|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان|
بلوچستان میں ایسا کوئی دن نہیں گزرتا جو کول مائنز میں کام کرنے والے محنت کشوں کے کے لیے موت کا پیغام نہ لے کر آئے۔ روزانہ کی بنیاد پر صوبے کے دور دراز علاقوں میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے محنت کش ایسے واقعات و حادثات میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ان نہ ختم ہونے والے اندوہناک حادثات کے سلسلے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رواں سال کے شروع سے اب تک 30 کے قریب حادثات میں لگ بھگ 60 مزدور کانکن اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔ جبکہ یہ اعدادوشمار بھی ان واقعات کی روشنی میں اکٹھے کیے گئے جو کہ رپورٹ ہوئے ہیں۔ اصل واقعات، حادثات اور اموات اس سے زیادہ ہوسکتی ہیں۔
یاد رہے بلوچستان میں کوئلہ کانوں کی تعداد چھبیس سو کے قریب ہیں اور ا ن کانوں سے محکمہ معدنیات و کانکنی کے مطابق سالانہ 24لاکھ ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے، جبکہ پاکستان ورکرز فیڈریشن کے سروے کے مطابق ان کانوں میں تین لاکھ کے قریب مزدور کام کرتے ہیں۔ ایک لاکھ کے قریب مزدور کوئلہ کانوں میں زیرزمین کام کرتے ہیں جبکہ باقی کانوں کی اوپری سطح میں کام کرتے ہیں۔ مذکورہ پاکستان ورکرز فیڈریشن کے سروے کے مطابق اب تک ای او بی ائی کے ساتھ صرف آٹھ ہزار کے قریب مزدور رجسٹرڈ ہیں۔
چند ہفتے قبل دکی کے علاقے چمالنگ میں کوئلے کی کان میں حادثے کے نتیجے میں دو کانکن جاں بحق اور ایک زخمی ہوگیا۔ پولیس کے مطابق جاں بحق کان کنوں، وارث خان اور اسد خان کا تعلق سوات سے تھا۔ ذرائع کے مطابق بلوچستان کے علاقے دکی میں چمالنگ کی چھ فٹی کول ایریا میں کوئلے کی کان میں ٹرالی کی رسی ٹوٹنے کے باعث یہ حادثہ پیش آیا۔جاں بحق کان کنوں کی لاشیں کان سے نکال کر اسپتال منتقل کردی گئیں، جہاں سے ضروری کارروائی کے بعد انہیں آبائی علاقوں کو روانہ کیا جائے گا۔
بلوچستان میں کول مائنز کے اندر کام کرنے والے محنت کشوں کے ساتھ روزانہ کے بنیاد پر ایسے جان لیوا حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں، جس میں سالانہ سینکڑوں محنت کش جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ جبکہ ان تمام تر واقعات و حادثات کی تدارک کے لیے کہیں پر بھی کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں اْٹھائے جاتے۔ واضح رہے کہ بلوچستان میں کول مائنز اونرز، ٹھیکیدار، نام نہاد لیبر قیادت سمیت ان تمام تر حادثات اور واقعات میں ریاستی غفلت، نااہلی اور بے حسی میں برابر کے شریک ہیں۔ حادثے کے بعد کچھ وقت کے لیے یہ تمام لوگ مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں، مگر درحقیقت ان حادثات کی روک تھام نہ کرنے پر ان تمام لوگوں کا گٹھ جوڑ واضح ہے کیونکہ ان کے مالی مفادات اسی کے ساتھ جڑے ہیں۔
کول مائنز میں مختلف ناموں سے محنت کشوں کو ورغلانے اور سرمایہ داروں کی دلالی کرنے کے لیے این جی اوز کی سربراہی میں ایسی بیشمار لیبر یونینز اور فیڈریشنز بنائی گئی ہیں جن کا کام سرمایہ داروں کے سرمائے میں اضافے کے لیے محنت کشوں کو تقسیم کرنا ہوتا ہے۔ پورے بلوچستان میں کول مائنز کے محنت کشوں کی کوئی حقیقی نمائندہ یونین یا تنظیم موجود نہیں ہے۔ ٹھیکیداروں، این جی اوز اور دیگر ایسے دلالوں کی طرف سے مائن ورکرز کو اپنے ذاتی و گروہی مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کول مائنز میں کام کرنے والے محنت کشوں کی اکثریت ملک کے دیگر علاقوں بالخصوص خیبرپختونخواہ جبکہ ہمسایہ ملک افغانستان سے تعلق رکھتی ہے اور ان محنت کشوں کی اکثریت ناخواندہ ہونے کی وجہ سے ان کالے بھیڑیوں کے چنگل میں آسانی سے پھنس جاتی ہے۔ آج تک جو بھی حادثہ ہوا ہے اس پر تمام تر نااہل و مفاد پرست ٹریڈ یونین قیادت خاموش ہوتی ہے جب کہ کسی بڑے حادثے کی صورت میں محنت کش طبقے کو ورغلانے اور ان کو جھوٹی تسلی دینے کے لیے ایک آدھ مظاہرے اور اخباری بیان بازی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ جبکہ محنت کشوں کے تحفظ اور کول مائنز کے اندر حفاظتی تدابیر مہیا کرنے کے لیے کول مائنز کی ٹریڈ یونینز نے آج تک کوئی واضح لڑائی نہیں لڑی ہے جس کی وجہ سے روزانہ بلوچستان میں ایسے المناک حادثات پیش آتے ہیں۔
ریڈ ورکرز فرنٹ شروع دن سے کول مائنز میں کام کرنے والے محنت کشوں کو حفاظتی آلات کی فراہمی کے حوالے سے واضح اور دو ٹوک پروگرام کے تحت جدوجہد کر رہا ہے۔ ہم نااہل اور بے حس حکمرانوں اور کرپٹ بیوروکریسی سے بارہا یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ کول مائنز کے اندر کام کرنے والے محنت کشوں کے لئے فوری طور پر تما م تر حفاظتی تدابیر کی جائیں تاکہ آئندہ ایسے المناک حادثات کی روک تھام کی جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان تمام تر حادثات میں جاں بحق ہونے والے محنت کشوں کی تمام تر مالی معاونت بھی متعلقہ کول مائن کمپنی اور حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ کول مائن ورکرز کی لڑائی کو اپنی لڑائی سمجھتے ہوئے بہت جلد اس حوالے سے اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرے گا۔