بنوں: ہزاروں افراد کے احتجاج پر ریاست کی جانب سے فائرنگ اور قتل و غارت

|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، خیبر پختونخواہ|

پورے خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے اور فوجی آپریشنوں کے خلاف مختلف علاقوں میں عوام نے امن مظاہرے کیے اور ہر قسم کی انتہا پسندی، دہشت گردی اور فوجی آپریشنوں کو مسترد کیا۔ اسی طرح آج بنوں میں بھی گیلامن وزیر کے ریاستی قتل، دہشتگردی اور فوجی آپریشنوں کے خلاف بنوں کی عوام نے احتجاج کیا جس میں ہزاروں کی تعداد میں مقامی افراد نے شرکت کی لیکن ریاستی اداروں  نے پر امن مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی جس کے نتیجے میں درجنوں مظاہرین قتل اور سینکڑوں شدید زخمی ہونے کی رپورٹیں موصول ہو رہی ہیں۔

19جولائی کی رات تک کی سرکاری اطلاعات کے مطابق ایک ہی شخص ہلاک ہوا تھا جبکہ غیر ریاستی ادارے کم از کم پانچ افراد کے قتل کی تصدیق کر رہے تھے۔ لیکن سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی رپورٹوں کے مطابق فائرنگ کا سلسلہ رات گئے تک جاری رہا اور ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی ریاست کی جانب سے ہونے والی اس دہشت گردی کی بھر پور مذمت کرتی ہے اور ولسی پاسون کے تمام مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے دہشتگردی اور فوجی آپریشنوں کو مسترد کرتی ہے۔
بنوں میں عوام نے گیلامن وزیر کے حالیہ قتل کی بھی شدید مذمت کی تھی جسے ریاست کی جانب سے انتہائی بے دردی سے قتل کیا گیا۔ گیلامن وزیر کا جنازہ بھی ایک احتجاج کی شکل اختیار کر گیا تھا اور ہزاروں لوگوں نے اس جنازے میں شرکت کی اور ریاستی جبر کی مذمت کی۔

19جولائی کے پر امن احتجاج کا مقصد بھی یہی تھا کہ ریاست کی جانب سے دہشت گرد گروہوں کو ایک دفعہ پھر ان علاقوں میں مسلط کیا جا رہا ہے اور ان کو ہر قسم کی غنڈہ گردی اور دہشت پھیلانے کی کھلی چھوٹ دی جا رہی ہے۔ دوسری جانب سے فوجی آپریشن کا ایک دفعہ پھر ماحول بنایا جا رہا ہے جو پھر اس علاقے کے عام لوگوں کو ہی برباد کرے گا۔ ماضی کے فوجی آپریشنوں کا خمیازہ عوام ابھی تک بھگت رہے ہیں جبکہ ان آپریشنوں کی قیادت کرنے والے ماضی کے سپہ سالار اربوں ڈالر لوٹ کر بیرون ملک فرار ہو چکے ہیں۔ ان آپریشنوں کے بعد دہشت گردی اور طالبان بھی ختم ہونے کی بجائے مزید مضبوط ہوئے ہیں اور اب کابل میں، اسلام آباد میں گٹھ جوڑ کے ساتھ برسر اقتدار ہیں۔

گزشتہ دو دہائیوں کی اس خونریزی اور قتل و غارت نے ا س خطے کے عوام کو بہت سے اہم اسباق اخذ کرنے پر مجبور کیا ہے۔ ایک طرف تو انہیں یہ واضح ہو چکا ہے کہ یہ تمام دہشت گردی اور بنیاد پرست قوتوں کے تانے بانے ریاستی اداروں اور سامراجی طاقتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ بظاہر خود کو مذہبی بنیاد پرست کہنے والے ڈالروں کے بھوکے ہیں اور اس کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ریاستی اداروں پر عوام امن کے لیے کبھی اعتبار نہیں کر سکتے۔

ضلعی انتظامیہ سے لے کر پولیس اور سیکیورٹی ادارے تک سب امن کو بگاڑنے کے ذمہ دار ہیں اور ان کا انتہائی ظالمانہ اور عوام دشمن کردار ہے۔ اس کے علاوہ عوام یہ سبق بھی سیکھ چکے ہیں کہ رائج الوقت تمام سیاسی پارٹیاں اس خونی کھیل میں کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتی ہیں اور اپنی قیمت وصول کر کے عوام کو گمراہ کرتی ہیں۔ مذہبی بنیاد پرست سیاسی جماعتوں سے لے کر قوم پرست اور نون لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف تک سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں اور اپنے اقتدار کی ہوس اور لوٹ مار کے لیے عوام کے خون کا سودا کرنے کے لیے ایک سیکنڈ بھی نہیں ہچکچاتے۔

ابھی بھی صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے جو بظاہر اسٹیبلشمنٹ مخالف نظر آتی ہے اور جس کی قیادت جیل میں ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس قتل و غارت میں اس پارٹی کی صوبائی حکومت پوری طرح شریک ہے اور اس کی برابر کی ذمہ دار بھی ہے۔

ایسے میں عوام نے خود رو انداز میں خود کو منظم کرنا شروع کر دیا ہے اور آزادانہ طور پر ان تمام عوام دشمن قوتوں کا مقابلہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اسی لیے یہ تمام عوام دشمن قوتیں اس تحریک کو خون میں ڈبو کر پورے پختونخواہ کے عوام کو پیغام دینا چاہتی ہیں کہ وہ اپنی آزادنہ تحریک کو منظم نہ کریں اور اسے آگے نہ پھیلائیں۔ لیکن اب یہ حربے کامیاب نہیں ہو سکتے اور عوام ہر قیمت پر ان سامراجی گماشتوں کو شکست دیں گے۔

اس دوران پشتون تحفظ تحریک کے نام سے ابھرنے والی تحریک نے اہم کردار ادا کیا ہے اور عوامی غم و غصے کو زبان دینے کا کام کیا ہے۔ لیکن اس تحریک کی قیادت اپنی نظریاتی غلطیوں اور قوم پرستانہ تنگ نظری کے باعث اس تحریک کے رستے میں رکاوٹ بن چکی ہے اور آگے کا کوئی رستہ دینے کی بجائے اسے مزید کنفیوژن کی جانب بڑھا رہی ہے۔ اس وقت ملک بھر میں بہت سی عوامی تحریکیں موجود ہیں جو اپنی اپنی جگہ پر ریاستی جبر کے خلاف آواز بلند کر رہی ہیں اور بہت سی قربانیاں بھی دے رہی ہیں۔

ان میں بلوچ عوامی تحریک سرِ فہرست ہے جس پر بد ترین ریاستی جبر کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود اسے پنجاب سمیت پورے ملک میں لاکھوں لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ’آزاد‘ کشمیر میں بجلی کے بلوں اور دیگر مسائل پر ایک عوامی تحریک موجود ہے جس نے حال ہی میں بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور بجلی کا ایک یونٹ تین روپے کا کروایا ہے۔ اس پر بھی بد ترین جبر کیا گیا، جس میں 13 مئی کو مظفرآباد میں ہونے والے رینجرز کے حملے میں تین افراد ہلاک اور تیس سے زائد زخمی بھی ہوئے۔

اس کے علاوہ گلگت بلتستان میں بھی عوامی ایکشن کمیٹی کی زیر قیادت لاکھوں عوام کی تحریک موجود ہے۔ پنجاب میں بھی لاکھوں سرکاری ملازمین سراپا احتجاج ہیں اور حکومت کے آئی ایم ایف کی ایما پر کیے گئے فیصلوں کے خلاف آئے روز احتجاج کر رہے ہیں۔

ان تحریکوں میں موجود بہت سے قائدین کی جانب سے بنوں واقعے کی شدید مذمت کی گئی ہے اور ریاست کی جانب  سے ہونے والے اس ظلم کی کھلے الفاظ میں تنبیہ کی ہے۔ گلگت بلتستان کی عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت نے تو اس جبر کے خلاف کسی بھی قسم کے جوائنٹ فورم کی تشکیل اور مشترکہ تحریک کی جانب بڑھنے کا پیغام بھی دیا ہے۔

یہی صورتحال دوسری جگہوں پر بھی نظر آتی ہے۔ پشتونخواہ سمیت پورے ملک میں موجود مزدور تنظیموں کے قائدین کو بھی اسی جانب بڑھنے کی ضرورت ہے۔

وقت کی ضرورت ہے کہ ان تمام تحریکوں کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کیا جائے اور جمہوری انداز میں فیصلے لیتے ہوئے مشترکہ احتجاجوں اور ہڑتالوں کی جانب بڑھا جائے۔ لیکن اس کے لیے ایک انقلابی سیاسی پروگرام کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے رائج الوقت سیاسی پارٹیوں کی مفاد پرستانہ سیاست سے آگے بڑھتے ہوئے ایک انقلاب کا پروگرام پیش کرنا ہو گا اور حکمران طبقے کے خلاف عوام میں موجود غم و غصے کورستہ دینا ہو گا۔

سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست کی حدود میں اس قتل و غارت کو مستقل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں اور امریکی سامراج کی گماشتہ اس سرمایہ دارانہ ریاست اور اس کی بنیاد میں موجود سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ اس کا متبادل سوشلسٹ نظام رائج کرنا ہو گا جو اس دہشت گردی کی جڑ کو ہی اکھاڑ پھینکے گا۔ انقلابی کمیونسٹ پارٹی اسی نظریے اور پروگرام پر کاربند ہے اور اسی لیے پورے ملک میں بکھری ان تمام تحریکوں کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔

بنوں میں ہونے والے اس سانحے کے بعد ان کوششوں کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے اور پورے ملک کے ہر شہر میں ایسے اجلاس اور احتجاج کرنے کی ضرورت ہے جس میں نہ صرف اس واقعے کی پر زور مذمت کی جائے بلکہ اس شہر میں موجود سرکاری اور نجی اداروں کے ملازمین کو دعوت دی جائے، طلبہ کو بڑے پیمانے پر مدعو کیا جائے، خواتین کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے اور سب سے بڑھ کر اس شہر میں جاری مختلف عوامی تحریکوں کے کارکنان کو اکٹھا کرتے ہوئے ایک جوائنٹ ایکشن کمیٹی ترتیب دی جائے جو احتجاج کا لائحہ عمل مرتب کرے۔

ان کمیٹیوں میں سیاسی پارٹیوں کے مفادات کی ترجمانی کرنے والے یا ریاستی اداروں کے گماشتوں کو سختی سے رد کیا جائے اور جمہوری انداز میں فیصلے لیتے ہوئے ضلع اور ملکی سطح تک ان تحریکوں کو جوڑا جائے۔ اس سمت میں لیا جانے والا ہر قدم تحریک کو مضبوط کرے گا اور بنوں میں پرامن مظاہرین کے قاتلوں اور ریاستی اداروں کو کمزور کرے گا۔ اس تحریک کی کامیابی سے ہی ان مظلوموں کے قتل کا انتقام پورا ہو گا اور اس سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے عمل کا آغاز ہو گا۔

ریاستی دہشت گردی مردہ باد!
قومی جبر مردہ باد!
سرمایہ دارانہ نظام مردہ باد!
سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!

Comments are closed.