|تحریر: انورادھا سین، ترجمہ: ولید خان|
بنگلہ دیش کی حکمران اشرافیہ نے دس دن جشنِ آزادی منانے کے بعد ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا ہے۔ اس جشن کے دوران انہوں نے رجعتی مودی سرکار کے ساتھ پیار کی پینگیں بھی بڑھائیں۔ اس دوران محنت کشوں کو خوفناک وباء اور موت کا سامنا ہے اور شعبہ صحت تباہ حال ہے۔ سماجی سطح سے نیچے ایک آتش فشاں پھٹنے کو تیار کھڑا ہے۔
26 مارچ سے دس دن تک آزادی کا جشن اور موجودہ وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے والد بنگلہ بندو شیخ مجیب الرحمان کے جنم دن کا جشن شروع ہوا۔ ایک عالمی وباء کے دوران، ایک ایسے ملک میں جس میں ریاستی اعدادوشمار کے مطابق روزانہ 83 کورونا اموات اور 7 ہزار سے زائد متاثرین منظر عام پر آ رہے ہیں، حکومت نے گولڈن جوبلی جشن کا اہتمام کیا۔ یہ جشن اس ملک کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے منایا جا رہا تھا جہاں کروڑوں لوگ غربت اور برباد شعبہ صحت کے انفراسٹرکچر کے بوجھ تلے کچلے جا رہے ہیں اور ہر لمحہ موت سے قریب تر ہو رہے ہیں۔
جشن کے دوران اطلاعات موصول ہوئیں کہ پورے ملک کے ہسپتالوں میں کورونا مریضوں کے لئے درکار آکسیجن سلنڈروں اور دواؤں کی قلت ہو رہی ہے جبکہ ہسپتالوں میں روزانہ کئی سو مریضوں کو منافعوں کی ہوس میں داخل کیا جا رہا ہے۔ ابھی تک حکومت نے شعبہ صحت کی بہتری کے لئے کوئی ایک قدم نہیں اٹھایا اور کرپشن کی دلدل میں سر تک دھنسی ہوئی ہے۔ وزیرِ صحت اپنی نا اہلیت ثابت کر چکا ہے اور اس پر الزام ہے کہ وہ نجی ہسپتالوں کی طرف سے پیسوں کے لئے جاری کردہ جھوٹی منفی کورونا رپورٹس کی جعلسازی میں ملوث ہے۔ جو میڈیکل آفیسر اور ڈاکٹر میڈیکل سپلائز مانگتے ہیں اور حکومت کی ننگی کرپشن پر آواز اٹھاتے ہیں انہیں فوری طور پر ملک کے دیگر ضلعوں میں ٹرانسفر کر دیا جاتا ہے۔
گولڈن جوبلی کی تیاریوں کے دوران دو ٹیکسٹائل فیکٹریوں۔۔Apparel Stitch Limited اور Stitchwell Designs Ltd۔۔کے مزدوروں نے 3 مارچ کو دارالحکومت میں مرکزی شاہراہوں کو بند کر کے اپنی چار ماہ کی واجب الاداء اجرتوں کی ادائیگی کے مطالبے کیلئے احتجاج منظم کیا۔ ملک کی حکمران اشرافیہ کو ان بھوکے مزدوروں کی یہ جرات بہت بری لگی کیونکہ انہیں جشن میں خلل ڈالنے والے نیچ دشمن سمجھا جا رہا تھا۔ لیکن مزدوروں نے اس رجعتی ڈرامے کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ انہوں نے واجب الاداء اجرتوں کے لئے احتجاج جاری رکھا تاکہ اشرافیہ کے جشن کے دوران اپنے بچوں کو بھوکا مرنے سے بچایا جا سکے۔ احتجاج اتنا شدید ہو گیا کہ حکومت کو پولیس بلانی پڑی۔ کئی مزدوروں کو سفاک پولیس نے گولیاں ماریں۔ کوئی ایک واقعہ بھی میڈیا میں رپورٹ نہیں کیا گیا کیونکہ پورا نظام گولڈن جوبلی کا جشن منانے میں مصروف تھا۔
مودی کا دورہ
عوامی لیگ نے ایک لمحہ توقف کے بغیر انتہائی دائیں بازو کے خون آشام رجعتی مودی کو گولڈن جوبلی میں مدعو کر لیا۔ پورا انڈیا مودی سے شدید نفرت کرتا ہے۔ کروڑوں مزدوروں نے اس کے خلاف دیو ہیکل عام ہڑتالیں کی ہیں اور اس وقت پورے ملک میں ظالم زرعی قوانین کے خلاف کسان احتجاج کر رہے ہیں۔ لیکن بنگلادیشی اشرافیہ کو اس غلیظ انسان کی طرف دوستی کاہاتھ بڑھانے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی جس کی بنیاد ہی نفرت ہے اور جو انڈین اشرافیہ کی آنکھوں کا تارہ ہے۔ مودی نے اس دورے کو اپریل میں مغربی بنگال میں منعقد ہونے والے انتخابات کی مہم کے لئے بھرپور استعمال کیا۔ اس ریاست میں مودی کی پارٹی کا موجودہ حاکم پارٹی ترینامول کانگریس (TMC) سے کانٹے دار مقابلہ چل رہا ہے۔
بنگلادیش میں حزبِ اختلاف کی پارٹیوں نے مودی کے دورے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے بھرپور استعمال کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ پورے ملک میں دائیں اور بائیں بازو کی پارٹیوں نے مودی مخالف احتجاج منظم کئے۔ دائیں بازو کی اسلامی بنیاد پرست پارٹیاں مودی کے خلاف رجعتی بنیادوں پر احتجاج کر رہی تھیں۔ درحقیقت مذہبی منافرت کے حوالے سے دونوں ہی ایک سکے کے دو رخ ہیں۔ یہی نفرت مودی اور اس کی ہندو بنیاد پرست بی جے پی کی اثاث ہے۔
ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی منافرت کو برطانوی سامراج نے ہوا دی تھی تاکہ محنت کش طبقے کو بانٹ کر اپنی سامراجی حاکمیت مسلط کی جا سکے۔ سال 1947ء میں ہندوستان کے بٹوارے کے بعد مقامی حکمران اشرافیہ نے اسی ”تقسیم کرو اور حکمرانی کرو“ کے اصول کو لاگو کرتے ہوئے اپنے مفادات کا دفاع کیا اور آج بھی یہی خونخوار سرمایہ دارانہ نظام یہاں مسلط ہے۔ انڈیا میں کانگریس اور بنگلہ دیش میں عوامی لیگ جیسی نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی اسی مذہبی منافرت سے فیض یاب ہوتی ہیں اور محنت کش طبقے کو گمراہ رکھنے کے لئے مذہبی منافرت کو بھرپور استعمال کرتی ہیں۔ شیخ حسینہ اور مودی جیسے غلیظ انسان کے درمیان دوستانہ تعلقات اس خاتون کے نام نہاد ”سیکولر ازم“ کا پردہ چاک کر دیتے ہیں۔
دوسری طرف بنگلہ دیش میں اسلامی بنیاد پرستوں کی محنت کشوں کو گمراہ کرنے اور ان پر تشدد کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ وہ بنگلہ دیش میں سرمایہ داروں کے پالتو کتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں مودی کی آمد پر بائیں بازو کی پارٹیوں نے بھی احتجاج کئے جن پر سفاک پولیس نے خوفناک کریک ڈاؤن کیا اور کئی سرگرم کارکن زخمی ہو گئے۔ لیکن ان احتجاجوں میں ایک واضح طبقاتی تناظر موجود نہیں تھا اور ان کی بنیاد ”سیکولر ازم“ کا کھوکھلا نعرہ تھی جسے پہلے ہی عوامی لیگ مسخ کر چکی ہے۔ ان احتجاجوں میں انڈین کسانوں سے یکجہتی کا کوئی تذکرہ نہیں ہوا جو مودی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور نہ ہی انڈین محنت کشوں کی کوئی بات ہوئی جو اپنے مطالبات کے حق میں کئی عام ہڑتالیں کر چکے ہیں۔
ان بائیں بازو کے قائدین نے بنگلہ دیش میں محنت کش طبقے کے دگر گوں حالات پر کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی غربت، بھوک اور بیماری میں تڑپ تڑپ کر جان دینے والوں کے لئے کوئی مطالبات رکھے۔ مودی اور شیخ حسینہ اپنے قومی سرمایہ داروں کے مفادات کے نمائندے ہیں۔ ان کے مفادات دونوں ممالک کے محنت کشوں کے مفادات سے براہ راست متصادم ہیں۔ اس لئے ان دونوں ممالک کے محنت کشوں کو یکجا ہو کر پورے بر صغیر سے سرمایہ داری کا خاتمہ کرنا ہو گا۔
جشن کے بعد اب وباء کا عذاب سر پر منڈلا رہا ہے
عظیم الشان جشن آزادی کے بعد حکومت نے اچانک کورونا وباء سے متعلق اعدادوشمار جاری کر دیئے جس نے سب کو حیران کر کے رکھ دیا۔ پہلی لہر کے مقابلے میں کیسزاور اموات کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے جس کے نتیجے میں پورے ملک میں دوسرا لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا ہے۔
کسی بھی وارننگ کے بغیر حکومت نے پورے میں ملک میں جشن کے فوری بعد لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا اعلان کر دیا جس کے محنت کشوں، چھوٹے کارباریوں اور دکانداروں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ لاک ڈاؤن کے پہلے دن ڈھاکہ میں مقامی دکانداروں نے ایک دیو ہیکل ریلی منظم کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ دکانیں کھلی رکھنے کی اجازت دی جائے۔ حکومت کو ان لوگوں کی مدد یا محنت کشوں کی اجرتوں اور نوکریوں کی سیکورٹی کے حوالے سے کوئی پرواہ نہیں لیکن انہوں نے جشن آزادی منانے کے لئے پیسہ پانی کی طرح بہا دیا جس کا عوامی امنگوں اور ضرورت سے کوئی تعلق نہیں۔
وباء کے آغاز سے اب تک حکومت نے شعبہ صحت کے لئے کسی قسم کا بجٹ مختص نہیں کیا اور نہ ہی انہوں نے ہسپتالوں میں بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے ایک روپیہ خرچہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پورے ملک میں کئی سو نئے ہسپتال درکار ہیں۔ شہریوں کی ایک قلیل پرت کو ویکسین فراہم کی گئی ہے لیکن عوام کے لئے ویکسین کسی سطح پر موجود نہیں اور یہ بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ جسے پہلی خوراک ملی ہے اسے دوسری بھی ملے گی یا نہیں۔ اس دوران محنت کشوں کو مستقل فیکٹریوں میں کام کرنا پڑ رہا ہے یا پھر انہیں اچانک نوکریوں سے نکال دیا گیا ہے جس کی وجہ سے بہت سے محنت کشوں کو شدید غربت کا سامنا ہے۔
حزب اختلاف کا دیوالیہ پن
حکومت اور حزب اختلاف کے عوام مخالف سفاک رویوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ حزب اختلاف کے پاس موجودہ صورتحال سے نبٹنے کے لئے کوئی پروگرام موجود نہیں ہے اور وہ سیاست بطور پیشہ کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات کے لئے لڑ رہے ہیں جن کا براہ راست عوامی مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔ اگرچہ حکومت کے خلاف عوامی غم و غصہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور حکمران اشرافیہ کے لاگو کردہ لاک ڈاؤن میں بہتر صحت کی سہولیات اور معاشی امداد کا مسلسل مطالبہ کیا جا رہا ہے، حزب اختلاف کوئی بھی قائدانہ کردار ادا کرنے سے انکاری ہے۔ سب سے زیادہ قابل رحم حالت بائیں بازو کی ہے اور وہ اپنی سابقہ قلیل حمایت بھی کھو رہے ہیں جس وجہ سے ان کا نام و نشان ہی مٹ رہا ہے۔
اس لاک ڈاؤن کے لاگو ہونے کے بعد حزب اختلاف نے جو فوری کام کیا وہ ”اشیاء خوردونوش پروگرام“ کو منظم کرنا تھا جس کے ذریعے شہری رکشہ ڈرائیوروں اور کچھ مزدوروں کی انتہائی قلیل سطح پر مدد کی گئی۔ یقیناََ یہ کسی انقلابی پارٹی کا کام نہیں جو اس بحران کے دوران ہر ایک فرد کو کھانا فراہم نہیں کر سکتی اور نہ ہی یہ کسی درست سیاسی پروگرام کا شاخسانہ ہے۔ مسائل کی گھمبیرتا کو سمجھے بغیر، کسی سیاسی جدوجہد یا ایک ٹھوس اور درست سیاسی پروگرام کے ذریعے محنت کشوں کو متحد اور منظم کرنے کے عمل کی عدم موجودگی میں یہ تنظیمیں این جی اوز کی طرح کام کر تے ہوئے خیرات کے سب سے غلیظ پہلوؤں کو اجاگر کر رہی ہیں۔ یہ سارا ڈرامہ محض سوشل میڈیا پر ایک تشہیری کاوش تھی۔
ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ایک ایسا انقلابی پروگرام تشکیل دیا جاتا جس میں حکومت سے یہ مطالبہ رکھا جاتا کہ وہ مزدوروں کو اشیاء خوردونوش، ادویات اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کی فراہم کرے اور اس کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر اس پروگرام کے گرد عوام کو منظم کیا جاتا، خاص طور پر جشن کے دنوں میں، عوامی احتجاج منظم کئے جاتے۔ عوام کے لئے پوری اجرت اور ویکسین کا مطالبہ، جس میں سرکاری اور نجی سیکٹر دونوں کے مزدور شامل ہوں، ہی ایک درست سیاسی پروگرام ہے جس کی جانب کسی ایک تنظیم نے بھی قدم نہیں بڑھایا۔
ایک حقیقی کمیونسٹ پارٹی ان مطالبات کو پوری معیشت کو مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں لانے کے جرات مندانہ اور انقلابی پروگرام سے جوڑ کر پیش کرتی۔ وہ محنت کش طبقے کو منظم کرنے کی جدوجہد کرتی، ایک ریڈیکل ہڑتال کی تیاری کرتی اور حکومت کو مجبور کرتی کہ وہ لاک ڈاؤن کے دوران تمام مزدوروں کی پوری اجرت ادا کرے اور تمام ہسپتالوں کو سرکاری تحویل میں لے کر مفت صحت کی سہولیات فراہم کرے۔ حتمی طور پر وہ محنت کش طبقے کو پوری گلی سڑی غلیظ سرمایہ دارانہ ریاست کو اکھاڑ پھینک کر اپنے زور بازو پر سماج کو منظم کرنے اور چلانے کے لئے تیار کرتی۔
اگر موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی بجائے بنگلہ دیش میں سوشلزم ہوتا تو حکومتی اہلکاروں کو ویکسین کے نام پر سیاست چمکانے اور پیسوں کے لئے نجی ہسپتالوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنے کا موقع نہ ملتا۔ سوشلزم میں ملک کے تمام وسائل کو اس بحران سے بہت پہلے شعبہ صحت کے لئے مختص کر دیا جاتا۔ موجودہ حکمران شعبہ صحت کے بحران کو حل کرنے کے لئے کسی ایسے اقدام کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
ریاستی جبر اور ریاستی عدم استحکام
بنگلہ دیش کو درپیش حالات کا جائزہ ایک طبقاتی نقطہ نظر سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ حکومت ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے حکمرانی کر رہی ہے۔ اس نے میڈیا کو مکمل کنٹرول میں رکھا ہوا ہے جہاں سے جھوٹی خبریں اور حقائق کو چھپانے کا گھناؤنا جرم کیا جا رہا ہے۔ حکومت کورونا وباء سے متعلق اعدادوشمار میں اپنے ایجنڈے کے تحت ردوبدل کر رہی ہے۔ ذرائع ابلاغ پر حکومت مسلسل GDP میں بڑھوتری اور جنسی مساوات کے حوالے سے شادیانے بجاتی رہتی ہے لیکن کبھی بھی محنت کشوں، سیاسی کارکنوں اور طلبہ پر خوفناک پولیس تشدد کا تذکرہ نہیں کیا جاتا۔
بنگلہ دیش کے وسائل پچھلے 50 سالوں سے بنگلہ دیشی سرمایہ دار اور بین الاقوامی اجارہ داریاں لوٹ رہی ہیں۔ اب ملک سیاسی عدم استحکام کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے اور سماج میں حکمران طبقے کے لئے شدید نفرت ابل رہی ہے۔ اس لئے حکومت پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز کے ذریعے اپنے مخالفین کے خلاف جبر اوربربریت مسلسل بڑھا رہی ہے۔ اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی بھی قیمت پر اقتدار نہیں چھوڑنا۔ نتیجتاً عدم استحکام شدید تر اور حکومت کے خلاف نفرت بے قابو ہوتی جا رہی ہے اور آنے والے دور میں اس کا عوامی اظہار دیو ہیکل پیمانے پر گلی کوچوں میں ہو گا۔
بورژوا میڈیا بنگلہ دیش کو پوری دنیا میں کامیابی کا ماڈل اور سرمایہ داری میں ترقی اور ثروت کی ایک دلکش تصویر بنا کر پیش کر رہا ہے۔ یہ سارا معاملہ اس وقت اپنے الٹ میں تبدیل ہو جائے گا جب سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ناقابل برداشت عدم مساوات، جبر اور غربت حکمران اشرافیہ کا گلا دبوچ لیں گے۔ موجودہ صورتحال طقفان سے پہلے والی خاموشی ہے۔ جب طوفان نمودار ہو گا تو کروڑوں عوام سڑکوں پر آ کر پوری گلی سڑی سرمایہ دارانہ ریاست کو چیلنج کرے گے۔
آج بنگلہ دیش میں عوام کو اس حکومت کے خلاف بولنے سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے لیکن انہیں سب سمجھ ہے کہ ہو کیا رہا ہے۔ جب وہ اس جبری حاکمیت کے خلاف نکلیں گے تو اس قت انہیں ایک حقیقی انقلابی تنظیم کی ضرورت ہو گی جو درست نظریات اور سیاسی پروگرام سے مسلح ہو۔ حکومت مسلسل مسلح پولیس پر انحصار کر رہی ہے کہ وہ مزدوروں کے احتجاجوں اور سرگرمیوں کو ختم کریں گے جبکہ مزدور ہر رکاؤٹ کے باوجود جرات مندی سے سڑکوں پر آ کر ایک بہتر معیار زندگی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اس طرح کے احتجاجوں کا موجودہ حجم چھوٹا ہے لیکن یہ مسلسل بڑھتا جائے گا اور ایک دن پورا محنت کش طبقہ ایک دھماکے کے ساتھ میدان عمل میں اترے گا۔ حکومت کے جبری اور ظالمانہ ہتھکنڈے واضح طور پر ریاست کے بورژوا کردار کو ننگا کر رہے ہیں جس کا مقصد ہی امیر سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ ہے۔ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینک کر ہی بنگلہ دیش کا محنت کش طبقہ اس غلیظ ریاست سے جان چھڑا کر بھوک، بیماری اور ذلت سے حقیقی آزادی حاصل کر سکتا ہے۔ جس دن یہ سورج طلوع ہو گا وہی دن محنت کش طبقے کی آزادی کا حقیقی جشن ہو گا۔