اس مہینے کا سب سے بڑا حرام خور سرمایہ دار

(رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، لاہور)

اس مہینے کے سب سے بڑے حرام خور سرمایہ دار کی فہرست میں ہم گجومتہ انڈسٹریل ائیریا میں واقع ”زیڈ ڈی سی“ فیکٹری کے مالک کا نام شامل کرتے ہیں۔ یہ فیکٹری ہونڈا کمپنی کے لیے اشیاء/مصنوعات پیدا کرتی ہے۔ فیکٹری مالک زیادہ سے زیادہ منافع بٹورنے کے چکر میں مزدوروں کے استحصال میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔

اپنے منافع اور عیاشیوں کو بڑھانے کی ہوس میں مبتلا فیکٹری مالک محنت کشوں کو ماہانہ صرف 25 ہزار اجرت ادا کرتا ہے جو پہلے ہی مہنگائی کے پہاڑ تلے پسے ہوئے ہیں۔ حالانکہ یہ مزدور کی محنت ہی ہے جو فیکٹری میں نئی پیداوار کی وجہ بنتی اور پھر مالک اپنی دولت اور عیاشیوں میں اضافہ کرتا ہے، لیکن پیداوار کے حقیقی خالق اور مالک کو اس سے محروم رکھاجاتاہے اور انہیں اتنی مہنگائی کے دور میں بھی کم تنخواہ پر گزارا کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔

مزدور دشمن حکومت نے بھی کم از کم اجرت 37 ہزار مقرر کی ہے۔ جو کہ پہلے ہی بہت کم ہے لیکن استحصال کا چیمپئن فیکٹری مالک حکومت کی طے شدہ اجرت بھی ادا نہیں کر رہا اور اور اس کو کوئی پوچھنے والا نہیں، کیونکہ ریاست کے تمام ادارے سرمایہ داروں کے پالتو ہیں اور انہیں کے مفاد کے لیے کام کرتے ہیں چاہے وہ پولیس ہو یا عدلیہ۔ اس ملک کے قانون یا پولیس سے کوئی امید رکھنا بے وقوفی ہے۔ مزدوروں کو اپنا جائز حق لینے کے لیے خود لڑنا پڑے گا۔

اس کے علاوہ کم عمر بچوں کو باقی مزدوروں سے بھی کم تنخواہ دے کر کام کروایا جاتا ہے۔ مزدوردں سے زبردستی اوور ٹائم لگوایا جاتا ہے۔ اگر وہ اوور ٹائم نا لگائیں تو انکی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔ اگر کوئی مزدور تنخواہ میں اضافے کی بات کرتا ہے تو اسکو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور اگراس سے کام نا بنے تو بلا جواز فیکٹری سے نکال دیا جاتا ہے یا پولیس بلا کراس مزدور کو گرفتار کروا دیا جاتا ہے۔ ایک مزورد جو پچھلے 25 سے 30 سال سے وہاں کام کر رہا ہے اس کو بھی صرف 30 ہزار تنخواہ دی جاتی ہے۔

اس طرح کے کیسز میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ ان کو نکال دیا جاتا ہے، کیونکہ فیکٹری مالک نے اس کی جگہ اس سے بھی کم اجرت میں نوجوان مزدور لا کر اس سے زیادہ کام کروانا ہوتا ہے۔ مزید براں مزدوروں کو رہائش کے لیے جو کمرے دیے گئے ہیں وہ رہنے کے قابل نہیں ہیں، بارش ہونے پر چھت سے پانی گرتا ہے۔ لاہور میں اس وقت شدید سردی پڑتی ہے۔ جس کی وجہ سے مزدوروں نے اپنے پیسوں سے ہیٹر خریدا جو فیکٹری انتظامیہ اٹھا کر لے گئی۔ کھانا انتہائی خراب ہوتا ہے۔

ہم اپنے قارئین کو یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ یہ ساری باتیں جو ہم نے یہاں تحریر کی ہیں اسی فیکٹری کے ایک مزدور کی زبانی ہیں جس نے کچھ مزدوروں کے ساتھ مل کر اس سارے ظلم و استحصال کے خلاف آواز اٹھائی۔ ڈرانے دھمکانے کاحربہ نہ چلا تو کام کے وقت موبائل چلانے کے جھوٹے الزام میں ان کو جرمانہ کیا گیا اور بعد میں فیکٹری سے نکال دیا گیا۔

گجومتہ سمیت پورے ملک کی فیکٹریوں میں کم و بیش اسی طرح کے ہی حالات ہیں۔ چند ماہ پہلے شیخوپورہ میں ’کراؤن بیلٹنگ فیکٹری‘ کے سینکڑوں محنت کشوں کو بھی اسی طرح فیکٹری سے نکالا گیا تھا جب انہوں نے اپنے حقوق کی بات کی۔ جس کی رپورٹ ہم نے کمیونسٹ کے پہلے شمارے میں اسی عنوان سے شائع کر چکے ہیں۔ لیکن وہ نڈر بہار محنت کش ڈٹ گئے اور انہوں نے اکٹھا ہو کرکام بند کر کے فیکٹری کے گیٹ پر ہی تین دن تک احتجاجی دھرنا دیا اور اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوئے۔

شیخوپورہ کے محنت کشوں کی طرح اپنے مطالبات منوانا پہلی سیڑھی ہوگی۔ لیکن محنت کشوں کی حتمی منزل سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے تمام ذرائع پیداوارکو محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹروال میں لینا ہے۔ کیونکہ اصل میں یہ محنت کش ہیں سماج کو چلاتے ہیں، اگر وہ اپنا ہاتھ روک دیں اور کام بند کردیں تو پورا سماج جام ہو جائے۔ جب اصل میں اس سماج کو چلانے والے مزدور ہیں تو اس کی دولت پر ملکیت اور حکمرانی کا حق بھی انہیں کا بنتا ہے۔

 

Comments are closed.