ جیسے شخص کے ساتھ معاملات میں یہ بالکل مناسب نہیں۔ ٹرمپ کو اختلافِ رائے سے سخت الرجی ہے، اور وہ ہمیشہ سچائی و دیانت داری کی آڑ میں کی گئی تنقید کو خوشدلی سے قبول کرنے کے لیے مشہور نہیں رہا۔
اور جہاں تک زیلنسکی جیسے چالاک اور موقع پرست شخص کا تعلق ہے، جس کی دیانت داری اور سچائی کسی پرانے اور ناقابلِ اعتماد گاڑیوں کے بیوپاری سے زیادہ مختلف نہیں، وہاں ٹرمپ کے متاثر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یہ کھلا تصادم بلاشبہ زیلنسکی کے زوال کا نقطہ آغاز ہے— ایک ایسا شخص جو اپنی حد سے بڑھی ہوئی خود پسندی میں مبتلا ہے۔ برسوں سے، اسے ہر طرف سے بے پناہ تعریف و توصیف سننے کی لت لگ چکی ہے۔ اسے یقین ہو چلا تھا کہ وہ کہیں بھی جا سکتا ہے، کسی بھی پارلیمنٹ، سینیٹ یا حتیٰ کہ برطانوی کابینہ میں جاکر ہو کر جو جی میں آئے بول سکتا ہے، اور ہر بار اسے ستائش و پذیرائی ہی ملے گی۔
اس مسلسل تعریف و توصیف نے اس میں اقتدار اور اختیار کا ایسا ابہام پیدا کر دیا کہ وہ خود کو ہر حکومت سے غیرمعمولی مطالبات کرنے کا اہل سمجھنے لگا، اور توقع کرنے لگا کہ اس کے یہ مطالبات بلاچون و چرا پورے کیے جائیں گے۔
اس نے کامیابی سے بے بہا مالی امداد حاصل کی، جس کا بڑا حصہ غائب ہو چکا ہے، اور جو بلا شبہ کرپٹ حکام اور اولیگارکوں (Oligarchs) کے بینک اکاؤنٹس میں جا پہنچا ہے۔
یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ زیلنسکی جنگ جاری رکھنے میں اتنی دلچسپی رکھتا ہے، کیونکہ اسی کے بدلے تو دنیا اس پر اتنی فیاض رہی ہے۔ لیکن ان لاکھوں یوکرینی باشندوں کے لیے، جو اس بے مقصد جنگ میں بے جا مصائب سہہ رہے ہیں، اس کا انعام محض ان کے بیٹوں، بھائیوں اور والدین کی موت، ان کے گھروں کی تباہی، اور بالآخر ان کے وطن کی بربادی کے سوا کچھ نہیں۔
جنگ ہاری جا چکی ہے
ایک ریٹائرڈ امریکی لیفٹیننٹ کرنل سے ایک بار پوچھا گیا کہ کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ روس یہ جنگ ہار جائے؟ اس نے مختصر جواب دیا: ”ایسا تب ہی ممکن ہے، جب ایک صبح روسی جاگیں اور انہیں وہ چلنا بھول جائیں۔“ اس سوال پر مزید اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
روس جیت چکا ہے۔ اور اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
روس اب ایک اہم عالمی طاقت کے طور پر ابھرا ہے۔ ماضی میں ہم روس کو علاقائی طاقت کے طور پر بیان کرتے تھے، مگر اب یہ اصطلاح بالکل غیر معقول معلوم ہوتی ہے۔ درحقیقت، اس سے پہلے بھی یہ درست نہیں تھی۔
روس واضح طور پر ایک عالمی طاقت ہے، جو امریکہ اور چین کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ ٹرمپ نے اس حقیقت کو سمجھ لیا ہے اور اسی کے مطابق عمل کر رہا ہے۔ اور اب، آخرکار، یورپ کے کچھ ذہین ترحکمت کار بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگے ہیں۔
فنانشل ٹائمز نے 26 فروری 2025ء کو مارٹن وولف کا ایک مفصل مضمون شائع کیا، جس کی سرخی ’اب امریکہ مغرب کا دشمن ہے‘ نہایت چونکا دینے والی تھی:
اس مضمون میں وولف نے نتیجہ اخذ کیا:
”ان گزشتہ دو ہفتوں نے دو چیزیں بالکل واضح کر دی ہیں۔ پہلی یہ کہ امریکہ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد سنبھالی ہوئی عالمی قیادت سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ٹرمپ کے دوبارہ وائٹ ہاؤس میں آنے کے بعد، امریکہ نے طے کر لیا ہے کہ وہ دیگر جیسی ایک بڑی طاقت بنے گا، جو اپنے مختصر المدتی مفادات، بالخصوص مادی مفادات، کے سوا کسی اور چیز کی پرواہ نہیں کرے گا۔“
یہ بالکل درست ہے۔ اور ٹرمپ نے منطقی نتائج اخذ کر لیے ہیں۔ یقیناً، کسی بھی جنگ میں کئی اتار چڑھاؤ آتے ہیں اور قسمت کروٹ لیتی رہتی ہیں، اور یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ مگر آخری تجزئیے میں، طاقت کا توازن یک طرفہ تھا۔ روس اتنا طاقتور تھا کہ جیت ناگزیر تھی۔
اس جنگ میں سب سے حیران کن پہلو ذرائع ابلاغ کا کردار تھا۔ ابتدا ہی سے مغربی پریس کے صفحات یوکرین کی فتوحات اور روس کی زبردست شکستوں کی خبروں سے بھرے رہے— کچھ خبریں سچی تھیں، بیشتر جھوٹی، اور سب کی سب حد سے زیادہ مبالغہ آرائی پر مبنی تھیں، تاکہ ایک مکمل طور پر جھوٹا تاثر پیدا کیا جا سکے۔ حقیقت میں میدانِ جنگ میں جو واقعات رونما ہو رہے تھے، ان کی حقیقت پسندانہ رپورٹنگ نہ ہونے کے برابر تھی۔
مغربی عوام کو مسلسل یک طرفہ اور گمراہ کن اطلاعات فراہم کی جاتی رہیں، جو زیادہ تر کییف میں گھڑی جاتی تھیں۔ یہ صورتحال آج بھی کسی نہ کسی حد تک برقرار ہے، اگرچہ اب دھندلے انداز میں سچائی کی جھلک اس پراپیگنڈے کی دبیز دھند میں سے جھانکنے لگی ہے۔
ایک عام تاثر، جو آج بھی کبھی کبھار دہرایا جاتا ہے، یہ تھا کہ روسی پیش قدمی نہایت سست رفتار تھی— محض کسی گاؤں یا قصبے پر قبضہ— اور یہ کہ جنگ ایک جمود کا شکار ہو چکی تھی۔ کہا گیا کہ روسی ایک بھی مرکزی شہر پر قبضہ نہیں کر سکے، گویا یہی کامیابی یا ناکامی کا معیار ہو۔ مگر یہ مفروضہ بنیادی نکتے ہی کو نظرانداز کر دیتا ہے۔
جنگ کے ابتدائی دنوں میں، میں نے کلاؤزویٹز کی مشہور تصنیف ”جنگ پر“ کے ایک نہایت اہم اقتباس کا حوالہ دیا تھا، جس میں اس عظیم پروشیائی ماہرِ حربیات نے واضح کیا کہ جنگ کا مقصد محض زمین یا شہر فتح کرنا نہیں، بلکہ دشمن کی قوتوں کو تباہ کرنا ہوتا ہے۔ جب یہ ہدف حاصل ہو جائے، تو فتح یقینی ہو جاتی ہے۔
یہی حکمتِ عملی روسی فوج نے مسلسل اپنائے رکھی اور اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے۔ یوکرینی افواج کو اس حد تک نقصان پہنچا کہ اب وہ سنبھلنے کے قابل نہیں رہیں۔ روسی افواج کو عددی برتری کے ساتھ ساتھ اسلحے اور گولہ بارود میں بھی زبردست فوقیت حاصل ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے یوکرین کے لیے مزاحمت روز بروز مشکل ہوتی جا رہی ہے۔
یہاں تک کہ مغربی میڈیا کے وہ ذرائع، جو یوکرین کے حامی رہے ہیں، اب ایسی رپورٹس شائع کر رہے ہیں جو محاذ پر موجود یوکرینی فوجیوں کی دگرگوں حالت کی عکاسی کرتی ہیں۔ محاذِ جنگ پر شدید مایوسی چھا چکی ہے، اور ہاری ہوئی جنگ کے خلاف فوج میں بھگوڑے پن، بغاوتوں اور جنگ سے انکار کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔
یوکرینی فوجی ہتھیاروں، ساز و سامان اور گولہ بارود کی قلت کی شکایات کررہے ہیں، مگر سب سے بڑا مسئلہ افرادی قوت کی کمی ہے۔ جنگ کے آغاز میں تو فوج میں بھرتی کے لیے قطاریں لگی ہوئی تھیں، مگر آج صورتحال یکسر بدل چکی ہے— اب لوگوں کو جبراً پکڑ کر محاذ پر بھیجا جا رہا ہے، کیونکہ کوئی رضاکارانہ طور پر توپوں کا چارہ بننے کو تیار نہیں۔
روسی افواج اب بلا روک ٹوک ڈونباس کی سرحدوں کی طرف بڑھ رہی ہیں، اور وہاں سے دریائے دنیپرو کی سمت پیش قدمی جاری رکھیں گی۔ اس مقام پر پہنچ کر، یوکرینی افواج کے لیے ان کی مغرب کی جانب پیش قدمی روکنا تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔ تب جنگ کا حتمی نتیجہ طے ہو چکا ہوگا۔
یہی وہ فیصلہ کن عنصر ہے جو تمام دیگر پہلوؤں کا تعین کرے گا۔ اور مغرب میں کچھ بھی طے کر لیا جائے، اب جنگ کے نتیجے کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
اگر معقول نقطہ نظر سے دیکھا جائے، تو اس بند گلی سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ یوکرین فوری طور پر روس کے ساتھ مذاکرات کرے، تاکہ اس تباہ کن اور غیر ضروری جنگ کے ملبے میں سے جو کچھ بچایا جا سکتا ہے، بچایا جا سکے۔
یہ جنگ کا ایک تلخ مگر ناقابلِ تردید اصول ہے کہ فاتح، مفتوح پر اپنی شرائط مسلط کرتے ہیں۔ زیلنسکی حکومت نے اس جنگ کو اس وقت بھی جاری رکھا، جب اس کا کوئی مطلب باقی نہیں رہا تھا۔ اس ہٹ دھرمی کے باعث وہ خود کو ایسی حالت میں لے آئے ہیں، جہاں اب انہیں ماسکو کی شرائط کی گولی نگلنی ہوگی، خواہ وہ جتنی ہی کڑوی کیوں نہ ہو۔
اب بھی، جب کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جنگ کو جاری رکھنا بیکار ہے، اگر وہ اس ناممکن جدوجہد کو جاری رکھتے ہیں، تو اس کا نتیجہ محض بے شمار نوجوانوں کے بے مقصد قتلِ عام کی صورت میں نکلے گا، جو یوکرین کی پہلے سے تباہ حال آبادیاتی صورتحال کو مزید سنگین بنا دے گا۔
اور اس کا حتمی نتیجہ شاید یوکرین کی ایک آزاد قومی ریاست کے طور پر مکمل تحلیل کی صورت میں نکلے۔ یہی وہ المیہ ہے جسے رجعتی یوکرینی قوم پرستی اور اس کے سامراجی سرپرستوں کی پالیسیوں نے جنم دیا ہے۔ لیکن مغرب میں ایسے عناصر اب بھی موجود ہیں جو اس پاگل پن پر مبنی خونریزی کو نہ ختم ہونے والی طوالت دینے پر بضد ہیں۔ اور یہاں ہمیں ذکر کرنا پڑے گا یورپیوں کے جنگ سے جڑے مفادات کا۔
یورپی طاقتیں
یورپی ممالک اس تمام صورتحال میں نہایت مجرمانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ جب یہ جنگ 2022ء کے اوائل میں شروع ہوئی، تو کچھ یورپی رہنما، جیسے کہ ایمانوئل میکرون اور اولاف شولز، اس کے حوالے سے خاصے مشکوک تھے۔ اس کے باوجود، وہ بالآخر بائیڈن کے منصوبے کا حصہ بن گئے۔
تاہم، بورس جانسن اور نورڈک و بالٹک ریاستوں کے رہنما اس جنگ کے تصور سے مسرت میں جھوم رہے تھے۔ وہ اس قدر پُرجوش تھے کہ خوشی سے اُچھل رہے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ روس جلد ہی امریکی ہتھیاروں اور بے مثال اقتصادی پابندیوں کے باعث گھٹنے ٹیک دے گا۔
وہ یوکرین کو جدید ہتھیاروں سے لبریز کرنے جا رہے تھے۔ ہر نیا ہتھیار بازی پلٹ دینے والا قرار دیا گیا۔ گویا وہ کوئی جادوئی چال ہو۔ مگر یہ سب ایک نہایت بھونڈے مذاق سے زیادہ کچھ نہ تھا، حالانکہ بہت سے لوگ اس فریب میں آ گئے۔ لیکن جو لوگ آنکھیں کھول کر دیکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے، ان کے لیے ابتدا ہی سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں تھی: یوکرین یہ جنگ کبھی نہیں جیت سکتا تھا۔ یہ مادی طور پر ناممکن تھا۔
یہی حقیقت یورپی رہنماؤں کی اُس منافقت کو مزید واضح کردیتی ہے جب وہ ٹرمپ کی امن مذاکرات کی تجویز کی مخالفت کرتے رہے۔ صرف اس غرض سے کہ وہ ٹرمپ اور امریکہ کو اپنے محدود مفادات کے تابع رکھ سکیں، یورپی راہنما اور زیلنسکی یوکرین کی تباہی اور عوام کی قربانی کو جاری رکھنے پر بضد ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد سے مغربی دنیا کو سفارت کاری کے اس پرفریب میدان میں ایک کے بعد دوسری پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ابتدا میں، مغرب کے پالیسی ساز خود کو اس خوش فہمی میں مبتلا رکھتے رہے کہ حالات اتنے خراب نہیں جتنے نظر آ رہے ہیں۔ یقیناً، جب وہ وائٹ ہاؤس میں براجمان ہو جائے گا تو حقیقت پسندی سے کام لینا شروع کر دے گا۔ عوامی دباؤ (یعنی ڈیموکریٹک پارٹی) اور آزاد میڈیا (یعنی وہ میڈیا جو ارب پتیوں کی ملکیت ہے اور ڈیموکریٹک پارٹی کے سرپرستوں کے زیرِ اثر ہے) کے باعث وہ اپنے بے لگام خیالات ترک کر دے گا اور ایک عام سرمایہ دارانہ سیاست دان کی طرح سنجیدگی اختیار کر لے گا۔
مگر یہ تمام خوش گمانیاں بھاپ بن کر ہوا میں تحلیل ہو گئیں۔ اب امریکہ اور یورپ، دونوں کے حکومتی ایوان اس حقیقت کا ادراک کرنے لگے ہیں کہ حالات بڑی تیزی سے ایک ڈرامائی سمت میں جا رہے ہیں۔ جے ڈی وینس کے بقول: ”شہر میں ایک نیا تھانیدار آ چکا ہے!“
یہی حقیقت مارٹن وولف کے اس مضمون میں بھی جھلکتی ہے، جس کا اوپر حوالہ دیا گیا:
”ڈونلڈ ٹرمپ کے سیکرٹری دفاع، پیٹ ہیگستھ، (…) نے یورپی رہنماؤں کو صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ اب وہ خود اپنی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ امریکہ کا بنیادی مفاد اب اس کی اپنی سرحدوں اور چین سے ہے۔ مختصراً: ’یورپی سیکیورٹی کی ضمانت نیٹو کے یورپی اراکین کی اولین ذمہ داری ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں یوکرین کے لیے مہلک اور غیر مہلک امداد کا بھاری حصہ یورپ کو فراہم کرنا ہو گا۔“‘
جو کچھ ہم نے وائٹ ہاؤس میں دیکھا، وہ محض دو پاگل شخصیات کے درمیان تلخ بحث نہیں تھی۔ یہ اُس عالمی نظام کے انہدام کا اعلان تھا، جو دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم ہوا تھا۔ یورپ کے طاقت کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ مغربی اتحاد ان کے سامنے تیزی سے بکھرتا جا رہا ہے، اور یورپی رہنما بوکھلاہٹ میں اس کے بکھرے ہوئے تارو پود سمیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اب ہر چیز یہ ظاہر کر رہی ہے کہ وہ پرانا نظام، جس کے تحت یورپ کی حفاظت امریکی فوجی طاقت کے مرہونِ منت تھی، ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکا ہے۔ یورپیوں کو اب اس تلخ حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا اور یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ امریکہ کے مفاد کے لیے یورپ اب ویسی مرکزی حیثیت نہیں رکھتا، جیسی کبھی رکھتا تھا۔
یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ یہ عالمی تعلقات کی پوری عمارت میں ایک بنیادی تبدیلی ہے، اور اس کے نہایت سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ وولف کہتا ہے کہ امریکہ اب یورپ کا اتحادی نہیں، بلکہ اس کا دشمن ہے۔ یہ بات نہایت عمدگی سے کہی گئی ہے۔ مگر یہی وہ حقیقت ہے جسے سٹارمر سمجھنے سے قاصر ہے۔ وہ اور برطانیہ کا پورا سیاسی طبقہ ماضی میں جی رہا ہے۔ وہ سچ میں یہ سمجھتے ہیں کہ عالمی دنیا میں آج بھی ویسی ہی طاقت ہے جیسی سو سال پہلے تھی۔
یہ حضرات اس قدر احمق ہیں کہ انہیں احساس ہی نہیں کہ ان کی بے وقعت خوشامدانہ کوششیں ٹرمپ کے لیے بالکل بے معنی ہیں۔ اگر ہم بغور دیکھیں کہ ٹرمپ نے حقیقت میں کیا کہا، تو فوراً واضح ہو جاتا ہے کہ سٹارمر اور میکرون دونوں خالی ہاتھ لوٹے۔ ٹرمپ نے انہیں کسی چیز کی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی— کم از کم اس بنیادی مسئلے پر، یعنی یوکرین میں کسی نام نہاد یورپی امن فوج کے لیے امریکی ضمانت پر، تو بالکل نہیں۔
اب بھی، اس مرحلے پر، جب ہر شخص جان چکا ہے کہ یوکرین یہ جنگ ہار چکا ہے، احمق یورپی رہنما حقیقت تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان اس جھگڑے کے فوراً بعد، وہ عجلت میں یوکرینی صدر کی مکمل حمایت کا اعلان کرنے لگے اور اسے لندن میں ہونے والی نام نہاد امن کانفرنس میں مدعو کیا۔
کانفرنس کے نتائج وہی نکلے، جن کی توقع کی جا سکتی تھی: یوکرین کے ساتھ لاحاصل یکجہتی کے بے معنی اعلانات، اور ایسی اقتصادی و عسکری امداد کی پیشکش، جسے پورا کرنا ان کے اپنے بس میں نہیں۔ سب سے بڑھ کر، وہ بغیر سوچے سمجھے، رٹو طوطے کی طرح بار بار اس یورپی امن فوج کے بارے میں بے تکی باتیں دہراتے رہے، جسے نام نہاد ”رضاکارانہ اتحاد“ کے ذریعے منظم کیا جانا ہے۔
یہ لوگ یورپ کا نام لے کر بھی بات نہیں کر سکتے، کیونکہ یورپ اس معاملے پر منقسم ہے۔ اور وہ اس سمت میں کوئی قدم بھی نہیں اٹھا سکتے، جب تک کہ امریکہ اس میں شریک نہ ہو، جو بارہا واضح کر چکا ہے کہ وہ اس کے حق میں نہیں۔ اس کے باوجود، سٹارمر بضد ہے کہ وہ دوبارہ واشنگٹن جا کر اپنا موقف دہرائے گا۔ اس کی کامیابی کے امکانات کم ہیں، اور اگر ایسا ہی ہوا تو یہ ساری بے معنی کوشش زمین بوس ہو جائے گی۔
اپنے ذاتی مفادات کے تحت، یورپی حکمران یوکرین کی اس خونی جنگ کو طول دینے کی کوشش کر رہے ہیں، اور اگر ممکن ہو تو وہ امریکہ کو بھی اس تنازع میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ وہ خود کو یوکرین کے ”دوست“ ظاہر کرنے کی منافقانہ اداکاری کرتے ہیں، جبکہ ان کی پالیسی یوکرینی عوام کے لیے نہایت نقصان دہ ہے اور، آخری تجزیے میں، بے مقصد بھی۔
کییف سے کیے گئے تمام بڑے بڑے وعدوں کے باوجود، یورپی حکومتیں اس حالت میں نہیں کہ وہ جنگ جاری رکھنے کے لیے درکار خطیر رقم فراہم کر سکیں یا امریکی انخلا سے پیدا ہونے والے وسیع خلا کو پُر کر سکیں۔
فرض کریں کہ وہ اپنے تمام منصوبوں کو عملی جامہ پہنا بھی دیں — یعنی مزید رقم، مزید ہتھیار، نام نہاد امن فورس— تو بھی جنگ کا نتیجہ تبدیل ہونا ناممکن ہے۔ زیادہ سے زیادہ، اس سے شکست کو چند ماہ کے لیے مؤخر کیا جاسکتا ہے، بس اتنا ہی۔
جنگ جاری رکھنے کے لیے، یوکرینی عوام کو بے پناہ مالی اور عسکری امداد کے جھوٹے خواب دکھا کر، یہ لوگ دراصل یوکرین کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل رہے ہیں۔ ایسے دوستوں کے متعلق تو یہی کہا جاسکتا ہے: ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو۔
لندن، 2 مارچ 2025ء