بنگلہ دیش: محنت کشوں کے احتجاجوں اور ہڑتالوں میں شدت آ گئی!

|تحریر: نعمان بسواس اور بین کری، ترجمہ: جلال جان|

طلبہ کی شاندار اور جرات مندانہ انقلابی تحریک، جس نے شیخ حسینہ کا تختہ الٹ دیا تھا، اب بنگلہ دیش میں طبقاتی جدوجہد کے نئے دروازے کھولنے کا باعث بن رہی ہے۔ انقلاب آگے کی جانب بڑھ رہا ہے!

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

مزدوروں نے طلبہ کی لڑائی کے دلیرانہ طریقوں اور نعروں کو اپنا کر انہیں اپنے فیکٹری مالکان کے خلاف لڑائی میں اپنا ہتھیار بنا لیا ہے۔ اگرچہ حسینہ جا چکی ہے، لیکن اس کا نظام ابھی باقی ہے۔ ہر سرمایہ دار اور فیکٹری کا مالک ایک ’چھوٹی حسینہ‘ کی طرح ہے، جو لاکھوں مزدوروں کو بے رحمی سے دبا رہا ہے اور ان کا استحصال کر رہا ہے۔ اب مزدور 5 اگست کی جیتی ہوئی شاندار جمہوری فتح کو ان جابروں اور سرمایہ داروں کے خلاف بھی استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔

حسینہ کی حکومت کے گرنے کے صرف ایک ہفتے بعد ہم نے اپنے تناظر میں یہ بات کہی تھی:

”محنت کش طبقے کے لیے ’جمہوریت‘ کوئی مجرد چیز نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے جس میں بہتر اجرتوں، کام کرنے کے بہتر حالات، کم اوقاتِ کار اور ایک باعزت زندگی کا حصول شامل ہے۔ لاکھوں مزدور اپنی جیتی ہوئی جمہوری آزادیوں کو، جو سڑکوں پر لڑ کر جیتی گئی تھیں، اپنے مطالبات کو آگے بڑھانے اور سرمایہ داری کے ناقابل برداشت بوجھ کو ختم کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔“

ہماری بات پہلے سے درست ثابت ہو رہی ہے۔ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ انقلاب کا اختتام نہیں، بلکہ ایک نئے باب کا آغاز ہے۔ عام لوگ اپنی جدوجہد کو سوشل میڈیا اور چھوٹے پریس آؤٹ لیٹس پر دستاویزی شکل دینے اور شیئر کر رہے ہیں۔ مرکزی دھارے کے میڈیا میں مزدور تحریک کی جرات مند لڑائیوں کے بارے میں خاموشی ہی نظر آ رہی ہے۔

ملک کی معاشی صورتحال بدستور سنگین ہے۔ پچھلے چند سالوں میں یہ حالات بہت زیادہ خراب ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے عوام کا غصہ بڑھ گیا تھا اور آخر کار عوام نے پچھلی حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا۔ گزشتہ سال پہلی بار قرضہ 100 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا کیونکہ معیشت سست روی کا شکار ہو گئی تھی۔ حکومت کے خاتمے کے قریب، ریاستی اثاثوں کی لوٹ مار اور سرمائے کی بیرون ملک منتقلی وبائی سطح تک پہنچ گئی تھی۔ حسینہ واحد شخصیت نہیں ہے جو ملک چھوڑ کر بھاگی ہے۔ اس کے دورِ حکومت سے وابستہ بہت سے سرمایہ داروں نے اپنے سوٹ کیسز میں نقدی رقم بھری اور ملک سے فرار ہو چکے ہیں، جس کے نتیجے میں فیکٹریاں بند ہوئی ہیں۔

دوسری جانب، ملک میں بنیادی غذائی اشیاء اور ایندھن کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، جہاں 3 کروڑ 77 لاکھ سے زائد افراد غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں، اور گارمنٹس سیکٹر جو کہ زیادہ تر خواتین پر مشتمل ہے، اس میں مزدوروں کی اجرت محض 80 ڈالر (تقریباً 22 ہزار پاکستانی روپے) ہے۔ یہ اجرت بھی بنگلہ دیش کے کئی علاقوں میں ادا نہیں کی جا رہی ہے جس کی وجہ سرمایہ داروں کی بدانتظامی سے پیدا ہونے والا انتشار ہے۔

عوامی مزاحمت کا آغاز

مزدوروں کے اپنی اجرت وصول کرنے کے لیے بینکوں کے باہر آٹھ سے نو گھنٹے قطار میں کھڑے رہنے کے مناظر عام ہو گئے ہیں۔ گارمنٹس کے مزدوروں کا دعویٰ ہے کہ ان کے بینک اکاؤنٹس میں تنخواہ آنے سے پہلے انٹرنیٹ فعال ہوتا ہے، لیکن جیسے ہی پیسے اکاؤنٹ میں آتے ہیں، انٹرنیٹ بند ہو جاتا ہے اور وہ اپنی رقم نہیں نکال پاتے۔ لیکن اب مزدور اس کے خلاف لڑنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

 

غازی پور میں سیراک اپیرلز لمیٹڈ (Searock Apparels Ltd) میں کام کرنے والے گارمنٹس کے مزدوروں کو تین ماہ سے تنخواہیں نہیں دی گئیں۔ مالک نے مزدوروں کو فیکٹری سے باہر نکال دیا، جس کے ردعمل میں مزدوروں نے کئی دنوں تک ڈھاکہ میمین سنگھ ہائی وے پر دھرنا دے کر قبضہ جما لیا۔ طلبہ نے دکھا دیا ہے کہ اجتماعی اور براہ راست جدوجہد کے ذریعے ہی لڑائی میں کامیابی مل سکتی ہے۔ در حقیقت، یہی ایک طریقہ ہے جو مؤثر نتائج دیتا ہے اور مزدوروں نے یہ سبق بخوبی سیکھ لیا ہے۔

سینوویا فارما پی ایل سی (Synovia Pharma PLC) کے 380 مزدوروں کو 31 ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں تھیں۔ مزدوروں نے 13 اگست کو کمپنی کے ہیڈ کوارٹر کے باہر دھرنا دیا۔ اس فیکٹری کے مزدور غیر انسانی حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اور وہ ٹریڈ یونین کے حقوق کے لیے بھی جدوجہد کر رہے ہیں۔

14اگست کو ٹونگی (Tongi) میں گارمنٹس کے بے روزگار مزدوروں نے سڑکوں کو بلاک کر کے احتجاج شروع کیا، جدوجہد کرنے کا یہ طریقہ بہت عام ہو چکا ہے، اس احتجاج میں روزگار کی فراہمی اور مرد و خواتین کے لیے ملازمت کے مساوی حقوق کا مطالبہ کیا گیا۔

چٹاگانگ میں انووارہ ڈریس میکرز لمیٹڈ (Anowara Dress Makers Ltd.) کے گارمنٹس کے مزدوروں نے بھی 15 اگست کو اپنی غیر ادا شدہ تنخواہوں کی ادائیگی کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے کام کی جگہ کے باہر سڑک پر دھرنا دیا۔ اسی دوران، تقریباً 3000 کاٹن ملز کے مزدوروں نے 16 اگست کو ٹنگیل میں ڈھاکہ ٹنگیل ہائی وے پر دھرنا دے کر تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کیا۔

اہم بات یہ ہے کہ کئی جگہوں پر ہم نے مزدوروں کو براہ راست فیکٹریوں پر قبضہ کرتے دیکھا ہے۔ جیسے طلبہ اور مظلوم عوام کی بڑی تعداد میں متحرک ہونے سے عوام نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ ’معاشرے کو کون چلاتا ہے، عوام یا حسینہ؟‘، جب انہوں نے حالیہ ہفتوں میں لاکھوں کی تعداد میں احتجاج کیا، اسی طرح مزدور یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ’فیکٹریوں کو کون چلاتا ہے، مزدور یا وہ چھوٹی حسینہ (سرمایہ دار) جو ان کے مالک ہیں؟‘۔

مثال کے طور پر، 15 اگست کو بارشال میں اوپسو سیلائن لمیٹڈ (Opso Saline Ltd) کے مزدوروں نے کام بند کر دیا اور فیکٹری کے اندر قبضہ کر لیا۔ ان مزدوروں نے بہتر تنخواہوں اور کام کرنے کے بہتر حالات کے ساتھ ساتھ ٹریڈ یونین کے حقوق کا بھی مطالبہ کیا۔ حالیہ انقلاب کو بجا طور پر ایک جمہوری فتح قرار دیا جا رہا ہے، لیکن محنت کش طبقے کے لیے جمہوری حقوق کا مطلب سب سے پہلے اپنے طبقاتی مفادات کے لیے منظم ہونا اور جدوجہد کرنا ہے۔

مزدور خود کو منظم کر رہے ہیں اور سرمایہ داروں کے خلاف لڑائی کو خود اپنے ہاتھوں میں لے رہے ہیں۔ جہاں ٹریڈ یونینز موجود نہیں ہیں، وہاں بھی مزدور فیکٹریوں اور ہائی وے پر دھرنے کے ذریعے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

یہ لڑائیاں فیکٹریوں میں اور ہائی ویز پر لڑی جا رہی ہیں، نہ کہ پریس کانفرنس رومز میں اور عبوری حکومت سے اپیلوں کے ذریعے جیسا کہ ٹریڈ یونین کے رہنما یہ سب کر کے خود کو محدود کر رہے ہیں۔

بلاشبہ ٹریڈ یونینز کے رہنما نیچے سے شدید دباؤ محسوس کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ سر اٹھانے پر مجبور ہیں، یہ ان میں سے کچھ کے لیے ایک غیر معمولی تجربہ ہو گا، کیونکہ بہت سے اعلیٰ بیوروکریٹس کے براہ راست تعلقات عوامی لیگ کی حکومت سے ہیں۔ لیکن مزدوروں کی ان کاروائیوں کی زیادہ تر رپورٹس میں، ہمیں ٹریڈ یونین کی برانچوں کا کم ہی ذکر مل رہا ہے۔ یہ تحریکیں خود رو طریقے سے ابھر رہی ہیں اور نئی قیادتیں تراش رہی ہیں۔

اگرچہ یونینوں کے اندر موجود بیورو کریٹک رکاوٹوں کا مقابلہ کرنا ضروری ہے اور بیورو کریٹس کو جدوجہد میں شامل ہونے یا کنارہ کشی اختیار کرنے پر مجبور کرنا چاہیے، لیکن اس انقلاب کے نئے مرحلے میں ہمیں حقیقت میں نئی اور زیادہ لچکدار تنظیمی شکلوں کی ضرورت ہے۔ ایسے تنظیمی ڈھانچے درکار ہیں جو محنت کش طبقے میں موجود غم و غصّے سے لبریز آتش فشاں جذبات کو صحیح طریقے سے ظاہر کر سکیں اور انہیں اپنے تمام معاشی اور سیاسی مطالبات کے حصول کی جانب رہنمائی فراہم کر سکیں۔

طلبہ نے اس راستے کی نشاندہی کی ہے۔ 5 اگست سے پہلے اور بعد میں ابھرنے والی نچلی سطح کی طلبہ کمیٹیوں نے کئی جگہوں پر ریاست کے بنیادی فرائض سنبھال لیے تھے۔ یہ اس بات کا ہلکا سا اظہار تھا کہ معاشرے کو چلانے کے لیے ہمیں سرمایہ داروں، جاگیر داروں یا ان کی بیورو کریٹک ریاست کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔

اس سبق کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہر فیکٹری اور کام کی جگہوں پر مزدوروں کی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں، جو آپس میں جڑ کر اور مظلوم عوام کی وسیع تر پرتوں کو ان کمیٹیوں شامل کریں، اس سے مزدوروں کی خود رو طور پر ابھرنے والی تحریک کو ناقابل شکست شکتی ملے گی۔ ان کمیٹیوں کے ذریعے مختلف فیکٹریوں کے مزدور ایک دوسرے کی مدد کر سکیں گے اور ’چھوٹی حسیناؤں‘ اور ان کے نظام کا صفایا کر سکیں گے۔

یہ واضح ہے کہ مزدور پہلے ہی طلبہ کی قائم کردہ مثال سے تحریک حاصل کر رہے ہیں۔ فیکٹریوں میں اٹھائے جانے والے ’9 نکاتی‘، ’13 نکاتی‘ اور ’1 نکاتی‘ مطالبات میں طلبہ کی جدوجہد کے براہ راست اثرات موجود ہیں۔ سب سے انقلابی بائیں بازو کے طلبہ کو مزدوروں کے ساتھ جڑنا چاہیے، انقلابی کمیٹیوں کی مثال پیش کرنی چاہیے اور ان بظاہر غیر مربوط جدوجہد کو انقلاب مکمل کرنے کی ضرورت سے جوڑنا چاہیے؛ یعنی سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کی حکمرانی کو مکمل طور پر ختم کرنے کی ضرورت اور مزدوروں کو اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کی ضرورت کو اجاگر کرنا ہو گا۔

آپ کس طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں؟

اپنے پچھلے مضمون میں ہم نے پیش گوئی کی تھی کہ مزدوروں کا منظر پر آنا نئی حکومت کی کھوکھلی ’جمہوری‘ زبان کو فوراً بے نقاب کر دے گا۔ انہیں یہ ثابت کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا کہ وہ واقعی کس کی خدمت کرتے ہیں: سرمایہ داروں کی۔ مزدوروں کی جدوجہد کے اچانک پھوٹنے سے ایسا لگتا ہے کہ یہ پیش گوئی جلد ہی سچ ثابت ہو سکتی ہے۔

14اگست کو عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے بنگلہ دیش گارمنٹ مینو فیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن (BGMEA) کے ساتھ ایک میٹنگ کی۔ یونس نے ان درندہ صفت سرمایہ داروں سے اپیل کی کہ ”اپنے کاروبار کو سیاست سے دور رکھیں“۔ یونس کوئی بے وقوف شخص نہیں ہے۔ اسے معلوم ہے کہ بنگلہ دیش میں زیادہ تر مالکان پرانی حکومت اور معزول عوامی لیگ سے بے شمار سرپرستی اور بدعنوانی کے روابط رکھتے تھے۔

وہ انقلاب کی تپش اپنی گردن پر محسوس کر رہا ہے اور اس کے باوجود وہ ان مجرموں کا محاسبہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا، وہ سرمایہ داروں کی حفاظت کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے اسے ان کے تعاون کی ضرورت ہے۔ یقینا BGMEA نے اس میٹنگ میں یونس پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ اگر یونس یہ سوچتا ہے کہ وہ سیاست اور معیشت کو الگ رکھ سکتا ہے، تو وہ ایک خیالی دنیا میں زندہ ہے۔

اس ملاقات میں بھی BGMEA نے بھیک مانگتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ان کے قرضوں کی ادائیگیوں اور یوٹیلیٹی بلز میں نرمی کی جائے! بنگلہ دیش میں ہنگامی صورت حال نےفیشن کے بڑے بین الاقوامی گروپوں کو اپنے بہت سے آرڈرز کو دوسرے جنوبی ایشیائی ممالک کی طرف منتقل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ بنگلہ دیشی سرمایہ دار ڈاکٹر یونس کی حکومت سے امید رکھتے ہیں کہ وہ خراب ہوتے ہوئے حالات میں ان کے منافع کو محفوظ رکھے گی۔ لیکن اس کی قیمت کون ادا کرے گا؟ مزدور اور غریب لوگ۔

لیکن ڈاکٹر یونس کو اس سمت سے بھی دباؤ محسوس ہو رہا ہے۔ اتوار، 18 اگست کو آئی ٹی سیکٹر میں کام کرنے والی خواتین نے یونس کی رہائش کے باہر دھرنا دیا اور اپنے آئی ٹی سیکٹر کے قومیانے کا مطالبہ کیا۔ وہ ٹوتھو آپا (Tottho Apa) پراجیکٹ کا حصہ ہیں، ایک ایسا پروگرام، جو دیہی علاقوں کی خواتین کو آئی ٹی سیکٹر میں کام کے مواقع فراہم کرتا ہے۔

دوسری جگہوں پر مزدور اس حکومت سے اپنے بھائیوں اور بہنوں کے خلاف کیے گئے جرائم کے لیے فوری انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ نرسنگدی (Narsingdi) میں ایک نوجوان مزدور روبیل، جو صرف 18 سال کا تھا، حال ہی میں فیکٹری میں کام کے دوران کرنٹ لگنے سے ہلاک ہو گیا۔ 17 اگست کو، مزدوروں نے سڑکوں پر دلیرانہ مظاہرہ کرتے ہوئے مارچ کیا اور براہ راست تفتیشی کارروائی کا مطالبہ کیا اور وہ فیکٹری کے مالک کی پھانسی کا بھی مطالبہ کر رہے تھے، جہاں روبیل کام کرتا تھا۔

ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز (EPZs) کے مزدوروں کی طرف سے حکومت کے سامنے دیگر مطالبات بھی رکھے جا رہے ہیں، خاص طور پر یہ مطالبہ کہ وہ مالکان کو دی گئی لیبر قوانین میں سے تمام رعایتوں کو ختم کریں۔ 19 اگست کو، مزدوروں نے ڈھاکہ EPZ کے داخلی راستے پر دھرنا دیا اور مردوں اور عورتوں کے لیے ملازمت کے مساوی حقوق کا مطالبہ کیا۔ یہ مزدور سڑکوں پر برابری کے لیے لڑ رہے ہیں اور اپنے مطالبات کے لیے اپنی طاقت پر بھروسہ کر رہے ہیں۔ اقتصادی طور پر اہمیت کے حامل ان زونز میں سرمایہ دار جلد یا بدیر نظم و ضبط قائم کرنے کا مطالبہ کریں گے کہ ریاست مزدوروں کو سڑکوں سے ہٹائے۔ جب یہ لمحہ آئے گا تب حکومت اپنا اصلی چہرہ دکھانے پر مجبور ہو گی۔

اسی دوران، مقامی سرکاری ملازمین بھی حرکت میں ہیں۔ 19 اگست کو بارشال سٹی کارپوریشن کے مزدوروں نے ہڑتال کی اور سٹی کارپوریشن کی عمارت کی ایک منزل پر قبضہ کر لیا، یہ ہڑتال بھی تنخواہوں اور کام کے بد تر حالات کے خلاف تھا۔ ان مزدوروں کی تعداد تقریباً ایک ہزاروں ہے۔ وہ واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ مقامی حکومت میں بھی انہیں اپنے حقوق کے حصول کے لیے طبقاتی جدوجہد کے طریقوں پر ہی انحصار کرنا پڑے گا۔

دوسری مقامات پر بھی مزدور حکومت سے اداروں کو قومیانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 18 اگست، بروز اتوار، سینکڑوں ریلوے سیکیورٹی کے مزدوروں نے ڈھاکہ میں ریل بھبھن (عمارت) کو گھیر لیا۔ انہوں نے دوسرے عملے کو اندر بند کر دیا اور ایک ’1نکاتی مطالبہ‘ پیش کیا؛ ان کی نوکریوں کی سرکاری نوکری میں شامل کیا جائے، جو کہ ٹھیکے پر اور عارضی بنیادوں پر قائم رکھی گئی تھیں۔

ان مزدوروں نے دعویٰ کیا کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہیں کیے گئے تو وہ 21 اگست کو دوبارہ قبضہ کریں گے۔ ریلوے کے مزدور واضح طور پر سمجھتے ہیں کہ مالکان پر ریلوے کے نظام کے لیے بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا جو کہ معیشت میں انتہائی اہم شعبہ ہے۔

ڈاکٹر یونس کی حکومت پر کوئی بھروسہ نہیں!

ان تمام اور بہت سے دیگر پہلوؤں کے حوالے سے مزدور اپنے مطالبات پر زور دینا شروع کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر یونس کی حکومت کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ ان مطالبات کو پورا کرے، جبکہ ساتھ ہی اپنے حقیقی آقاؤں، یعنی حکومتی سرمایہ دار طبقے کی خدمت بھی جاری رکھے۔

تمام بینکاروں اور بڑے کاروباری مالکان کو صرف اپنے منافع کی فکر ہے۔ مزدور ہر نئی جدوجہد کے ساتھ یہ سمجھتے جائیں گے کہ انہوں نے طلبہ کے ساتھ مل کر حسینہ کی آمریت کو ختم کیا، لیکن بینکاروں اور مالکان کی آمریت ابھی بھی برقرار ہے۔ یہ حکومت بالکل اسی طبقے کی حفاظت اور نمائندگی کرنے پر مامور ہے جس کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ عبوری حکومت، جو وقت گزرنے کے ساتھ مزید بدعنوان عناصر کو اپنے اندر شامل کر رہی ہے، بھی محنت کش کے شدید غصے کا نشانہ بنے گی۔

اس سے اس بات کی نشاندہی بھی ہوتی ہے کہ طلبہ منتظمین کی جانب سے یونس کی حکومت کے پیچھے اپنی حمایت کو ڈالنا اور وزراء کے طور پر اس میں فعال شرکت کرنا کتنی بڑی غلطی تھی۔

حال ہی میں، آصف محمود، جو اس حکومت میں وزارتیں سنبھالنے والے Anti-Discrimination Student Movement (ADSM) کے دو اہم رہنماؤں میں سے ایک ہیں، کو وزیرِ محنت و روزگار بنا دیا گیا۔

سرمایہ دارانہ عبوری حکومت کی جانب سے خود کو عوام کے غصے سے محفوظ رکھنے کے لیے طلبہ رہنماؤں کے انقلابی جذبات کو ایک ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا یہ ایک واضح اقدام ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مزدور دشمن اور عوام دشمن ظالمانہ اقدامات کا الزام طلبہ رہنماؤں پر آئے۔

ہم ایک بار پھر اس نکتے کو واضح کرتے ہیں جو ہم نے اپنی پچھلی تحریروں میں بیان کیا تھاکہ اس انقلاب کا ہر قدم عوام، طلبہ، فیکٹری کے مزدوروں، غیر رسمی مزدوروں اور دیگر نے سڑکوں پر لڑ کر جیتا ہے۔ ہم ڈاکٹر یونس کی حکومت پر کوئی اعتماد نہیں رکھتے! مزدوروں اور طلبہ کو صرف اپنی طاقت پر ہی انحصار کرنا چاہیے! ADSM کے رہنماؤں کو اس حکومت سے علیحدگی اختیار کرنی چاہیے اور اس کے اندر وزارتوں کے زہریلے پیالے کو مسترد کرنا چاہیے۔

گزشتہ ہفتے مزدوروں نے محض کھوکھلی لفاظی کی بجائے اپنے اعمال سے دکھانا شروع کر دیا ہے کہ ایک نیا سماج تعمیر کرنا ممکن ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں مالکان، بینکار، سرمایہ دارانہ معاشرے کی یہ ساری گندگی اور غلاظت شامل نہ ہو۔ مزدور ہی معاشرے میں دولت کا اصل ذریعہ ہیں۔ مثال کے طور پر، گارمنٹس کے مزدور H&M، زارا (Zara)، اور دیگر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے اشیاء بناتے کرتے ہیں، جو ان مزدوروں سے اربوں ڈالر کا منافع حاصل کرتے ہیں اور اسے بیرون ملک منتقل کرتے ہیں۔

ہم کہتے ہیں، پچھلی حکومت کی تمام جائیداد ضبط کی جائے! معیشت کے اہم شعبوں، جیسے کہ بینک، فیکٹریاں، ٹرانسپورٹ، صنعتی زراعت اور ٹیلی کمیونیکیشنز، کو مزدوروں کے جمہوری کنٹرول کے ذریعے قومی تحویل میں لیا جائے اور لالچی سرمایہ داروں کو کوئی معاوضہ نہ دیا جائے!

سب کے لیے مفت صحت کی سہولت قائم کی جائے! تمام نجی ہسپتالوں اور کلینکوں کو بغیر کسی رعایت کے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول کے ذریعے قومی تحویل میں لیا جائے!

نسلی اقلیتوں کی تمام زبانوں کو برابر کی شناخت دی جائے۔ تعلیم اور دیگر عوامی خدمات میں تمام اقلیتی زبانوں کے استعمال کو آسان بنانے کے لیے ماہر مزدوروں کو تربیت دی جائے اور ملازمت دی جائے!

تمام مزدوروں کی تنخواہوں میں 100 فیصد اضافہ کیا جائے!

تمام صنعتوں میں مزدوروں کو ٹریڈ یونین کے مکمل حقوق دیے جائیں!

عارضی مزدوروں کو مستقل بنیادوں پر روزگار فراہم کیا جائے!

خواتین اور مرد مزدوروں کو ملازمت کے مساوی حقوق اور مواقع فراہم کیے جائیں!

سب کے لیے اچھی تنخواہ والی ملازمت کے حق کی ضمانت دی جائے!

طلبہ اور مزدوروں کی کوششوں کو پھیلایا جائے اور انہیں منظم کیا جائے تاکہ پورے ملک میں وہ اپنی ایکشن کمیٹیاں تشکیل دے سکیں!

پورے ملک سے مزدوروں اور طلبہ کی کمیٹیوں کے نمائندے منتخب کیے جائیں، تاکہ ایک قومی کانگریس تشکیل دی جا سکے جو سرمایہ داروں کے بغیر مزدوروں اور طلبہ کی حکومت بنائے!

انقلاب کو مکمل کرو! سوشلزم کی جانب بڑھو!

ہم تمام پرانی جماعتوں کو مسترد کرتے ہیں، عوامی لیگ اور ساتھ ہی BNP اور جماعتِ اسلامی کو بھی! ہمیں ایک نئی اور انقلابی جماعت کی ضرورت ہے جو اس پروگرام کو عملی جامہ پہنا سکے اور اس تحریک کو ایسی قیادت فراہم کرے جو اس وقت موجود عدم اطمینان کے تمام ذرائع کو مجتمع کر کے انہیں انقلاب کی تکمیل کی طرف لے جا سکے۔

یہ صرف سرمایہ داری کے خاتمے، پرانی عوامی لیگ کی ریاست کے خاتمے اور مزدوروں کو اقتدار میں لانے سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بنگلہ دیش کے انقلاب کی تکمیل صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کی شکل میں ہی ہو سکتی ہے۔

ہم ان تمام لوگوں سے اپیل کرتے ہیں جو ہم سے متفق ہیں کہ وہ انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل میں شامل ہوں!

Comments are closed.