بنگلہ دیش: طلبہ کی دلیرانہ تحریک جاری، آگے کا راستہ کیا ہے؟

|تحریر: انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل، ترجمہ: عرفان منصور|

شیخ حسینہ کی حکومت کے قاتلانہ جبر کے باوجود بنگلہ دیشی طلبہ کی دلیرانہ تحریک جاری ہے۔ سینکڑوں طلبہ قتل اور ہزاروں گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ (اگرچہ نرم شکل میں ہی سہی) لیکن کرفیو جاری ہے اور مواصلات کا نظام بحال ہو رہا ہے، مگر میسج کی سروسز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم اب بھی بند ہیں۔ حکومت نے تحریک کو منظم کرنے والے چھ اہم افراد کو گرفتار کر لیا اور ان پر دباؤ ڈال کر مزید احتجاجی کاروائیوں کو منسوخ کرنے کا پریس بیان جاری کروایا۔ ان حالات میں بھی 29 جولائی، پیر کے روز ڈھاکہ، چٹاگانگ، سلہٹ اور بارسل سمیت ملک بھر میں طلبہ کے احتجاج ہوئے۔ ان احتجاجوں کو مزید جبر اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑا۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

جیسا کہ طلبہ کہہ چکے ہیں کہ یہ تحریک اب کوٹہ سسٹم کو ختم کرنے کے ابتدائی مطالبے کے لیے نہیں ہے بلکہ اب یہ شیخ حسینہ حکومت کو گرانے، قتل کیے گئے افراد کے لیے انصاف حاصل کرنے اور تمام گرفتار شدہ افراد کی رہائی کے لیے ہے۔ طلبہ نے 9 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ جاری کیا ہے۔ بہت سے لوگ اب یہ کہہ رہے ہیں کہ، ”جب تحریک ختم ہوتی ہے، تب انقلاب شروع ہوتا ہے“ اور وہ اس تحریک کا 1960ء اور 70 کی دہائیوں کی آزادی کی انقلابی جدوجہد کے ساتھ موازنہ کر رہے ہیں۔ طلبہ تحریک نے درست طور پر پورے نظامِ حکومت کو ہی مسئلہ قرار دیا ہے اور اسے گرانے کی ضرورت کا سوال اٹھایا ہے۔ مگر یہ کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟

• طلبہ تحریک کو مضبوط کرنے اور جمہوری ڈھانچوں سے لیس کرنے کی ضرورت ہے۔ پچھلے ہفتے میں جمہوری طور پر جوابدہ قیادت کی اہمیت اپنا اظہار کر چکی ہے۔ حسینہ واجد کی حکومت نے اس تحریک کو منظم کرنے والے افراد کو گرفتار کر کے اور ان پر دباؤ ڈال کر تحریک کو کچلنے کی کوشش کی ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ تحریک کو منظم کرنے والے افراد کی گرفتاری سے یا دباؤ ڈالنے سے تحریک کو ختم نہ کیا جا سکے، جدوجہد میں شامل ہر یونیورسٹی، فیکلٹی اور سکول کے طلبہ کے وسیع اجتماعات میں تحریک کو منظم کرنے والے افراد کا انتخاب، ان کی تبدیلی اور ان کو واپس بلانے کا عمل وقوع پذیر ہونا چاہیے۔

• طلبہ ایک وسیع تر تحریک کو جنم دینے میں تو اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن صرف اپنی طاقت کے بلبوتے پر حکومت کو نہیں گرا سکتے۔ تحریک کو محنت کش طبقے تک پھیلانا ضروری ہے۔ اس کا آغاز یونیورسٹی کے لیکچرارز اور دیگر عملے کو تحریک میں شامل کرنے سے ہونا چاہیے۔ کام کی جگہوں، محنت کش طبقے اور غریب علاقوں میں عوامی کمیٹیاں منظم کی جانی چاہئیں۔ ان کمیٹیوں کو مقامی، علاقائی اور قومی سطح پر مربوط کیا جانا چاہیے۔

طلبہ تحریک اور اس کے احتجاج کے حق کی حفاظت کے لیے خود دفاع کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ فوج کے جوانوں سے اپیل کی جانی چاہیے کہ طلبہ کی صفوں کو توڑنے کا حکم ملنے پر وہ اپنے بھائیوں اور بہنوں پر حملہ نہ کریں اور طلبہ کا دفاع کریں۔ سماجی مسائل کے گرد مطالبات کی آواز اٹھا کر پسماندہ پرتوں سے آنے والے فوجیوں کے دل میں گونج پیدا کی جائے اور طبقاتی بنیادوں پر فوج کو توڑنے کی کوشش کی جائے اور جہاں تک ممکن ہو فوج میں طلبہ کے ساتھ یکجہتی کمیٹیاں منظم کرنے کی کوشش کی جائے۔

تحریک کو محنت کش طبقے پر اثر ڈالنے کے لیے اپنے موجودہ جمہوری مطالبات کے علاوہ سماجی اور معاشی مطالبات کا ایک وسیع پروگرام اپنانا ہو گا۔ گزشتہ سال گارمنٹ ورکرز نے 200 ڈالر ماہانہ اجرت کے لیے ہڑتال کی تھی۔ ایسے مطالبات کو مکمل ٹریڈ یونین حقوق، رہائش اور سب کے لیے روزگار جیسے مطالبات کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا جانا چاہیے۔

ایسا پروگرام ہونا چاہیے کہ جو نہ صرف حسینہ واجد کی حکومت کو، بلکہ اس سرمایہ دارانہ نظام کو بھی موردِ الزام ٹھہرائے جس کی حسینہ واجد کاسہ لیس ہے۔ محنت کشوں کی بڑی تعداد کو جدوجہد کے لیے بیدار کرنے کے لیے، ان سماجی مطالبات کے حصول کے لیے بینکوں اور مالیاتی اداروں کی ضبطی اور سب سے بڑی قومی اور بین الاقوامی سرمایہ دارانہ فرموں کو مزدوروں کے کنٹرول میں قومیانے جیسے جرأت مندانہ اقدامات کو شامل کرنا چاہیے۔

طلبہ کے کچھ مطالبات میں اقوام متحدہ (جن کی گاڑیاں طلبہ پر جبر کرنے کے لیے استعمال ہوئی ہیں) کے کردار کے حوالے سے بات نظر آتی ہے، وہ بین الاقوامی برادری سے مداخلت کی اپیل کر رہے ہیں اور حسینہ پر آئی سی سی میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس لڑائی میں بنگلہ دیش کے محنت کشوں اور طلبہ کے لیے صرف اور صرف ان کے اپنے طبقے کے بھائی، بہنیں اور محنت کشوں اور انقلابی نوجوانوں کی بین الاقوامی تحریک ہی قابلِ اعتماد ہیں۔

غزہ میں جاری سرائیلی قتلِ عام کی حمایت کر کے یا مجرمانہ خاموشی اختیار کر کے ’عالمی برادری‘ نے اپنا حقیقی کردار دکھا دیا ہے۔ آئی سی سی مہینوں تک نتن یاہو پر زبانی جمع خرچ کرتا رہا ہے، جبکہ فلسطینیوں کا مسلسل قتلِ عام کو جاری رکھا گیا۔ دنیا کے محنت کشوں اور انقلابی نوجوانوں سے اپیل کی جانی چاہیے کہ وہ بنگلہ دیش کی تحریک کے ساتھ یکجہتی کے لیے اپنی کوششوں کو دگنا کریں۔ ایسی اپیل سب سے پہلے پاکستان اور بھارت کے محنت کشوں اور طلبہ سے، خاص طور پر مغربی بنگال کے محنت کشوں اور طلبہ سے کی جانی چاہیے۔

طلبہ تحریک سے آنے والا ایک اور مطالبہ یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں سیاسی پارٹیوں سے جڑی تمام سیاسی تنظیموں پر پابندی لگائی جائے۔ یہ مطالبہ عوامی لیگ کے طلبہ ونگ کے غنڈہ گردی جیسے کردار کے ردعمل اور دائیں بازو کی سرمایہ دارانہ نظام کی حامی بی این پی اور اسلام پسندوں سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں پر طلبہ کے عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ تمام سرمایہ دار پارٹیوں کو مسترد کرنا درست ہے۔ بنگلہ دیشی طلبہ اور محنت کشوں کو صرف اپنی طاقت پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ تاہم، سوال تمام پارٹی سیاست پر پابندی کا نہیں ہے، بلکہ محنت کش طبقے کی انقلابی سیاست پر مبنی تنظیم کی تعمیر کا ہے۔ تمام سرمایہ دارانہ سیاست کو مسترد کرنے کے ساتھ ساتھ، سب سے باشعور پرتوں میں مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کے نظریات پر مبنی ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی بنانے کی ضرورت اور بنگلہ دیش کے مظلوموں کی انقلابی روایات کو دوبارہ سے زندہ کرنے پر سنجیدہ بحث ہونی چاہیے۔

Comments are closed.