|تحریر: خالد ناشاد|
چند روز قبل بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ، راغہ سلطانزئی میں غیرت کے نام پر دردناک قتل کا ایک اور واقعہ پیش آیا جب ایک خاتون پر اس کے شوہر صدیق اور دیور ملک انعام نے مل کر اتنا تشدد کیا کہ وہ ایک دن تک درد اورتکلیف سے تڑپنے کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئی۔
یہ واقعہ عورتوں پر جبر کے تسلسل کی ایک نہ ختم ہونے والی کڑی ہے جس میں یہ مظلوم عورت اس طرح کی وحشت و درندگی کا شکار ہوگئی جس کی چیخ و پکار بھی سننے والا کوئی نہیں تھا اور وہ بے کسی کے عالم میں زخموں سے چکناچور تڑپ تڑپ کر اذیت ناک موت کے منہ میں چلی گئی۔
اطلاعات کے مطابق اس کے قاتلوں پر ایف آئی آر تو کٹ چکی ہے لیکن ایف آئی آر درج ہونا ایک بات ہے اور مجرموں کو سزا ملنا اور بات، کیونکہ سننے میں آرہا ہے کہ قاتل قبائلی وخاندانی لحاظ سے سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے لوگ ہیں جو کہ سیاسی طور پر عوامی نیشنل پارٹی اور پی ایس ایف سے منسلک ہیں۔ اس لیے ممکن ہے کہ سیاسی اپروچ استعمال کرتے ہوئے ایف آئی آر کو منسوخ کروانے یا گرفتاری کے بعد ضمانت کروانے کی کامیاب کوشش کی جائے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ واقعہ اور یہ جرم ناقابل معافی ہے لہٰذا اس قتل میں ملوث تمام مجرمان کو گرفتار کر کے عبرتناک سزا دی جائے۔
خواتین جہاں عمومی طور پر بھی اور پھر خاص کر پاکستان جیسے پسماندہ سماجوں میں معاشی مشکلات، غربت، بیماری اور تعلیمی محرومی سے شدید متاثر ہوتی ہیں وہاں ثقافتی پسماندگی اور قبائلی و مذہبی روایات بھی ان کی زندگیوں کو مکمل طور پر جہنم بنا چکی ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل، گھریلو تشدد، جبری شادی، تعلیم اور روزگار میں امتیازی سلوک، جہیز کے نام پر قتل، تیزاب پھینکنا اور عورتوں کی خرید و فروخت وغیرہ تو یہاں معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔
اگر ہم پاکستان میں عورتوں پر ہونے والے جبر اور تشدد کے اعداد و شمار یہاں تفصیل سے بیان کرنا شروع کرتے ہیں تو ایک طویل فہرست سامنے آئے گی جس کے لیے ہمارے پاس یہاں جگہ ناکافی ہوجائیگی باوجود اس کے کہ روزانہ کی بنیاد پر جبر و تشدد، قتل، تیزاب پاشی وغیرہ جیسے واقعات کو رپورٹ ہی نہیں کیا جاتا۔
تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن نے کچھ سال پہلے ایک سروے کیا تھا جس میں انہوں نے افغانستان اور کانگو ریپبلک کو چھوڑ کر پاکستان کو پوری دنیا میں تیسرے نمبر پر عورتوں کے لئے عمومی طور پر خطرناک ملک قرار دیا تھا۔ اگر یہاں روزانہ کی بنیاد پر عورتوں پر ہونے والے ظلم کے واقعات کو دیکھا جائے تو یہ بات بالکل درست ثابت ہوتی ہے۔ صرف 2014ء سے 2016ء تک ایک غیر سرکاری ادارے کی رپورٹ کے مطابق 4734 خواتین کو جنسی ہراسانی اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی عرصے میں میں غیرت کے نام پر عورتوں پر جبر کے 15ہزار کیس رجسٹرڈ ہوئے اور 18سو گھریلو تشدد کے کیس رپورٹ ہوئے اور 55سو کیسز عورتوں کے اغوا کاری کے سامنے آئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عمومی طور پر عورتوں پر تشدد کے کل 51،241 کیسز صرف 2011ء سے 2017ء کے درمیان رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ ان میں دو فیصد سے بھی کم مقدمات میں عدالت کی طرف سے سزا سنائی گئی۔ علاوہ ازیں، ایک سال میں 5 ہزار سے زائد عورتوں کو قتل کردیا جاتا ہے اور بے شمار تشدد کے نتیجے میں اپاہج یا جسم کے مختلف اعضا سے معذور ہوجاتی ہیں۔ ہر سال صرف سندھ کے اندر ایک ہزار سے زیادہ ہندو لڑکیوں کو،جن کی عمر 15 سے 28 سال ہوتی ہے، اغوا کر کے زبردستی مذہب تبدیل کروا کر شادی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ جنسی جرائم اور جبر اور گھریلو تشدد کے لحاظ سے بھی پاکستان دنیا میں چھٹے نمبر پر خطرناک ترین ملک ہے جہاں اس قسم کے تشدد کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ 2019 ء میں لاہور کی شازیہ نامی ایک خاتون کے ساتھ گھریلو تشدد کا المناک واقعہ قابل ذکر ہے۔ اس کے شوہر کو اس پر شک ہوا کہ اس کی بیوی اس کے ساتھ خوش نہیں ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ کسی اور کے ساتھ تعلق قائم کر چکی ہو۔ اس شک کی بنیاد پر ایک دن اس کو گھر میں بند کر کے مارنا پیٹنا شروع کیا اور پوچھنے لگا کہ وہ اسے بتائے کہ کس کے ساتھ تعلقات قائم کی ہیں! عورت چیختی چلاتی رہی اور انکار کرتی رہی لیکن کوئی مدد کے لئے نہ پہنچ سکا۔ شوہر نے اس کو قتل کرنے کی دھمکی دی اور آخر میں چاقو نکال کر اس کی ناک کاٹ کر اپنی نام نہاد غیرت اور ضمیر کو تسکین فراہم کرنے اور اپنے آپ کو ’مرد‘ ثابت کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ ان تمام واقعات کا آپس میں تعلق ہوتا ہے اور ان کی بنیاد ایک ہی ہے اور وہ سرمایہ داری، ذاتی ملکیت، پدرشاہی اور طبقاتی نظام ہے۔ پچھلے دنوں جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا کے ایک گاؤں میں تین کم عمر لڑکیوں کو غیرت کے نام پر گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح، بلوچستان میں ہی اسحاق بلوچ جو کہ ایک لمبے عرصے سے پاکستانی فورسز کی طرف سے لاپتہ ہے، اس کی بہن مسلسل اپنے بھائی کی بازیابی کیلئے آواز اٹھاتی رہی اور بالاخر تھک ہار کر اس نے خودکشی کر لی اور اس طرح ایک مظلوم عورت اس کٹھن زندگی سے ہار گئی اور یہ صرف اس کی نہیں بلکہ ہزاروں بلوچ عورتوں کی کہانی ہے۔
اس کے علاوہ کم عمری میں اور جبری شادی کروانے کا رجحان یہاں عام طور پر پایا جاتا ہے۔ پاکستان سروے برائے آبادی و صحت (2012-13ء) کے مطابق شادی شدہ خواتین میں سے 47.54 فیصد کی شادی 18سال سے کم عمر میں کر دی جاتی ہے۔
اسی طرح، جنسی تفریق کے لحاظ سے یو این ڈی پی (2010) کی ایک پورٹ کے مطابق پاکستان دنیا میں 146 ممالک میں سے 120ویں نمبر پر ہے۔ اسکول سے باہر بچوں میں سے بھی اکثریت لڑکیوں کی ہے لیکن پاکستان صرف جرائم اور تشدد میں نہیں بلکہ ہر سماجی اعشاریے میں گراوٹ کے حوالے سے دنیا کے بیشتر ممالک میں سب سے آگے ہے۔ صحت کے نظام کے تباہ حالی و بربادی کے لحاظ سے دنیا میں سوڈان اور افغانستان کے بعد پاکستان کا نمبر آتا ہے اور اس بربادی اور تباہی کا خمیازہ بھی زیادہ تر محنت کش طبقے اور خاص کراس طبقے کے عورتوں کو بھگتنا پڑتا ہے جو کہ اس حقیقت سے ظاہر ہے کہ خواتین کی دوران زچگی اموات کے لحاظ سے بھی پاکستان دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے اور جنوبی ایشیا میں دوران زچگی شرحِ اموات کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہے۔
ان حقائق کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ اعداد و شمار اکٹھے کرنے والے اداروں کی رسائی محدود ہوتی ہے لہٰذا یہ اعداد و شمار ایک محدود پیمانے پر ان واقعات کو سامنے لا سکتے ہیں کیوں کہ سماج کے ایک محدود حصے تک ان کی رسائی ہوتی ہے جبکہ حقیقت اس سے کئی گناہ تلخ ہے۔ ہزاروں تشدد، ریپ اور ہراسانی کے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے۔ گھریلو تشدد کے واقعات تو اس وقت تک چار دیواری سے بھی باہر نہیں نکل پاتے جب تک ان میں کوئی بہت غیر معمولی واقعہ یا قتل نہ ہو جائے، اس لیے 95 فیصد سے بھی زیادہ گھریلو تشدد کے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوپاتے اور پھر تشدد کی اکثر ایسی شکلیں ہیں جن کے خلاف پاکستان میں کوئی قانون سازی موجود ہی نہیں یا پھر تشدد کی بہت سی اقسام کو آئین میں جرم تصور ہی نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اس کے لیے کوئی سزا موجود ہے۔
اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں سماج کے اندر عورتوں پر ظلم اور تشدد کے اکا دکا واقعات جو سطح پر آجاتے ہیں اتنے وحشت ناک ہوتے ہیں تو عمومی طور پر ظاہری سطح کے نیچے عورتیں موجودہ سماج میں کس طرح ناقابل برداشت مظالم اور تاریکیوں میں اپنی زندگی گزار رہی ہوں گی۔
سرمایہ دارانہ نظام کے بحران اور عمومی طور پر سماجی زوال کے نتیجے میں عورتوں کے اوپر جبر بڑھ جاتا ہے اور پسماندہ ممالک میں پھر اس جبر کی انتہائی وحشت ناک شکلیں سامنے آتی ہیں۔ عمومی طور پر محنت کش طبقے اور مظلوم قومیتوں کی طرح عورتوں پر جبر کی جڑیں بھی سرمایہ دارانہ نظام میں پیوست ہیں اور سرمایہ داری دراصل ذاتی ملکیت پر مبنی طبقاتی سماج کی موجودہ شکل ہے، اس سے پہلے جاگیرداری اور غلام داری رہی ہیں۔ انسانی سماج ہمیشہ سے طبقات میں تقسیم نہیں تھا لیکن غلام داری وہ پہلا سماجی نظام ابھر کر سامنے آیا جو طبقاتی تقسیم پر مبنی تھا۔ اور اس طبقاتی تقسیم کا آغاز دراصل زمین اور ذرائع زندگی کی ذاتی ملکیت بننے کے ساتھ ہوا تھا اور یہی ذاتی ملکیت اس تقسیم کی اصل بنیاد تھی کہ اب زمینیں اور ذرائع زندگی چند لوگوں کے ہاتھ میں آئے جس کے ذریعے طاقتور یعنی ملکیت یافتہ ایک طبقہ ابھرا جس نے ملکیت سے محروم لوگوں کو غلام بنانا شروع کیا۔ اس طرح طبقاتی سماج کے بنیادی خدوخال سامنے آئے جس پرآگے جاکر ریاست اور دیگر ادارے بنے۔
تاریخ کے اس مرحلے پر ہی عورت کو بھی جہاں ایک طرف پیداواری عمل سے بے دخل کیا گیا وہیں اس کو مرد کی ملکیت بنایا گیا جو اس کے لئے بچے پیدا کرے اور گھر کے کام کاج سنبھالے جب کہ ملکیت کا مالک مرد تمام ذرائع زندگی کا مالک بن گیا۔ اس سے پہلے مدرسری نظام تھا جس میں عورت کی حیثیت گھر میں مرد کے برابر تھی۔ اس وقت چونکہ مرد کے پاسذاتی ملکیت، زمینیں، مویشی اور غلام نہیں تھے، لہٰذا اسے ہر روز خوراک اور شکار وغیرہ کی تلاش کرنی پڑتی تھی جبکہ عورت گھر کے اندر تمام انتظام اور فیصلہ سازی کا اختیار رکھتی تھی لیکن جب ایک بار مرد کے قبضے میں مندرجہ بالا زائد پیداوار آئی تو اس نے اس پیداوار کی شعوری تقسیم کی بجائے اس کو اپنی طاقت بنانا، مزید مال جمع کرنے کیلئے غلام رکھنا اور عورتوں کو اس سے محروم کرنا شروع کیا جس کو فریڈرک اینگلز نے عورت کی تاریخی شکست قرار دیا تھا۔ یہاں سے پہلی بار غلامی اور طبقاتی تقسیم کا آغاز ہوا اور اس کے بعد سے آج تک کی سماجی ارتقا کو ہم کمیونسٹ مینی فسٹو کے مندرجہ ذیل الفاظ میں سمیٹ سکتے ہیں، کہ؛
”آج تک کی تمام سماجوں کی تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے۔ آزاد اورغلام، پتریشین اور پلیبین، جاگیردار اور زرعی غلام، استاد اور کاریگر، غرض یہ کہ ظالم اور مظلوم برابر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا رہے، کبھی کھلے بندوں اور کبھی پس پردہ ہمیشہ ایک دوسرے سے لڑتے رہے۔ اور ہر بار اس لڑائی کا انجام یہ ہوا کہ یا تو نئے سرے سے سماج کی انقلابی تعمیر ہوئی یا لڑنے والے طبقے ایک ساتھ تباہ ہو گئے“۔
اسی طبقاتی کشمکش کے نتیجے میں ہزاروں سال کی غلامی سے تنگ آکر غلاموں نے اسے شکست فاش دی اور غلامی کے کھنڈرات پر جاگیرداری نظام قائم ہوا جو کہ طبقاتی تقسیم اور ملکیت کی نئی شکل تھی جس میں غلاموں کو کھیتی کے زمینوں پر کچھ مراعات حاصل ہوئی لیکن جب جاگیر داری انسانی سماج کی اکثریت کی ضروریات زندگی پوری کرنے اور سماج کو آگے لے جانے میں ناکام ہونا شروع ہوئی تو پھر کسان غلاموں اور محروم ملکیت لوگوں نے اسکے خلاف علم بلند کرتے ہوئے ایک نئے اور جدید نظام سرمایہ داری کی طرف سفر کیا۔ سرمایہ داری ذاتی ملکیت اور طبقاتی تقسیم کی جدید شکل ہے اور اس کو بمشکل تین سے چار سو سال ہوئے کہ یہ نظام اپنے آغاز سے آج تک ایک نہ دیکھے گئے تاریخی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔
سرمایہ داری، جہاں ایک طرف معاشی کساد بازاری اور بحران بشمول کرونا وبا کا شکار ہوکر اپنی بنیادوں سے لڑکھڑا رہا ہے وہیں اس کا عمومی تاریخی زوال شروع ہو چکا ہے۔ اس مشکل صورتحال سے نکلنے کیلئے عالمی حکمران طبقے کے پاس کوئی حربہ نہیں بچا جس کو ماضی کے معاشی بحرانات میں آزمایا نہ گیا ہو اور آج وہ سارے حربے ناقابل عمل اور بے سود ہیں۔
ایسے تاریخی بحران میں جہاں ایک پرانی دنیا اپنی بنیادوں سے گر رہی ہو اور ایک نئی دنیا کی بنیادیں ڈھلنے کیلئے حالات بن رہے ہوں وہاں حکمران طبقات کی طرف سے جبر و تشدد بڑھ جاتا ہے، سماج میں ایک افرا تفری بن جاتی ہے، سماجی جبر و تشدد، عورتوں، مظلوم قومیتوں اور عمومی طور پر محنت کش طبقے کے اوپر مظالم بڑھ جاتے ہیں۔ غربت، بیماری، بھوک و محرومی میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن ان تمام حالات کا محنت کش طبقے کے شعور پرناقابل بیان اثرات پڑتے ہیں اور جہاں عمومی طور پر کچھ افراتفری اور جرائم میں اضافہ ہوتا ہے وہاں اس پورے نظام کے خلاف ایک طوفانی غصہ بھی پک رہاہوتا ہے اور اس غصے کا اظہار امریکہ میں ہمیں واضح نظر آتا ہے کہ امریکی عوام پیش قدمی کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے مرکز کو اپنی بنیادوں سے ہلا رہے ہیں اور یہ ایسا سلسلہ ہے جو اب پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔
یہی صورتحال انے والے وقتوں میں پوری دنیا کے اندر رونما ہونے کی طرف جائیگی۔ یہ عہد انقلابوں اور رد انقلابوں کا عہد ہے۔ لیکن امریکہ سے لیکر لبنان، عراق، ایران، شام، انڈیا پاکستان غرض کہ دنیا کے ہر ملک میں تحریکیں بنے گی لیکن انقلابی قیادتوں کا سوال تاریخی اہمیت اختیار کرتے ہوئے تحریکوں کے سامنے کھڑا ہے۔ ان تحریکوں کی قیادت کرتے ہوئے انہیں منظم کرنے اور ہر ملک میں محنت کش طبقے کو اقتدار تک پہنچانے کیلئے اگر انقلابی مارکسی قوتیں موجود ہوگی تو اس کرۂ ارض سے اس گلے سڑے سرمایہ دارنہ نظام کو اکھاڑ کر پھینکا جا سکتا ہے جو ہر قسم کے جبر وظلم، محرومی و افلاس، غربت بے روزگاری، عوتوں پر جبر، قومی جبر اور جنگوں و جرائم کی بنیاد ہے اور اسکی جگہ نجی ملکیت اور طبقات سے پاک سماج کو تعمیر کیا جا سکتا ہے جہاں کوئی انسان دوسرے انسان پر، کوئی قوم دوسرے قوم پر، مرد عورت پر جبر نہ کر سکے۔
یہ نظام بے شک سوشلزم ہوگا اور یہی انسانیت کا مستقبل ہے۔