|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ|
سیندک، جو کہ ضلع چاغی صوبہ بلوچستان کا ایک دیہاتی قصبہ ہے، میں سونے، تانبے اور لوہے کے بیش بہا ذخائر موجود ہیں، یہاں پر ان معدنی ذخائر کی دریافت 1970ء میں ایک چینی انجینئرنگ فرم کے ساتھ مشترکہ تلاش کے بعد میں سامنے آئی تھی، مگر اس پر کام کا باقاعدہ آغاز سیندک ریسورسیز ڈیولپمنٹ کارپوریشن(S.R.D.C) نے کیا۔ 1992ء میں S.R.D.C کا نام تبدیل کرکے سیندک میٹلز لمیٹڈ(S.M.L) رکھا گیا۔
چینی کمپنی سے پہلے محنت کشوں کے حالات
سیندک میٹلز لمیٹڈ نے ملازمین کو ایک سال ٹریننگ دینے کے بعد 1993ء میں تانبا اور سونا نکالنے کے عمل شروع کیا۔ اس وقت جو ملازمین سیندک پروجیکٹ میں کام کر رہے تھے، وہ وفاقی ملازم شمار ہوتے تھے، وفاق کے سرکاری ملازمین کی طرح ان کی تنخواہیں سکیل کی بنیاد پر دی جاتی تھیں اور دیگر تمام مراعات بشمول الاؤنسز، جمعے کی چھٹی، بیماری کی چھٹی، عیدین کی چھٹی، سفری الاؤنس، ہاؤس رینٹ الاؤنس بھی دیے جاتے تھے۔ بھرتیوں کے لیے باقاعدہ اخباروں میں اشتہارات چھپتے تھے۔ سکیل 2 سے لے کر 14 تک کی بھرتیاں مطلوبہ قابلیت کی بنا پر کی جاتی تھیں۔ پروجیکٹ میں کچھ چینی انجینئرز بھی کام کرتے تھے، جو پلانٹ میں فنی اور تکنیکی خرابی دور کرنے کے لیئے پاکستانی انجینئروں کے ساتھ مل کر کام کرتے تھے۔ دو سال کام چلنے کے بعد مقامی انتظامیہ اور چینی انجینئرز کی ملی بھگت سے S.R.D.C کا دیوالیہ نکل گیا۔ S.R.D.C کے دیوالیہ کے بعد ملازمین نے پنشن اور دیگر فنڈز کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تو عدالت نے سیندک سے نکالے جانے والے تمام ملازمین کو قانون کے تحت سکیل کی بنیاد پر پنشن اور دیگر مراعات کا حقدار ٹھہرایا۔ جس میں کچھ رقم یونین کے اشرافیہ نے کیس لڑنے کے لیئے غبن کی اور کچھ رقم ملازمین کو دی گئی۔
سیندک پروجیکٹ میں محنت کشوں کا استحصال
2002ء کے معاہدے کے تحت سیندک پروجیکٹ چینی کمپنی MCC کو پہلے 10 سال کے لیے لیز پر دے دیا گیا جس میں پانچ سال کا اضافہ کرکے 2017ء تک کر دیا گیا جبکہ 2017ء میں مزید پانچ سال کی توسیع کی گئی۔ لیز پر دیتے وقت ملازمین کے لیے جو شرائط طے کی گئیں وہ آج تک ایک معمہ ہیں۔ صرف اتنا واضح ہے کہ پروجیکٹ کی آمدنی سے بلوچستان کو دو فیصد دیا جائے گا۔ آج اسی 2فیصد سے 1فیصد افسران کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ 2003ء میں چینی کمپنی MCC نے نئے سرے سے تانبے اور سونے کی صفائی کا کام شروع کیا۔ اس وقت 100 ڈالر کے حساب سے تنخواہ دی جاتی تھی۔ مگر ان تنخواہوں میں ایک طویل وقت تک کوئی اضافہ نہیں کیا گیا جبکہ افراط زر میں تیز ترین اضافہ دیکھنے میں آیا۔ آج بھی بیشتر ملازمین کی تنخواہیں 15 ہزار روپے سے بھی کم ہیں جوکہ سراسر ظلم اور حکومتی اعلان کردہ کم از کم اجرت سے بھی کم ہے۔
2007ء میں پہلی دفعہ سیندک پروجیکٹ کے محنت کشوں نے تنخواہوں میں اضافہ کرنے کے لئے احتجاج کیا، کیونکہ مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کی تنخواہیں نا کافی تھیں۔ اس وقت موجودہ سینٹ چیئرمین کے بھائی رازق سنجرانی کو سیندک میٹلز لمیٹڈ کا منیجنگ ڈائریکٹر لگایا گیا۔ مذکورہ MD نے جتنا ظلم اور نا انصافی ملازمین کے ساتھ کی، کسی اور منیجنگ ڈائریکٹر کے دور میں کبھی نہیں ہو ئی۔ اسی کے دور میں ملازمین کے تمام بونس ختم کیے گئے، اضافی چھٹیاں بند کردی گئیں، تنخواہوں میں اضافے روک دیئے گئے۔ اگر کوئی ملازم دس، 12 سال کی مدت میں کسی مجبوری یا بیماری کی وجہ سے ملازمت چھوڑ جاتا وہ کسی بھی فنڈ کا حقدار نہیں کہلاتا۔ SML کی مزدور کش پالیسی کیوجہ سے ملازمین ظلم کی چکی میں پس رہے تھے۔
سیندک کے ملازمین جب بھی اپنی تنخواہوں میں اضافے کی بات کرتے ہیں تو کمپنی کے حکامِ بالا انہیں ڈرا دھمکا کے یہی کہتے ہیں کہ کام کرنا ہے کام کرو ورنہ ملازمت چھوڑ دو، آپ کی جگہ پر کام کرنے کے لیے بہت سے آدمی بیروزگار پڑے ہوئے ہیں۔ اگر ملازم ملازمت کو چھوڑ بھی دے تو یہ اس کی جگہ انتہائی کم تنخواہ پر اپنے حمایت یافتہ افراد کو بھرتی کرتے ہیں اور ملازمت چھوڑنے والے ملازم کو کوئی فنڈ نہیں دیتے ہیں۔ اگر کوئی ملازم افسروں کے خلاف آواز بلند کرے تو ا س کومختلف ہتھکنڈوں سے خاموش کروا دیا جاتا ہے۔ ترقی مخالف گروپوں کے ساتھ وابستگی کے الزامات بھی لگاتے ہیں۔ ملازمین کی تنخواہ کے بارے میں کوئی قانون وضع نہیں کہ مہنگائی کے تناسب سے ملازمین کو کتنی تنخواہ دی جائے۔ ملازمین سے صرف اپنا وقتی کام نکالتے ہیں، اگر دوران کام کوئی ملازم فوت بھی ہو جاتا ہے تو کمپنی کے کچھ ذمہ دار ان کے گھر تعزیت کرنے کیساتھ کچھ رقم دے جاتے ہیں۔
میس کنٹریکٹر کھانے پینے کے اخراجات کی مد میں ماہانہ 10,000 فی ملازم وصول کرتے ہیں۔ مگر باوجود اس کے محنت کشوں کو غیر معیاری کھانا اور مضر صحت پانی فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے محنت کش اکثر اوقات بیمار رہتے ہیں۔ چینی سیندک پروجیکٹ میں کام کرنے والے مزدوروں کے بجائے افسروں کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ ملازمین کی عزت نفس کو ہتک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لیبر قوانین کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔
محنت کشوں کی جدوجہد
یوں تو اس پروجیکٹ پر کام کرنے والے محنت کش پچھلے بیس سالوں سے ظلم اور استحصال کیخلاف برسرپیکار ہے، جس کا پہلا اظہار محنت کشوں نے 2007ء میں تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے احتجاج کیا تھا اور جس میں وہ کامیاب رہے تھے۔ 19 جون 2015ء کو سیندک پراجیکٹ کے ملازمین نے مسلسل غیر معیاری خوراک کی فراہمی کے خلاف ہڑتال کرکے میس کا کھانا کھانے سے انکار کر دیا تاہم سینکڑوں ملازمین نے مسلسل دو روز کی ہڑتال کے بعد چینی افسران سے مذاکرات کامیاب ہونے پر ہڑتال ختم کر دی تھی۔
28 اپریل 2019ء کو ملازمین نے اپنے چار مطالبات کے حق میں احتجاج کیا تھا جن میں تنخواہوں میں اضافہ، ہیلتھ الاؤنس، ڈیلی ویجز کا کنٹریکٹ، اور شش ماہی بونس کی بحالی تھی جس میں ملازمین کی کامیاب ہڑتال کے نتیجے میں کمپنی نے چاروں مطالبات تسلیم کیے۔ جس میں سب سے اہم تنخواہوں میں 25 ڈالر کا اضافہ شامل تھا۔
سیندک پروجیکٹ اور چاغی کے حالات
بلوچستان پاکستان میں پسماندگی کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے، جبکہ ضلع چاغی ملک بھر کے محروم ترین ضلعوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ جبکہ رقبے کے لحاظ سے صوبے کا سب سے بڑا ضلع ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 70فیصد لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں، جبکہ صرف 10فیصد سے 15فیصد تک لڑکے میٹرک تک تعلیم حاصل کرپاتے ہیں۔ 30 طلبہ پر ایک استاد میسر ہوتا ہے۔ 65فیصد سے زائد لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، اور جسے صاف پانی تصور کیا جاتا ہے وہ بھی کنووں سے نکالا جاتا ہے جس میں ریت کی مقدار کافی ہوتا ہے جس کی وجہ سے مختلف بیماریاں پھیل جاتی ہیں۔ چاغی میں 38فیصد لوگ آج کے جدید دور میں بھی بجلی کی سہولت سے محروم ہیں۔ غربت کے لحاظ سے ضلع چاغی پاکستان کے اولین ضلعوں میں شمار ہوتا ہے۔ صحت کے حوالے سے یہ صورتحال ہے کہ پورے ضلع میں ایک ہسپتال اور 10 ڈاکٹرز ہیں یعنی آبادی کے لحاظ سے 22,600 افراد کے لیے ایک ڈاکٹر میسر ہے۔ اس کے علاوہ ضلع بھر میں کینسر کے بیشمار مریض ہیں جن کی یا تو تشخیص نہیں ہوتی یا پھر علاج کے لیے درکار سہولیات میسر نہیں۔
روزگار کے حوالے سے مصدقہ رپورٹ نہیں ہے مگر اتنا واضح ہے کہ چاغی ضلع کے نوجوان اس وقت ایران سے تیل کے سمگلنگ کے کاروبار میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں کیونکہ چاغی سمیت پورے صوبے کے نوجوانوں کے لیے تیل کی سمگلنگ کا پیشہ ایسا ہے کہ جس کے لیے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے یاسفارش کروانے کی ضرورت نہیں ہے، مگر تیل کے کاروبار کا یہ پیشہ انتہائی خطرناک ہے جس میں اب تک کئی نوجوان مختلف حادثات میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
اس تمام تر صورتحال کے پیش نظر ضلع چاغی کے غریب عوام انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں، مگر ان نااہل حکمرانوں کے پاس مظلوم و محکوم عوام کے دکھوں کا مداوا نہیں ہے۔ صرف ایک غیر طبقاتی سماج چاغی، بلوچستان سمیت پورے ملک کے غریب عوام کو اس زلت امیز زندگی سے چھٹکارا دے سکتا ہے۔