|تحریر: زلمی پاسون|
27 جون کو بلوچستان ہائیکورٹ نے یونینز کے آپسی آئینی اختیارات کے کیس کے سلسلے میں ایک متنازعہ فیصلہ سُناتے ہوئے بلوچستان بھر کی 62 ٹریڈ یونینز پر پابندی عائد کردی اور ان 62ٹریڈ یونینز کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کے لیے رجسٹرار کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ان تمام ٹریڈ یونینز کی رجسٹریشن منسوخ کریں اور یہ ریمارکس دیے کہ سرکاری ملازم کو اپنی پیشہ ورانہ خدمات پر فوکس کرنا چاہیے بجائے کہ وہ ’غیر ضروری‘ سرگرمیوں میں حصہ لیں۔ اس کے بعد حکومت بلوچستان نے صوبے بھر کے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں ہائیکورٹ کی طرف سے لگنے والی پابندی کے حوالے سے نہ صرف اشتہار چلائے بلکہ اُن اشتہارات میں ان ٹریڈ یونینز سے منسلک محنت کشوں کو دھمکیاں دی گئیں تھی کہ اگر کوئی مزدور یا ملازم اپنی پیشہ ورانہ خدمات سے ہٹ کر مزدور سیاست میں ملوث پایا گیا تو اُن کیخلاف بیڈا ایکٹ 2011ء کے تحت کاروائی عمل میں لائی جائیگی، جس میں ملازمت سے برخاست کرنا تک شامل ہے۔
دوسری طرف بلوچستان حکومت کے محکمہ تعلیم نے شعبہ ہٰذا سے منسلک تمام ملازمین کے لیے لازمی سروس ایکٹ کا نفاذ کرنا چاہا، تو رواں سال کے اوائل میں محکمہ تعلیم کے تمام ملازمین نے بلوچستان اسمبلی کے سامنے احتجاج کیا، جس میں اُن تمام ملازمین کو اس سلسلے میں کمیٹی بنانے کا وعدہ کیا گیا، مگر وہ وعدہ حکمرانوں کے دیگر جھوٹے وعدوں کی طرح اب تک وفا نہیں ہوا۔ جولائی کے مہینے میں محکمہ تعلیم کی چند ایسوسی ایشنز نے احتجاج کیا جس میں اُنہوں نے اپنے دیگر مطالبات کیساتھ ساتھ لازمی سروس ایکٹ کے نفاذ کیخلاف بھی احتجاج کیا۔ احتجاج کے نتیجے میں چند ایک مطالبات مان لیے گئے، مگر لازمی سروس ایکٹ کے حوالے سے پھر طفل تسلیاں دی گئیں۔ مگر بلوچستان اسمبلی سے 10 اگست2019ء سے منظوری اور گورنر بلوچستان نے 19 اگست2109ء کو اس ایکٹ کی توثیق کرتے ہوئے بلوچستان سول کورٹ (ترمیمی) ایکٹ 2019ء نافذ العمل کردیا۔یوں اب یہ ایک قانون کی حیثیت اختیار کرگیا ہے اور نتیجتاً محکمہ تعلیم کے محنت کشوں سے ہڑتال اور احتجاج کا حق چھین لیا گیا۔
بلوچستان میں مزدور طبقہ انتہائی ناگفتہ بہ صورتحال سے دوچار ہے، جس میں مہنگائی، نجکاری، صحتِ عامہ کے مسائل، مہنگی تعلیم اور بیروزگاری سرفہرست ہیں، ان تمام مسائل اور ایشوزکو مدِ نظر رکھتے ہوئے بلوچستان کے مزدور طبقے نے اپنے حالات بہتر کرنے کے لیے عملی میدان میں جدوجہد کو حل سمجھا ہے، جوکہ ایک قابلِ ستائش اقدام ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں بلوچستان کے مزدور طبقے نے مختلف احتجاجی تحریکوں، مظاہروں اور دھرنوں کی صورت میں کوئٹہ پریس کلب کو پاکستان کا مصروف ترین پریس کلب بنا دیا ہے، گوکہ ان احتجاجی تحریکوں اور مظاہروں میں سے چند ایک ہی کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں، جوکہ ایک الگ بحث ہے، مگر مجموعی طور پر عالمی و ملکی معاشی صورتحال کا ادراک اور اُس کی وجہ سے پڑنے والے استحصالی اثرات کیخلاف ملک بھر کے محنت کش طبقے کی طرح بلوچستان کے محنت کش صف ِ اول میں کھڑے ہوتے ہیں۔ اگر صرف 2016ء سے بلوچستان میں محنت کش طبقے کے جدوجہد پر نظر دوڑائی جائے تو اس کے لیے یہ تحریر بہت چھوٹی ثابت ہوگی، صوبے بھر میں ایسا کوئی محکمہ نہیں ہے جس کے محنت کشوں نے درپیش مسائل کیخلاف احتجاج نہ کیا ہو۔ ان احتجاجوں پر اگر سرسری نظر ڈالی جائے تو 2016ء اور آپس کے بعد میں صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ینگ ڈاکٹرز، پیرا میڈیکس، نرسزاور فارماسسٹس کا احتجاج قابلِ ذکر ہے، جبکہ 2017ء کے آخر میں پی ڈبلیو ڈی کا 189 دن کا طویل احتجاجی دھرنا و مظاہرے شامل ہیں جس میں پی ڈبلیو ڈی کی نڈر قیادت نے اپنے اکثر مطالبات منوا لیے۔ جبکہ اسی سال پیرامیڈیکس کا 40 دنوں پر مشتمل احتجاجی دھرنا اہمیت کا حامل ہے۔ جبکہ دیگر محکموں جن میں بی ڈی اے، کیو ڈی اے، محکمہ تعلیم، صوبائی سول سیکرٹریٹ، پی پی ایچ آئی، واسا، ایریگیشن، ایگریکلچر، میونسپل کارپوریشن، اور سمال انڈسٹریز کے مزدوروں کے احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالی کیمپ نمایا ں ہیں۔ اس کے علاوہ بیروزگاری کیخلاف بیروزگار انجینئرز، فارماسسٹس، ویٹرنری ڈاکٹرز اور دیگر غیر پیشہ ورانہ گریجویٹس کے احتجاج کسی بھی صورت میں نظرانداز نہیں کیے جاسکتے، اس وقت بھی کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بیروزگار فارماسسٹس روزگار کی فراہمی کے لیے گزشتہ تین مہینوں سے بھوک ہڑتالی کیمپ لگا کر احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں جو کہ 4 ستمبر کو ریلوے ہاکی چوک پر دھرنا دیں گے۔ اس کے علاوہ مہنگائی، بیروزگاری، نجکاری، لاعلاجی، تباہ حال انفراسٹرکچر کیخلاف عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے جس کا بہرحال اظہار کسی صورت میں ہوسکتا ہے۔
اس تحریر کا مقصد بلوچستان ہائی کورٹ کی جانب سے 62ٹریڈ یونینز پر پابندی اور بلوچستان حکومت کی جانب سے محکمہ تعلیم میں لازمی سروس ایکٹ کے نفاذ کے خلاف آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے بحث کو ایک حتمی نتیجے تک پہنچانا ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے ان پابندیوں کو نہ صرف بلوچستان کی نکتہ نظر سے دیکھنا ہے بلکہ اس کو ملکی و عالمی معاشی صورتحال سے جوڑنے کی ناگزیریت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت دنیا 2008ء کے عالمی معاشی بحران کے نتیجے میں اب تک ہچکولے کھارہی ہے، اور آنے والا معاشی بحران نہ صرف 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران سے گہرا ہوگا بلکہ بورژوا ماہرین اقتصادیات کے مطابق 2008ء کا عالمی معاشی بحران اس کے سامنے ایک پکنک ثابت ہوگا۔ اب جب پوری دنیا معاشی بحران کا شکار ہے تو پاکستان اور پھر بلوچستان کسی دوسرے سیارے پر آباد ایک ملک یا صوبہ نہیں ہے بلکہ اسی ایک سیارے پر رہتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے بلوچستان میں محنت کش طبقے کے جدوجہد پر ایک سرسری نگاہ ڈالی کہ ملک کی معاشی صورتحال کے پیشِ نظر حکمران طبقات جو بھی پالیسیاں یا حکمت عملی تیار کرتے ہیں، اُن سب کا بلا واسطہ یا بالواسطہ محنت کش عوام سے ہی تعلق ہوتا ہے، ان استحصالی پالیسیوں کیوجہ سے محنت کش طبقے پر پڑنے والی اثرات کیخلاف جب محنت کش طبقہ حرکت میں آجاتا ہے تو یہ نااہل، رجعتی، سامراجی ٹکڑوں پر پلنے والے غلام حکمران اپنی ریاستی مشینری کے ذریعے مختلف حیلوں،بہانوں اور اکثر اوقات طاقت کے ذریعے محنت کش طبقے کے اُبھرتی ہوئی آواز کو دبانے کی کوششیں شروع کردیتے ہیں، جن میں ایسی نام نہاد پابندیاں اکثر اوقات لاگو کردی جاتی ہیں۔
اس وقت ”نئے پاکستان“ کو بنے ہوئے ایک سال پورا ہوچکا ہے، مگر اس نئے پاکستان میں جتنے بھی اقدامات کیے گئے ہیں وہ سب کے سب محنت کش عوام پر معاشی دہشت گردی کے مترادف ہیں۔ واضح رہے کہ نئے پاکستان کا پہلا بجٹ عالمی سامراجی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی زیرِ نگرانی پیش کیا گیا جس میں 6 ارب ڈالر کے قرضے کے بدلے میں محنت کش عوام پر ٹیکسز، بیروزگاری، مہنگی تعلیم، مہنگا علاج، نجکاری کے علاوہ دیگر مزدور کش پالیسیاں مرتب کی گئیں، جس کی وجہ سے مشیرِ خزانہ کے بقول اب تک 10 لاکھ لوگ بیروزگار ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی جاری کردہ 72 صفحات پر مشتمل رپورٹ دل دہلا دینے والی معاشی حقائق سامنے لاتی ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں ملک بھر میں محنت کش طبقہ مختلف شکلوں میں برسرِ احتجاج ہے، جوکہ ہر جگہ کے حالات کیمطابق اپنی ابتدائی پوزیشن میں ہے،مگر کارپوریٹ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں اتنی جرات نہیں کہ وہ ان تمام تر احتجاجوں کو کوریج دے سکے، گوکہ اب سوشل میڈیا حکمرانوں کے کنٹرول شدہ میڈیا کا متبادل ہے، مگر یہاں پر بھی سائبر کرائن کا کالا قانون نافذالعمل ہے، جس میں حکمران طبقات کیخلاف بات کرنے پر قانون کے زیرِ عتاب آنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔
ان حالات میں اگر ایک طرف حکمران طبقات کی عیاشیوں کیوجہ سے محنت کش طبقہ کسمپرسی کی حالت میں ہے تو دوسری طرف محنت کش طبقے کی بیشتر قیادت، جو کہ ایک اشرافیہ کی شکل اختیار کرچکی ہے، مالکان اور ریاستی اشرافیہ کی دلالی کرتے نظر آتے ہیں اور محنت کش طبقے کو درپیش مسائل اور ان کے خلاف جدوجہد سے کوسوں دور بھاگتے ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں مزدور سیاست زوال کا شکار ہوگئی۔ اس دوران مختلف عالمی و ملکی این جی اوز کی جانب سے بنائی گئی نام نہاد مزدور تنظیموں کو کھل کھیلنے کا موقع ملا جنہوں نے مزدور طبقے کے شعور کو کند کرنے میں عمل انگیز کاکام کیا۔ رہی سہی کسر پاکٹ یونینز نے پوری کردی جوکہ حکمران طبقات کے مفادات کی نگہبانی کرتی ہیں۔ اس عمل میں مزدور لیڈران نے خوب مال بنایا اور کئی تو ارب پتی بن گئے۔ علاوہ ازیں مزدور سیاست میں ٹریڈ یونینز کو اپنی جاگیر سمجھتے ہوئے سیاسی پارٹیوں کی طرح موروثی سیاست کی بنیادیں بنانے میں کافی حد تک کامیاب ہوگئے۔ مگر نئے عہد کے پیشِ نظر عوامی غم و غصے کے سامنے یہ نام نہاد ٹریڈ یونین اشرافیہ ریت کی دیوار ثابت ہوگی، جس کی حالیہ مثال بلوچستان میں واپڈا ہائیڈرو یونین کی صوبائی قیادت کیخلاف محنت کشوں کی احتجاجی تحریک کا آغاز ہے، اور اسطرح کی کئی آوازیں اُٹھنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ پاکستان جیسی غیر فطری ریاست میں مزدور سیاست کرنا گوکہ مشکل کام ہے،مگر ناممکن ہرگز نہیں ہے۔ یہاں پر حکمران طبقات کیساتھ ساتھ فوجی اشرافیہ بھی اپنا مزدور دشمن کردار ادا کرنے میں کسی سے کم نہیں ہے۔ ملک بھر کے جتنے بھی وفاقی یا پھر بلوچستان کے صوبائی محکمہ جات میں حاضرِ سروس یا ریٹائرڈ فوجی افیسران کی تعیناتی موجودہ حالات میں مزدور سیاست کے حوالے سے ایک رکاوٹ بن رہا ہے، جسکی مثالیں پی آئی اے کا مینیجنگ ڈائریکٹر حاضرسروس فوجی آفیسر ہے، جبکہ بلوچستان میں بی ڈی اے، میونسپل کارپوریشن اور بعض اوقات کیو ڈی اے اور پی ڈی ایم اے کے سربراہان فوج سے آتے ہیں، جوکہ مزدور طبقے کو سیاست سے باز رکھنے میں پیش پیش ہیں۔ جبکہ بلوچستان میں کسی بھی احتجاج کرنے والوں کو فوجی اشرافیہ کی طرف سے ٹیلیفون کالز آتے ہیں، کہ پہلے ہم سے مل لیں اُس کے بعد اگر احتجاج کی جرأت اور ضرورت ہے تو بیشک کرلیں۔
یومِ مئی2018ء میں ریڈ ورکرز فرنٹ نے ملک بھر کے محنت کش طبقے کو مزدور سیاست کے احیاء اورمہنگائی، بیروزگاری، نجکاری، ڈاؤن سائزنگ، ٹھیکیداری، اجرتوں میں اضافے اور دیگر مطالبات اور مسائل کے حل کے لیے محنت کش طبقے کی ایک ملک گیر عام ہڑتال کا واضح پیغام دیا تھا، جس پر قنوطیت پسند بائیں بازو کے لبرلز نے مذاق اُڑایا، گوکہ یہ اصلاح پسند بائیں بازو کے لبرلز نواز شریف اور مریم نواز کے ذریعے پاکستان میں بورژوا جمہوری انقلاب کے خواہشمند تھے، مگر نظریات سے غداری اُن کو راس نہیں آئی اور آتی بھی کیسے کہ جب حالات و واقعات آپ کے زوال پذیر تناظر کے برعکس جارہے ہوں۔ اس کے علاوہ ”ملک گیر عام ہڑتال“ کے پیغام اور پروگرام کیخلاف ٹریڈیونین اشرافیہ تلملا اُٹھی، کہ یہ تو محنت کش طبقے کے پاس اپنی جدوجہد میں ایٹم بم کی حیثیت رکھتا ہے اس کو ہم ایسے حالات میں استعمال کیسے کرینگے، جب حالات ’ہمارے مفاد‘ میں جارہے ہوں۔ جبکہ اس کے برعکس اس پیغام کو محنت کش طبقے میں نہ صرف سراہا گیا بلکہ محنت کش طبقے کی اکثریت نے ”ملک گیر عام ہڑتال“ کو اپنے تمام تر مسائل اور تکلیفوں کا واحد حل قرار دیا۔ اس سلسلے میں مختلف پروگرامز،سیمینارز اور کنونشن منعقد کیے گئے جن کو محنت کش طبقے کے اندر خوب پذیرائی ملی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے اندر 62 ٹریڈیونینز پر پابندی،محکمہ تعلیم میں لازمی سروس ایکٹ کا نفاذ،بیروزگاری، نجکاری، لاعلاجی، مستقل روزگار، اُجرتوں میں اضافہ اور ٹھیکیداری کا مسئلہ ہو ان تمام کا حل ملک گیر عام ہڑتال اور عملی جدوجہد میں مضمر ہے، بجائے اس کے کہ ہم عدالتوں کے چکر کاٹتے رہے، کیونکہ عدالتوں کی کوئی بھی قسم ریاستی مشینری کاحصہ ہے اور حکمران طبقات کے مفادات کی محافظ اور نگران ہے۔ ملک گیر عام ہڑتال کے لیے ضروری ہے کہ مختلف اداروں میں اپنے بنیادی حقوق کے حصول اور ان نام نہاد غیر جمہوری اور بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والے فیصلوں کیخلاف اپنے بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے عملی جدوجہد کو یقینی بنائیں، اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنا محنت کش طبقے کے مفادات اور مزدور سیاست سے غداری کے مترادف ہے۔