بنگلہ دیش: شیخ حسینہ حکومت کا تختہ الٹ گیا! تمام اقتدار محنت کشوں اور طلبہ کمیٹیوں کو منتقل کرو!

| تحریر: انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل|

انقلابی عوام نے شیخ حسینہ حکومت کا تختہ 15 سالہ مسلسل اقتدار کے بعد الٹ دیا ہے! اس تحریر کو لکھتے وقت لاکھوں افراد ڈھاکہ داخل ہو چکے ہیں اور آج شام تک کئی لاکھ مزید متوقع ہیں۔ عوام نے گانا بھابن (وزیراعظم رہائش) پر قبضہ کر لیا ہے۔ مقامی وقت کے مطابق 2 بج کر 25 منٹ پر شیخ حسینہ اور اس کی بہن کو کورمیتولہ ایئر فورس بیس پہنچایا گیا جہاں سے وہ بیرون ملک فرار ہو چکے ہیں۔ لیکن فوج میں سازش سرگرم ہے کہ عوام سے یہ فتح چھین لی جائے۔ عوام کو پہلے سے زیادہ چوکس ہونا ہو گا! ہم کہتے ہیں، تمام اقتدار محنت کشوں اور طلبہ کمیٹیوں کو منتقل کرو!

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

پچھلی ہفتہ وار چھٹی کے بعد بنگلہ دیش میں واقعات برق رفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ واضح ہو چکا تھا کہ آج کا دن فیصلہ کن ہو گا۔ اتوار کے دن پولیس اور فوج لڑکھڑا رہی تھی۔ کچھ مقامات پر انہوں نے عوام پر اندھا دھند فائرنگ کی اور 90 سے زیادہ افراد قتل ہوئے۔ دیگر مقامات پر وہ کھڑے رہے یا پسپائی اختیار کر لی۔ فوج کو معلوم ہو چکا تھا کہ اب وہ زیادہ دیر عوام کا راستہ نہیں روک سکتے۔ کسی بھی لمحے فوج کا شیرازہ بکھر سکتا تھا۔

طلبہ منتظمین نے درست طور پر تحریک کو برق رفتار کر دیا۔ انہوں نے عوام کو کمیٹیوں میں منظم ہونے کی اپیل کی، جیسا کہ ہم پچھلے تین ہفتوں سے مشورہ دے رہے ہیں، تاکہ حکومت دوبارہ بلیک آؤٹ کر کے تحریک کو ایک مرتبہ پھر انتشار کا شکار نہ بنا سکے۔ پھر انہوں نے عوام کو کال دی کہ آج فیصلہ کن معرکے کے لیے مسلح ہو کر ڈھاکہ پہنچیں تاکہ اپنا دفاع بھی کیا جا سکے۔ ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے مطابق، ”ایک بانس کا ڈنڈا پکڑو، بنگلہ دیش کو آزاد کراؤ!“۔

سب سے اہم یہ تھا کہ انہوں نے محنت کشوں سے اپیل کی کہ وہ تحریک میں شامل ہوں۔

کل ایک اعلامیے میں آصف محمود نے کہا کہ، ”میں ڈھاکہ اور گرد و نواح کے اضلاع میں محنت کش عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ ڈھاکہ پہنچیں۔ خاص طور پر ٹیکسٹائل محنت کشوں کو سڑکوں پر آنا ہو گا۔ اس ملک کی تاریخ میں انقلاب کے دوران محنت کشوں کی شرکت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اس وقت بھی آپ سب کو آگے بڑھ کر اپنا تاریخی کردار ادا کرنا ہو گا“۔

عوام نے ان درست کالوں پر دیوہیکل رد عمل دیا ہے اور اس کی آخری مثال 1970ء کی دہائی کے انقلابی عہد میں ملتی ہے۔ آج صبح تک لاکھوں افراد ڈھاکہ کی جانب مارچ کر رہے تھے۔ پولیس اور فوج عوام کا راستہ نہیں روک رہی تھی، وہ ان کے سامنے تنکوں کا ڈھیر ثابت ہوئے۔ فیصلہ کن طور ہر ٹیکسٹائل کے محنت کشوں نے ہر فیکٹری میں جا کر اپنے مزدور بھائیوں کو انقلاب میں شرکت کی دعوت دی۔

فوج عوام سے یہ فتح نہیں چھین سکتی!

 

یہ واضح تھا کہ آج انقلاب کو فیصلہ کن فتح حاصل ہو گی۔ فوج کی اعلیٰ قیادت ہیجان میں ریاست کو بچانے کی تگ و دو کر رہی تھی جس کے لیے انہوں نے شیخ حسینہ کی قربانی بھی دے ڈالی تاکہ حکمران طبقے کو بچایا جا سکے۔

جرنیل پوری کوشش کر رہے ہیں کہ عوام سے انصاف چوری کر لیا جائے۔ حسینہ کو ملک سے بھگایا جا رہا ہے تاکہ وہ عوام کے غیض و غضب سے بچ سکے۔ جن افراد کے ہاتھ خون سے رنگے ہوں، وہ کیسے ”انصاف“ فراہم کر سکتے ہیں؟

یہ واضح ہے کہ فوجی چیف وقار الزمان ایک ’منظم عمل‘ کے ذریعے عبوری دور گزارنا چاہتا ہے۔ یعنی فوج عوام سے فتح چوری کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس تگ و دو میں لگی ہوئی ہے کہ اقتدار عوام اور طلبہ کے ہاتھوں میں نہ چلا جائے۔

صبح سے پریس رپورٹیں چلا رہا ہے کہ فوجی چیف اور پارٹی قائدین کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ یہ خونریز نظام جاری رہے، وہی عدالتیں، فوج اور پولیس قائم رہے جو حسینہ کی معاونت میں عوام کا قتل عام کر رہے تھے، جبکہ حکمران طبقے کے نئے مکروہ چہرے حکومت میں سامنے لائے جائیں۔ اس حکومت میں دیگر پارٹی ممبران، شاید کچھ غیر نمائندہ ’سول سوسائٹی‘ اور فوجی افسران ہوں جنہوں نے اس فتح کے لیے ایک انگلی بھی نہیں ہلائی اور اب اس کا پھل کھانے کے درپے ہیں۔

امتیاز مخالف (Anti-Discrimination) طلبہ تحریک کے منتتظمین نے درست طور پر اعلان کیا ہے کہ، ”ہمیں ایک فوجی حکومت نہیں چاہیے، ہمیں ایک عوامی حکومت چاہیے!“ یہ درست ہے! انہوں نے درست طور پر نشاندہی کی ہے کہ جنرل وقار الزمان کی بیوی شیخ حسینہ کی کزن ہے اور ”اس سے امید نہیں کی جا سکتی کہ یہ شہیدوں سے انصاف کرے گا!“۔ یہ درست ہے!

فوجی اشرافیہ، جج، پولیس چیف، افسر شاہی اور پارٹی قائدین ایک ہی ڈکیٹ گروہ کے مختلف دھڑوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انہیں کسی صورت عوام کی فتح چوری کر کے اس پر اپنا حق جمانے کی اجازت نہیں ہے!

اس فتح کی حفاظت کیسے کی جائے؟

عوام کو اس وقت تک متحرک رہنا ہو گا جب تک اقتدار مکمل طور پر محنت کشوں اور نوجوانوں کو منتقل نہیں ہو جاتا۔ یہ کیسے ہو گا؟

کل طلبہ منتظمین نے اقتدار کا سوال اٹھایا اور وضاحت کی کہ یہ انقلاب محض شیخ حسینہ حکومت کے خاتمے کا نہیں بلکہ ”اس کے فسطائی نظام کے خاتمے“ کا ہے اور ”طلبہ کوئی ایمرجنسی، فوجی آمریت یا کسی ایسے نظام کو قبول نہیں کریں گے جو فسطائیت کا غلام ہو“۔ ہم متفق ہیں! اس کا نظام جڑ سے اکھاڑ پھنکنا ہو گا!

اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ:

”طلبہ-عوامی بغاوت کی قیادت عبوری حکومت میں مرکزی شراکت دار ہو گی۔ ان کی مرکزی ذمہ داری ایک نیا بنگلہ دیش تعمیر کرنے کے لیے طلبہ کی امیدوں اور خواہشات کا دفاع ہو گا۔ سول سوسائٹی اور سیاسی قیادت کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے گا لیکن اس میں پچھلے 16 سال کی فسطائی حکومت اور اس کے لاڈلے کسی طور پر قابل قبول نہیں ہوں گے“۔

ہم تو کہتے ہیں کہ جن انقلابی محنت کشوں اور طلبہ نے یہ فتح حاصل کی ہے صرف وہی ایک عبوری حکومت میں شراکت دار ہو سکتے ہیں۔ فوجی اشرافیہ کی شدید خواہش ہو گی کہ کچھ طلبہ قائدین کو ایک ناجائز بورژوا حکومت میں ”شراکت دار“ بنا دیا جائے جہاں سارے فیصلے انہی کے ہاتھوں میں ہوں۔ اس طرح انہیں جائز بننے کا جواز بھی فراہم ہو جائے گا جو فی الحال ان کے پاس نہیں ہے۔

BNP(بنگلہ دیش نیشنل پارٹی) جیسی حزب اختلاف کوئی متبادل نہیں ہے۔ وہ شیخ حسینہ کی طرح بڑے کاروباروں کی ننگی حاکمیت نظام کے محافظ ہیں۔ پھر کئی نام نہاد ”سول سوسائٹی“ نمائندوں جیسی کاروباری فیڈریشنز حسینہ کی معاون رہی ہیں۔ اس نے ان کے لیے بنگلہ دیش میں ایسا سازگار ماحول پیدا کیا جس میں محنت کشوں کے ہر قسم کے ننگے دیوہیکل استحصال کی اجازت تھی۔

طلبہ اور محنت کشوں کو صرف اپنی ہی قوتوں پر اعتماد کرنا چاہیے۔ انقلاب نے بنگلہ دیش کو دو غیر مصالحتی گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے؛ ایک طرف انقلابی طلبہ اور محنت کش عوام اور دوسری طرف حسینہ کے دم چھلے، بڑے کاروباری اور ریاست کے کلیدی نمائندے ہیں۔ یہاں کوئی تیسری غیر جانبدار پارٹی موجود نہیں ہے۔ طلبہ اور محنت کشوں کو اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینا ہو گا!

آگے کا راستہ خود تحریک نے واضح کر دیا ہے۔ طلبہ اور محنت کشوں نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کے پاس منظم ہونے کی دیوہیکل صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے منتظمین کی کال پر پورے ملک میں عوامی جدوجہد کمیٹیاں بنانی شروع کر دی ہیں۔

اب عام ہڑتال کو ہر صورت جاری رہنا چاہیے اور قیادت کو عوام سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ ان جدوجہد کمیٹیوں کو تمام کام کی جگہوں، تمام کمیونٹیوں اور تمام تعلیمی اداروں میں فوری طور پر پھیلانا چاہیے۔ فوج کے عام سپاہیوں کو اپنی کمیٹیاں منظم کرنے کی ترغیب دینی چاہیے جن میں افسران کا کوئی کردار نہ ہو تاکہ فوجی اشرافیہ کی سازشوں کا سدباب کیا جا سکے۔

یہ کمیٹیاں فوری طور پر فیکٹریوں میں مالکان، مقامی سطح پر عدالتوں اور پولیس کی حاکمیت کو ختم کرنا شروع کر دیں گی اور قید کیے گئے کامریڈوں کو مقامی عوامی لیگ کے مقرر کردہ مجسٹریٹوں کی اجازت کا انتظار کیے بغیر آزاد کرا لیا جائے گا۔

شہری، ضلعی اور قومی سطح پر منسلک ہو کر پھر ان کمیٹیوں تک اقتدار کی منتقلی کا عمل ایک چھوٹا قدم رہ جائے گا جس کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی نمائندگی میں 16 سال سے قائم اس گلی سڑی غلیظ ریاست کا خاتمہ کر کے ایک متبادل عوامی مزدور ریاست کی تعمیر کا آغاز ہو جائے گا۔

پھر اقتدار حقیقی طور پر اس عوام کے ہاتھوں میں ہو گا جو اس سماج کی تمام تر دولت پیدا کرتے ہیں، طلبہ اور محنت کش عوام، جبکہ نام نہاد آزادی کے دن سے سماج پر قابض جونک اقلیت کا خاتمہ ہو جائے گا جو مسلسل اس سماج کی دولت لوٹ رہی ہے اور عوام کو جبر و استحصال کا شکار بنا رہی ہے۔ اس ایک واحد طریقہ کار سے ہی یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ اس ملک پر قابض جابروں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جا سکے۔ ایسی انقلابی قوت ان کی اور ان کے معاونین کی، طاقت کے اصل سرچشمے، عالمی اجارہ داریوں کی ملکیت پر قبضہ کرے گی۔

یہ اس شاندار اور قابل تقلید انقلاب کی حقیقی اور حتمی فتح ہو گی اور بنگلہ دیش پورے برصغیر اور دنیا میں جبر و استحصال کے شکار عوام کے لیے مشعل راہ بن جائے گا۔

بنگلہ دیشی طلبہ کی فتح زندہ باد!
حسینہ کا نظام مردہ باد!
فوج پر کوئی اعتبار نہیں!
حکمران سیاسی پارٹیوں پر کوئی اعتبار نہیں!
تمام اقتدار طلبہ اور محنت کش کمیٹیوں کو منتقل کرو!
دنیا بھر کے محنت کشوں ایک ہو جاؤ!

Comments are closed.