|تحریر : زلمی پاسون|

11 مارچ کو جعفر ایکسپریس پر ہونے والی مسلح ”آزادی پسند“ تنظیم کی جانب سے جو حملہ ہوا اس کے بعد بلوچستان کا سوال ایک بار پھر میڈیا کے ذریعے پاکستان سمیت پوری دنیا میں یر بحث آنے لگا۔ گوکہ مسلح حریت پسندوں کی جانب سے پہلے بھی کئی حملے کیے گئے ہیں مگر جعفر ایکسپریس پر ہونے والا حملہ اپنی نوعیت کا پہلا اور سال 2025ء کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ لیکن گزشتہ سال (2024ء) بلوچ مسلح عسکریت پسندوں کی جانب سے گزشتہ دہائی کا سب سے زیادہ خونریز سال رہا۔ اس میں بلوچ عسکریت پسندوں کے مطابق ان کی تنظیموں نے مجموعی طور پر 938 حملے کیے، جس کے نتیجے میں 1002 سے زائد افراد ہلاک، 689 زخمی، اور املاک کو نقصان پہنچانے کے کم از کم 546 واقعات رپورٹ ہوئے۔ ان کی کارروائیاں 25 اضلاع میں پھیلی ہوئی تھیں اور 327 علاقوں پر محیط تھیں۔ مزید برآں، ان کارروائیوں کے دوران 76 بلوچ جنگجوؤں کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ہیں۔ 2023ء کے مقابلے میں، حملوں کی کل تعداد میں 53 فیصد اضافہ ہوا، جب کہ رپورٹ ہونے والی ہلاکتوں میں حیران کن طور پر 80 فیصد اضافہ ہوا، جو کہ شورش کی شدت میں اضافے کی نشاندہی کرتا ہے۔
اس حملے میں بلوچ مسلح عسکریت پسند تنظیم کی جانب سے قید سیاسی کارکنان اور جبری گمشدگی کے شکار نوجوانوں کی بازیابی کا مطالبہ کیا گیا۔ مگر ریاست کی جانب سے ان تمام تر مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے ان کے خلاف آپریشن کا اعلان کیا گیا۔ نتیجتاً ریاستی حکام کے مطابق اس پورے حملے میں 26 کے قریب مسافر ہلاک اور 37 زخمی ہوئے ہیں، جبکہ 33 مخالفین کو مار دیا گیا۔ مگر بلوچ عسکریت پسند تنظیم کی جانب سے ریاستی اعلامیہ کو پراپیگنڈا قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا گیا اور 426 مسافروں میں سے 214 کے قریب یرغمالیوں کو مارنے کا بیان جاری کیا گیا۔ تادم تحریر جعفر ایکسپریس کے حوالے سے میڈیا میں متضاد اطلاعات موصول ہو رہی ہیں، گوکہ اب تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس پورے واقعے میں ریاست اور ریاست مخالف بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کو کتنی کامیابیاں ملی ہیں۔ مگر مختلف سوشل میڈیا، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر اس حملے کے حوالے سے جو اعداد و شمار موجود ہیں ان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس حملے میں کس کو کتنی کامیابی ملی ہے۔
اس حملے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک شور مچ گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت بلوچستان سمیت پورے پاکستان کے نوجوان سیاسی کارکنان ریاست مخالف رجحانات میں کہاں کھڑے ہیں۔ اس تمام تر صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے بحیثیت کمیونسٹ ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے موجودہ حالات سمیت بلوچ قومی سوال پر سیاسی و عسکریت پسندی کا مختصر مگر ٹھوس انداز سے جائزہ لیتے ہوئے درست کمیونسٹ موقف رکھا جائے۔
بلوچ قومی سوال اور مسلح جدوجہد، تاریخ کے آئینے میں
ویسے بلوچ قومی سوال پر تو بے شمار تصانیف موجود ہیں مگر ہم یہاں پر مختصراً ذکر کریں کہ برطانوی سامراج کے سامراجی جرائم کے نتیجے میں جب پاکستان معرض وجود میں آتا ہے، تو برٹش بلوچستان کے بغیر باقی بلوچستان اس وقت قلات ریاست کی شکل میں موجود تھا۔ قلات ریاست کو پاکستان میں ضم کرنے کے حوالے سے اُس وقت پاکستان کے حکمرانوں کی جانب سے طاقت اور بلیک میلنگ کا سہارا لیا گیا۔ کیونکہ قلات ریاست کی پارلیمان نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کی مخالفت کی تھی، جس کے حوالے سے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ مگر 27 مارچ 1948ء کو یہ انضمام جب بزور طاقت ہوا، تو اس کے خلاف پرنس کریم کی شکل میں پہلی مسلح جدوجہد یا بغاوت کا آغاز ہوا۔ گوکہ یہ بغاوت اپنے آغاز سے غیر منظم اور کمزور تھی اور مختصر عرصے کے اندر ہی اسے کچل دیا گیا۔ یہ مزاحمت صرف قلات کے مخصوص علاقوں تک ہی محدود رہی۔
اس کے علاوہ بلوچ مسلح مزاحمت کو پرنس کریم کی مسلح بغاوت کے ساتھ عام طور پر پانچ بڑے ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے، جس میں پہلے دور پر بات کی گئی ہے، جبکہ بقیہ چار ادوار کا مختصر جائزہ درج ذیل ہے:
دوسرا دور (1958ء-59ء)
نواب نوروز خان زہری نے ون یونٹ پالیسی اور بلوچ خودمختاری کے خاتمے کے خلاف بغاوت کی۔ انہوں نے پہاڑوں میں گوریلا جنگ شروع کی، لیکن حکومت نے مذاکرات کے ذریعے انہیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا اور پھر دھوکے سے گرفتار کر لیا۔ ان کے کئی ساتھیوں کو پھانسی دی گئی، اور وہ خود قید میں چل بسے۔

تیسرا دور (1962ء-69ء)
اس دوران نواب خیر بخش مری اور دیگر بلوچ رہنماؤں نے مزاحمت کی۔ مسلح جھڑپیں خضدار، مستونگ، کوہلو اور مکران میں جاری رہیں۔ 1969ء میں جنرل یحییٰ خان نے ون یونٹ ختم کیا، جس سے مزاحمت وقتی طور پر رُک گئی۔
چوتھا دور (1973ء-77ء)
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں بلوچستان اور (سرحد) موجودہ خیبر پختونخوا میں نیپ کی حکومتیں برطرف کی گئیں، جس کے ردعمل میں مسلح مزاحمت نے شدت اختیار کر لی۔ ہزاروں بلوچ گوریلا جنگجو نواب خیر بخش مری، عطااللہ مینگل اور جنرل شیروف کی قیادت میں لڑے۔ فوجی آپریشن میں ہزاروں بلوچ مارے گئے، جبکہ کئی رہنما افغانستان چلے گئے۔ 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد یہ تحریک ختم ہوئی۔
پانچواں دور (2000ء سے آج تک)
نواب اکبر بگٹی کی قیادت میں 2000ء کی دہائی میں نئی مزاحمت کا آغاز ہوا، جو 2006ء میں ان کے ریاستی قتل کے بعد مزید شدت اختیار کر گئی۔ بلوچستان لبریشن آرمی (BLA)، بلوچستان ریپبلکن آرمی (BRA)، یونائٹڈ بلوچ آرمی (UBA)، بلوچستان لبریشن فرنٹ (BLF) سمیت دیگر گروہ متحرک ہوئے۔ یہ مزاحمت آج بھی جاری ہے، اور بلوچ مسلح علیحدگی پسند گروہ پاکستانی ریاست کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ مگر موجودہ مسلح بغاوت میں ”بی ایل اے“ اور ”بی ایل ایفُُ“ زیادہ سرگرم ہیں جبکہ باقی گروپس اس وقت گراؤنڈ پر بہت کم حد تک موجود ہیں۔
2006ء سے 2018ء کے دوران بلوچ مزاحمتی تحریک کے دوران بلوچ مسلح تنظیموں کے حملوں میں شدت آئی، جہاں مسلح عسکریت پسند تنظیموں نے فوج، ایف سی، پولیس، اور چینی منصوبوں پر مسلسل حملے کیے۔ بلوچ مسلح آزادی پسند تنظیموں کو اس وقت دھچکا لگا جب ریاست نے جمہوری و سیاسی آوازوں پر پابندی لگانا شروع کی۔ اس کا پہلا نشانہ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد (BSO Azad) بنی۔ اس طلبہ تنظیم پر 2013ء میں پابندی لگا دی گئی، جبکہ مشرف کے دور آمریت میں جبری گمشدگیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جس میں بی ایس او آزاد کی قیادت سمیت بلوچ نیشنل موومنٹ کی قیادت کو قتل، مسخ شدہ لاشیں اور جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس سیاسی کارکنان کی اکثریت آج تک زندانوں میں موجود ہے۔ چند ایک سیاسی کارکنان کو جب موقع ملا تو وہ پاکستان سے باہر نکل گئے جبکہ مذکورہ دو تنظیمیں آج بھی خفیہ طور پر کام کر رہی ہیں، اور گراؤنڈ پر نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کے علاوہ ریاست کی جانب سے”مسخ شدہ لاشیں“ اور جبری گمشدگیوں میں اضافے کے ساتھ بلوچ علاقوں میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کیے گئے، خاص طور پر آواران، مستونگ، پنجگور، خاران، خضدار، قلات اور تربت وغیرہ بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ اس دوران مسلح تنظیموں نے بھی اپنی کاروائیاں جاری رکھیں اور 2015ء کے بعد CPEC منصوبے کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ دوسری طرف ریاستی جبر میں بھی شدت بڑھتی گئی۔
ریاستی جبر میں شدت کی وجہ سے ایک طرف اگر بلوچ سماج وقتی طور پر سطحی جمود کا شکار رہا تو دوسری جانب ریاست کی ان جابرانہ پالیسیوں کی وجہ سے بلوچ حریت پسند عسکری تنظیموں میں دراڑیں پڑنے لگیں۔ ایک وقت میں بلوچ مسلح جدوجہد کافی پیچھے چلی گئی تھی۔ مگر 2018ء کے بعد بلوچ مسلح عسکریت پسند تنظیموں نے اپنے آپ کو دوبارہ زندہ رکھنے کے لیے تنظیم سازی کا عمل شروع کیا جس میں چند ایسے مہرے جوکہ ریاست کی جانب سے مختلف اوقات میں اِن کے اندر گھس گئے تھے، ان کا کافی حد تک صفایا کیا۔ بلوچ لبریشن آرمی کا پہلا خودکش حملہ 2012ء میں ڈیتھ سکواڈ کمانڈر شفیق مینگل پر ہوا۔ جس کے بعد 2018ء تک اس طرح کے حملے نہیں ہو ئے۔ مگر11 اگست 2018ء کو دالبندین میں چینی کانوائے پر خودکش حملے کے ذریعے بی ایل اے نے نئی قیادت کے ساتھ اپنے وجود کا دوبارہ اعلان کیا۔ اس سے پہلے بی ایس او آزاد پر پابندی کے بعد نئی ریکروٹمنٹ میں مسلح آزادی پسند تنظیموں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، بہر حال اس پر ہم آگے چل کر بات کریں گے۔
2018ء کے بعد بلوچستان بالخصوص ”بلوچ سماج“ کی بدلتی تصویر
نومبر 2018ء میں بی ایس او آزاد کے مرکزی اطلاعات سیکرٹری شبیر بلوچ کی ہمشیرہ سیما بلوچ نے اپنے بھائی کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا۔ عوام کی ایک بڑی تعداد نے لبیک کہا اور ریاستی جبر کے خلاف بلوچ سماج دوبارہ حرکت میں آگیا۔ یوں 2013ء سے 2018ء تک بالخصوص بلوچ سماج میں ریاستی جبر کی وجہ سے جو گھٹن کی فضا موجود تھی، اس کو ختم کرنے میں سیما بلوچ کی اس کال نے فیصلہ کن محرک کا کردار ادا کیا۔ مگر ریاستی جبر بدستور مختلف شکلوں میں موجود رہا۔ 2019ء میں کرونا کے دوران احتجاجوں کا سلسلہ تھوڑا سا تھم گیا مگر مئی 2020ء میں پنجگور کے مضافاتی علاقے میں مسلح افراد نے ایک گھر پر حملہ کیا، نتیجے میں چار سالہ بچی برمش بلوچ کے زخمی ہونے کی مذمت میں برمش یکجہتی کمیٹی کی شکل میں پورے بلوچستان میں احتجاجی مظاہروں کا نیا آغاز ہوا۔ اگست 2020ء میں ایف سی اہلکاروں نے حیات بلوچ نامی نوجوان طالبعلم کو اس کے والدین کے سامنے گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ اس واقعے کے خلاف بھی حیات یکجہتی کمیٹی کے نام سے بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں انسانی حقوق کے علمبرداروں، طلبہ، نوجوانوں، سیاسی کارکنوں اور محنت کشوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے احتجاجی تحریک چلائی۔ جس کے نتیجے میں پہلی بار (ایف سی) کے ریاستی ادارے کے ونگ کمانڈر نے متعلقہ خاندان سے معافی مانگتے ہوئے حیات بلوچ کی شہادت کا ہرجانہ بھی ادا کیا۔ مگر عمومی طور پر ان دونوں واقعات نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جبری تشدد کے خلاف ایک بڑی تحریک کو جنم دیا۔ اس کے نتیجے میں ہی بلوچ یکجہتی کمیٹی کا جنم ہوا۔

2020ء سے 2024ء تک بلوچ سماج میں احتجاجوں کی ایک مستقل لہر دیکھی گئی جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، جبری گمشدگیوں، معاشی مسائل اور دیگر ناانصافیوں کے خلاف تھے۔ ان احتجاجوں نے بلوچستان کے عوام کے حقوق اور مسائل کو اُجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف بلوچستان بھر میں طویل دھرنے، احتجاجی مظاہرے اور جلسے جلوس کیے گئے، جن میں سب اہم دو بڑی عوامی تحریکوں کا ذکر کرنا انتہائی ضروری ہے۔
2021ء میں گوادر میں ’حق دو تحریک‘ کے نام سے نئی تحریک کا جنم ہوا۔ گوادر کے ماہی گیروں اور مقامی آبادی نے روزگار کے مواقع، سمندری حدود میں غیر قانونی ٹرالنگ کے خاتمے اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے احتجاج کیا۔ آسان الفاظ میں اگر بیان کیا جائے تو چینی سامراجی سرمایہ کاری کے خلاف یہ عوامی جدوجہد کا پہلا مجسم اظہار تھا۔ اس ضمن میں مکران ڈویژن بالخصوص گوادر میں ہزاروں افراد نے دھرنے دیے، جو کئی ہفتوں تک جاری رہے۔ اس تحریک نے چینی سامراجی منصوبوں کی قلعی کھول دی۔ دوسری جانب اس تحریک نے بلوچ قوم پرست پارلیمانی سیاست میں ایک نئی بحث کو بھی جنم دیا۔

اپریل 2022ء میں بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس (بیوگا) کی جانب سے 12 روزہ احتجاجی دھرنا دیا گیا جس میں پورے بلوچستان کے لاکھوں ملازمین و محنت کشوں نے بھرپور شرکت کی۔ گوکہ اس احتجاجی دھرنے کو حسب توقع اتنی کامیابی نہیں ملی مگر اس احتجاجی دھرنے نے بلوچستان بھر میں محنت کش طبقے کے وجود کو ثابت کر دیا اور بالخصوص ان لوگوں کے منہ پر مہر ثبت کردی، جو بلوچستان میں محنت کش طبقے کی وجود سے ہی انکاری تھے۔

2023ء میں بلوچستان بھر میں مختلف ایشوز پر 813 احتجاجی مظاہرے ریکارڈ کیے گئے۔ ان میں سے 418 مظاہرے جبری گمشدگیوں کے خلاف تھے۔ کوئٹہ میں 554، تربت میں 70، چمن میں 61 اور خضدار میں 50 مظاہرے ہوئے۔ جبکہ دسمبر 2023ء میں تربت شہر میں بالاچ بلوچ کے ریاستی قتل کے خلاف دھرنوں اور احتجاجوں کا آغاز ہوا۔ یہی احتجاجی سلسلہ پھر اسلام آباد تک لانگ مارچ میں تبدیل ہوا۔ اس لانگ مارچ کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی کو نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف ایک اہم تحریک کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ اُس کے بعد سے بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کئی احتجاجی جلسوں، مظاہروں اور دھرنوں کا انعقاد کیا ہے۔ ان میں بالخصوص جولائی 2024ء میں گوادر میں ہونے والی ”راجی مچی“ اور اس پر ہونے والے ریاستی جبر نے بلوچ نوجوانوں کو مزید عوامی جدوجہد کی جانب دھکیلا۔ جبکہ 2025ء کے آغاز میں دالبندین میں بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ایک عظیم الشان احتجاجی جلسہ کیا۔ تا حال بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاجی مظاہرے اور دھرنے رواں دواں ہیں۔ یہ تھا ایک مختصر تاریخی جائزہ۔ اب آگے چل کر ہم مارکسی نقطہ نظر سے مسلح جدوجہد کے نظریات، طریقہ کار کی محدودیت اور معروضی صورتحال میں پنہاں امکانات کا جائزہ لیں گے۔

مسلح جدوجہد پر کمیونسٹ موقف
آزادی حاصل کرنے کے طریقہ کار پر ہم آگے جاکر اپنے مارکسی اساتذہ کی تحریروں کی روشنی میں بات کریں گے۔ سب سے پہلے اہم بات یہ ہے کہ طریقہ کار کا انتخاب یا استرداد بنیادی نوعیت کا حامل نہیں ہوتا، بلکہ سب سے اہمیت کے حامل نظریات ہوتے ہیں۔ کیونکہ نظریات کی روشنی میں ہی طریقہ کار کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ماضی یا موجودہ گوریلا جنگ پر مارکسزم کا تاریخی موقف رہا ہے۔ مارکس، اینگلز، لینن، ٹراٹسکی کے بعد ہمارے دیگر اساتذہ نے وقتاً فوقتاً اس کو مزید نکھارا ہے۔
انقلاب روس کے قائد اور عظیم انقلابی مارکسی استاد کامریڈ لینن نے ”گوریلا جنگ (Guerrilla Warfare)“ کے عنوان سے اپنا مشہور پمفلٹ ستمبر 1906ء میں لکھا تھا۔ یہ پمفلٹ 1905ء کے انقلاب کی ناکامی کے بعد جب زارشاہی کی جانب سے ہر قسم کی سیاسی و جمہوری جدوجہد پر مکمل پابندی تھی اس وقت لکھا گیا ہے۔ اس کا مختصر مفہوم کچھ یوں ہے، ”مارکسزم کسی بھی طرز جدوجہد کو اصولی طور پر مسترد نہیں کرتا، اور نہ ہی مروجہ اور ممکنہ جدوجہد کے راستوں تک مارکسزم خود کو محدود کرتا ہے، بلکہ سماجی حالات کے ساتھ جدوجہد کے نئے طریقے بھی لازمی طور پر اُبھرتے ہیں۔ مختصراً مارکسزم عوامی تجربات سے سیکھتا ہے نہ کہ گوشہ نشینی میں بیٹھے ہوئے کسی مہان نظریہ دان کے طریقوں کو سماج پر مسلط کرتا ہے۔“
ساتھ ہی دوسرے نقطے میں وہ اضافہ کرتا ہے کہ ”مارکسزم جدوجہد کی مختلف شکلوں کا مکمل تاریخی جائزہ لیتا ہے اور اس مسئلے کو مخصوص تاریخی پس منظر کے بغیر دیکھنا جدلیاتی مادیت کی نفی ہوتی ہے۔ جدوجہد کے طریقہ کار کا انحصار (سیاسی، قومی، ثقافتی اور حالات زندگی کے فرق) پر ہوتا ہے اور جدوجہد کے طریقہ کار کا چناؤ انہی حالات کے تابع ہوتا ہے۔ کسی مخصوص جدوجہد کے طریقہ کار کے بارے میں بغیر تفصیلی جائزے کے ”ہاں یا نہیں“ میں جواب دینا مارکسزم سے انحراف ہے۔“

اب اس ضمن میں اگر ہم بلوچ سماج کا جائزہ لیتے ہیں تو چند اہم سوالات اُبھرتے ہیں۔ سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ (سیاسی، سماجی، معاشی اور دیگر حالات) کے مطالعے کا مقصد کیا ہے؟ مسلح جدوجہد کا مظہر، اسباب اور اس کی شکلیں کیا ہیں؟ مسلح جدوجہد کا طریقہ کار کب اُبھرا اور کس حد تک پھیلا ہوا ہے؟ عوامی تحریک یا انقلاب کی عمومی سمت میں اس کا کردار کیا ہے؟ مزدور طبقے کی جڑت اور عمومی صورتحال سے اس کا کیا تعلق ہے؟
ان سب سوالات کے جواب دینے سے پہلے ہم بالشویک انقلاب کے دوسرے قائد لیون ٹراٹسکی کا موقف بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ لیون ٹراٹسکی نے اپنے آرٹیکل (1909ء) ”مارکسسٹ انفرادی دہشت گردی کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟“ میں لکھتا ہے کہ ”ایک دہشت گردانہ کوشش، چاہے’کامیاب‘ ہی کیوں نہ ہو، حکمران طبقے کو پریشانی میں ڈالتی ہے یا نہیں ٹھوس سیاسی حالات پر منحصر ہے۔ لیکن کوئی بھی حالات ہوں یہ پریشانی تھوڑی مدت کے لئے ہوتی ہے؛ سرمایہ دارانہ ریاست سرکاری وزیروں کی مرہونِ منت نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کے خاتمے کے ساتھ ختم ہوتی ہے۔ یہ ریاست جن طبقوں کی خدمت کر رہی ہوتی ہے وہ ہمیشہ نئے لوگ ڈھونڈ لیں گے، یہ نظام موجود رہے گا اور کام کرتا رہے گا۔“ ٹراٹسکی مزید لکھتا ہے کہ ”ہم انفرادی دہشت گردی کی اس لئے مخالفت کرتے ہیں کیونکہ انفرادی انتقام ہمیں تسکین نہیں پہنچاتا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ ہمیں جو حساب چکتا کرنا ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ اسے ایک سرکاری ملازم جسے وزیر کہتے ہیں پورا نہیں کر سکتا۔ انسانیت کے خلاف تمام جرائم کو ہوتے ہوئے دیکھنا، وہ تمام تذلیل جو انسانی جسم اور روح کے ساتھ کی جاتی ہے، اسے موجودہ معاشرے کے اظہار کے طور پر سمجھنا اور اپنی تمام توانائیوں کو موجودہ نظام کے خلاف جدوجہد میں اکٹھا کرنا۔۔۔یہی وہ رستہ ہے جس پر انتقام کے بھڑکتے ہوئے جذبات اپنی اعلیٰ ترین تسکین پا سکتے ہیں۔“

اس کے علاوہ منظم عوامی جدوجہد اور مسلح جدوجہد کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتا ہے، ”ہماری نظروں میں انفرادی دہشت گردی کی کوئی جگہ نہیں کیونکہ یہ عوام کے شعور میں ان کے کردار کو گھٹاتا ہے، اُن کو کمزوری کااحساس دلاتا ہے اور ان کی امیدوں کو ایک بہت بڑے مسیحا کی جانب لگا دیتا ہے جو ایک دن اُن کو اُن کی مصیبتوں سے چھٹکارا دلا کر ان کا مقصد پورا کرے گا۔ عملی کام کا پراپیگنڈہ کرنے والے انارکسٹ اس بات کے لئے بے شمار دلائل دے سکتے ہیں کہ دہشت گردی کس پرزور انداز میں عوام پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ نظریاتی غور اور سیاسی تجربات اس کے بر عکس صورتحال پیش کرتے ہیں۔ دہشت گردی کا عمل جتنا زیادہ ’پر اثر‘ ہو گا، اتنا ہی وہ عوام کی اپنی تعلیم اور تنظیم میں دلچسپی کو کم کرے گا۔ جیسے ہی پریشانی کی فضا ختم ہوتی ہے، زندگی دوبارہ اپنی پرانی ڈگر پر چلنا شروع کر دیتی ہے، سرمایہ دارانہ استحصال کا پہیہ پھر سے گھومنے لگتا ہے، صرف پولیس تشدد زیادہ وحشی ہو جاتا ہے۔ اور نتیجے میں، امیدیں روشن ہونے اور مصنوعی طور پر ہنگامہ خیزی کی جگہ بے حسی اور مردہ دلی لے لیتی ہے۔“
گوریلا جنگ اور موجودہ عوامی تحریکیں
ہم نے اپنی تحریر میں بلوچستان کے محض چھ سالوں کی عوامی تحریکوں کے حوالے سے مختصراً ذکر کیا ہے، اب اس ضمن میں اگر ہم اوپر پوچھے گئے سوالات کے جواب تحریر کرتے جائیں تو یہ تحریر انتہائی طویل ہو جائے گی۔ بہر حال ہم مختصر اس بحث کو اس نقطہ نظر کے ساتھ آگے لے جا سکتے ہیں کہ بلوچستان میں اس وقت مختلف تحریکیں چل رہی ہیں جس میں قومی جبر کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی شکل میں ایک شاندار عوامی تحریک موجود ہے۔ جبکہ دوسری جانب عوامی اداروں سے منسلک محنت کش بھی اپنے مطالبات کیلئے دوبارہ ایک بڑی تحریک چلانے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ اب اس ضمن میں جب ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ بحیثیت کمیونسٹ ہمیں سماج کے معاشی، سیاسی اور سماجی حالات کو دیکھنا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ اس وقت بلوچستان میں کیا حالات چل رہے ہیں؟
کیا اس وقت ریاستی جبر اس نہج پر موجود ہے کہ جہاں جمہوری، سیاسی اور معاشی حقوق کے لیے عوامی جدوجہد کرنا ناممکن ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ریاست اس وقت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ ایک دہائی پہلے کے جیسے فوجی آپریشنز کر سکے؟ ان سوالات سے ہرگز ہمارا مقصد یہ نہیں کہ بلوچستان میں قومی جبر میں کمی آئے گی بلکہ قومی جبر میں مزید شدت آسکتی ہے لیکن جو دو اہم سوالات ہم نے اٹھائے ہیں ان دونوں سوالات کے جواب موجودہ صورتحال میں ہمارانقطہ نظر درج ذیل ہے۔
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ اس وقت نہ صرف گوریلا جہد کاروں کے لیے بلکہ ان تمام قنوطی دانشوروں کے لیے لمحہ فکریہ ہو سکتا ہے، جو یہ سمجھتے تھے کہ بلوچ سماج میں بندوق کی زبان سے ہٹ کر عوامی جدوجہد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مگر اس وقت بلوچستان میں جاری تحریک ایک طرف اگر اس سوال کا جواب دیتی ہے تو دوسری جانب پاکستان سمیت پوری دنیا میں خواتین کی قیادت میں اتنی بڑی عوامی تحریک ایک مثال بھی ہے، گوکہ یہ ایک الگ بحث ہو سکتی ہے کہ اس تحریک کی حادثاتی قیادت خواتین کے حصے میں کیوں آئی ہے۔
دوسرے سوال کا جواب ہم یوں دے سکتے ہیں کہ اس وقت بلوچستان سمیت پاکستان اور پوری دنیا اس وقت فقید المثال تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔ یہ تبدیلیاں ریاست پاکستان پر بھی اثرانداز ہوتی جارہی ہیں۔ جس سے ریاست بیک وقت بیرونی و داخلی بحرانات کا شکار ہے۔ بلوچ سماج میں بڑے پیمانے پرفوجی آپریشنز خود ریاستی مفادات کے حوالے سے کوئی حل نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ریاست کے اندر ٹوٹ پھوٹ بڑھتی جا رہی ہے۔ بحیثیت کمیونسٹ ہم نے فوجی آپریشنز کی ہمیشہ بھرپور مخالفت کی ہے، اورمستقبل میں بھی ممکنہ فوجی آپریشنز کی بھرپو رمخالفت کرینگے۔ اس کے علاوہ یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ ریاستی جبرکی مخالفت میں اس وقت بلوچ سماج میں ایک عوامی تحریک موجود ہے، اور فوج یا ریاست کی بلوچستان میں کمزوری کا اہم شاخسانہ بلوچ قوم کی اس وقت شاندار تحریک ہے۔ جس طرح پہلے بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس تحریک نے بلوچ سماج میں تاریخ کی سب سے بڑی پولیٹیکل موبلائزیشن کی ہے۔ اسی تحریک نے ریاست کو اخلاقی اور ہر حوالے سے شکست خوردہ کر دیا ہے، جس سے پاکستانی فوج کے اندر مورال انتہائی کم تر ہوتا جارہا ہے۔ مختصراً بلوچ یکجہتی کمیٹی کی شکل میں یا عمومی طور پر بلوچ سماج میں ایسی ارتعاش / پولیٹیکل موبیلائزیشن ریاست کے لیے سنجیدہ خطرہ ہے۔ اس ضمن میں ہم بلوچ نوجوانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس تحریک کو اور مضبوط کریں۔
ریاستی جبر کی وجہ سے بلوچ سماج کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا ہے جس کا اظہار ہم پچھلے ڈیڑھ سال سے شاندار عوامی تحریک اور مختلف احتجاجی مظاہروں کی شکل میں دیکھتے آرہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل مسنگ پرسنز پر لواحقین ریاستی جبر کی وجہ سے وقتی طور پر خاموش بیٹھے رہتے تھے، مگر اب جونہی کسی گھر میں جبری گمشدگی ہوتی ہے فوراً اس کے بعد مرکزی شاہراوں کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا جاتا ہے۔ اس تمام صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے بڑے پیمانے پر فوجی آپریشنز کے امکانات محدود لگتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب (موجودہ شکل میں جاری) فوجی آپریشنز میں شدت کے عمل کو مکمل طور پر خارج ازامکان نہیں قرار دیا جاسکتا، کیونکہ ریاست کے بوسیدہ ہونے سے ریاست کی وحشت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی بلوچستان میں پچھلے ڈھائی دہائیوں سے تو مسلسل فوجی آپریشنز چل ہی رہے ہیں، اور ریاستی جبر میں شدت مسلح جدوجہد کا ہی نتیجہ ہوتا ہے، جس میں عام سیاسی کارکنوں کو اس کی قیمت بڑے بھیانک قسم کے آپریشنوں کی شکل میں بھگتنی پڑی ہے۔ بالخصوص بلوچستان سے باہر جو بلوچ طلبہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخواہ کے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان کو مزید سنگین نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔ بہر حال یہاں یہ واضح ہونا چاہیے کہ ان آپریشنز اور ریاستی جبر کی تمام تر ذمہ داری پاکستان کی سرمایہ دارانہ ریاست پر ہی عائد ہوتی ہے جو ملکی و عالمی سرمایہ داروں کے مفادات کیلئے یہ سب کر رہی ہے۔

اس تمام مذکورہ صورتحال کے نتیجے میں ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اس وقت بلوچ سماج میں قومی جبر کے خلاف بلوچ عوام کی ایک شاندار اور پرزور عوامی جدوجہد چل رہی ہے۔ جبکہ بلوچستان سمیت پورے ملک میں محنت کش طبقے کی بھی تحریک انگڑائی لے رہی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبرپختونخواہ میں بڑی عوامی تحریکیں موجود ہیں۔ تو اس ضمن میں بحیثیت کمیونسٹ ہمارا زور اور جھکاؤ ان عوامی تحریکوں کی جانب ہی ہوگا جو اس وقت منظر عام پر جدوجہد کر رہی ہیں۔ کیونکہ مسلح جدوجہد کے طریقہ کار کی محدودیت ہمارے سامنے ہے، اور یہ طریقہ کار پچھلے 78 سالوں سے آزمایا جاچکا ہے، جس کا کوئی خاطرخواہ نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ اب وقت کی ضرورت یہی ہے کہ ان تحریکوں کو آپس میں جوڑا جائے تاکہ ظلم، جبر اور استحصال پر مبنی اس نظام کے خاتمے کا بھرپور آغاز کیا جا سکے۔
عوامی تحریکیں اور قیادت کا بحران
اپنے ”عبوری پروگرام“ میں لیون ٹراٹسکی نے درست طور پر وضاحت کی کہ ”انسانی تاریخ کا بحران انقلابی قیادت کے بحران میں سمٹ گیا ہے“۔ اس قول سے ہم یہ معنی اخذ کر سکتے ہیں کہ عوام میں جدوجہد کرنے کی خواہش اور صلاحیت موجود ہوتی ہے، مگر انقلابی تبدیلی کے لیے درکار قیادت کی کمی ان کی کوششوں کو بکھیر دیتی ہے۔ اگر قیادت صحیح، انقلابی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہو، تو جبر کی ہر شکل کو ختم کرنے کی مظبوط بنیاد کھڑی کی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں اس جملے میں ٹراٹسکی نے محض سیاسی جماعتوں یا حکمرانوں پر تنقید نہیں کی بلکہ یہ دکھایا کہ اگر کوئی سماج بحران کا شکار ہے، تو اس کا اصل سبب قیادت کی نااہلی اور درست رہنمائی کی کمی ہے۔ یہ قول آج پوری دنیا میں جاری عوامی تحریکوں سمیت بائیں بازوں کی قیادت کی عدم موجودگی کے لیے درست ثابت ہوتا ہے۔
تحریر کی طوالت کی وجہ سے ہم اس بحث کو مختصر کرتے ہیں کہ اس وقت بلوچ سماج میں جاری عوامی تحریک کی قیادت پر اہم تنقید اور سوالات موجود ہیں۔ کیونکہ اس وقت بلوچ سماج میں ایک طرف اگر مہم جوئی کی لہر گوریلا وار فیئر کی شکل میں موجود ہے، جس کی بہر صورت لازوال قربانیوں اور سچے حریت پسند جذبوں کی ایک طویل داستان موجود ہے تو دوسری جانب موقع پرستی کی انتہا بھی ہمیں ریاستی دلالی اور پارلیمان کی شکل میں نظر آتی ہے۔ ان دو انتہاؤں سے مختلف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی شکل میں عوامی تحریک موجود ہے۔ مگر مذکورہ تحریک کی قیادت کے پاس کوئی سنجیدہ پروگرامیٹک لائن موجود نہیں ہے کہ وہ بلوچ تحریک کو آگے کا کیا رستہ دکھائے گی۔ گوکہ اس تحریک کی بنیاد انسانی اور جمہوری حقوق ہیں مگر ایک سیاسی تحریک کی حیثیت سے تحریک نے بلوچ سماج میں پہلی بار بلوچستان سمیت ملک بھر میں جہاں جہاں بلوچ آباد ہیں، ان سب کو جھنجھوڑا اور اپنے ساتھ جوڑا۔ اس تحریک کی سب سے بڑی کامیابی بھی یہی ہے کہ اس جیسی عوامی تحریک کبھی بھی بلوچ سماج میں ترویج نہیں کر پائی ہے۔ مگر تحریک کی قیادت عوامی جذبات کی درست عکاسی نہیں کر پا رہی ہے۔ گوکہ اسی تحریک کا مقصد بھی قومی جبر کے خلاف عوامی جدوجہد کے ذریعے قومی آزادی حاصل کرنا ہی ہے۔ مگر اب تک وہ واشگاف الفاظ میں یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ہم نے کون سی آزادی کس طرح حاصل کرنی ہے۔ یہ سوالات آج تک تشنہ لب ہیں۔
واضح پروگرام کی عدم موجودگی کی وجہ سے تحریک سے جڑے ہر اول دستے کے نوجوان بلوچ مسلح حریت پسندوں کی صفوں میں محدود پیمانے پر جانے لگے ہیں۔ اس کا اظہار ہم نے بلوچ مسلح حریت پسندوں کے مختلف حملوں میں ان نوجوانوں کو دیکھا ہے جنہوں نے بالخصوص مجید بریگیڈ میں 2020ء کے بعد شمولیت کی ہے۔ دوسری جانب تحریک کو زوال پذیر قوم پرست نظریات کے تحت محدود سے محدود تر کیا جا رہا ہے جس کی بنیاد پر بلوچ قوم پر ہونے والے جبر کے خلاف جدوجہد کو محض بلوچ تک ہی محدود کرنا تنگ نظری کا واضح اظہار ہے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ سمیت دیگر سامراجی اداروں، سامراجی ممالک کے حکمران طبقات، این جی اوز سے ایکشن لینے کی بات تو کی جاتی ہے مگر پاکستان بھر کے دیگر مظلوم اقوام اور محنت کش طبقے سے اپیل کرنا توہین سمجھتے ہیں۔ جبکہ درحقیقت ان تمام سامراجی اداروں، ممالک اور این جی اوز سے مدد کی اپیل کرنا اس عوامی تحریک کی واضح توہین ہے۔ ساتھ ہی یہ اقدام تحریک کو پاکستان بھر کے دیگر مظلوم اقوام و محکوم طبقات سے کاٹنے کا سنگین اور افسوسناک عمل ہے۔ ان سامراجی اداروں، سامراجی ممالک کے حکمران طبقات اور این جی اوز کا غلیظ کردار ساری دنیا کے سامنے ہے، کہ ان بدبودار اداروں نے فلسطین کے ساتھ کیا کیا؟
کیا آج کے عہد میں گوریلا جنگ سامراج مخالف ہوسکتی ہے؟
مارکسزم کے نقطہ نظر سے گوریلا جنگ کی نوعیت اور اس کا سامراج مخالف ہونا مخصوص تاریخی، سماجی اور معاشی حالات پر منحصر ہوتا ہے۔ ہر مسلح جدوجہد کو سامراج مخالف نہیں کہا جا سکتا، بلکہ اس کے پسِ منظر، قیادت، طبقاتی بنیاد اور سیاسی مقاصد کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے۔ مارکسی اصطلاح میں سامراج مخالف جدوجہد وہ ہوتی ہے جو عالمی سطح پر موجود سرمایہ دارانہ نظام، نوآبادیاتی یا نیم نوآبادیاتی استحصال، اور ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کے خلاف ہو۔ اگر کوئی گوریلا جنگ واقعی ان قوتوں کے خلاف ہو، تو اسے سامراج مخالف قرار دیا جا سکتا ہے۔
انقلابی استاد لینن کے مطابق سامراج سرمایہ داری کا آخری اور اعلیٰ مرحلہ ہے، جہاں سرمایہ دارانہ ریاستیں بیرونی اقوام کو اقتصادی، سیاسی اور فوجی ذرائع سے تابع رکھتی ہیں۔ اس لیے سامراج مخالف جدوجہد کا مقصد نہ صرف قومی آزادی بلکہ سرمایہ دارانہ استحصال کو ختم کرنا بھی ہونا چاہیے۔ جس طرح چینی انقلابی رہنما ماؤ زے تنگ نے اپنی گوریلا جنگ کو سامراج مخالف جدوجہد کے طور پر پیش کیا کیونکہ وہ جاپانی سامراج اور قومی بورژوازی دونوں کے خلاف لڑ رہے تھے۔ جبکہ ساتھ ہی ساتھ انہیں کسی دوسرے سامراجی ملک کی کوئی حمایت بھی حاصل نہیں تھی۔
بلوچ مسلح جدوجہد (گوریلا جنگ) کی سامراج مخالف حیثیت کا تعین کرنے کے لیے ہمیں اسے طبقاتی، قومی، اور بین الاقوامی پسِ منظر میں دیکھنا ہوگا۔ ہر سیاسی یا گوریلا جدوجہد کو خودبخود سامراج مخالف نہیں سمجھا جا سکتا جب تک کہ اس کی قیادت، نظریہ اور مقاصد واضح نہ ہوں۔ بلوچ مسلح حریت پسند بنیادی طور پر قوم پرست ہیں اور بلوچ قومی آزادی کی بات کرتے ہیں۔ گوکہ قیادت میں ایک شفٹ بھی آئی ہے یعنی موجودہ مسلح حریت پسند تنظیموں کی قیادت نوابوں اور سرداروں کی بجائے مڈل کلاس قوم پرستوں پر مشتمل ہے۔ ان کا ہدف بلوچستان کی علیحدگی ہے، لیکن سوشلسٹ متبادل کا کوئی ذکر بھی شامل نہیں ہوتا۔ بلوچ مسلح حریت پسند اکثر پاکستانی ریاست کو سامراجی طاقت قرار دیتے ہیں، اور اس کے خلاف جدوجہد کو سامراج مخالف جنگ سمجھتے ہیں۔ لیکن مارکسی نقطہ نظر سے یہ معاملہ پیچیدہ ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان ایک سامراجی ریاست ہے، اور اس میں بھی کوئی اختلاف رائے نہیں ہے، کہ یہاں پر چین کی سامراجی سرمایہ کاری موجود ہے، اور بلوچ مسلح حریت پسند چینی سرمایہ کاری کے بھی خلاف ہیں۔ لیکن چینی سرمایہ کاری کی مخالفت محض بلوچستان پر پاکستانی ریاست کی قبضہ گیری کی وجہ سے کی جا رہی ہے، یعنی بلوچ قوم کے حق خودارادیت کو للکارتے ہوئے یہ سامراجی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ کل کو اگر انہی مسلح حریت پسندوں کے زیر اہتمام آزاد بلوچستان ہوتا ہے تو کیا وہ چینی سرمایہ کاری کی مخالفت کریں گے؟
اس کے علاوہ ایک سامراجی ریاست سے آزادی حاصل کرنے کے لیے عالمی سرمایہ داری، دیگر سامراجی ممالک اور بالعموم سامراجیت کی مخالفت لازمی ہے۔ تاکہ کسی تحریک کا مقصد واضح ہوسکے۔ مگر بلوچ مسلح حریت پسندوں میں یہ عمل نہ صرف مفقود ہے، بلکہ بلوچ مسلح تنظیمیں عالمی سامراجی سرمایہ داری کے خلاف براہ راست جدوجہد نہیں کر رہیں، اور نہ ہی ان کا عالمی سامراجیت کے مظہر کیخلاف کوئی نظریاتی اور سیاسی موقف موجود ہے۔ سوویت یونین کی موجودگی میں نوآبادیاتی نظام کے خلاف قومی بنیادوں پر جو بھی جدوجہد ہوتی تھی چاہے وہ گوریلا جنگ کی شکل میں تھیں یا پھر عوامی جدوجہد، ان میں سامراج مخالف عناصر کوٹ کوٹ کر بھرے ہوتے تھے۔ انہیں ساتھ ہی سویت یونین کی جانب سے ہر قسم کی حمایت و امداد موصول ہوتی تھی۔ جب اس وقت گوریلا جنگ کسی دوسرے ملک کے حمایت اور امداد کے بغیر نہیں چل سکتی تھی تو یہی سوال آج کے عہد میں بلوچ گوریلا جنگ سمیت دیگر مسلح جدوجہد پر کیا جا سکتا ہے؟ جس طرح کرد قومی سوال کے گرد کردش مسلح جدوجہد کی تحریک ہے، کیا انہیں اس وقت امریکی سامراج کی حمایت حاصل نہیں ہے؟ یہ چند ایسے سوالات ہیں جنہیں شاید ذی شعور سیاسی جدوجہد کرنے والے سچے اور مخلص کارکنان سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
ہم کمیونسٹ کیا چاہتے ہیں؟
بحیثیت کمیونسٹ ہم ہر قسم کے جبر (قومی، مذہبی، صنفی، بنیاد پرستی، جبری گمشدگی، مسخ شدہ لاشیں، دہشت گردی و دیگر) جرائم کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ استحصال پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں، جہاں نجی ملکیت کی جڑیں اسی نظام کے ساتھ محفوظ و مضبوط ہو رہی ہیں، اور قومی جبر کی بنیاد اسی نجی ملکیت کے ساتھ جڑی ہے، کیونکہ جب نجی ملکیت پر مبنی اس نظام کا خاتمہ ہوگا تو وسائل کی لوٹ مار اور بندر بانٹ خود بخود ختم ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ ہم عدالت، پولیس، فوج، ایف سی سمیت دیگر تمام اداروں پر مشتمل پاکستان کی سرمایہ دارانہ ریاست کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ جبکہ ساتھ ہی ساتھ غربت، محرومی، لاعلاجی، بیروزگاری، ناخواندگی اور پسماندگی کا خاتمہ چاہتے ہیں اور پاکستان سمیت پوری دنیا میں جتنے بھی جمہوری، معاشی، سیاسی اور بنیادی سوالات ہیں، ان کے حل کے لیے بین الاقوامی بنیادوں پر جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہمارا مقصد ہے کہ ہم بلوچستان میں قومی جبر کے خاتمے کو سرمایہ داری اور سامراجیت کے عالمی مظہر کے ساتھ جوڑتے ہوئے ان تمام تر غیر انسانی نظاموں کا خاتمہ کریں۔
راہ نجات سوشلسٹ انقلاب کیوں؟
اس تمام تر بحث کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اگر ہم کسی بیماری کا خاتمہ چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اس بیماری کی درست تشخیص کرنا ضروری ہے۔ درست تشخیص کے بعد ہی اس کا درست علاج کیا جا سکتا ہے۔ سرمایہ داری ایک ایسی وبا بن چکی ہے جس کا علاج سوشلسٹ انقلاب کے بغیر ناممکن ہے اور اگر ہم سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو سرمایہ داری سے جڑے ہوئے تمام تر جرائم کا خاتمہ ہوگا۔
اس وقت سرمایہ داری ایک ایسے مقام پر پہنچ گئی ہے جہاں اصلاحات کے بجائے رد اصلاحات کا دور دورہ ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی سامراجی قوت امریکہ اس وقت ٹرمپ کی سربراہی میں جن تحفظاتی پالیسیوں کا اجراء کر رہی ہے وہ درحقیقت اس نظام کے خصی پن کا واضح اظہار ہے۔ اگر آج کوئی تحریک قومی آزادی حاصل کر کے سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے ایک نئی ”آزاد“ ریاست بناتی ہے، تو وہ سامراجی سرمایہ داری کے عالمی نظام کے دائرے میں پھنس کر رہ جائے گی۔ آج اگر وہ ایک سامراجی ملک کے زیر عتاب ہیں تو کل کسی اور سامراجی ملک کے زیر عتاب ہوں گے جبکہ حقیقی آزادی ممکن نہیں ہو پائے گی۔
مارکسزم کے مطابق، پیداواری قوتیں اب اس مقام پر پہنچ چکی ہیں جہاں نجی ملکیت اور قومی ریاست ان کی مزید ترقی میں رکاوٹ بن چکی ہیں۔ اگر ان رکاوٹوں کو ختم نہ کیا گیا، تو سرمایہ داری خود اپنی ہی پیدا کردہ قوتوں کو تباہ کر دے گی جیسا کہ جنگیں، ماحولیاتی تباہی، اور عالمی معاشی بحران ہمیں دکھا رہے ہیں۔ اس کا واحد حل سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت اور ایک عالمی سوشلسٹ نظام کا قیام ہے، جہاں پیداوار کو نجی منافع کی بجائے اجتماعی فلاح کے لیے منظم کیا جائے۔
نام نہاد تیسری دنیا ایک تاریخی جبر کا شکار ہے۔ سرمایہ داری کی تاخیر زدگی کی وجہ سے یہاں معمول کے مسئلے کا حل بھی ایک انقلابی حل کے بغیر ناممکن ہے۔ اسی ضمن میں قومی سوال سمیت جتنے بھی بنیادی جمہوری سوالات ہیں، ان کا حل سوشلسٹ انقلاب کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اسی لیے ہم اپنی تحریر و تقریر اور بحث مباحثوں میں سرمایہ داری کو ہی تمام بیماریوں کی جڑ بتاتے ہیں۔ اسی بنیاد پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قومی و دیگر جمہوری تحریکوں کو سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کرنا ہوگی۔
جس طرح ہم نے پہلے ذکر کیا تھا کہ بیماری کی درست تشخیص سے ہی درست علاج ممکن ہے، اسی طرح اس وقت بلوچ قومی سوال سمیت پاکستان سمیت پوری دنیا میں جتنے بھی قومی سوال موجود ہیں ان کا حل قوم پرستی کے نظریات میں اب ناپید ہے۔ کیونکہ قوم پرستی کے نظریات سرمایہ دارانہ نظام کے ہی نظریات ہیں اور جب سرمایہ دارانہ نظام اس وقت زوال پذیری کا شکار ہے تو ان کے نظریات میں ترقی پسندی کیسے ہوگی؟ اسی لیے قوم پرستی کے نظریات کی بنیاد پر جتنے بھی سیاسی رجحانات یا تحریکیں موجود ہیں، وہ بائیں بازو کی بجائے دائیں بازوں کی جانب جھکاؤ رکھتے ہوئے سامراجیت کے خلاف کبھی بھی نہیں ہو سکتے۔ یہی اس پوری بحث کا اہم سوال ہے کہ قوم پرستی کے سامنے اس وقت دو انتہائیں ہیں؛ ایک انتہا مہم جوئی کی ہے اور دوسری انتہا موقع پرستی کی ہے تیسرا راستہ کوئی نہیں ہے۔
عظیم انقلابی استاد فریڈرک اینگلز نے کہا تھا کہ ”انسانیت کے پاس دو ہی راستے ہیں، سوشلزم یا باربربریت!“
دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!