|تحریر: انقلابی کمیونسٹ پارٹی|
اس مہینے کے سب سے بڑے حرام خور سرمایہ دار کی فہرست میں ہم ریئل اسٹیٹ ڈولپمنٹ کمپنی ”بلیو ورلڈ سٹی“ کے مالک کا نام شامل کرتے ہیں۔ جس نے قومی ایئر لائنز پی آئی اے کو 10 ارب روپے کی رقم پر خریدنے کی کوشش کی۔ پاکستان کے نااہل، کرپٹ اور دلال حکمرانوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت خسارے میں چلنے والے چند قومی اداروں کی نجکاری کے سلسلے میں قومی ائیر لائن کی نجکاری کے سلسلے میں 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں بولی لگائی۔
پاکستان کے نجکاری کمیشن کی جانب سے بولی سے قبل اس کی کم از کم قیمت 85 ارب روپے رکھی گئی تھی، تاہم پاکستان کی قومی ایئر لائنز پی آئی اے کی نجکاری کے سلسلے میں ایک نجی کمپنی کی طرف سے اسے محض 10 ارب روپے میں خریدنے کی پیشکش کی گئی جو ریفرنس پرائس کا تقریباً 12 فیصد حصہ بنتا ہے۔
حکمرانوں کی لوٹ مار اور کرپشن کی وجہ سے پی آئی اے گزشتہ کئی برسوں سے خسارے کا شکار ہے۔ آئی ایم ایف کی ایما اور حکمران طبقے کی کرپشن کی وجہ سے اس منافع بخش ادارے کو منصوبہ بندی کے تحت خسارے میں دھکیلا گیا اور ادارے میں موجود یونینز کو بد ترین جبر اور برطرفیوں کے ذریعے کمزور کیا گیا تاکہ اس عوامی ادارے کے اثاثوں کی بندر بانٹ کی جا سکے۔ اسی سلسلے میں یہ ڈرامہ رچایا گیا جس میں رئیل اسٹیٹ قبضہ مافیا کے ایک سرغنہ کو اس ادارے کی تضحیک کے لیے کھڑا کیا گیا۔
پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان کا کہنا ہے کہ قومی ایئر لائن کے پاس اس وقت 33 طیارے ہیں جن میں 17 اے 320، 12 بوئنگ 777 اور چار اے ٹی آر شامل ہیں۔ ترجمان کے مطابق’’حکومت کی مقرر کردہ بولی کی قیمت پی آئی اے کی مجموعی بُک ویلیو یعنی کتابی قیمت پر مبنی ہے جبکہ اثاثوں کی اصل قیمت کتابی قیمت سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ بُک ویلیو کا حساب سالانہ کمی کے بعد لگایا جاتا ہے اور بعض اوقات مارکیٹ میں قیمت کے اضافے کی وجہ سے اصل قیمت کتابی قیمت سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس وقت پی آئی اے کے مجموعی اثاثوں کی بُک ویلیو (کتابی قیمت) تقریباً 165 ارب روپے اور 60 فیصد شیئرز کی مالیت تقریباً 91 ارب روپے بنتی ہے“۔ لیکن اس کے باوجود حکومت نے کم از کم بولی 85 ارب روپے مقرر کی۔
پاکستان کے معروف شاعر فیض احمد فیض نے پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کے لیے ایک جملہ لکھا تھا ’با کمال لوگ۔۔۔ لا جواب پرواز‘۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا بھر سے نہ صرف مسافر اس فضائی سروس کے ذریعے سفر کرنے کو فخر سمجھتے تھے بلکہ بہت سی خلیجی ریاستوں کی فضائی کمپنیوں کے عملے کی تربیت سازی بھی اس قومی ادارے کے سپرد تھی۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس قومی ایئر لائن کو اس نہج پر لانے والے ذمہ داروں، جن میں نا اہل، کرپٹ اور غلیظ سیاسی پارٹیاں، سول و فوجی اشرافیہ اور دیگر، کو سزا دینا تو درکنار اس عوامی ادارے کی زبوں حالی کی وجوہات کو منظر عام پر نہیں لایا گیا۔
اسی طرح دیگر اداروں کو بھی نام نہاد حکمران اشرافیہ اونے پونے داموں بیچنے پر تلی ہوئی ہے۔ اس مزدور دشمن منصوبے کے لیے پراپیگنڈے کے ذریعے انتہائی مشکل حالات میں کام کرنے والے محنت کشوں کو ہی ان تمام تر اداروں کی زبوں حالی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ اس کے خلاف محنت کش طبقے کی منظم مزاحمت وقت کی ناگزیر ضرورت ہے۔
دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ پی آئی اے کو خریدنے کے لیے خیبر پختونخواہ حکومت نے بھی دلچسپی کا اظہار کیا مگر ساتھ ہی ساتھ پنجاب حکومت کی جانب سے بھی بیانات سامنے آ گئے تھے۔ اب ان دونوں حکومتوں کے حوالے سے بھی یہی اہم سوال ہے کہ اس وقت دونوں صوبوں میں نجکاری کے حملے جاری ہیں۔ ایک طرف ہزاروں سکولوں اور ہسپتالوں کی نجکاری کی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف ائیر لائن خریدنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ واضح ہو چکا ہے کہ اس ملک کے حکمران فراڈ اور عوام دشمن ہیں۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا نجکاری پر واضح مؤقف ہے کہ ہم نہ صرف نجکاری کا خاتمہ چاہتے ہیں بلکہ ہم محنت کشوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پی آئی اے سمیت تمام نجی اور عوامی اداروں کو مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں لیتے ہوئے حکمران طبقے اور ان کے نظام کو اکھاڑنے کی جدوجہد کا آغاز کریں۔ اس انقلابی جدوجہد کی کامیابی کے بعد یہ تمام ادارے نہ صرف عوام کی فلاح و بہبود کے لیے چلائیں جائیں گے بلکہ لاکھوں نئے روزگار بھی پیدا ہوں گے۔
اس عمل سے کرپٹ اور عوام دشمن حکمرانوں اور بلیو ورلڈ کے مالکان جیسے سرمایہ داروں کا بھی مکمل خاتمہ ہو گا۔ اس عوام دشمنی کا واحد حل سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہے۔