|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان|
بلوچستان ایجوکیشنل ایمپلائز ایکشن کمیٹی نے اعلان کردہ احتجاجی تحریک کے سلسلے میں علامتی بھوک ہڑتالی کیمپوں کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد گذشتہ روز ریلوے ہاکی چوک پر دھرنے کا باقاعدہ آغاز کیا۔ دھرنے میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچستان بھر سے آئے ہوئے ملازمین نے شرکت کی۔ احتجاجی دھرنے میں بلوچستان ایجوکیشنل ایمپلائز ایکشن کمیٹی میں شامل تمام تنظیموں جن میں جی ٹی اے بی، سیسا، بی پی ایل اے، ڈبلیوٹی اے بی، اپیکااور آل بلوچستان کلرکس اینڈ ٹیکنکل ایمپلائز ایسوسی ایشن تعلیمات شامل ہیں۔ ملازمین کی جانب سے صوبائی حکومت کو پیش کیے گئے چارٹر آف ڈیمانڈ درج ذیل مطالبات پر مشتمل ہے:
1۔ دوران تعطیلات کنوینس الاونس کی کٹوتی کا خاتمہ
2۔ ہاؤس ریکوزیشن کی ادائیگی
3۔ سکول اور کالج اساتذہ کی اپ گریڈیشن
4۔ لازمی تعلیمی سروس ایکٹ 2018ء کاخاتمہ
5۔ منسٹریل اسٹاف کی بروقت پروموشن
6۔ پچاس فیصد پروموشن کوٹہ
7۔ کالج اساتذہ کیلئے ہائیرایجوکیشن الاؤنس
8۔ تعلیمی اداروں میں ضلعی اور غیر سرکاری اداروں کی بیجا مداخلت
9۔ محکمہ تعلیم میں سینئر پوسٹوں پر جونیئر افسروں کی تعیناتی کی روک تھام
9۔ تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کی فی الفور فراہمی
10۔ پیکج اساتذہ کی تین سالہ کنڑیکٹ مدت کی مستقلی
10۔ یوٹیلیٹی الاؤنس کی ادائیگی
5 جولائی سے کوئٹہ سمیت صوبہ بھر کے ضلعی ہیڈکوارٹرز میں جاری احتجاجی کیمپ کو نااہل حکمرانوں نے سنجیدہ نہیں لیا۔دیگر وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ الائنس میں شامل تنظیموں کا دو دھڑوں میں تقسیم ہونا ہے اور اس دھڑے بندی سے جہاں تعلیم کے شعبے سے وابستہ ملازمین کو نقصان پہنچا ہے جبکہ دوسری جانب حکمرانوں کو اس تقسیم کا خوب فائدہ پہنچتا ہے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ بلوچستان ایجوکیشنل ایمپلائز ایکشن کمیٹی کے تمام مطالبات کی بھرپور حمایت کرتا ہے، مگر ساتھ ہی بلوچستان ایجوکیشنل ایمپلائز ایکشن کمیٹی کے ملازمین اور بالخصوص قیادت سے یہ اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنے ہی محکمے کے دیگر نمائندہ تنظیموں کے ملازمین کو اپنے ساتھ ملاکر مزدور دوستی کا ثبوت دیں تاکہ تعلیم کے شعبے سے منسلک ملازمین کا ایک ہی مضبوط اور مربوط آواز ہو، جس سے حکمران طبقے کے ایوان لرز اٹھیں۔
مزدور اتحاد زندہ باد!
نااہل صوبائی حکومت مردہ باد!