بنگلہ دیش میں طلبہ کے پُرامن مظاہرے پُرتشدد ہو چکے ہیں۔ اب تک ہلاکتوں کی تعداد 39 تک پہنچ چکی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں بتائی جا رہی ہے۔ وزیراعظم شیخ حسینہ اور اس کی پارٹی عوامی لیگ کی حکومت بدترین مظالم پر اتر آئی ہے۔ ڈھاکہ سمیت مختلف شہروں میں فوج طلب کر لی گئی ہے اور ڈھاکہ کی سڑکوں پر ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔
پولیس اور پیرا ملٹری فورس طلبہ پر بد ترین جبر کر رہی ہیں اور لاٹھی چارج، شیلنگ اور آنسو گیس کے علاوہ ربڑ کی گولیاں بھی چلائی جا رہی ہیں۔ اس وقت مظاہرے ڈھاکہ کے علاوہ تمام بڑے شہروں میں پھیل چکے ہیں، جن میں چٹاگانگ، کومیلا، راج شاہی اور رنگ پور شامل ہیں۔ تمام شہروں میں طلبہ بڑے پیمانے پر ان مظاہروں میں شامل ہیں اور ریاستی جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ طلبہ نے حکومت کی مذاکرات کی دعوت کو بھی حکومت کا ایک ناٹک کہہ کر ٹھکرا دیا ہے اور کہا ہے کہ شہیدوں کے خون کا سودا نہیں کیا جائے گا۔
اس تحریک سے قبل بھی بنگلہ دیش میں جبر کا شدید ماحول تھا اور جمہوری آزادیوں اور اظہار رائے کی آزادی پر شدید قدغنیں موجود تھیں۔ طلبہ اور مزدوروں کے احتجاجوں کو پولیس کی جانب سے جبر کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ سوشل میڈیا پر حکومت مخالف سرگرمی کرنے پر بھی طلبہ کو گرفتار یا اغوا کر لیا جاتا تھا اور ان پر قید میں بد ترین تشدد کیا جاتا تھا۔ اس جبر کے ماحول میں اس تحریک کا ابھرنا طلبہ کی جانب سے ایک بغاوت کا اعلان ہے۔
ان احتجاجوں کا سلسلہ یکم جولائی سے ہی بڑے پیمانے پر شروع ہو گیا تھا جب عدالت نے سرکاری نوکریوں کے متنازع کوٹہ نظام کو بحال کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس نظام کے تحت سول سروس میں دی جانے والی نوکریوں پر 56 فیصد کوٹے میں سے 30 فیصد کوٹہ 1971ء کی جنگِ آزادی لڑنے والوں کے بچوں کے لیے مختص ہے۔ جن کا تعلق بنگلہ دیش کی حکمران جماعت بنگلہ دیش عوامی لیگ سے ہے۔
یوں درحقیقت یہ کوٹہ سسٹم حکمران جماعت کے حمایتیوں کو نوازتا ہے۔ اس کوٹہ سسٹم کے خلاف 2018ء میں ایک بہت بڑی طلبہ تحریک ابھری تھی جس کے بعد اس کا خاتمہ کر دیا گیا تھا۔ اس سال کے آغاز میں شیخ حسینہ ایک دفعہ پھر فراڈ الیکشنوں کے ذریعے وزیراعظم منتخب ہوئی تو جبر کے ایک نئے دور کا بھی آغاز کر دیا۔ اسی سلسلے میں اب عدالت کے ذریعے اس کوٹہ سسٹم کو دوبارہ مسلط کیا گیا ہے۔ اس متعصبانہ اور طلبہ دشمن اقدام کے خلاف جولائی کے آغاز میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ نے پرامن احتجاجوں کا آغاز کیا جس پر حکمران جماعت عوامی لیگ کا طلبہ ونگ، بنگلہ دیش چھاترا لیگ اور پولیس نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں ان احتجاج کرنے والے طلبہ پر حملہ کر دیا تھا۔ عیدالاضحی کی چھٹیوں کے بعد ان احتجاجوں میں تیزی آ گئی تھی جس پر بد ترین جبر کا آغاز کر دیا گیا۔
سوشل میڈیا پولیس اور ریاستی آلہ کار چھاترا لیگ کے حملوں کی تصاویر اور ویڈیوز سے بھرا پڑا ہے۔ ان میں واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح بے رحمی سے لاٹھیوں، ڈنڈوں اور پیٹرول بموں سے نہتے طلبہ پر تشدد اور جبر کیا جا رہا ہے۔ کئی جگہوں پر پولیس کھلے عام سٹریٹ فائر کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ ان احتجاجوں میں شامل طالبات کو بھی تشدد اور ہراسانی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ان حملوں کے ردعمل میں اب احتجاج پورے بنگلہ دیش میں پھیل چکے ہیں۔ ہائی سکول کے طلبہ بھی ان احتجاجوں کا حصہ بن گئے ہیں۔ اسی لیے حکومت نے بنگلہ دیش بھر میں سارے تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیں جن میں سکول بھی شامل ہیں۔ لیکن اس کے باوجودبنگلہ دیش کی سڑکیں اور گلیاں طلبہ کے نعروں سے گونج رہی ہیں۔ احتجاجوں کو روکنے کے لیے انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔ احتجاجوں کو منظم کرنے میں سوشل میڈیا کا بڑا کردار ہے مگر انٹرنیٹ کی معطلی کے بعد احتجاجوں کی شدت کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی ہے۔ ان احتجاجوں کی شدت اور طلبہ میں حکمران طبقے سے نفرت کا اندازہ ان احتجاجوں میں پندرہ سال تک کے طلبہ کی شمولیت سے لگایا جا سکتا ہے۔
مختلف یونیورسٹیوں میں طلبہ نے تحریک کے دوران چھاترا لیگ کے غنڈوں سے ہاسٹل بھی خالی کروائے ہیں۔ ان غنڈوں نے ہاسٹلوں پر قبضہ کر رکھا تھا جہاں سے اسلحہ، ڈنڈے اور منشیات بھی برآمد ہوئی ہیں۔ ریاستی سرپرستی اور یونیورسٹی انتظامیہ کی ملی بھگت سے یہ غنڈے طلبہ پر مسلط کی گئی پولیس کا کردار کرتے ہیں۔ جہاں طلبہ کو فیسوں میں اضافے اور دوسرے مسائل کے خلاف احتجاج کرنے سے روکنے کا کام کرتے تھے وہاں طالبات کو ہراساں کرنا اور یونیورسٹی میں خوف و ہراس کی فضا قائم رکھنا ان کی ڈیوٹی میں شامل ہے جس کی انہیں خاطر خواہ فیس ملتی ہے۔ نوکریوں میں کوٹہ زیادہ تر ایسی ہی عوام دشمن قوتوں کو نوازنے کے لیے رکھا گیا ہے جن کی تعلیمی قابلیت صفر ہے لیکن حکمران طبقے کے پالتو ہونے کے باعث انہیں سماج میں ”اعلیٰ مقام“ ملتا ہے۔
ابو سعید کی شہادت
اسی غنڈہ گردی اور ریاستی جبرکے خلاف طلبہ کا غم و غصہ شدت اختیار کر چکا ہے اور بہت سی جگہوں پر نہتے طلبہ پولیس کی گولیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان احتجاجی مظاہروں میں ہلاک ہونے والوں میں ایک طالبعلم ابو سعید بھی ہے۔ یہ ڈھاکہ کے قریب رنگ پور میں بیگم رقیہ یونیورسٹی کا طالبعلم تھا اور یونیورسٹی میں ان مظاہروں میں شامل تھا۔ 16 جولائی کو جب پولیس نے ایک احتجاج پر آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلانے کا آغاز کیا تو اس نے پسپائی اختیار کرنے کی بجائے وہیں کھڑے ہو کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس وقت پر سب لوگ وہ جگہ چھوڑ چکے تھے لیکن اس نے اسی جگہ پر اکیلے اپنی قمیض پھاڑ کر سینہ پولیس کے سامنے کر دیا اور کہا کہ وہ کسی صورت احتجاج کے حق سے دستبردار نہیں ہو گا۔ اس دوران وہ اپنے ہاتھ میں موجود ڈنڈے سے شیلنگ روکتا رہا۔ اسی اثنا میں ایک گولی آئی اور اس کا سینہ چیر کر نکل گئی۔ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی وہ دم توڑ چکا تھا۔ لیکن اس کی پولیس کا سامنا کرتے ہوئے تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی اور لاکھوں طلبہ نے اس کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ ایک شاعر نے اس طالبعلم کے لیے ایک نظم بھی کہی جس کا ترجمہ درج ذیل ہے:
اس نسل کا ہیرو ابو سعید
|شاعر: شاہد اللہ فراجی|
غیر متعصب ریاست کا مطالبہ لیے
سر اور ہاتھوں پر قومی پرچم کے ساتھ
گولی کے سامنے کھڑا ہے
جان قربان کرنے والا ہیرو مہاویر
وقت کی دھوپ سینکتے بچے
ایک غیر مسلح شہری
دونوں ہاتھ پھیلا کر زمین پر کھڑا ہو گیا
دونوں ہاتھ پھیلا کر زمین پر کھڑا ہو گیا
لیکن ریاست نے اسے معاف نہیں کیا
جہاں بھی گولی چلائی گئی
قومی پرچم ہے
ضمیر کی حفاظت کے لیے
اٹھائے ہوئے ہاتھ میں پرچم کے ساتھ
سورج کی روشنی میں،
حکمران سمجھ گئے
سوائے غیر اعلانیہ سزائے موت کے
مزید مزاحمت نہیں کی جا سکتی
ایک ابو سعید
ناانصافی کے خلاف، انصاف کے لیے
لڑائی آسمان و فضا میں پھیلے گی
طلبہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملا کر لڑیں گے
سکولوں میں پرچم لہرائیں گے
آنگن میں، درختوں کے پتوں میں
جو ووٹ کھاتے ہیں
ریاستی وسائل کھاتے ہیں
جنگ آزادی نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا
ریاست کی نجکاری ہو چکی،
انہوں نے ابو سعید کو زندہ نہیں رہنے دیا
جنگ آزادی کے 53 سال بعد
دوبارہ جنگ آزادی
ایک بار پھر خونریزی کی لڑائی!
ایک بار پھر بچے کی لاش پڑی ہے
ایک بار پھر ٹوٹا ہوا سر
جسم ایک بار پھر ٹکڑوں میں ہے
سڑکیں پھر خون سے رنگی ہوئی ہیں
ماں کا پھر رونا
ابو سعید دوبارہ پیدا ہوں گے
آزادی پسندوں کی ایک نسل پھر سے جنم لے گی
جو سڑک پر کھڑے ہیں
موت کو شکست دیں گے،
ایک ہیرو کے خون سے رنگا ہوا جھنڈا
غیر متعصب بنگال میں پھر اڑے گا
اے ہیرو!
جان لو کہ ہیرو کی موت نہیں ہوتی
بنگال کے گھر میں تم دوبارہ پیدا ہو گے
ایک بار پھر جھنڈے کے ساتھ
جلوس ہمیشہ کے لیے نکلے گا
بیروزگاری اور معاشی بحران
درحقیقت ان احتجاجوں کی شدت کی وجہ صرف کوٹہ سسٹم نہیں ہے۔ بلکہ طلبہ کے غصے کی وجہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری، مہنگائی اور غربت بھی ہے۔ جی ہاں آپ نے صحیح پڑھا، بنگلہ دیش میں بھی غربت، مہنگائی اور بے روزگاری بڑے پیمانے پر بڑھ رہی ہے۔ میڈیا پر ”ترقی کرتے ہوئے“ بنگلہ دیش کی نام نہاد کہانیاں آپ نے بہت سنی ہوں گی۔ مگر حقیقت کیا ہے ذرا جائزہ لیتے ہیں۔
بنگلہ دیش بیورو آف سٹیٹکس جو کہ ایک حکومتی ادارہ ہے، کی 2023ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں 15 سے 24 سال کے 39 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں۔ ان کی تعداد ایک کروڑ 22 لاکھ بنتی ہے۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو روزگار کی تلاش میں ہیں یعنی کہ ہنر مند ہیں۔ مگر ان کو روزگار نہیں مل رہا۔
اسی سال کے پہلے تین ماہ میں ہی تین لاکھ کے قریب ایسے بیروزگار نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ 15 سے 24 سال کے درمیان ہر پانچ میں سے ایک بنگلہ دیشی نوجوان کے پاس یا تو نوکری نہیں ہے یا تعلیم حاصل کرنے کے پیسے نہیں ہیں۔ آٹھ لاکھ کے قریب طلبہ پہلے ہی اپنے ہاتھوں میں ڈگریاں تھامے بے روزگار بیٹھے ہیں۔ جبکہ بنگلہ دیش میں مہنگائی اب تک کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی کی شرح 10 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ حقیقت میں مہنگائی اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت کا بنگلہ دیشی عوام کے سیاسی و جمہوری حقوق پر قدغنیں لگانا تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
اشیائے خورد و نوش، ٹرانسپورٹ، علاج اور عوام کی ضرورت کی دیگر اشیاء کی قیمتیں مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔ بنگلہ دیشی معیشت اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔ سنٹرل بینک کے پاس ریزوز میں بھی کمی ہو رہی ہے اور کرونا وائرس، یوکرائن جنگ اوردیگر وجوہات کی بنا پر عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافے کے بعد سے گزشتہ تین سے چار سال میں ان زرمبادلہ کے ذخائر میں بڑی کمی واقع ہوئی ہے۔ اسی کے باعث کرنسی کی قدرپر بھی شدید دباؤ موجود ہے۔
بنگلہ دیشی معیشت کچھ عرصہ پہلے واقعی ترقی کر رہی تھی مگر یہ ترقی کس کے لیے تھی؟ سرمایہ دارانہ نظام میں معیشت کی ترقی کا مطلب سرمایہ دار طبقے کے منافعوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں عوام کی حالت زار بہتر ہو رہی ہے یا نہیں۔ در حقیقت سرمایہ دار طبقے کے منافعوں کی بنیاد محنت کشوں کا استحصال اور قدر زائد کی لوٹ مار ہے۔ گزشتہ عرصے میں بنگلہ دیش کے سرمایہ دار طبقے سمیت ملٹی نیشنل کمپنیوں نے یہاں کے محنت کشوں کا بدترین استحصال کیا اور انتہائی کم اجرتوں پر ان سے کام لے کر ہوشربا منافع بٹورا۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر اس ترقی کے نتیجے میں یہاں کے عوام کے حالات پہلے سے بدتر ہو چکے ہیں اور اب یہ نام نہاد ترقی کا دور بھی ختم ہو رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اب مہنگائی، بیروزگاری اور اس نظام کی دوسری عفریتوں کا سامنا محنت کشوں کو پہلے سے بھی زیادہ شدت سے کرنا پڑے گا۔
اس طبقاتی نظام میں ترقی کی ایک جھلک ایسے بھی نظر آتی ہے کہ 2022ء میں گھریلو آمدنی اور اخراجات کے متعلق بنگلہ دیش بیورو آف سٹیٹکس کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں پیدا ہونے والی آمدنی کا 30.6 فیصد اوپر کے پانچ فیصد گھرانوں پر مرکوز ہے۔ مزید یہ کہ بنگلہ دیش کے 10 فیصد امیر ترین گھرانوں کے پاس کل آمدنی کا 40.92 فیصد ہے۔
یہ ہیں وہ محرکات جو طلبہ کے ان احتجاجوں کی وجہ ہیں۔ بنگلہ دیشی محنت کش اور نوجوان دیکھ رہے ہیں کہ مٹھی بھر امیر طبقے کی عیاشیاں بڑھ رہی ہیں جبکہ اکثریتی محنت کش طبقے کے لیے غربت، بے روزگاری، لاعلاجی اور مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ تحریک حکمرانوں اور ان کے نظام کے خلاف عوامی غصے کا اظہار ہے۔ ان مسائل کا حل بھی حکمرانوں کے نظام یعنی سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے سے ہی ممکن ہے۔ جو امیر کو امیر تر بناتا ہے اور غریب کو غریب تر۔ جس میں حکمران طبقہ بحران کا سارا بوجھ محنت کش طبقے پر ڈالتا ہے اور اپنی عیاشیاں بڑھاتا ہے۔
بنگلہ دیش میں جاری طلبہ تحریک کی حمایت میں برطانیہ اور امریکہ سمیت مختلف ممالک میں مقامی افراد کی جانب سے احتجاجی مظاہرے منعقد ہو رہے ہیں جن میں مظاہرین شیخ حسینہ کی حکومت کی مذمت کر رہے ہیں اور طلبہ کے مطالبات کی حمایت کر رہے ہیں۔ ان مظاہروں میں ان ممالک میں رہنے والے بنگلہ دیشی نژاد افراد بھی بڑی تعداد میں شرکت کر رہے ہیں۔
اس سلسلے میں لندن میں بھی مختلف احتجاجی مظاہرے منعقد ہوئے ہیں جن میں برطانیہ کی نوجوان کمیونسٹ راہنما فیونا لالی نے بھی خطاب کیا ہے اور بنگلہ دیش کی طلبہ تحریک سے بھرپور اظہار یکجہتی کیا ہے۔ آنے والے دنوں میں برطانیہ سمیت مختلف مغربی ممالک میں مزید احتجاج کیے جائیں گے اور مزدور تنظیموں سے یکجہتی کی اپیل کی جائے گی۔
عالمی سطح پر ابھرتی تحریکیں اور آگے کا لائحہ عمل
اس وقت یہی بحرانات ہمیں دنیا بھر میں نظر آ رہے ہیں۔ اس کے ردعمل میں دنیا بھر میں ہمیں انقلابی بغاوتیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ کینیا میں آئی ایم ایف اور حکمرانوں کے خلاف نوجوانوں کی انقلابی تحریک گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے جاری ہے، جس نے حکومت کو عوام دشمن فنانس بل واپس لینے اور عوامی طاقت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کر دیا ہے۔
فلسطین کے حق میں امریکہ اور یورپ میں طلبہ کی دیو ہیکل تحریکوں نے حکمرانوں کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بنیادی معاشی مسائل کے گرد دنیا بھر میں محنت کش طبقہ احتجاج کر رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی طلبہ تحریک بھی اسی کا اظہار ہے۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی بنگلہ دیش کے نوجوانوں کی اس تحریک اور مطالبات کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ کمیونسٹ سمجھتے ہیں کہ اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے انتہائی اہم قدم یہ ہے کہ اسے فوری طور پر محنت کش طبقے کے ساتھ جوڑا جائے۔ کیونکہ محنت کش طبقہ ہی اس سماج کو چلا رہا ہے۔ حکمران طبقے کو فیصلہ کن شکست دینے کی طاقت بھی محنت کش طبقہ ہی رکھتا ہے۔ بنگلہ دیش میں ایک عام ہڑتال حکمران طبقے کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ لہٰذا بنگلہ دیش کے محنت کش طبقے سے بھی اس تحریک کا حصہ بننے کی اپیل کرنی ہو گی۔
آج پوری دنیا میں ایسا کوئی خطہ نہیں جہاں حکمران طبقے اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف محنت کش طبقے اور طلبہ کی دیو ہیکل تحریکیں وقوع پذیر نہ ہو رہی ہوں۔ ان میں سری لنکا جیسی تحریکیں بھی موجود ہیں جنہوں نے اپنے ملک کے حکمرانوں کو ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کر دیا اور ملک کا انتظام عوام نے کچھ دن کے لیے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ لیکن وہاں بھی یہ تحریکیں بالآخر پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکیں۔ حکمران طبقہ دوبارہ سے حکومت میں آ گیا اور اب وہاں پہلے سے کہیں زیادہ ظلم و جبر ڈھایا جا رہا ہے۔
ان تمام انقلابی تحریکوں کے حتمی طور پر کامیاب نہ ہو سکنے کی ایک بنیادی اور مشترکہ وجہ اس جگہ پر ایک انقلابی کمیونزم کے نظریات سے لیس پارٹی کا موجود نہ ہونا تھا۔ لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں روس میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے والی پارٹی کی طرح کی ایک ایسی پارٹی جس کے پاس انقلابی نظریات موجود ہوں اور جو اس دنیا سے سرمایہ دارانہ نظام کے مکمل خاتمے کا نظریہ اور پروگرام رکھتی ہو۔
دنیا کو بدلنے کے انقلابی نظریات رکھنے والی پارٹی کے بغیر محنت کش طبقے کی بغاوتیں اور ان کا غم و غصہ فیصلہ کن کامیابی حاصل نہیں کر پائے گا۔ آگے بڑھنے اور محنت کش طبقے کی حتمی کامیابی کا ایک واحد راستہ عالمی سطح پر انقلابی پارٹی کی تعمیر اور محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی اس میں شمولیت ہی ہے۔