|تحریر: لیزا رائے، ترجمہ: اختر منیر|
بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکہ میں سڑکوں پر تحفظ کے مطالبات کو لے کر طالب علموں کے مظاہرے جاری ہیں۔ 29 جولائی کو دو بسیں، جن کے ڈرائیوروں کے پاس لائسنس نہیں تھا، فٹ پاتھ پر چڑھ کر آپس میں ٹکرا گئیں، جس سے دو طالب علم ہلاک اور درجنوں لوگ زخمی ہوگئے۔ تب سے ڈھاکہ کے مختلف علاقوں سے لے کر آس پاس کے شہروں، جیسے تنگیل اور نارائن گنج، کو جانے والی سڑکوں پر طالب علم انصاف اور محفوظ سڑکوں کا مطالبہ لے کر احتجاج کر رہے ہیں۔
طالب علم، 9 سال کی عمر تک کے بچے، ان کے والدین اور ہر قسم کے پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگ اظہار یکجہتی کے لیے سڑکوں پر آگئے ہیں۔ وہ ٹریفک اور تمام بڑے چوراہے بلاک کر کے ڈرائیوروں سے ان کے اجازت نامے دکھانے کا مطالبہ کررہے ہیں اور حکومت کے کچھ نہ کرنے پر احتجاج کر رہے ہیں۔
ہلاکتوں کے خلاف پورے شہر میں پرامن مظاہرے ہو رہے تھے جنہوں نے جگاتلا میں تب تلخ جدوجہد کا روپ دھار لیا جب پولیس نے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا جس سے سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے۔ مزید سینکڑوں مظاہرین کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔ ڈھاکہ آنے والی ٹرانسپورٹ، جس میں اندرون شہر چلنے والی بسیں بھی شامل ہیں، دیوہیکل مظاہروں کی وجہ سے رک چکی ہیں۔ ٹرانسپورٹ سے منسلک بہت سے محنت کش ہڑتال پر چلے گئے ہیں کیونکہ وہ احتجاج کے دوران سفر کرنا محفوظ نہیں سمجھتے۔
ابتدائی نعرے ’’ہمیں محفوظ سڑکیں چاہیں‘‘ اور ’’ہمیں انصاف چاہیے‘‘ تھے۔ مگر جلد ہی مظاہرین کو حکومت رویے کا احساس ہوتے ہی انہوں نے وزیر اعظم شیخ حسینہ کو حکومت کی طرف سے سڑکوں کی حالت کو نظر انداز کیے جانے اور اس بے چینی کے خلاف جابرانہ رد عمل پر نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
جیسے جیسے تحریک آگے بڑھی مزید مطالبات سامنے رکھے گئے:
1۔ وہ ڈرائیور جو دو طالب علموں کی ہلاکت کا باعث بنا اسے گرفتار کیا جائے تا کہ اسے سزا مل سکے۔
2۔ شاہ جہان خان (شپنگ کا وزیر) جیسے وزرا کا سڑکوں کی خراب حالت اور قانون شکنی کرنے والے ڈرائیوروں کا دفاع کرنے پر احتساب کیا جائے۔
3۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سڑکوں پر آنے والے ڈرائیور لائسنس یافتہ ہوں۔
4۔ بسوں کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ گنجائش سے زیادہ لوگ سوار نہ ہوں اور ایک بس میں سوار ہونے والے لوگوں کی حد مقرر کی جائے۔
5۔ حکومت سڑک پر ہونے والے تمام حادثوں کی ذمہ داری قبول کرے، متاثرین کے خاندانوں کی مالی امداد کرے اور ہسپتال کے اور دوسرے اخراجات ادا کرے۔
6۔ طالب علموں کے آدھے آمدورفت کے اخراجات سبسڈی کے طور پر ادا کیے جائیں، کیونکہ تقریباً کوئی بھی بس کمپنی سٹوڈنٹ کارڈ پر رعایت نہیں دیتی۔
7۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ فٹ پاتھ محفوظ اور قابل رسائی ہوں۔
پولیس اور بنگلہ دیش چھاترا لیگ کا تشدد
ڈھاکہ اور دوسرے شہروں میں ایک ہفتے کے پرامن مظاہروں کے بعد پولیس نے مظاہرین پر حملہ کرنا شروع کر دیا، کیونکہ وہ ٹریفک اور آمدورفت کو متاثر کر رہے تھے۔ پولیس احتجاج کرنے والے طالب علموں پر تشدد کی تردید کر رہی ہے مگر 100 سے زائد طالب علم زخمی ہوئے ہیں۔
مبینہ طور پر کچھ طالبات کو بنگلہ دیش پولیس اور بنگلادیش چھاترا لیگ (حکمران پارٹی عوامی لیگ کا سٹوڈنٹ ونگ) کے غنڈوں نے جنسی تشدد اور زیادتی کا نشانہ بنایا۔ جیسے ہی یہ خبر پھیلی طلبہ سڑکوں پر نکل آئے اور جنسی زیادتی کرنے والوں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کرنے لگے۔
مظاہروں میں شامل طالب علموں کی اکثریت عوامی لیگ کو شہر کی خستہ حالت اور روز بروز بڑھتی ہوئی کرپشن کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے۔ BCL پر پولیس کے ساتھ مل کر فوٹوگرافروں اور رپورٹروں پر حملے کرنے کا الزام بھی ہے، جن میں مشہور فوٹو گرافر اور سماجی کارکن شاہدالعالم بھی شامل ہے، اس کے علاوہ وہ جہاں بھی طالب علموں کو دیکھیں ان پر حملہ کر دیتے ہیں۔
یونیورسٹیوں کے احاطوں میں بنگلہ دیشی پولیس اور BCL کے غنڈے امڈ آئے ہیں۔ 4 اگست سے موبائل فون پر انٹرنیٹ کی سہولت 24 گھنٹے کے لئے معطل کردی گئی، کیونکہ طالب علم اور احتجاج منظم کرنے والے دوسرے لوگ سوشل میڈیا، خاص طور پر فیس بک اور وٹس ایپ، کا استعمال کرتے ہوئے ریلیاں منعقد کرتے تھے اور تصاویر اور ویڈیوز اپ لوڈ کر کے بڑے پیمانے پر توجہ حاصل کر رہے تھے۔ حکومت نے پورے ملک میں انٹرنیٹ مہیا کرنے والی کمپنیوں کو انٹرنیٹ کی سپیڈ کم کرنے کو کہا تا کہ لوگ تصویریں اور ویڈیوز آن لائن پوسٹ نہ کر سکیں۔ عوامی لیگ کے نمائندوں اور حکومت نے ان الزامات کی تردید کی اور اپوزیشن کی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی پر سیاسی فائدے حاصل کرنے کے لیے یہ افواہیں پھیلانے کا الزام عائد کیا۔
اصل ذمہ دار: سرمایہ دار اور حکمران طبقہ
ورلڈ اکنامک فورم کی ایک تفصیلی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش ایشیامیں سب سے خستہ حال سڑکیں رکھنے والے ممالک میں دوسرے نمبر پر آتا ہے، نیپال سے کچھ ہی بہتر جو ماضی میں تباہ کن زلزلوں کی وجہ سے بدنام تھا۔ 2005ء سے لے کر اب تک ورلڈ بینک نے بنگلہ دیش میں 28 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، خاص طور پر ملک کے تعمیراتی شعبے میں۔ یہاں تک کہ جو سڑکیں براہ راست ورلڈ بینک کے فنڈ کیے گئے منصوبوں کے تحت بنی ہیں، مثلاََ ڈھاکہ سے سلہٹ تک سڑک، ان میں بھی کچھ بنیادی تحفظ کی خصوصیات، جیسے کے کریش بیریئر، پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ، ٹریفک لائٹس یا سپیڈ کنٹرولز اور تصادم سے بچانے کے لیے دو لینز کی درمیانی جگہ، کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
ایک کلومیٹر سڑک بنانے پر 25 لاکھ ڈالر سے لے کر 1 کروڑ 19 لاکھ ڈالر تک کا خرچ آتا ہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے، مگر اس قدر خرچ سے بھی سڑکوں کی تعمیر کے معیار میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔
سڑکوں کی خراب تعمیر سے جڑا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تمام شاہراہوں کو مختلف تعمیراتی کمپنیاں نجی طور پر بناتی اور کنٹرول کرتی ہیں۔ سیاستدان کمپنیوں کے ساتھ مداخلت کرتے ہوئے انہیں مخصوص علاقے سونپ دیتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ نااہلی، بدعنوانی، احتساب اور سڑکوں شاہراہوں کی نگرانی نہ ہونے جیسے بڑے مسائل موجود ہیں۔
یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ خراب تعمیر شدہ سڑکوں اور حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے دنیا کے بدترین ٹریفک ہجوموں میں سے ایک ڈھاکہ میں ملتا ہے۔ اس کے نتیجے میں روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 32 لاکھ گھنٹوں کے اوقات کار کا نقصان ہوتا ہے۔ ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے شہر کی معیشت کو ہر سال اربوں ڈالر سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔
حکومتی اعداد و شمار میں ٹریفک حادثات کے نتیجے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کو بہت کم کر کے دکھایا جاتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے کہیں زیادہ حقیقت پر مبنی اندازے کے مطابق سال 2013ء کے دوران ٹریفک حادثات میں 17 سے 25 ہزار کے درمیان اموات واقع ہوئیں۔ اسی سال کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد محض 3,296 تھی۔ اس صورتحال سے بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صرف ایک روڈ ایکسیڈنٹ کس طرح اچانک ایک اتنی بڑی تحریک کو جنم دے سکتا ہے، جو بہت تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے اور شرکاء کے بدعنوان حکومت، پولیس اور ریاست کے کردار پر سوال اٹھانے کا باعث بن رہی ہے۔ تحریک پوری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ردعمل کا آغاز کر رہی ہے۔
ٹوٹ کر بکھرتا بنیادی ڈھانچہ
بنگلہ دیش کے خستہ حال بنیادی ڈھانچے کی واحد مثال صرف سڑکیں ہی نہیں ہیں۔ ڈھاکہ عمارات کی ناقص تعمیر کی وجہ سے بھی بد نام ہے جو 2013ء میں گارمنٹس فیکٹری رانا پلازہ کے گرنے کی بنیادی وجہ تھی، جس میں 700 سے زائد محنت کش ہلاک ہوئے۔ بہرحال رانا پلازہ ملک کی بہت سی خوفناک تعمیرات کی محض ایک مثال ہے۔ بہت سی گارمنٹ فیکٹریاں، جیسے کہ 2013ء میں غازی پور، اور عام کمرشل عمارات خستہ حالت کی وجہ سے رہنے کے قابل نہیں رہیں۔
ڈھاکہ کی بہت سی مشہور گارمنٹ فیکٹریاں، بشمول ان کے جو وال مارٹ کے زیر سایہ ہیں، ابھی تک مزدوروں کو سہولیات اور تحفظ دینے کے عمل سے نہیں گزریں جس سے یہ بات یقینی بنائی جاتی ہے کی سپلائی کرنے والی فیکٹریوں میں مزدوروں کو تحفظ اور معیار کے مطابق حالات مل سکیں درحقیقت رانا پلازہ کے سانحے کے بعد منظور کیے جانے والے احکامات اور ضوابط کا گارمنٹ کے محنت کشوں کے حالات اور عمارات کے روزمرہ استعمال کے قابل ہونے سے بہت کم یا بالکل ہی تعلق نہیں ہے۔
صرف فیکٹریاں ناقص انداز میں تعمیر نہیں کی گئیں۔ نئے ابھرتے ہوئے شاپنگ مالز کے مراکز، ہسپتال اور رہائشی مکانات وغیرہ اکثر آگ سے تحفظ اور محفوظ پارکنگ کے لیے وضع کیے گئے طریقہ کار سے گزرتے ہی نہیں۔ رانا پلازہ کے گرنے کے بعد ایک تحقیق کی گئی جس کے مطابق 2008ء کے بعد بننے والی 20 ہزار عمارات میں سے محض 6 قانون کے مطابق حفاظتی منظوری کے عمل سے گزری ہیں۔ گو کہ تحفظ کے عمل سے گزرنے کو یقینی بنانے کی باضابطہ کوششیں کی گئی ہیں مگر وہ بالکل ناکام رہی ہیں۔ عمارات تحفظاتی منظوری کے لیے پیش کی گئی ہیں یا نہیں (اس بات سے قطع نظر کہ یہ عمل کتنا موثر ہے)،یہ بات ابھی بھی ہر نجی سرمایہ کار اور اسٹیٹ مینیجمنٹ کے مفاد پر منحصر ہوتی ہے۔
مسائل میں حکومت کا کردار
2009ء میں شیخ حسینہ کے دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد سے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سڑکوں کو بہتر کرنے پر نہ ہونے کے برابر توجہ دی گئی ہے۔ دراصل تمام انتظامیہ ہی سکینڈلز کی زد میں ہے، رانا پلازہ فیکٹری کے گرنے پر بدانتظامی سے لے کر کھلی بدعنوانی کے مقدمات، بہت سے اراکین پارلیمنٹ اور غیر ملکی کارباری اداروں کا ورلڈ بینک سے لیے گئے پیسوں کا ہیر پھیر، جعل سازیاں وغیرہ۔
یہ صورتحال عوامی لیگ کی شدید بوسیدہ بدعنوانی کو عیاں کر رہی ہے، ایسی ہی جیسے 2012ء میں دریائے پدما پر پل کے سکینڈل میں ہوا تھا، جب عوامی لیگ کے بہت سے اراکینِ پارلیمنٹ نے کینیڈا کی تعمیراتی کمپنی SNC۔Lavalin سے ٹھیکہ دینے کے بدلے بڑی رقوم کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ کیس تو خارج ہو گیا تھا مگر دونوں بڑی پارٹیوں کے بہت سے اراکینِ پارلیمنٹ سوئس بینکوں کے ذریعے منی لانڈرنگ میں بے نقاب ہو گئے۔
نوجوان میں ابھرتے انقلابی جذبات
ایک بات قابل غور ہے کہ سڑکوں پر تحفظ سے متعلق حالیہ عوامی مظاہرے کوئی علیحدہ سے ایک واقعہ نہیں ہے، بلکہ پچھلے کچھ عرصے سے ملک بھر میں چلنے والے احتجاجوں کا ہی تسلسل ہے۔ اسی سال جولائی تک گریجویٹ سٹوڈنٹس اور بے روزگار نوجوانوں کی جانب سے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف مظاہرے جاری تھے۔ شیخ حسینہ کی حکومت نے وعدہ کیا کہ وہ ہر سال کم از کم 20 لاکھ نئی نوکریاں پیدا کریں گے، مگر افرادی قوت تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 10.3 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں۔ حکومت نے وعدہ کیا کہ مستقل سرکاری نوکریاں دی جائیں گی۔ بڑی تعداد میں درخواستوں کو نمٹانے کے لیے حکومت نے کوٹہ سسٹم متعارف کروایا جس کا مقصد زیادہ درخواستیں لینا تھا۔
مظاہروں میں طالب علموں نے مطالبہ کیا کہ سرکاری نوکریوں میں اقربا پروری اور تعلق داری کی بنیاد پر تعصب کا خاتمہ کیا جائے اور نوکریاں میرٹ کی بنیاد پر دی جائیں نہ کہ عوامی لیگ سے ذاتی تعلقات کی بنیاد پر۔ جبکہ عوامی لیگ کا یہ دعویٰ ہے کہ کوٹہ سسٹم اور سڑکوں سے متعلق ہونے والے احتجاج حزب اختلاف کی پارٹی BNP کی سازش ہے۔ یہ تمام مظاہرے بنگلہ دیش کی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے دیوالیہ پن کی علامات ہیں۔ یقیناًBNP کے کچھ دھڑے اس تحریک کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ احتجاج کرنے والے طالب علم ان کی روز بروز بڑھتی ہوئی کرپشن اور بڑے سرمایہ داروں کی دلالی کی وجہ سے ان دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں سے تنگ آچکے ہیں۔
عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی موجودہ حالات میں کسی قسم کا متبادل دینے سے قاصر ہیں۔ وہ محض پارلیمنٹ میں سیٹیں اور منافع بخش پوزیشن حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ کھینچا تانی میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ بہت سے نوجوانوں اور محنت کشوں نے اسٹیبلشمنٹ کو عمومی طور پر ہی بدعنوان اور پوری طرح سے گلا سڑا قرار دیا ہے۔ سیاسی اسٹیبلشمنٹ طالب علموں کو تحفظ اور نوجوانوں کو روزگار دینے کا وعدہ تو کرتی ہے مگر اس کے لئے عملی طور پر کبھی کچھ نہیں کیا گیا۔ ایک تحقیق کے مطابق آدھی سے زیادہ نوجوان آبادی نے موجودہ سیاسی اسٹیبلشمنٹ سے بیزاری کا اظہار کیا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ فی الحال ایسی کوئی پارٹی موجود نہیں جو بنگلہ دیش کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے مفادات کی ترجمانی کر سکے۔ اس بات سے بنگلہ دیش کا سرمایہ دارانہ بحران کھل کر سامنے آجاتا ہے کے بنگلہ دیش کی حکومت سڑکوں کی خراب حالت اور عدم تحفظ جیسے سادہ مسائل کا کوئی حل نہیں دے پا رہی۔ عوامی لیگ کی حکومت کا طالب علموں کو پکڑنے اور احتجاج کرنے والوں پر تشدد اور جنسی زیادتی کرنے کے لیے غنڈے بھیجنے جیسا وحشیانہ ردعمل اس نظام کی ہولناکی کو عیاں کرتا ہے۔
سڑکوں پر تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس گلے سڑے سرمایہ درانہ نظام سے جان چھڑانے کے لیے ایک سوشلسٹ مستقبل کی خاطر جدوجہد کی جائے۔ ایک سوشلسٹ بنگلہ دیش کا مطلب یہ ہو گا کہ معاشرے کے تمام بڑے ستونوں کو قومی تحویل میں لے لیا جائے اور انفراسٹرکچر کو بدعنوان نجی ہاتھوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے۔ کسی بچے کو سڑک پار کرتے ہوئے فٹ پاتھ نہ ہونے یا لاپرواہ ڈرائیوروں کی وجہ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ انسانیت کی بہتری کے لیے اس معاشرے کو تبدیل کرنے سے ہی ان ہولناکیوں سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔