بنگلہ دیش طلبہ تحریک: مظالم کی انتہا، دو سو سے زائد قتل، شیخ حسینہ کے استعفیٰ کا مطالبہ

|تحریر: بین کری، ترجمہ: ولید خان|

 

پچھلے چار دنوں میں بنگلہ دیش ہمیشہ کے لیے بدل چکا ہے۔ جمعرات سے شیخ حسینہ کی حکومت نے پورے ملک پر تاریکی کا پردہ ڈال رکھا ہے۔ ٹیلی کام بلیک آؤٹ کی آڑ میں اگر 1971ء کی جنگ آزادی نہیں تو کم از کم 1980ء کی دہائی میں ہونے والے قتل عام کے بعد آج بدترین قتل عام کیا جا چکا ہے۔ اس کے ساتھ شیخ حسینہ کی حکومت اور عوامی لیگ پارٹی کی ساکھ کا شائبہ بھی پارہ پارہ ہو چکا ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

اس وقت کرفیو میں نرمی ہو رہی ہے (اگرچہ بلیک آؤٹ جاری ہے) اور کم از کم 170 افراد قتل ہو چکے ہیں، مزید ہزاروں زخمی ہیں اور سینکڑوں کو جیلوں میں پھینکا جا چکا ہے۔ سڑکوں پر ایک عارضی سکوت ہے لیکن بلیک آؤٹ ختم ہوتے ہی سماج ایک مرتبہ پھر عوامی بغاوت میں پھٹ سکتا ہے۔

ہم نے پچھلے ہفتے رپورٹ کیا تھا کہ اس ساری صورتحال کا آغاز عوامی سیکٹر میں نوکری کوٹہ کے خلاف احتجاجوں سے شروع ہوا تھا جسے عوامی لیگ اپنے وفاداروں کو نوازنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اب بات بہت آگے بڑھ چکی ہے۔

سڑکوں پر ایک عام نعرہ ”پہلے لاشیں شمار کرو، پھر کوٹہ شمار کرنا“ ہے۔ اب تحریک قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور قاتل حکومت کے خاتمے میں تبدیل ہو چکی ہے۔

پچھلے ہفتے تشدد کا آغاز اس وقت ہوا جب پولیس اور عوامی لیگ کے طلبہ ونگ چھاترا لیگ نے پرامن احتجاجیوں پر ڈنڈوں اور گولیوں سے حملہ کر دیا۔ ابتدائی اموات نے عوام کو شدید بھڑکا دیا۔ کروڑوں عام بنگالیوں کے سینوں میں نظام کے خلاف سلگتی آگ آتش فشاں بن کر پھٹ پڑی۔ معاشی ابتری نے عوام کو تباہ حال کر دیا ہے جبکہ حکمران طبقے کی لوٹ مار مسلسل جاری ہے اور عوام کی اس وقت تمام تر ہمدردیاں طلبہ تحریک کے ساتھ ہیں۔

جمعرات سے لے کر اب تک ایک ٹیلی کام بلیک آؤٹ لاگو کیا جا چکا ہے۔ اس کا مقصد خوف و ہراس اور کنفیوژن پھیلانا تھا جبکہ حکومتی کنٹرول میں مقامی اخبارات اور ٹی وی چینل خبروں کا واحد ذریعہ بن چکے ہیں۔

چند ایک اثناء کے علاوہ عالمی سرمایہ دار میڈیا بنگالی ریاست کے ساتھ چپ کی سازش میں مسلسل معاون رہا ہے۔ تارکین وطن بنگال کے کروڑوں رشتہ داروں اور دوستوں کے حوالے سے شدید پریشان ہیں جن کے ساتھ اب کوئی رابطہ ممکن نہیں رہا۔ تارکین وطن نے خود جرات کرتے ہوئے عوامی احتجاج منظم کیے ہیں تاکہ ملک میں جاری بھیانک قتل و غارت گری کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جا سکے۔

بنگلہ دیش میں موجود شدید غم و غصے اور بہادری کی ترجمانی کرتے ہوئے مغربی بنگال سے لندن اور نیو یارک تک ہزاروں بنگالیوں نے احتجاج کیے ہیں۔ قطر جیسا ملک جہاں عوامی احتجاج کے خلاف خوفناک جابرانہ قوانین لاگو ہیں، وہاں بھی سینکڑوں بنگالیوں نے احتجاج کیا۔ ہمسایہ ملک عرب امارات میں اس بہادری کی قیمت 50 افراد کی ملک سے بے دخلی اور تین کو عمر بھر قید رہی۔

تاریکی میں قتل عام

بلیک آؤٹ کے باوجود ملک میں ہونے والے ہولناک واقعات کی خبریں باہر آ رہی ہیں۔ قتل کیے جانے والے افراد کی بڑھتی تعداد ثبوت ہے کہ عوام کس بے جگری سے تحریک چلا رہی ہے۔ پتھروں کے علاوہ ان کے پاس دفاع کے لیے کچھ نہیں لیکن وہ حکومتی پیراملٹری فورسز کا مقابلہ کر رہے ہیں جو جواب میں عمارات کی چھتوں اور ہیلی کاپٹروں سے ان پر گولیاں برسا رہے ہیں۔ لاشوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔۔ کچھ کو ان کے ساتھیوں نے اٹھایا ہوا ہے، دیگر کو پولیس کی گاڑیوں سے باہر پھینکا جا رہا ہے۔

خبروں سے معلوم ہو رہا ہے کہ خانہ جنگی جیسی کیفیت میں کچھ عارضی فتوحات بھی ہوئی ہیں جن میں عوام نے سیکیورٹی فورسز کو مکمل پسپائی پر مجبور کر دیا۔ جمعہ کے دن نارسنگدی کی ایک جیل پر عوام نے دھاوا بول کر 800 قیدیوں کو بازیاب کرا لیا۔ جواب میں حکومتی سرپرستی میں انتہائی غلیظ اور جھوٹا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ عوام نے مشتعل ہو کر بنگلہ دیشی ٹیلی ویژن ہیڈ کوارٹر اور کئی پولیس تھانوں پر دھاوا بول کر انہیں آگ لگا دی ہے۔

سوشل میڈیا کی بندش کے ساتھ ریاستی میڈیا نے ملک میں مسلسل جھوٹ، دھمکیوں اور بہتان تراشی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔

جھوٹ اور فریب میں الزامات شامل ہیں کہ طلبہ دائیں بازو حزب اختلاف بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ ایک دعویٰ یہ بھی ہے کہ اسلامی انتہاء پسند جماعت اسلامی، جس کی پشت پناہی پاکستانی خفیہ ایجنسیاں کر رہی ہیں، احتجاجوں کی قیادت کر رہی ہے اور ان کے ذریعے ملک میں انتشار پھیلا رہی ہے۔ ہمیں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ غیر ملکی این جی اوز احتجاجوں میں گھسی بیٹھی ہیں تاکہ ایک ”رنگین انقلاب“ برپاء کیا جا سکے۔

یہ تمام الزامات انتہائی گھٹیا ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شیخ حسینہ حکومت کی دلی خواہش ہے کہ یہ گروہ تحریک میں بڑا کردار ادا کریں۔ نیشنل پارٹی اور جماعت کی قیادتوں کو گرفتار کر کے یقینا کوشش کی جا رہی ہے کہ ان کی سماج کی کچھ پرتوں میں سیاسی ساکھ بنے۔ ظاہر ہے کہ ان دائیں بازو بورژوا پارٹیوں پر اعتماد کیا جا سکتا ہے کہ یہ جس تحریک میں قدم جمائیں گی اس کی کمر توڑ کر رکھ دیں گی۔

طلبہ نے درست طور پر ان پارٹیوں کی کسی قسم کی شمولیت کو رد کر دیا ہے اور حکومتی الزامات کی شدید مذمت کی ہے۔

جہاں تک پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مداخلت کا تعلق ہے تو پاکستان میں استحصال زدہ بدحال عوام بنگالی عوام کی جدوجہد سے دیوہیکل ہمدردی رکھتے ہیں۔ پاکستانی ریاست کو خود کشی کا ہی شوق ہو گا اگر ایسے وقت میں بنگلہ دیش میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی گئی کہ جب ریاست خود بغاوت کی ڈھیری پر پریشان حال بیٹھی ہے۔ پاکستان میں بیروزگاری اور افراط زر بنگلہ دیش سے کئی گنا زیادہ ہے۔ دونوں ممالک کسی بھی وقت دیوالیہ ہو سکتے ہیں۔

پھر یہ الزام کہ مغربی این جی اوز احتجاجوں کو ہوا دے رہی ہیں، اس حوالے سے کچھ حقائق پر نظر ثانی لازم ہے۔ حسینہ انتہائی وفاداری سے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت محنت کش طبقے پر تابڑ توڑ حملے کر رہی ہے۔ اس کی حکومت نے ملک کو مغربی ملبوسات کے لیے سستی محنت کی جنت بنا رکھا ہے۔ وہ کیوں ایک وفادار کٹھ پتلی کا تختہ الٹیں گے؟

ظاہر ہے ان سب الزامات اور بہتان تراشی کا مقصد احتجاجوں کو بدنام کرنا ہے۔ لیکن حکومت کو پتا لگ جائے گا کہ میڈیا کے غلیظ پروپیگنڈے اور بلیک آؤٹ کے نتیجے میں ممکنہ کنفیوژن اور پچھلے ہفتے کے خوفناک جبر کے نتیجے میں تحریک کو ہمیشہ کچل دینے کی خواہش محض خواہش ہی ہے۔

یہ درست ہے کہ اس وقت ملک میں عارضی طور پر مکمل سکوت ہے۔ ریاستی پیراملٹری کے ہاتھوں حبس بے جا اور شدید تشدد کا شکار ہونے والے طلبہ قائد ناہید اسلام نے احتجاجوں میں 48 گھنٹے کے وقفے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ بلیک آؤٹ کی وجہ سے حالات عارضی تعطل کا شکار ہیں کیونکہ تحریک کو منظم کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔ طلبہ کے مطالبات اپنی جگہ موجود ہیں۔۔ وزراء، پولیس اور دیگر قاتلوں کی برخاستگی اور قتل ہوئے افراد کو انصاف کی فراہمی۔ بلیک آؤٹ ختم کرنے کی پہلی کوشش میں نئے، منظم اور پہلے سے زیادہ دیوہیکل سماجی دھماکے ہو سکتے ہیں، خاص طور پر جب عوام 170 شہیدوں کے غم میں سوگوار ہے۔

لیکن جو کچھ بھی ہو، پچھلے ہفتے کے قتل عام کے بعد اس حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں۔ اس کی ساکھ ملیا میٹ ہو چکی ہے۔ معاشی حالات بدتر ہو رہے ہیں۔ نئے سماجی دھماکے ہوں گے اور بالآخر حسینہ اور عوامی لیگ کا خاتمہ ہو کر رہے گا۔

اندرون ملک اور بیرون ملک حکمران طبقات سمیت ہر کوئی ایک ہی سوال پوچھ رہا ہے۔۔ آگے کیا ہو گا؟ اس کا فیصلہ اس بات پر منحصر ہو گا کہ کیا محنت کش طبقہ، طلبہ اور استحصال زدہ عوام اقتدار پر قبضہ کرنے والی جرات مند اور انقلابی قیادت سے مسلح ہیں۔

حسینہ کا جواء

حسینہ حکومت نے یہ قتل عام کر کے ایک دیوہیکل جواء کھیل ڈالا ہے۔ اب واپسی کا ہر راستہ بند ہو چکا ہے۔ پورے ملک میں لاک ڈاؤن کے دوران سپریم کورٹ نے تحریک زائل کرنے کی کوشش کی لیکن اس کی تمام کوششوں کو شرمناک شکست ہوئی ہے۔

کوٹہ سوال پر نظر ثانی کر کے۔۔ جنگ آزادی میں لڑنے والوں کی اولادوں کا عوامی سیکٹر نوکریوں میں کوٹہ 30 فیصد سے 5 فیصد کر دیا گیا ہے۔۔ سپریم کورٹ نے ثابت کیا ہے کہ انہیں سمجھ ہی نہیں ہے کہ اب تحریک کہاں پہنچ چکی ہے۔

کروڑوں عوام کے لیے اب تحریک قاتلوں کو کیفر کردار پہنچانے کا سوال بن چکی ہے۔

عوامی قتل عام کے ذریعے عوام کو خوفزدہ اور صدمہ زدہ کر کے عارضی طور پر سڑکیں خالی کرائی جا سکتی ہیں۔ لیکن اسی عوام کی نظروں میں اب ریاست کی ساکھ کبھی بحال نہیں ہو گی۔

جاری تشدد کے دوران حکمران طبقے کے نمائندوں، مرکزی کاروباری کنفیڈریشنز نے حسینہ کو ملاقات میں اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ جب تک کرفیو اور بلیک آؤٹ جاری ہے، ملک کی ریڑھ کی ہڈی ٹیکسٹائل صنعت مفلوج ہے اور اپنے آرڈر پورے کرنے سے قاصر ہے۔ یہی حال بینکوں کا ہے۔

ٹیکسٹائل صنعت کی اہم نمائندہ بنگلہ دیش گارمنٹ مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن (BGMEA) کے نائب صدر ارشد جمال دیپو نے ملاقات کے فوری بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ، ”جتنی جلدی ممکن ہو سکے حالات کو معمول پر واپس لایا جائے، کیونکہ ایک سوال روزگار کا ہے۔۔ ایک ملبوسات فیکٹری انٹرنیٹ کے بغیر نہیں چل سکتی۔“ بس انہیں یہی پریشانی لاحق ہے۔۔ ایک ایسی مستحکم صورتحال برقرار رہنی چاہیے جس میں منافع خوری جاری رہے۔

سرمایہ داروں کے لیے حالات ”معمول“ پر لانے کے لیے حسینہ نے جبر و تشدد اور خوف کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ یقینا حسینہ کے پاس اب یہی حربہ رہ گیا ہے اور اس حوالے سے سرمایہ دار بہت پریشان ہیں۔ امریکی تھنک ٹینک کونسل آن فارن ریلیشنز نے لکھا ہے کہ اس کا نتیجہ ”مسلسل کمزور ہوتی آمریت ہے“۔ کمزور چیزیں ایک وقت آنے پر ٹوٹ جاتی ہیں۔

حکمران طبقہ محفوظ ہاتھوں کی تلاش میں ہو گا جن کی کچھ ساکھ برقرار ہو تاکہ ایک وقت آنے پر وہ حکومت سنبھالیں۔ یہی خطرے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

سڑکوں پر عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کوٹہ تحریک بنگلہ دیش 2024ء ویب سائٹ نے حکومت کا خاتمہ اپنے پانچ مطالبوں میں سرفہرست رکھا ہے:

”ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ وزیراعظم شیخ حسینہ فوری طور پر مستعفی ہو اور ایک تیسری غیر جانبدار پارٹی کو اقتدار منتقل کرے، عسکری یا نگران حکومت۔ یہ عبوری اتھارٹی ایک صاف شفاف انتخابات منعقد کرے جس میں تمام سیاسی پارٹیاں حصہ لے سکتی ہیں تاکہ جمہوریت کی بحالی اور عوامی حقوق کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔“

حسینہ کا استعفیٰ درست مطالبہ ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں یہ سوچنا کہ ایک ”تیسری غیر جانبدار پارٹی“ موجودہ صورتحال میں غلط ہے۔ بنگلہ دیش میں احتجاجوں کا آغاز سماج کی ایک چھوٹی پرت سے ہوا تھا۔۔ زیادہ تر طلبہ کا تعلق متوسط طبقے سے ہے۔ لیکن فوری طور پر سماج دو حصوں میں پولرائز ہو چکا ہے۔۔ ایک طرف ریاست، اس کے دلال اور حکمران طبقہ اور دوسری طرف طلبہ جن کو تمام استحصال زدہ اور جبر کی شکار پرتوں کی اگر سرگرم حمایت نہیں تو کم از کم ہمدردیاں ضرور حاصل ہیں۔

سرمایہ داری کا بحران تیزی سے سماج کو دو حصوں میں تقسیم کر رہا ہے۔ ایک طرف۔۔ استحصالی۔ دوسری طرف۔۔ استحصال زدہ۔ تیسری کوئی پارٹی نہیں ہے۔

کوئی ”نگران حکومت“ ایک ”تیسری پارٹی“ کا کردار ادا نہیں کر سکتی۔ فوج تو یہ کام بالکل ہی نہیں کر سکتی۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگرچہ فوج کو پورے ملک میں ہفتہ اور اتوار کے دن کرفیو کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ”نظر آتے ہی گولی مار دو“ کے احکامات کے ساتھ تعینات کیا گیا تھا لیکن زیادہ تر مقامات پر فوج نے مظاہرین کے ساتھ کوئی لڑائی نہیں کی ہے۔ اس نے زیادہ تر اپنے آپ کو چیک پوائنٹس پر شناختی کارڈز چیک کرنے تک محدود کر رکھا ہے۔ اس کے برعکس بدنام زمانہ بارڈر گارڈ بنگلہ دیش (پیراملٹری) اور ریپڈ ایکشن بٹالین (پولیس دہشت کش یونٹ) نے بہت زیادہ تشدد کیا ہے جس میں چھاترا لیگ کے بدمعاش بھی شامل ہیں۔

یقینا اس اعتدال کا فوجی کمانڈ نے مظاہرہ کیا ہے جنہیں شک ہے کہ مظاہرین کے لیے عام فوجیوں میں ہمدردیاں زیادہ ہوں گی۔

الجزیرہ نیوز چینل کے ایک صحافی نے ایک اعلامیے کا انکشاف کیا جس کے حوالے سے اس کا دعویٰ ہے کہ یہ جونیئر افسران کی جانب سے جاری کیا گیا ہے جن میں کئی خود سابقہ طلبہ ہیں:

”(ہمیں) کئی سالوں سے مجبور کیا گیا ہے کہ ہم عام عوام کے خلاف، حق کے خلاف کھڑے ہوں۔ مہربانی سے اب اور نہیں۔ بہت ہو چکا! ہم اپنے قابل عزت چیف آف آرمی سٹاف اور اعلیٰ کمانڈ سے مؤدبانہ درخواست کر رہے ہیں کہ مہربانی کر کے ہمیں کوئی غیر قانونی حکم نہ دیا جائے۔ ہم عام طلبہ کے ساتھ کھڑے ہیں جنہوں نے اپنی تحریک ایک درست مطالبے پر شروع کی ہے، ہم ملک کی عام عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔“

کئی ذرائع نے فوری طور پر تردید کی کہ یہ جھوٹا اعلامیہ ہے لیکن اسی صحافی نے اعلانیہ اصرار کیا ہے کہ یہ اعلامیہ درست ہے اور اس کی ذاتی طور پر ان جونیئر افسران سے بات ہوئی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ اعلامیہ درست ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افسران کے کئی گروہ، یہاں تک کہ سینیئر افسران بھی موجودہ صورتحال کے حوالے سے شدید پریشان ہوں گے۔

مستقبل میں ہم فوجی سازشیں دیکھ سکتے ہیں اور ممکن ہے کہ حکمران طبقے کا ایک حصہ اپنی امیدیں افسران کے ایک حصے سے لگا بیٹھے کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے لیے ”محفوظ ہاتھ“ ثابت ہو سکتے ہیں۔

حسینہ حکومت کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ لیکن دائیں بازو کی حزب اختلاف پارٹیاں اور فوج سرمایہ داری سے جڑی ہوئی ہیں اور وہ اس استحصالی نظام کو جاری رکھیں گے۔ اس حوالے سے ان پر کسی قسم کا اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

طلبہ اور محنت کشوں کو اپنی قوتوں پر اعتماد کرنا ہو گا۔ تحریک کے مطالبات جیسے حکومت کا خاتمہ، قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانا، چھاترا لیگ جیسے دہشت گرد گروہوں پر پابندی لگانا وغیرہ بنیادی طور پر درست ہیں۔ لیکن حسینہ اور عوامی لیگ کے ساتھ ریاست کے مسلح جتھے جیسے فوج اور پولیس بھی مجرم ہیں، پورا سرمایہ دار طبقہ مجرم ہے جو ”استحکام“ کا مطالبہ کر رہا ہے اور جس کے مفادات کے تحفظ میں حسینہ دہشت گردی کر رہی ہے۔

اگر انصاف چاہیے تو عوام کو اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینا ہو گا۔ یہ کیسے ممکن ہو گا؟ منظم ہو کر؛ محنت کش اور طلبہ کو ہر یونیورسٹی، سکول اور کام کی جگہ پر کمیٹیاں منظم کرنی ہوں گی، جنہیں شہر بھر اور پھر ڈسٹرکٹ اور قومی سطح پر آپس میں جوڑنا ہو گا۔

ایسی کمیٹیاں عوام کی وسیع پرتوں کو تحریک کے ساتھ جوڑیں گی۔ یہ دفاع کے لیے افراد فراہم کر سکتی ہیں، فوج میں مداخلت کرتے ہوئے عام سپاہیوں اور جونیئر افسران کو عوام کے لیے جیت سکتی ہیں اور ان کا افسران بالا سے تعلق توڑ سکتی ہیں۔

ذرا سوچئے؛ حکمران طبقہ دہشت اس لیے پھیلا سکتا ہے کیونکہ وہ پیداوار، ٹیلی کام، میڈیا اور ریاست کو کنٹرول کرتا ہے۔ اگر سماج کے ہر سیکٹر میں محنت کشوں کی کمیٹیاں موجود ہوں، ٹیلی کام سے پاور گرڈ اور میڈیا اسٹوڈیو تک، تو ہم ان کوششوں کو ختم کر سکتے ہیں۔ انہی منظم کمیٹیوں کے ذریعے محنت کش طبقہ حسینہ حکومت کے خلاف ایک غیر معینہ مدت ملک گیر عام ہڑتال منظم کرتے ہوئے مکمل طور پر ریاست کے مسلح جتھوں کو مفلوج کر سکتا ہے۔

ان کمیٹیوں کے ذریعے اس ملک گیر عام ہڑتال کو منظم کرنا محنت کشوں اور طلبہ کو اقتدار کی منتقلی کی جانب ایک دیوہیکل قدم ہو گا۔ پھر ہی انصاف کے ساتھ سماج کو ایسے منظم کیا جا سکے گا کہ ہر زندگی انمول ہو گی۔ معیشت کے کلیدی سیکٹروں پر قبضہ کر کے، ان کا کنٹرول سرمایہ داروں سے چھین کر اور محنت کشوں کے ہاتھوں میں دے کر ہی ہر کسی کو ایک باعزت نوکری، معقول رہائش، صحت، تعلیم اور ایک بہترین بااختیار زندگی کے تمام بنیادی لوازمات کو پورا کیا جا سکتا ہے۔

 

Comments are closed.