اکتوبر انقلاب
لہو سجا کے کھلا ہے گلابِ اکتوبر
مرا سلام، تجھے انقلاب اکتوبر
سلام، پرچم اِسونی، سلام تجھے
کہ راس آیا تجھے آفتابِ اکتوبر
ورق ورق پہ لکیریں ہیں خونِ تازہ کی
لہو سے لکھی گئی ہے کتابِ اکتوبر
اسی مہینے میں آیا کرنسکی کو زوال
کہاں سے لائے گی دنیا، جوابِ اکتوبر
وہ زد میں آگیا سرما محل، ارُورا کی
بڑی حسین ہے تعبیر خوابِ اکتوبر
مرا وطن بھی تو اب جاگنے لگا بیدلؔ
یہاں بھی آئے گا اب انقلابِ اکتوبر
(بیدل حیدری)