رپورٹ: |ریڈ ورکرز فرنٹ، کوئٹہ|
بلوچستان جوکہ معدنیات سے مالامال صوبہ ہے مگر ان اربوں روپوں کی ان معدنیات کو نکالنے والے محنت کش اپنے بنیادی حقوق سے بالکل محروم ہیں اور انتہائی خطرناک حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔
بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں کا سینہ چیر کر ان میں سے مختلف قسم کی بیش قیمت معدنیات نکالنے والوں میں سے ایک کرومائیٹ کی کانوں میں کام کرنے والے محنت کش ہیں۔ بلوچستان میں کرومائیٹ زیادہ تر مسلم باغ ، خانو زئی اور قلعہ سیف اللہ وغیرہ کے علاقوں سے نکالا جاتا ہے۔ کرومائیٹ انڈسٹری میں لگ بھگ پندرہ سے بیس ہزار کے قریب محنت کش کام کرتے ہیں۔ یہ محنت کش ملک کے مختلف علاقوں سے آتے ہیں مگر ان میں اکثریت بلوچستان کے مقامی، افغان مہاجرین اور خیبر پختونخوا سے آئے ہوئے محنت کش ہوتے ہیں۔ یہ محنت کش ماہوار تنخواہ پر کام کرتے ہیں جن کی اوسط تنخواہ تیرہ ہزار سے چودہ ہزار روپے ماہانہ ہوتی ہے۔
کرومائیٹ نکالنے کا کام جوکہ انتہائی کٹھن، مشکل اور جان لیوا ہوتا ہے مگر محنت کشوں کو اپنی زندگی کا سفر رواں دواں رکھنے کیلئے انتہائی کم اجرتوں اور ضروری حفاظتی اقدامات اور حفاظتی سامان کی عدم موجودگی میں کام کرنا پڑتا ہے۔ کرومائیٹ کی کانوں میں کام کرنے والے یہ محنت کش بارہ گھنٹے کے طویل اور غیر قانونی اوقات کار کے مطابق کام کرتے ہیں۔ محکمہ محنت اور افرادی قوت کے اہلکاران کا کوئی وجود نہیں ہوتا جوکہ محنت کشوں کے حالت زار کے اوپر توجہ دے۔
کرومائیٹ انڈسٹری میں حادثے کی صورت میں کوئی بھی معاوضہ یا علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کرنا سرمایہ دار اپنی توہین سمجھتے ہیں اور کسی بھی حادثے کی صورت اگر کسی محنت کش کی جان چلی جائے یا وہ معذور ہو جائیں تب بھی ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ حکومت بھی کسی قسم کی ذمہ داری نبھانے سے خود کو بری الذمہ گردان چکی ہے۔ کرومائیٹ نکالنے کے بعد بلوچستان میں لوکل سرمایہ داروں کے پلانٹس کے علاوہ چین نے بھی اپنے پلانٹس لگائے ہوئے ہیں جو کہ کرومائیٹ کو پراسس کر کے صاف کرتے ہیں۔ ان پلانٹوں میں اجرت فی گھنٹہ چالیس روپیہ ہے جس کی وجہ سے محنت کشوں کو اپنی روزانہ کی ضروریات پوری کرنے کیلئے بارہ سے پندرہ گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے اور آرام کرنے یا وقفے کی صورت میں کٹوتیاں ہوتی ہیں۔
مخصوص یونیفارم یا سیفٹی کے آلات، جوکہ محنت کش کا بنیادی اور ضروری حق ہیں، کا کوئی وجود نہیں ہے۔ کانوں سے معدنیات کو نکالنے کے لئے بارودی مواد کا استعمال کیا جاتا ہے اور کسی قسم کے حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے باعث محنت کش ہمہ وقت حادثات کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے حالات میں محنت کشوں کی آواز دبانے کیلئے لوکل سطح پر کمیٹیاں ہوتی ہیں جوکہ ان محنت کشوں کو دبانے اور ان کے کسی بھی قسم کے اتحاد کو توڑنے کیلئے سرمایہ داروں کے غنڈوں کا کردار ادا کرتی ہیں جس کی وجہ سے محنت کش مسلسل استحصال کا شکار ہیں اور اذیت ناک زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔