|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، بلوچستان|
28جولائی 2024ء کو بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں منعقد ہونے والا بلوچ راجی مچی اجتماع تمام تر ریاستی جبر، پابندیوں،شرکاء کے قافلوں کی روک تھام، سیدھی فائرنگ، بسوں کے ٹائرز برسٹ کرنے، شرکاء کو ہراساں و گرفتار کرنے، جبری گمشدگی اور انٹرنیٹ و موبائل فون کی بندش کے باوجود کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ واضح رہے کہ گوادر میں ہونے والے اس قومی اجتماع کے حوالے سے ابھی تک مصدقہ اطلاعات موصول نہیں ہوئی ہیں مگر ایک صحافی کے مطابق بیس ہزار سے زیادہ لوگوں نے گوادر کے اس احتجاجی جلسہ عام میں شرکت کی۔
گو کہ بلوچستان اور سندھ بالخصوص کراچی سے جانے والے شرکاء کو سیکیورٹی اداروں نے مختلف چیک پوائنٹس پر آخر تک روکے رکھا تھا جو کہ وہیں پر احتجاجی دھرنوں میں تبدیل ہوئے۔ ان میں بالخصوص مستونگ، ہنگول پارک اور تلار چیک پوسٹ نمایاں ہیں۔ جہاں پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس قومی اجتماع میں شرکت کے لیے جا رہے تھے مگر سیکیورٹی اداروں کی جانب سے ان پر جو جبر کیا گیا، وہ قابل مذمت ہے۔
دوسری جانب وہ تمام تر شرکاء جن کی اس قومی اجتماع میں شرکت ممکن نہیں ہو سکی، وہ اب تک کی اطلاعات کے مطابق مستونگ میں گزشتہ تین دنوں سے احتجاجی دھرنا جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ ہنگول کے قریب کراچی سے جانے والے قافلے واپس ہوئے ہیں اس کے علاوہ تلار چیک پوسٹ جو کہ گوادر سے تقریباً 60 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے وہاں پر بھی سیکیورٹی اداروں نے نہ صرف قافلوں کو روکا بلکہ ان پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک ہلاکت بھی واقع ہوئی ہے۔ جبکہ کئی لوگ زخمی ہوئے ہیں۔
گوادر میں ہونے والے جلسے میں لوگوں کا جذبہ انتہائی قابل دید تھا کہ انہوں تمام تر رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے احتجاجی جلسے کو کامیاب بنانے میں اپنی تمام تر توانائیاں خرچ کیں۔ حالانکہ گوادر میں آج تیسرا دن ہے کہ ہر قسم کی ٹیلی کمیونیکیشن کے رابطے مفلوج ہو چکے ہیں، سیکیورٹی فورسز نے پورے گوادر شہر کو یرغمال بنایا ہوا ہے جہاں پر غیر اعلانیہ کرفیو کا سماں تھا اور اس کے علاوہ گوادر میرین ڈرائیو سید ہاشمی چوک پر سیکیورٹی فورسز نے جلسے کے شرکاء پر سٹریٹ فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق ایک بندے کی ہلاکت اور آٹھ کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ لوگوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور جو نوجوان اس پورے احتجاجی جلسے میں سرگرم تھے ان کو کثیر تعداد میں اٹھایا گیا۔
اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ حکومت بلوچ قومی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے پر اتر آئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ”احتجاج ہمارا ایک آئینی حق ہے۔ ہم انصاف کے لیے نکلے ہیں اور اپنے حقوق حاصل کر کے رہیں گے۔ آج گوادر میں اس بڑے اجتماع نے ثابت کیا ہے کہ بلوچ اپنے حقوق پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔“
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے گوادر میں سیکیورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر بلوچ قومی اجتماع کو ناکام بنانے کی کوشش کی جو کہ کامیاب نہ ہو سکی۔ ماہ رنگ کے بقول، ”بلوچ قومی تحریک کو طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ریاست ہوش کے ناخن لے اور بلوچستان میں جبر و بربریت کا خاتمہ کیا جائے۔“
مقررین کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں حقیقی قیادت کو نظر انداز کر کے عوامی مفاد کے برعکس من پسند غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کیے جا رہے ہیں جس پر وہ خاموش نہیں رہیں گے۔ مقررین نے مزید کہا، ”حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے بلوچ سیاسی کارکنوں کو گرفتار کر کے لاپتہ کیا جا رہا ہے مگر متاثرین کو کوئی انصاف نہیں مل رہا۔“
جلسے کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے پالیسی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ راجی مچی (بلوچ قومی اجتماع) پدی زِر گوادر میں دھرنے کی صورت میں جاری ہے۔ اس سے قبل بلوچ راجی مچی صرف 28 جولائی کے دن ایک جلسے کی صورت میں ہونا تھا لیکن ریاست کے جبرنے ایک دن کے راجی مچی اجتماع کو اب دھرنے میں تبدیل کر دیا ہے اور اس بلوچ راجی مچی دھرنے کے اس وقت دو مطالبات ہیں۔ ایک، جہاں جہاں ہمارے قافلوں کو زبردستی روکا گیا ہے، تمام راستوں کو کھول کر ہمارے قافلوں کو گوادر آنے دیا جائے۔ دوسرا، ہمارے جتنے بھی لوگ گرفتار کیے گئے ہیں انہیں 48 گھنٹوں کے اندر رہا کیا جائے، وگرنہ یہ دھرنا غیر معینہ مدت کے لیے جاری رہے گا اور ہم ان مطالبات پر ریاست کے ساتھ پدی زِر گوادر کے مقام پر مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اگر ریاست نے اب بھی عقل اور ہوش سے کام لینے کے بجائے پُر امن عوامی اجتماع کے مقابلے میں طاقت کا استعمال کیا تو گوادر سمیت پورے بلوچستان میں حالات ریاست کے کنٹرول سے مکمل طور پر باہر نکل جائیں گے۔
جلسے کے شرکا پر ریاستی جبر
جلسے میں شرکت کرنے والے قافلوں کے حوالے سے اوپر مختصر ذکر کیا گیا ہے مگر اس ضمن میں مستونگ میں ہونے والی دلخراش واقعے کا ذکر کرنا انتہائی ضروری ہے جہاں پر ہفتے کے دن مستونگ میں (ایف سی) سیکیورٹی ادارے نے اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے 14 کے قریب افراد کو زخمی کر دیا جبکہ قافلے میں موجود مختلف ڈائیوو بسز کے ٹائرز پر فائرنگ کرتے ہوئے انہیں برسٹ کر دیا جس کی وجہ سے کوئٹہ سے جانے والا قافلہ گوادر کے اجتماع میں شرکت نہیں کر سکا اور پچھلے تین دن سے مستونگ میں احتجاجی دھرنا جاری ہے۔
اسی طرح بلوچستان کے دیگر مضافاتی علاقوں پنجگور، خاران، بسیمہ، تربت، اواران، ماشکیل، واشک، نوشکی، چاغی، نصیر آباد ڈویژن سے جانے والے قافلوں کو مختلف چیک پوسٹوں پر روکا گیا جہاں پر شدید گرمی کی صورتحال میں قافلے کے شرکاء کے پاس اشیائے خورد و نوش کی شدید قلت پیدا ہو گئی جبکہ دوسری جانب سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے ان پر جبر کرنے سے بھی ہاتھ نہیں روکا۔ بالخصوص گوادر شہر سے 60 کلو میٹر کے فاصلے پر تلار چیک پوسٹ پر ایسا ہی دلخراش واقعہ ہوا جہاں پر سیکیورٹی ادارے کے اہلکاروں نے فائرنگ کر دی۔ اس موقع پر ایک آدمی کی ہلاکت اور کئی کے زخمی ہونے کی اطلاعات کی تصدیق ڈسٹرکٹ کیچ کے ٹیچنگ ہسپتال سے ہو چکی ہے۔
اس کے علاوہ گوادر سے 200 کلو میٹر کے فاصلے پر ہنگول کے قریب بلوچستان کے ساحلی علاقوں سندھ سے آنے والے قافلے کو روکا گیا جو کہ کل رات وہاں سے واپس ہونے پر مجبور ہوئے کیونکہ ان کے پاس بھی اشیائے خورد و نوش کی قلت کے ساتھ ساتھ تپتی دھوپ میں بغیر کسی چھاؤں کے رہنا مشکل ہو رہا تھا۔ مختصراً قلات ڈویژن کے 6 اضلاع میں 14 مقامات پر شاہراؤں کو مکمل بند کر دیا گیا تھا۔ کیونکہ یہاں سے قافلوں نے گزرنا تھا۔
ان تمام تر واقعات کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ جس میں کل بروز اتوار بلوچ راجی مُچی شرکاء پر ریاستی اداروں کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ پر راجی مُچی کے شرکاء کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے مستونگ، نوشکی، دالبندین میں شٹر ڈاؤن ہڑتال اور کوئٹہ میں دھرنا ہوا، جس پر رات گئے سیکیورٹی اداروں نے دھاوا بول دیا اور جس کے نتیجے میں 20 کے قریب مرد و خواتین سیاسی کارکنان کو گرفتار کیا گیا۔ گوادر میں جاری احتجاجی دھرنے پر ریاستی سیکیورٹی اداروں نے کریک ڈاؤن کیا جبکہ مرکزی قیادت ”سمی دین، ڈاکٹر صبیحہ اور صبغت اللہ“ کو گرفتار کیا گیا ہے۔
نام نہاد ریاستی مؤقف
نا اہل، کرپٹ اور دلال حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کا کہنا ہے کہ چونکہ گوادر میں اجتماع کے انعقاد کی اجازت نہیں لی گئی ہے اس لیے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قافلوں کو گوادر جانے سے روک دیا گیا ہے۔ محکمہ داخلہ نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ رکاوٹیں سیکیورٹی کی وجہ سے کھڑی کی گئی ہیں تاکہ لوگوں کے لیے خطرات کم کیے جا سکیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے جمعے کے روز بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اس موضوع پر تفصیل سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’بلوچ یکجہتی کمیٹی‘ آخر گوادر میں ہی یہ اجتماع کیوں منعقد کرنا چاہتی ہے؟ کوئٹہ یا بلوچستان کے کسی اور مقام کا انتخاب کیوں نہیں کیا جا رہا ہے؟‘ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ گوادر ایک بین الاقوامی شہر ہے اور اس میں سی پیک کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے والا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ داسو میں پیش آنے والے واقعے کے بعد حکومت نے چین سے بات کر کے سی پیک کا دوسرا مرحلہ شروع کروانے کے لیے ایک ماحول بنایا، لیکن آج جب سی پیک کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے لگا تو ان کو گوادر کی یاد ستانے لگی۔ اس نے بتایا کہ 14 اگست کو گوادر کے نئے ایئر پورٹ کا افتتاح بھی ہونے جا رہا ہے۔ اس نے کہا کہ اس کے علاوہ ہمارے پاس یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اس اجتماع میں دھماکہ کروایا جائے گا اور ایک کالعدم بلوچ عسکری تنظیم خود یہ دھماکہ کروانا چاہتی ہے۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی اور بلوچ قومی اجتماع
انقلابی کمیونسٹ پارٹی روز اول سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے تمام تر مطالبات کی غیر مشروط حمایت کرتی ہے اور اس ضمن میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی نے اپنا پمفلٹ بھی شائع کیا تھا جس میں پارٹی کا مؤقف واضح ہے۔
اس کے علاوہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام بلوچ قومی اجتماع کے سلسلے میں ہونے والے مختلف حالات و واقعات پر انقلابی کمیونسٹ پارٹی وقتاً فوقتاً ان تمام تر حالات و واقعات کے نتیجے میں بدلتی صورتحال پر اپنے واضح مؤقف کا بھرپور اظہارکرتی رہی ہے۔
سب سے پہلے ہم ریاستی جبر کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام ہونے والے احتجاجوں میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے کارکنان نے بھرپور شرکت کی ہے جبکہ 28 جولائی کی شام کو ہی لاہور پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں بلوچ یکجہتی کمیٹی اور بنوں کے پُر امن احتجاجی مارچ پر ہونے والے ریاستی جبر کی بھرپور مذمت کی گئی اور نعرے لگائے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے دیگر ریجنز میں ہونے والے پروگراموں کے دوران باقاعدہ طور پر بنوں واقعے اور بلوچ یکجہتی کمیٹی پر ہونے والی ریاستی جبر کے خلاف قرار داد منظور کی گئی۔
پُر امن عوامی جدوجہد پر ریاستی جبر کیوں؟
گو کہ ریاستی جبر کی ہر شکل نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ قابل مزاحمت بھی ہے۔ مگر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جلسے میں شرکت کرنے کے لیے شرکاء پر بالخصوص ریاستی جبر ہوا جبکہ بلوچستان میں خاص کر بلوچ سماج کے اندر پُر امن عوامی جدوجہد پر بالعموم ریاستی جبر ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔ کیونکہ ریاست شروع دن سے بلوچ عوام الناس کو پُر امن عوامی جدوجہد سے روکنے کی مذموم کوششیں کر رہی ہے اور ریاستی اداروں کی یہ کوشش ہے کہ بلوچ نوجوان صرف بندوق کے ذریعے سیاست کریں، تاکہ ریاست کو انہیں کچلنے میں کوئی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یاد رہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی عوامی مزاحمت نے ریاستی ایوانوں میں جو کھلبلی مچائی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اور ریاست اور اس کے تمام تر ادارے بلوچ عوامی جدوجہد سے مکمل پریشانی اور ہیجان کی کیفیت میں ہیں۔
یہ ایک اہم وجہ ہے جس کو بلوچ سیاسی کارکنوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عوامی جدوجہد میں وہ طاقت ہے جوکہ دنیا کی کسی بھی جدوجہد (بشمول مسلح جدوجہد) میں نہیں ہے۔ بلوچ سماج میں عوامی جدوجہدکا ایک نیا آغاز نومبر 2018ء میں ہوا تھا اور اس کے بعد ہی عوامی جدوجہد پر نوجوانوں کا یقین اور بھروسہ مزید پختہ ہونے لگا ہے۔ لیکن ریاست اور اس کے تمام تر ادارے بلوچ نوجوانوں کو سڑکوں کے بجائے پہاڑوں پر دیکھنے کے متمنی ہیں، اسی لیے ریاست اور ان کے ادارے کسی بھی صورت میں بلوچ نوجوانوں کو پُر امن عوامی جدوجہد کی اجازت نہیں دیتے اور نوجوانوں کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ آپ کی جدوجہد یہاں پر نہیں بلکہ پہاڑوں پر ہونی چاہیے، اسی لیے گوادر کے جلسے میں شرکاء کو ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا اور آگے بھی اسی طرح کے ریاستی جبر کا انہیں سامنا کرنا پڑے گا۔ بالخصوص مستونگ میں جاری احتجاجی دھرنا اور گوادر میں جاری احتجاجی دھرنے پر ریاست کسی بھی وقت حملہ آور ہو سکتی ہے۔
ریاستی جبر کے ضمن میں مختلف رجحانات جنم لے سکتے ہیں جس میں واضح رجحان گو کہ عوامی جدوجہد کے حق میں ہی ہو گا مگر ایک ایسی جذباتی لہر جو کہ ریاستی جبر سے تنگ آ کر اور دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قیادت کے پاس واضح پروگرام کی لائن نہ ہونے کی وجہ سے وہ پہاڑوں کا رخ کر سکتے ہیں اور ایک مخصوص لہر پہاڑوں پر جا بھی چکی ہے۔ مگر ایک بار پھر ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اس وقت بلوچ سماج میں بالخصوص نوجوانوں کے اندر عوامی جدوجہد انتہائی مقبول بنتی جا رہی ہے اور انہیں اپنی قوتِ بازو پر یقین آنے لگا ہے کہ عوامی جدوجہد کتنی طاقتور ہوتی ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت سے اپیل/ سوال
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت جس جرات، بہادری اور حوصلے کا مظاہرہ کر رہی ہے جس میں بالخصوص بلوچ خواتین کا جرات مند کردار بھی ہے، جسے کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مگر یہاں پر تحریک کی محدودیت پر غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جس پروگرام کے تحت یہاں پر اب تک احتجاجوں دھرنوں، جلسوں، سیمینار وغیرہ کی شکل میں موبیلائزیشن ہو چکی ہے اور جس کا اثر بھی اس وقت بلوچ سماج کی ہر لہر تک واضح پہنچ چکا ہے۔ مگر ایک اہم چیز جو کہ اس ضمن میں انتہائی ناگزیر ہے وہ اس تحریک کی قیادت کے لیے اپنی روایتی چوکھٹ سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ جن نظریات اور پروگرام کے تحت یہاں پر تحریک کی قیادت جدوجہد کر رہی ہے اس سے پاکستان اور بالخصوص بلوچستان کے دیگر مظلوم اقوام اور محکوم طبقات کو نہیں جوڑا جا سکتا۔ کیونکہ ان نظریات کی محدودیت واضح ہے، کہ یہ اپنی قوم سے ہٹ کر دوسری اقوام کے لیے صرف لب کشائی ہی کر سکتے ہیں، اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔
کان کنی، صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ، حب صنعتی زون، واپڈا، ریلوے، ٹیلی کمیونیکیشن، بینکنگ وغیرہ میں محنت کشوں کی بڑی تعداد موجود ہے، جسے نظام کو جام کرنے کے لیے کوئی مارچ کرنے کی ضرورت بھی نہیں، وہ جہاں ہیں وہیں اپنے کام سے ہاتھ روک کر سماج کو جام اور ریاستی اداروں اور حکمران طبقے کی لوٹ مار کو بند کر سکتے ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت، جو بدقسمتی سے بلوچستان میں محنت کش طبقے کے وجود سے ہی انکاری ہے، اسے ان تلخ تجربات سے سیکھنا ہو گا اور بلوچستان کے محنت کشوں سے اپیل کرنی ہو گی کہ وہ مارچ کے شرکاء سے یکجہتی کرتے ہوئے بلوچستان میں عام ہڑتال کریں۔
بلوچستان کو بند کرنے کی مجرد کال سے بہتر ہے ٹھوس اقدامات کی کال دی جائے۔ اب دھرنوں اور مارچوں سے آگے بڑھ کر ریاست اور حکمران طبقے کی معاشی ریڑھ کی ہڈی پر وار کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ عام ہڑتال کے لیے گنجائش، ہمدردی اور سوچ موجود ہے۔ مزید یہ کہ اس اپیل کو صرف بلوچستان تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ پاکستان اور دنیا بھر کے محنت کشوں، ٹریڈ یونینوں اور طلبہ تنظیموں سے بھی یکجہتی کی اپیل کی جائے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عالمی ادارے سوائے تماشا دیکھنے اور پاکستانی ریاست سے سامراجی معاملات طے کرنے کے لیے ان معاملات کو سودے بازی کے لیے استعمال کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی کرنے کے اہل نہیں۔ غزہ میں جاری قتلِ عام پر بھی وہ محض تماشائی بنے ہوئے ہیں اور اصل یکجہتی کی تحریک دنیا بھر کے عام طلبہ اور ٹریڈ یونینز کی طرف سے چلائی جا رہی ہے۔ یہی عالمی طبقاتی یکجہتی ہی مظلوم اقوام کی تحریکوں کو منزل مقصود تک پہنچا سکتی ہے۔
بلوچ عوام اور بالخصوص خواتین کی شاندار جدوجہد واقعی قابل تحسین و تقلید ہے، پشتون عوام کی شاندار تحریک بھی ریاستی جبر کا شکار ہے، پشتون عوام کو بھی اس کڑے وقت میں اپنے بلوچ بہن بھائیوں کا ساتھ دینا چاہیے، اسی طرح سندھ، پنجاب اور دیگر علاقوں کے محنت کشوں، نوجوانوں ترقی پسندوں اور انقلابیوں کا بھی فرض ہے کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں بلوچ عوام کی جمہوری تحریک کا ساتھ دیں اور عملی یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔