|رپورٹ:نمائندہ ورکرنامہ، راولاکوٹ|
حکومت آزاد کشمیر اور اپوزیشن نے مل کر ایکٹ 1974ء میں ترمیم کے ذریعے محنت کشوں کی تمام تنظیموں پر پابندی کا کالا قانون نافذ کر دیا ہے۔ گزشتہ دنوں آزادکشمیر اسمبلی نے ایکٹ 1974ء جو کہ آئین کی حیثیت رکھتا ہے میں ترمیم کرتے ہوئے ایک وحشیانہ قانون نافذ کر دیا ہے جس کے مطابق ملازمین کی جملہ تنظیموں کی رجسٹریشن ختم کر دی ہے اور ہرقسم کے احتجاج اور ہڑتالوں کو غیر قانونی دے دیا گیا ہے۔ پاکستان کے آئین 1973ء کی روشنی میں نام نہاد آزاد کشمیر میں انتظامی امور کو چلانے کے لئے ایکٹ1974ء نافذ کیا گیا تھا۔ اس ایکٹ میں بنیادی انسانی و جمہوری حقوق کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے واضح طور پر یہ ضمانت فراہم کی گئی کہ تمام بنیادی و جمہوری حقوق کیخلاف کوئی قانون منظور نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ عرصہ پہلے حکومت اور حزب اختلاف نے مشترکہ طور پر ایکٹ 1974ء کی جمہوری روح کو مسخ کرتے ہوئے تمام محنت کشوں کی تنظیموں اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی۔ یہ فیصلہ اس قدر غیر جمہوری ہے کہ ابتدا میں زیادہ تر ملازمین کی قیادت نے اس کو سنجیدہ نہیں لیا اور انہیں یہ پختہ یقین تھا کہ وہ حکومت کے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کریں گے تو ’’اعلیٰ عدلیہ‘‘ بنیادی جمہوری حقوق کے تحفظ کے لئے اس حکومتی فیصلے کو واپس لینے کے احکامات جاری کر دے گی۔ ملازمین تنظیموں کی قیادت کے کچھ حصے جن میں پیرامیڈیکل/ہیلتھ ایمپلائز یونین کی قیادت سرفہرست ہے نے یہ موقف بھی اختیار کیا کہ تمام ملازم تنظیموں کو حکمرانوں کی عدالتوں پر اتنا اندھا اعتماد نہیں کرنا چاہئے بلکہ محنت کشوں کے اتحاد کی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے احتجاج اور ہڑتال کے ذریعے اس کالے قانون کو ختم کرکروانے کی جدوجہد کرنی چاہئے لیکن ملازمین تنظیموں کی قیادت کی اکثریت نے احتجاج کی بجائے عدالت جانے کا فیصلہ کیا۔ حکومتی فیصلے کے مطابق تمام ملازمین تنظیموں کی رجسٹریشن ختم کرتے ہوئے انہیں نئے قواعد و ضوابط کے تحت رجسٹریشن حاصل کرنے کے احکامات جاری کئے گئے۔
اس حکومتی فیصلے کے پس پردہ اصل محرک دراصل ملازمین تنظیموں سے ہڑتال اور احتجاج کا حق چھینتے ہوئے ان تنظیموں کو محنت کشوں کو کنٹرول میں رکھنے کے ایک آلہ میں بدلنا ہے۔ پہلے ہی موجودہ حکومت بے تحاشا ہڑتالوں اور احتجاجوں کے بعد بھی محنت کشوں کے سنجیدہ مسائل حل نہیں کر رہی تو جب ان تنظیموں کے پاس ہڑتال اور احتجاج کا حق بھی نہیں رہے گا تو یہ تنظیمیں محض انتظامیہ کی گماشتہ بن کر رہ جائیں گی۔ اس تشویش ناک صورت حال کے پیش نظر جب حکومتی فیصلے کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا تو ہائیکورٹ نے محنت کشوں کے جمہوری حقوق کا تحفظ کرنے کی بجائے حکومتی فیصلے کی ناصرف توثیق کر دی بلکہ اس سے بڑھ کر ہائیکورٹ نے ہڑتال کرنے کو توہین عدالت کے مترادف قرار دے دیا۔
اس فیصلے نے عدالتوں کے طبقاتی کردار کو محنت کشوں کی اکثریت کے سامنے ننگا کر دیا ہے جس کے بعد محنت کشوں کی تنظیموں میں ایک بے چینی کی ایک لہر پیدا ہو گئی ہے۔ اس کالے قانون کے خلاف ہر سطح پر جدوجہد کرنے کے حق میں ماحول تیزی سے سازگار ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے کو راولاکوٹ میں پیرامیڈیکل/ہیلتھ ایمپلائز یونین کے منعقدہ کنونشن میں اتفاق رائے سے اس کالے اور مزدور دشمن قانون کے خاتمے کے لئے جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ہیلتھ ایمپلائز کے ضلعی صدر خورشید خان نے ورکرنامہ کے نمائندوں کو بتایا کہ ہیلتھ ایمپلائز کی نہ صرف قیادت بلکہ تمام کارکنان بھی ان عدالتوں کے طبقاتی کردار سے بخوبی آگاہ ہیں اسی لئے ہم نے اس فیصلے کے خلاف عدالت جانے کی مخالفت کی تھی۔ عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد راولاکوٹ کی جملہ تنظیموں نے ایک مشترکہ اجلاس میں PMAکے مرکزی صدر ڈاکٹر واجد علی، جوڈیشل ایمپلائز کے مرکزی صدر آفتاب تبسم اور ہیلتھ ایمپلائز آرگنائزیشن کے سرپرست اعلیٰ سردار خالد محمود کو مشترکہ طور پر تمام ملازم تنظیموں کو اس کالے قانون کیخلاف جدوجہد کے لئے متحد کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے ۔ جس کے بعد اس کالے قانون کے خاتمے کے لئے جدوجہد کرنے کے لئے حتمی لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔