|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، کوئٹہ|
اس بار پورے پاکستان میں بجٹ کے پیش ہونے پر عمومی طور پر ٹریڈ یونینز اور مختلف ایسوسی ایشنز کی جانب سے خاموشی دکھائی دی، بلخصوص بلوچستان میں بھی یہی نظر آیا۔ بلوچستان میں بھی نجکاری کی پالیسیاں لاگو کی جا رہی ہیں جس میں محکمہ صحت پہلے نشانے پر ہے اور کچھ عرصے قبل بلوچستان ہائی کورٹ کی جانب سے ایک فیصلہ بھی صادر ہوا کہ محکمہ صحت میں گریڈ ایک سے گریڈ 15 تک تمام تر تعیناتیاں کنٹریکٹ پر ہوں گی۔
اس سے پہلے محکمہ صحت اور محکمہ تعلیم میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تھی کہ ان دونوں شعبہ جات میں کوئی ہڑتال وغیرہ نہیں ہو گی اور نہ ہی ان شعبوں میں یونین سازی ہو گی۔ جبکہ کئی سالوں سے بلوچستان کے مختلف عوامی اداروں میں 62 کے قریب ٹریڈ یونینز پر پابندی عائد ہے جو کہ اب تک برقرار ہے۔
کنٹریکٹ ملازمین کی عدم مستقلی، تنخواہوں اور پنشنز کی ریگولر بنیادوں پر عدم ادائیگی، جبری برطرفیوں سمیت دیگر مسائل (اپگریڈیشن و پروموشن) اب معمول بنتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ بجٹ کے پیش ہونے سے چند ہفتے پہلے بلوچستان ورکرز اینڈ ایمپلائیز گرینڈ الائنس (بیوگا) میں پھوٹ پڑ گئی، اب بیوگا کے بھی دو دھڑے اس وقت صوبے میں موجود ہیں۔
اس سے پہلے 2021ء میں ہی جب بیوگا بنی تو اس کے (متوازن) ملازمین اتحاد کے نام سے ایک الائنس بنایا گیا تھا۔ مگر قیادت کے آپسی تضادات اور رنجشوں کی وجہ سے محنت کشوں کی تقسیم در تقسیم صورتحال سے نااہل صوبائی حکمران کرپٹ بیورو کریسی خوب مزے لے رہی ہے اور انہوں نے من مانی کرتے ہوئے بجٹ پیش کیا، جس میں محنت کشوں کے لیے وفاقی طرز پر محض 25 فیصد تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا۔
جبکہ کنٹریکٹ ملازمین کی مستقلی محکمہ صحت اور محکمہ تعلیم کو درج ذیل بجٹ دیا گیا ہے۔ تعلیم کے شعبے کے لیے کل ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات کا بجٹ 146.9 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ بلوچستان حکومت نے صحت کے لیے بجٹ میں غیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں 67.3 ارب روپے تجویز کیے ہیں اور ترقیاتی اخراجات کے لیے 20 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بلوچستان کے نااہل حکمران اور کرپٹ بیوروکریسی ان دو اہم عوامی اداروں کے حوالے سے کتنے سنجیدہ ہیں۔ ان تمام تر مسائل کی سنجیدگی کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے ہم بلوچستان بھر کی ٹریڈ یونینز اور ایسوسی ایشنز کی قیادت کو خبردار کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنا قبلہ درست نہیں کیا تو بہت جلد ان کے اپنی ہی یونینز اور ایسوسی ایشنز میں نئی قیادت ابھر سکتی ہے جو کہ محنت کش طبقے کی مسائل کو حل کرنے کو اولیت دیتے ہوئے موجودہ قیادت کو مکمل طور پر مسترد کر دے گی۔
اس کے علاوہ بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں ٹریڈ یونین اشرافیہ کے خلاف محنت کش طبقے کی جدوجہد شروع دن سے جاری ہے، مگر ان کو اظہار کا موقع نہیں ملتا، جونہی اظہار کا موقع ملا تو وہ ٹریڈ یونین بیوروکریسی کو سبوتاژ کریں گے اور ہم محنت کش طبقے کی مجموعی اور عمومی مفادات کی خاطر ہر ان چند افراد یا اشرافیہ کے خلاف محنت کش طبقے کی اکثریت کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
ہم ایک بار پھر خبردار کرتے ہیں کہ اگر لیڈر ان محنت کشوں کو مزدور دشمن سیاسی پارٹیوں کے پیچھے لگائیں گے یا اپنے ذاتی مفادات کے لیے محنت کشوں کی عمومی پرتوں کو استعمال کریں گے، تو ان کی مخالفت میں ہم آواز اٹھاتے رہیں گے۔