اس مہینے کا سب سے بڑا حرام خور سرمایہ دار

اس مہینے کے حرام خور سرمایہ داروں کی فہرست میں گل احمد پاور کمپنی کے مالک کی بیوی نتاشہ دانش کو شامل کرتے ہیں۔ ویسے تو اس نام سے تو تمام قارئین واقف ہی ہوں گے۔ 30 اگست کو کار ساز کے مقام پر نشے میں دھت گاڑی سے عام غریب لوگوں کو کچلنے والی اس خاتون کا واقعہ اس طرح کا پہلا واقعہ نہیں۔ امیر لوگ اکثر غریب لوگوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح اسی طرح کچلتے آئے ہیں۔ اس واقعے نے سرمایہ دارانہ نظام میں جہاں خواتین پر جبر کی طبقاتی بنیادوں کو واضح کر دیا ہے وہیں یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ قانون اور آئین کس طرح سے ان امیر لوگوں کی گھر کی لونڈی ہے۔

اس واقعے میں جن لوگوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح کچل دیا گیا ان میں ساٹھ سالہ عمران عارف جو کہ ایک محنت کش تھا اور اس کی 22 سالہ بیٹی آمنہ تھی جو کہ یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ جیسا کہ اس مہنگائی میں اکثر طلبہ گزر بسر کے لیے کوئی نہ کوئی کام کرتے ہیں، تو آمنہ بھی انہی میں سے ایک تھی۔

لوگوں نے جائے وقوعہ پر ہی اپنے غصے کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ سوشل میڈیا پر بحثیں شروع ہو گئیں۔ یاد رہے نتاشہ گل احمد انرجی کمپنی کے چیئرمین کی بیوی ہے اور گل احمد انرجی ان چھ آئی پی پیز (انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسر) کی فہرست میں شامل ہے، جن کی معاشی بے ضابطگیوں کی وجہ سے ان کے ساتھ فوری طور معاہدے ختم کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ صرف اسی سال گل احمد انرجی لمیٹیڈ نے کپیسیٹی پیمنٹس کی مد میں اربوں کا منافع کمایا ہے جو کہ ان کی کل بجلی لاگت سے کئی گنا زیادہ ہے اور جس کا سارا بوجھ عام صارفین پر ڈالا جا رہا ہے۔

دوسری جانب اس واقعے نے قانون اور آئین کی حقیقت واضح کر دی ہے۔ قانون سرمایہ دارانہ نظام میں نجی ملکیت کے دفاع کے لیے ہی ہے۔ واقعے کے فوری بعد میڈیکل رپورٹ سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ نتاشہ دانش نے کرسٹل میتھ کا نشہ کیا ہوا تھا۔ اس کے باوجود بھی عدالت کے باہر مقتولین کے خاندان کو ڈرا دھمکا کر چپ کرا دیا گیا۔

لبرل فیمینسٹوں کی منافقت بھی اس واقعے سے عیاں ہو گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹ بھی منظر عام پر آئیں جہاں قاتل نتاشہ کو صرف عورت ہونے کی بنیاد پر معاف کر دینے کی باتیں کی جاتی رہیں۔ یہاں ہمیں خواتین کے صنفی جبر پر کمیونسٹ نقطہ نظر اور لبرل نقطہ نظر الگ الگ ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اس واقعے کے بعد نتاشہ کو اب باعزت بری کیا جا چکا ہے۔ یہ کوئی پہلا یا آخری واقعہ نہیں، یہاں وڈیروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی جانب سے روز ہی عام غریب محنت کشوں کو ”غلطی“ سے کچل دیا جاتا ہے یا ان کی بندوق سے ”غلطی“ سے کوئی گولی لگ جاتی ہے۔ لیکن یہ تمام غلطیاں محنت کش طبقے کے شعور کا حصہ بن چکی ہیں۔

اس واقعے پر جو غم و غصہ سوشل میڈیا کی حد تک سامنے آیا ہے وہ کل سڑکوں کا رخ بھی کر سکتا ہے۔ جن گاڑیوں سے غریب محنت کشوں کو کچلا جاتا ہے۔ ان تمام گاڑیوں کو محنت کش طبقہ جلانے کی جانب بھی جا سکتا ہے۔ یہ حادثات اور ان حادثات کے ذمہ داروں کے خلاف لڑائی سرمایہ داری کے خاتمے تک جاری رہے گی۔

Comments are closed.