|تحریر: زلمی پاسون|
بلوچستان کے ضلع کیچ کے ہیڈ کوارٹر تربت سے نکلنے والا احتجاجی لانگ مارچ جب 20 دسمبر 2023ء کی یخ بستہ ہواؤں میں ریاست پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد پہنچا تو اس کا استقبال ریاستی اداروں کی جانب سے بدترین تشدد سے کیا گیا۔ اس ریاستی تشدد میں خواتین، بوڑھوں، بچوں اور دیگر شرکا پریخ ٹھنڈا پانی پھینکا گیا جبکہ شیلنگ اور لاٹھی چارج کے ساتھ ساتھ سینکڑوں کی تعداد میں انہیں گرفتار بھی کیا گیا اور انہیں اسلام آباد میں پرامن احتجاج کرنے سے روک دیا گیا۔ جبکہ خواتین کو بلوچستان ڈیپورٹ کرنے کی کوشش کی گئی، جس پر مظاہرین کے ساتھ ساتھ پورے پاکستان کے نوجوانوں اور محنت کشوں سے شدید دباؤ کی وجہ سے رہا کرنا پڑا۔ جبکہ اس وقت بھی سینکڑوں کی تعداد میں نوجوانوں کو مختلف تعلیمی اداروں اور احتجاج کے مقام سے اٹھا کر ان کو جیلوں میں ڈالا جا چکا ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس احتجاجی تحریک کی قیادت نے ریاست کو اپنے تمام ساتھیوں کی رہائی اور اسلام آباد مارچ پر شروع سے درج شدہ ایف آئی آرز کے خاتمے کے لیے تین دن کا الٹی میٹم دیا۔
اسلام آباد میں بلوچ لانگ مارچ کے احتجاجی شرکاء پر ریاستی اداروں کی جانب سے کیے جانے والے بد ترین تشدد سے پہلے عمران خان کی حکومت کے دوران اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے سرکاری ملازمین کے اتحاد، آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس (اگیگا) کے ہزاروں ملازمین کے احتجاج پر بھی بد ترین لاٹھی چارج کیا گیا تھا اور آنسو گیس پھینکی گئی تھی جب شیخ رشید وفاقی وزیر داخلہ تھا۔ اس وقت بھی پورے ملک کے محنت کشوں میں شدید غم و غصہ پھیل گیا تھا۔ اس دفعہ بھی اس بدترین ریاستی جبر کی بھرپور مذمت کی گئی۔ جبکہ مظاہرین پر ریاستی تشدد کے بعد بلوچستان کے اکثریتی چھوٹے بڑے شہروں میں شٹر ڈاؤن و پہیہ جام ہڑتال اور احتجاجی مظاہرے و دھرنے ہوئے۔ ریاستی دہشتگردی کے خلاف بلوچستان سمیت پاکستان کے درجنوں بڑے اور چھوٹے شہروں میں احتجاج ہوئے۔ اس میں گوادر، تربت، ہیرونک، پنجگور، حب، بیلہ، وڈھ، خضدار، مستونگ، دالبندین، کوئٹہ، کوہلو، رکنی، بارکھان، آواران، تونسہ، کراچی، بہاولپور، لاہور، ڈی جی خان، ڈیرہ بگٹی اور سبی شامل ہیں۔ جبکہ اس کے علاوہ بلوچستان کا کوئی ایک بھی ایسا علاقہ نہیں جہاں احتجاج نہیں ہو رہے۔ بلوچستان کی تمام بڑی شاہراہیں بند کر دی گئی ہیں اور شٹر ڈاؤن و پہیہ جام ہڑتال بھی کی گئی۔ جبکہ پاکستان کے دیگر بڑے بڑے شہروں جس میں لاہور، کراچی، بہاولپور اور سندھ کے اندرونی شہروں میں بھی اس احتجاجی لانگ مارچ پر تشدد کے خلاف اظہار یکجہتی کے لیے مظاہرے کیے گئے۔ لیکن ریاست جبر اور تشدد کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور ہر حال میں بلوچ قوم کو تشدد کے ذریعے زیر کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے، جوکہ قابلِ مذمت امر ہے۔
اس عوامی مزاحمت پر تفصیل سے لکھنے کے لیے ہمیں موجودہ لانگ مارچ کے محرکات، اثرات اور تناظر پر بحث کرنی ہوگی، جبکہ ساتھ ہی ساتھ بلوچستان میں قومی جبر کا مختصر تاریخی جائزہ لینا ہوگا تاکہ ہمارے قارئین کو اس تمام تر صورتحال کا آسانی سے ادراک ہوسکے۔
لانگ مارچ کے محرکات
موجودہ لانگ مارچ کا آغاز تربت میں بالاچ مولا بخش بلوچ سمیت دیگر بلوچ جوانوں کے سی ٹی ڈی کے ہاتھوں قتل کے خلاف ہوا۔ اس لانگ مارچ کا آغاز تربت شہر میں تقریبا دو ہفتے کے دھرنے سے ہوا۔ اس کے بعد 6 دسمبر کو تربت شہر سے لانگ مارچ کا آغاز ہوا جو کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں (پنجگور، ناگ، بسیمہ، نال، تجابان، خضدار، سوراب، قلات، منگوچر، مستونگ) سے ہوتے ہوئے کوئٹہ آپہنچا جہاں پر پانچ دن کے قیام کے بعد لانگ مارچ کا رُخ اسلام آباد کی جانب ہوا۔ یہ مارچ پھر کوہلو، بارکھان، رکنی، فورٹ منرو، ڈی جی خان، تونسہ اور ڈیرہ اسماعیل خان سے ہو کر اسلام آباد میں داخل ہوا۔ اس لانگ مارچ کا سب سے بڑا محرک ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں قتل ہونے والے بالاچ مولا بخش بلوچ کے لواحقین کی جانب سے دھرنے کا آغاز تھا۔ اس دھرنے میں عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کرتے ہوئے دھرنے کو خوب طاقت بخشی۔
واضح رہے کہ بالاچ مولا بخش بلوچ کو 29 اکتوبر کی رات ان کے گھر سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا جنہیں کچھ دنوں بعد سی ٹی ڈی نے سیشن کورٹ میں پیش کیا جہاں پر ان کو 10 روزہ جسمانی ریمانڈ ملا۔ اسی ریمانڈ کے نویں دن بالاچ بلوچ کو بہیمانہ انداز میں قتل کر کے اس کی لاش کو تربت ٹیچنگ ہسپتال پہنچایا گیا۔ بالاچ کی لاش کو لے کر ان کے لواحقین نے شاندار جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے انصاف ملنے تک دفنانے سے انکار کیا اور دھرنے کا آغاز کیا جو ایک احتجاجی لانگ مارچ کی میں تبدیل ہو گیا۔
واضح رہے کہ پچھلے کچھ عرصے میں سی ٹی ڈی کے قیام عمل میں لانے کے بعد بلوچ سیاسی اسیران کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں جہاں پر کئی واقعات میں ان اسیران کو ٹارچر سیل سے نکالنے کے بعد ان کو جعلی مقدمات کے نتیجے میں بے دردی سے قتل کیا گیا ہے۔ اور سی ٹی ڈی کے ان جعلی مقدمات کے خلاف درجنوں بھر احتجاجی مظاہرے اور دھرنے ہوئے مگر اب تک اس ریاستی دہشت گرد گھوڑے کو کوئی بھی لگام نہیں ڈالی گئی ہے اور نہ ہی کسی عدالت یا چیف جسٹس نے اس کھلی بربریت کا نوٹس لیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو عدلیہ سمیت تمام ریاستی ادارے اس قتل و غارت میں براہِ راست ملوث ہیں۔
مسخ شدہ لاشیں، جبری گمشدگیاں، فیک انکاؤنٹرز اور مجموعی طور پر ریاستی جبر کے خلاف بلوچ محنت کش عوام کے صبر کا پیمانہ بہت پہلے سے لبریز ہو چکا ہے۔ انہوں نے پہلے بھی کھل کر ان کے خلاف اپنے غم و غصے کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے، ریلیاں، جلسے وجلوس اور دھرنوں کا ایک طویل سلسلہ ریکارڈ کروایا ہے۔ لیکن ان تمام احتجاجوں کو کسی نہ کسی طریقے سے ناکام کرانے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک ریاستی جبر موجود ہے، یہ جدوجہد جاری رہے گی۔ گزشتہ سال کوئٹہ کے ریڈ زون پر سانحہ زیارت کے خلاف 52 روزہ احتجاجی دھرنا دیا گیا اور اس دھرنے کے پاس وفاقی وزیر داخلہ، وزیر قانون اور دیگر اعلیٰ حکام مذاکرات کرنے پہنچے، لیکن سانحہ زیارت میں قتل کیے جانے والے ایک درجن کے قریب بلوچ مسنگ پرسنز کے قاتلوں کا اب تک نہ احتساب ہوا ہے اور نہ ہی انہیں ان ظالم نظام کے اندر انصاف ملنے کی توقع ہے، لیکن انصاف چھیننے کے لیے عوامی مزاحمت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بدستور برقرار رہے گا۔
لانگ مارچ کے اثرات
ہم نے پہلے واضح کیا تھا کہ اسلام آباد تک جانے والا لانگ مارچ بظاہر اگر اپنے مطالبات نہ بھی منوا نہ سکے، مگر اس کے بلوچ قومی سوال، سیاسی کارکنان، طلبہ، محنت کشوں اور بالعموم بلوچ محنت کش عوام سمیت پاکستان اور خطے بھر کے محکوم اقوام و محکوم طبقات پر اثرات مرتب ہوں گے۔ اس لانگ مارچ سے بلوچ قومی تحریک سمیت قومی جبر کے خلاف جاری باقی تحریکوں میں بھی کئی نئے سوالات جنم لیں گے۔ مثلاً یہ سوال کہ جبری گمشدگی، فیک انکاؤنٹرز اور بالعموم قومی جبر کو ختم کرنے کے لیے آخر کون سا طریقہ مزاحمت درست ہے؟ درحقیقت کوئی بھی احتجاج یا احتجاجی تحریک تاریخ کی کسوٹی پر ضائع نہیں ہوگی بلکہ جدلیات کے قانون کے مطابق یہ مقداری اضافہ معیاری تبدیلی کا باعث بنے گا جو جلد یا بدیر اپنا معیاری اظہار کرے گا۔ لیکن یہ بھی غور و فکر کی بات ہے کہ ہر احتجاج سے شرکاء اور بالعموم تمام عوام کا شعوری پیمانہ بلند ہوتا جائے گا جس کے قیادت پر بھی اثرات پڑیں گے اور گزشتہ احتجاجی طریقہ قیادت کو اگلے احتجاج کے حوالے سے روش بدلنے پر مجبور کرے گا، بشرط یہ کہ قیادت کے اندر سیکھنے اور اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کو درست کرنے کی اہلیت ہو۔
لانگ مارچ نے بلوچستان کی تاریخ کے مؤثر ترین سیاسی ابھار کو جنم دیا ہے۔ ایک طرف تو بلوچستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر اور گاؤں میں لانگ مارچ پر ہونے والے بہیمانہ ریاستی تشدد کے خلاف ریلیاں اور دھرنے منعقد کیے جا رہے ہیں، اور جنوبی پنجاب اور کراچی کے بہت سے علاقوں میں حالیہ تاریخ کے سب سے بڑے احتجاج جاری ہیں۔ دوسری طرف سندھ، پختونخوا اور ملک کے دیگر علاقوں سے بھی بلوچ لانگ مارچ کو بڑی حمایت مل رہی ہے۔ سب سے بڑھ کر پہلی بار پنجاب کے محنت کشوں اور درمیانے طبقے سے بھی بلوچوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند ہونا شروع ہو گئی ہے۔ ریاستی پالیسی سازوں نے جہاں صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنے پالتو لبرلز سے لے کر ملاؤں تک ہر طرح کے مہروں کو متحرک کر دیا ہے اور وہ مگرمچھ کے آنسو بہا کر لانگ مارچ کی قیادت پر اثرانداز ہو کر مشتعل عوام کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہیں دوسری طرف ان کے زر خرید دانشور اور سیاستدان اس لانگ مارچ کو مسلح سرکشی سے جوڑ کر بلوچ گوریلوں کے ہاتھوں پنجابی محنت کشوں کے قتل کے واقعات کا رونا رو کر پنجابی محنت کشوں میں معصوم اور مظلوم بلوچوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی حمایت کی سرکوبی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سرفراز بگٹی جیسے ریاستی گماشتے بھی پنجابی محنت کشوں کے دکھ میں مرے جا رہے ہیں اور شرمناک طریقے سے لانگ مارچ کے شرکا کو دہشت گردوں کی اولاد قرار دے رہے ہیں۔ ہم پنجاب کے محنت کشوں سے بالخصوص اور دنیا بھر کے محنت کشوں سے بالعموم یہ اپیل کرتے ہیں کہ ان منافق سرداروں اور ریاست کے دلالوں کی سازش کو سمجھیں، یہ محنت کشوں کے ہمدرد کبھی نہیں ہو سکتے۔ ان سب کے نہ صرف ہاتھ محنت کشوں کی نسلوں کے خون سے رنگے ہیں بلکہ ان کی آنکھوں اور جبڑوں سے آج بھی محنت کشوں کے لہو کی سرخی اور مہک محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہ درندے ”قومی مفاد“ کے نام پر ہم محنت کشوں کی محنت کو بے دریغ لوٹتے ہیں، پھر ہمارے ہی قتلِ عام کے لیے ڈیتھ سکواڈ بناتے ہیں اور مذہب، قوم، نسل اور زبان کے نام پر ہمارے خون سے ہولی کھیلتے ہیں۔ بلوچ مسلح بغاوت بھی انہی کی لوٹ مار اور قتلِ عام کا ردِعمل ہے۔ لیکن جبری طور پر لاپتہ کرنا تو شاید انسانیت کے خلاف سب سے بڑا جرم ہے جس سے عورتیں، بزرگ اور معصوم بچے بلاوجہ ناقابلِ برداشت اذیت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ہم پاکستان بھر کے تمام محنت کش ساتھیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ان مکاروں، نو سربازوں اور بھیڑیوں کو پہچانو۔ ان کی ہر سازش کو ناکام بنا کر اپنے مظلوم بلوچ بہن بھائیوں کا ساتھ دو۔ یہ اس وقت ہر ذی شعور اور حساس دل اور دماغ کا فریضہ ہے اور انسانیت کا اس سے بڑا نصب العین ممکن ہی نہیں۔
اگرچہ، تاحال موجودہ لانگ مارچ جاری ہے اور اسکے چارٹر آف ڈیمانڈ پر مثبت حکومتی رد عمل نہیں آیا ہے، بہر حال اس نے بلوچ قوم پر جاری ریاستی و قومی جبر کے خلاف یکسوئی، یکجہتی، اتحاد اور شعور بیدار کردیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے اندر دیگر مظلوم اقوام و محنت کش طبقے کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہوئے ان میں ہمدردی کی ایک نئی لہر کو جنم دیا ہے۔ اور بلوچ قوم پر ہونے والے قومی جبر کے حوالے سے ریاست پاکستان کی فوجی و سویلین اشرافیہ کے جرائم کا پردہ فاش کیا ہے۔ بالخصوص اسلام آباد میں جہاں لانگ مارچ کے شرکا کے ساتھ ایک غیر انسانی رویہ اختیار کرتے ہوئے ان کے پُرامن احتجاج کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی جس سے پاکستان کے ایک جابرانہ فیڈریشن اور مصنوعی پن کی قلعی کھل گئی۔ اس سے پہلے بھی اسلام آباد میں پشتون تحفظ موومنٹ (PTM) پر اگست کے مہینے میں منعقد ہونے والے جلسے کے بعد کریک ڈاؤن کا سلسلہ شروع کیا گیا جو کہ تاحال جاری ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ اسلام آباد صرف حکمران طبقے کی جاگیر ہے جہاں پر مظلوم اقوام و محکوم طبقات کے لوگ اپنا احتجاج تک ریکارڈ نہیں کرا سکتے۔ اس کے علاوہ مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں مظلوم اقوام کو اپنے اوپر قومی جبر کے خلاف بولنے کا کوئی حق نہیں اور جو یہ جرات کرتا ہے وہ نام نہاد آئین و قانون کے آئینے میں غدار ٹھہرایا جاتا ہے۔
اس لانگ مارچ نے جہاں سی ٹی ڈی پر ایک چیک رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے وہاں دوسری جانب ریاستی پشت پناہی میں بلوچستان میں برسر پیکار ڈیتھ سکواڈز اور ریاست کے ساتھ ملحقہ بلوچ اشرافیہ پر بھی شدید تنقید سامنے آئی ہے اور بلوچ قوم کے سامنے واضح کردیا ہے کہ ان کے دوست کون ہیں اور دشمن کون۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سی ٹی ڈی یا ڈیتھ سکواڈز اپنی کاروائیاں ترک کر دیں گے بلکہ مستقبل میں ان کاروائیوں میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ بقول مشہور انقلابی رہنما ٹراٹسکی،”ریاست جتنی کھوکھلی ہو جاتی ہے اتنی ہی جابر ہوتی ہے“۔
لانگ مارچ کے اسباق
یہاں موجودہ لانگ مارچ کی قیادت پر دوستانہ تنقید کرنے کی بھی ضرورت ہے اور اس تنقید کا مقصد یہی ہے کہ اگلی بار کے لیے ہمیں وہ غلطیاں نہیں دہرانی چاہئیں جبکہ جبر کے خلاف ہر اٹھتی ہوئی بغاوت کو آخری سمجھتے ہوئے لڑنا ہوگا تاکہ ہم جدوجہد کے ضمن میں پیچھے جانے کی بجائے آگے بڑھتے رہیں۔
لانگ مارچ کو اپنے آغاز سے لے کر آج تک توقعات سے بڑھ کر ریسپانس ملا ہے اور جہاں پر بھی لانگ مارچ کے شرکا گئے ہیں انہیں بھرپور عوامی حمایت ملی ہے۔ مگر سوال یہاں پر یہ ہے کہ اس عوامی حمایت کو اپنے ساتھ برقرار رکھنے اور اسے مزید پھیلانے کیلئے بلا واسطہ ایک سیاسی پروگرام کی موجودگی ضروری ہے۔ کیونکہ بلوچ قوم پچھلے 75 سالوں سے جن مراحل سے گزری ہے شایدہی پاکستان میں کسی دوسری قوم نے اس اذیت کا سامنا کیا ہو۔ یہاں پر لوگ بہت سے جھوٹے وعدوں اور ترقی کے جعلی پروگرامزسنچکے ہیں، بہت سے دھوکے کھا چکے ہیں مگر بجائے ان کے زخموں پر مرہم رکھی جائے ریاست اور ان کے دلالوں کی جانب سے ہمیشہ اُن زخموں کو مزید کُریدا جاتا ہے اور موجودہ سرمایہ دانہ ریاست ہمیشہ یہی کچھ کرے گی۔ اس سے کسی رحم یا امن کی توقع کرنا بیوقوفی ہو گی۔ ایسے میں اس تحریک کو درست بنیادوں پر آگے بڑھانے اور ملک بھر کے محنت کش عوام کو مکمل طور پر اپنے ساتھ جوڑنے کے لیے جذبات کے ساتھ ساتھ ایک منظم سیاسی پروگرام کی بہت ضروری ہے۔
مذکورہ لانگ مارچ کی قیادت کرنے والے سیاسی رجحان کو لگ بھگ تین سے چار سال کا عرصہ ہوچکا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ ایک منظم سیاسی پروگرام کے ساتھ خود کو منظم کرتے ہوئیمحنت کش طبقے کے پاس جائیں۔ واضح سیاسی پروگرام کی عدم موجودگی کے باعث لوگ محض ہوا کے جھونکے کی مانند اس پوری سیاسی عمل کا وقتی طور پر حصہ بننے کے بعد اپنے معمولات زندگی میں محو ہو جاتے ہیں جو کہ تحریک کو تقویت دینے کے بجائے ان کے لیے کمزوری بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
سیاسی پروگرام کی عدم موجودگی کو اکثر و بیشتر اوقات نہ صرف نظر انداز کیا جاتا ہے بلکہ اس بات کا جذبات کی آڑ میں مذاق بھی اڑایا جاتا ہے۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت بلوچ قوم کے اندر جہاں سوشلسٹ نظریات پر مبنی ایک سیاسی قوت کا خلا موجود ہے وہاں پر دوسری جانب اس سیاسی خلا کو پر کرنے کے لیے درست نظریات اور سیاسی پروگرام کی بھی اشد ضرورت ہے جس کے بغیر ایک مضبوط سیاسی قوت تعمیر نہیں کی جا سکتی۔ قومی جبر کے خلاف منظم جدوجہد کرنے کے لیے منظم سیاسی پروگرام اور عوام کو منظم کرنا اس وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ اس ضمن میں بلوچ قوم کے اندر جدوجہد کے جتنے بھی طریقہ کار چل رہے ہیں ان سے خود کو ممتاز کرنا ہوگا نہیں تو پھر عوام الناس سے کم شرکت کرنے کے حوالے سے شاید کسی کو گلہ اور شکوہ کرنے کا حق نہیں ہوگا۔
اس کے علاوہ ریاستی مشینری کی پوری کوشش ہے کہ اس لانگ مارچ کو اپنی حدود میں لے جائیں جہاں سے پنجاب بھر کے محنت کش طبقے کی جانب سے ان کے ساتھ کوئی یکجہتی نہ ہو۔ حالانکہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم پر ہمیں پنجاب کے محنت کشوں کی جانب سے اس پورے لانگ مارچ کے ساتھ یکجہتی دیکھنے کو ملی ہے۔ لانگ مارچ کی قیادت کو اپنے مطالبات کی آڑ میں پنجاب کے محنت کش طبقے کی یکجہتی یا حمایت حاصل کرنے کے لیے انہیں واضح الفاظ میں پکارنا ہوگا۔ تاکہ ان کی حمایت میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ ریاست پر بھی دباؤ ڈالا جا سکے۔
بلوچ عوامی مزاحمت اور قوم پرستی کا المیہ
بلوچ سماج میں گھٹن کی فضا کے خلاف نومبر 2018ء میں ایک احتجاج کا آغاز ہوا، جوکہ تربت سے لاپتا طالب علم رہنما شبیر بلوچ کی بہن سیمیٰ بلوچ کی قیادت میں شروع ہوا۔ اس احتجاج نے جمود کے بادل توڑتے ہوئے احتجاجوں کی ایک نئی لہر کو جنم دیا۔ اس ضمن میں کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں بھی احتجاج ہوئے۔ ان احتجاجوں کے ساتھ ساتھ مئی 2020ء میں برمش کا واقعہ اور اگست 2020ء میں حیات بلوچ کے بہیمانہ قتل نے غم و غصے کی شدت میں مزید اضافہ کیا۔ اس وقت برمش یکجہتی کمیٹی اور پھر حیات یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام بلوچستان سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں چھوٹے بڑے احتجاج ہوئے۔ اور پہلی بار حیات بلوچ کے قاتل جو کہ (ایف سی) کا اہلکار تھا، کو سزا ملی اور ساتھ ہی ساتھ ان کے لواحقین کو ہرجانہ بھی ادا کر دیا گیا۔ بعد میں برمش اور حیات یکجہتی کمیٹی بلوچ یکجہتی میں کمیٹی میں تبدیل ہو گئیں۔
اس کے علاوہ بلوچستان کے ساحلی شہر اور سامراجی منصوبے (سی پیک) کے جھومر گوادر میں بجلی کی ناروا لوڈشیڈنگ، پینے کے صاف پانی کی قلت، ماہی گیری پر پابندی کی صورت میں معاشی قتل، بارڈر ٹریڈ کی بندش اور دیگر مسائل کے خلاف چھوٹے بڑے احتجاجوں کا معیاری اظہار نومبر 2021ء کو بڑی احتجاجی ریلیوں کی شکل میں ہوا۔ جس نے”گوادر کو حق دو تحریک“ کوجنم دیا جو کہ بعد میں ”بلوچستان کو حق دو تحریک“ میں تبدیل ہوئی۔ اسی عرصے میں جہاں بلوچ قوم میں عوامی مزاحمتوں کا دور دورہ رہا وہاں پر مہم جوئی اور موقع پرستی کی سیاست پر بات کیے بغیر تحریر ادھوری رہ جائے گی۔ کیونکہ قوم پرستوں کے خصی پن اور غلط نظریات کی وجہ سے بلوچستان کو حق دو تحریک کی قیادت انتہائی رجعتی اور دائیں بازو کے افراد کے ہاتھوں میں آگئی۔ موقع پرستی کی سیاست پچھلے ڈیڑھ یا دو دہائیوں سے بلوچستان میں ایسی پروان چڑھ چکی ہے جہاں چند سو ووٹ لے کر کوئی بندہ وزیر اعلیٰ بن جاتا ہے جبکہ بلوچستان میں نام نہاد (الیکٹیبلز) کی بھرمار ہے۔
جہاں عوامی رائے سے زیادہ فوجی اشرافیہ کے اشاروں پر سب کچھ طے پاتا ہے۔ اس ضمن میں بلوچستان کے عوام کی انتخابات میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ جوکہ اب پورے پاکستان میں روایت بن چکی ہے۔ اس کے ساتھ جہاں موجودہ عوامی مزاحمت چل رہی ہے وہاں انتخابات کی تیاریوں میں بلوچ اشرافیہ مگن ہے۔ تربت جہاں سے اس عوامی مزاحمت کا آغاز ہوا تھا وہاں پر جونہی دھرنے کا رخ اسلام آباد کی طرف ہوا، انتخابی جلسوں کا باقاعدہ آغاز ہونے لگا جس میں بلوچ قوم پرستوں سمیت نام نہاد قومی سطح کی پارٹیاں بھی مصروف عملہیں۔ ان نام نہاد انتخابی یا پارلیمانی سیاست کی قلعی اس رواں عوامی مزاحمت میں پوری طرح سے کھل چکی ہے۔ جہاں مختلف احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کے شرکا پارلیمانی سیاست پر لعن طعن کرتے ہیں جبکہ موقع پرستی یا پارلیمانی سیاست کرنے والے قوم پرست اس پوری صورتحال کوانہماک سے دیکھتے ہوئے ان احتجاجی دھرنوں اور مظاہروں میں انتہائی شرمندگی کے ساتھ خانہ پوری کے طور پر شرکت کرتے ہیں۔ جبکہ ان کو انہی دھرنوں اور مظاہروں میں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان پارٹیوں کے کارکن اپنے پارٹیوں کے نام نہاد بیانیوں سے اعلانیہ طور پر متنفر ہو رہے ہیں اور ان پارٹیوں کو اب عوامی سطح پر واضح شکل میں ریاست کے آلہ کار کے طور پر دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ اس وقت جہاں بلوچ یوتھ اور دیگر عوام الناس ریاستی ڈیتھ سکواڈز، دائیں بازو کے سیاسی رجحانات اور ریاستی دلالوں سے جتنی نفرت اور بیگانگی کا اظہار کرتے ہیں شاید ان سے زیادہ یا برابر کی سطح پر بلوچ موقع پرست سیاسی رجحانات سے نفرت کی جا رہی ہے۔ اور اس نفرت و بیگانگی کا اظہار بلوچستان میں زندہ تحریکوں اور دیگر سماجی مظاہر کے اندر بخوبی دیکھنے کو ملتا ہے۔
تصویر کا دوسرا رُخ یہاں پر آزادی کی جدوجہد کے لیے برسر پیکار مسلح جہدکار ہیں جن کے لیے یہاں پر بلوچستان بھر کے نوجوانوں میں دلی ہمدردیاں موجود ہیں۔ اس ہمدردی کی کئی وجوہات ہیں جن میں یہاں پر ریاستی جبر سے نفرت کے طور پر مسلح جہد کاروں سے ہمدردی کا پلنا ایک فطری عمل ہے۔ دوسری جانب ریاست کے ساتھ تعلق میں موجود بلوچ موقع پرست سیاسی رجحانات محض پارلیمان میں اپنا حصہ بٹورنے کی خاطر رسمی بیانات دیتے ہیں۔ جس سے بالخصوص بلوچ یوتھ اور پوری قوم کا شعور بہت آگے نکلتے ہوئے ان کو مسترد کر چکاہے۔ تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہیہاں پر بلوچ قوم کی اکثریت اور بالخصوص نوجوانوں کو متبادل سیاسی نظریات کی تلاش ہے جن کی معدومیت کی وجہ سے بلوچ نوجوانوں کے پاس آخری اپشن یہی مسلح جہدکار بچ جاتے ہیں۔ لیکن یہاں پر ایک اہم سوال ہے کہ اگر ایک طرف بلوچ نوجوانوں میں مسلح جہد کاروں کے لیے ہمدردی موجود ہے تو مسلح جدوجہد میں شمولیت کیوں اختیار نہیں کرتے؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ ہمدردی محض سطح پر مروجہ سیاسی رجحانات اور ریاستی جبر سے نفرت کی بنیاد پر ہے اس کے علاوہ اس وقت ہر بلوچ جوان عوامی مزاحمت اور سیاسی جدجہدپر یقین رکھتا ہے۔اس کے علاوہ بہت سے قوم پرست بھی خود کو سوشلسٹ یا بائیں بازو کے طور پر پیش کرتے ہیں جس سے سوشلزم کے انٹرنیشنلسٹ نظریات کو مسخ کیا جاتا ہے۔ قوم پرستی، اور مارکسزم/لینن ازم میں واضح فرق کو جاننا اور عالمی مزدور تحریک کے ساتھ جڑت بناتے ہوئے سامراجی طاقتوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کے ساتھ منظم انداز میں جڑنا ہی آج کے بلوچ نوجوانوں کے لیے آگے کا ایک اہم قدم ہے جس تک پہنچنے کا اب وقت آ رہا ہے۔ابھی ان کے پاس متبادل کا فقدان ہے اسی لیے وہ کسی بھی سیاسی متبادل کو چنتے وقت بہت احتیاط اور صبر سے کام لے رہے ہیں۔لیکن آنے والے عرصے میں یہ رجحان تیزی سے پھیل سکتا ہے۔اس کے لیے انقلابی کمیونسٹوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ مستقل مزاجی، صبر اور وضاحت کے ساتھ اپنے نظریات ان تک پہنچاتے رہیں اور ضمنی مسائل سمیت ریاستی جبر کو بالآخر ایک سوشلسٹ سماج کی تعمیر سے جوڑا جائے۔اسی طرح ایک وقت آئے گا کہ پھر متبادل کی تلاش کی خاطر یہی نوجوان اس متبادل کو اپنائیں گے۔
بلوچ مسلح جہد کاروں نے بلوچستان میں جس لڑائی کو جاری رکھا ہے ہمیں ان کے نظریات اور طریقہ کار کے ساتھ لاکھ اختلافات سہی لیکن ہم ان کے بنیادی مطالبے ”آزادی“ کی حمایت کرتے ہیں۔ یہاں پر ایک بات کہنا بے حدضروری ہے کہ بلوچ مزاحمت کارجب اپنے مقصد کے لیے ریاست کے ساتھ لڑائی میں معصوم اور بے گناہ محنت کشوں کو مارتے ہیں وہاں پر ہمیں شدید اختلاف ہے، اور اس عمل کی ہم شدید مذمت بھی کرتے ہیں اور ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان معصوم محنت کشوں پر ریاستی آلہ کاری کے الزامات کے شواہد پیش کیے جائیں، محض الزام لگا کر ان کو مارنا اور پھر شواہد پیش نہ کرنا درحقیقت فرسٹریشن کا اظہار ہے جو کہ انتہائی قابل افسوس امر ہے۔
بڑھتا قومی جبر اور بائیں باز کے سیاسی رجحانات
گزشتہ کچھ دہائیوں سے پاکستان میں بایاں بازو کمزور رہا ہیجبکہ دوسری جانب قومی آزادی کی جدوجہد میں سٹالنزم کے غلط نظریات کے بعد اب دائیں بازو کے نظریات سرایت کر چکے ہیں جس میں سرمایہ دارانہ نظام پر مکمل ایمان لایا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ محنت کش طبقے کو بھی نام نہاد این جی اوز کی غلاظت میں پھنسایا جا چکا ہے، جبکہ مظلوم اقوام سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے ان کا بھرپور استحصال کیا جاتا ہے اور ان میں اصلاح پسندی، ترمیم پسندی اور موجودہ ریاست کے اندر قومی جبر کے حل کا غلط پروگرام د یا جاتا ہے۔
قومی جبر کے حوالے سے عظیم مارکسی استاد و انقلابی رہنما ولادمیر لینن کے اقوال کو رٹے رٹائے ہوئے ان کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ جبکہ عملی میدان میں کبھی کبھار محض تماشائی یا خانہ پوری کی خاطر شرکت کرتے ہیں۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کی موجودہ جبری بے دخلی ہو یا پھر پاکستان بھر کے مظلوم اقوام پر قومی جبر ہو یہ نام نہاد یان جی اوز اور بائیں بازو کا لبادہ پہنے قوم پرست محض ایک اخباری بیان یا سوشل میڈیا تک محدود ہوتے ہیں۔ اور پھر لبرلز کی طرح عوامی شعور کو کوستے رہتے ہیں کہ پاکستانی محنت کش طبقہ انقلاب نہیں کر سکتا اسی لیے ہمیں اسی اصلاح پسندی کے رویے کو اپناتے ہوئے اپنی تگ ودود جاری رکھنی ہوگی۔
اس پوری صورتحال میں عالمی مارکسی رجحان (IMT) کو یہ طرہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ ڈٹ کر نہ صرف محنت کش طبقے میں سوشلسٹ نظریات کی کھل کر بات کر رہا ہے بلکہ مظلوم اقوام پر ہونے والے قومی جبر کے خلاف بھی کھڑا رہتا ہے۔ ہم قومی جبر کے خلاف ابھرنے والی عوامی تحریکوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن واضح طور پرسمجھتے ہیں کہ آج کے عہد میں ان تحریکوں کو کامیاب کرنے کے لیے انہیں سرمایہ د ارانہ نظام کی جدوجہد سے جوڑنا ہو گا۔ان تحریکوں کی قیادتوں کی زوال پذیری درحقیقت قوم پرست نظریات کی محدودیت کا عملی اظہار ہے اور واضح کرتا ہے کہ قوم پرستانہ بنیادوں پر مظلوم قوموں کا اتحاد نامی کوئی چیز نہیں بن سکتی۔ یہ صرف محنت کش طبقہ ہی ہے جس کے سوشلسٹ پروگرام اور قیادت میں مظلوم اقوام اکٹھی بھی ہو سکتی ہیں اور قومی جبر سے نجات بھی حاصل کر سکتی ہیں۔
مظلوم اقوام کا اتحاد، مگر کیسے؟
پاکستان میں مظلوم اقوام کے درمیان نچلی سطح پر کبھی بھی نفرت اور تعصب موجود نہیں تھا اور نہ ہی اب ہے۔ مگر ان کے درمیان نفرت اور تعصب کی فضا کو بنانے اور پھر برقرار رکھنے میں ریاست اور ان کے آلہ کار ہمیشہ برسر پیکار رہے ہیں۔ جس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں اس ضمن میں کئی تجربے کیے گئے ہیں جن سے فوجی و سویلین اشرافیہ کی تجوریاں بھرتی رہیں اور مظلوم محنت کش عوام گاجر مولی کی طرح کٹتے رہے۔ اور ان میں مصنوعی طور پر نفرت پیدا کرتے ہوئے ایک خلیج پیدا کی گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان مظلوم اقوام کے درمیان سرمایہ داری کی مسخ شدہ شکل میں ترویج نے نئے تعلقات کو جنم دیا۔ جنہیں کاؤنٹر کرنے میں ریاست کو ایک حد تک آسانی میسر آنے لگی۔ بلوچستان، اندرون سندھ اور کراچی میں نسلی فسادات کروائے گئے جن کی خونریز تاریخ آج بھی گواہ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی وجہ سے جہاں طبقاتی جڑت میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے وہاں نسلی و قومی بنیادوں پر ان مظلوم اقوام کے محنت کش طبقے میں ریاست ایک دوسرے کے خلاف نفرت بھی پیدا کر رہی ہے۔ اور محنت کش طبقے کی ممکنہ جڑت کے ڈر سے پھوٹ بھی ڈالی جاری جا رہی ہے تاکہ ریاستی فوجی و سویلین اشرافیہ کی عیاشیاں برقرار رہیں اور سرمایہ داروں کے مفادات پر کوئی آنچ نہ آنے پائے۔
سرمایہ داری کے عالمگیر بحران نے جہاں ایک طرف نام نہاد ترقی یافتہدنیا کے حکمران طبقے کی بنیادوں کو لرزا رکھا ہے وہاں اس بحران نے پاکستان جیسے مصنوعی و سامراج کی گماشتہ ریاست کی کمزور بنیادوں کو مزید انتشار زدہ کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے ریاست کے کھوکھلے پن نے انہیں مزید ریاستی جبر کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اور جبر کی اس شدت کے خلاف محنت کش طبقہ اور مظلوم اقوام سرگرم عمل ہیں اور اس عمل کے دوران مظلوم اقوام کے درمیان مصنوعی خلیج کم ہوتی جا رہی ہے اور ان کے درمیان اتحاد اور اتفاق کرنے کی فضا پروان چڑھ رہی ہے جو کہ ایک طرف اگر خوش آئند ہے تو دوسری طرف بہت سے سوالات کو بھی جنم دے رہی ہے۔ مثلاً یہ کہ پاکستان کے مظلوم اقوام کے درمیان اتحاد کس بنیاد پر ممکن ہے؟ دوسرا سوال کیا محض مظلوم اقوام کے ممکنہ اتحاد سے قومی جبر کا خاتمہ ممکن ہے؟ دونوں سوالات کے جوابات میں ہم سمجھتے ہیں کہ مظلوم اقوام کے درمیان اتحاد محض طبقاتی بنیادوں پر ہی ممکن ہے۔ مجرد نعروں اور جذباتیت سے ہٹ کر یہ انتہائی اہم نظریاتی اور سیاسی سوال ہے۔ آج بھی یہی مظلوم اقوام ریاستی جبر کی وجہ سے اگر ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوشش کرتے ہیں مگر جونہی آپسی تضاد کے حوالے سے ایک معمولی سوال ابھرتا ہے تو ان پر ان کے اندرونی اختلافات اور تعصبات کھل کر سامنے آسکتے ہیں جیسے حال ہی میں افغان مہاجرین پر سندھی قوم پرستوں کی جانب سے نسل پرستانہ اور ریاستی بیانیے کی حمایت میں مؤقف سامنے آیا۔ دوسرے سوال کے جواب میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں مظلوم اقوام کے ممکنہ اتحاد سے قومی جبر سے نجات حاصل کرنا موجودہ کیفیت میں محض ایک خواب ہی ہو سکتا ہے، جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس ریاست کی جہاں پر بنیادیں پیوست ہیں، وہاں کے محنت کش طبقے کے بغیر ہم اس ریاست اور قومی جبر سے آزادی حاصل نہیں کر سکتے اور نتیجتاً محنت کش طبقے کی قیادت میں مظلوم اقوام کا اتحاد ہی اس ریاست اور ہر قسم کے جبر سے نجات دلا سکتا ہے، چاہے اس کو جتنا بھی عرصہ لگے، مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔
پاکستانی سرمایہ دارانہ ریاست اس وقت تاریخ کے کمزور ترین نہج پر موجود ہے جوکہ پچھلے 75 سالوں سے سامراجی گماشتگی، یہاں کی غلام بورژوازی، فوجی اشرافیہ کی عیاشی اور سیاسی قیادتوں کے خصی پن کی مرہون منت ہے۔ ایسی صورتحال میں جہاں ایک طرف ملک معاشی دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑا ہے وہاں مظلوم اقوام پر قومی جبر سمیت محنت کش طبقے پر استحصال اور ظلم کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں۔ مہنگائی کا ایک نہ ختم ہونے والا طوفان موجود ہے جبکہ عالمی سامراجی مالیاتی اداروں کے ایما پر یہاں کے دلال حکمران محنت کش عوام سے دو وقت کی روٹی چھین رہے ہیں اور ہر طرف ایک کسمپرسی اور بے چینی کی کیفیت چھائی ہوئی ہے۔ وہاں دوسری جانب پاکستان سیاسی و سماجی دیوالیہ پن کا بھی شدت سے سامنا کر رہا ہے۔ اس ضمن میں ما قبل انقلابی کیفیت موجود ہے۔ نا اہل اور دلال حکمران اپنے تمام تر ناکامیوں اور خصی پن کا ملبہ یہاں کے محنت کش عوام پر مختلف شکلوں میں ڈال چکے ہیں۔ اور محنت کش طبقے کی ملک گیر جرات کو کاؤنٹر کرنے کے لیے ملک بھر میں لسانی، قومی اور مذہبی فرقہ وارانہ بنیادوں پر نفرتیں اور تعصبات پھیلانے میں مگن ہیں اس کے علاوہ ریاست نے افغان مہاجرین کے نام پر جو نفرت پھیلائی اور ان کو جس طرح جبری طور پر بے دخل کیا گیا وہ تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔
ایسی صورتحال میں جہاں ریاست اندر سے کھوکھلی ہوتی جا رہی ہے وہاں ریاستی جبر میں اضافہ، مال لوٹنے کی خاطر ایک دوسرے پر سبقت لے جانا فوجی و سویلین اشرافیہ کے لیے ناگزیر عمل بن چکا ہے۔ بالخصوص بلوچستان اور سابقہ فاٹا میں ریاستی جبر کا ننگا پن اب سب پر عیاں ہو چکا ہے اور یہ جبر اب مظلوم اقوام کی سرحدوں کو چھوتا ہوا پنجاب میں داخل ہو چکاہے۔جہاں 9 مئی کے بعد تحریک انصاف کے کارکنان کی جبری اغوا کاری کے بعد پنجاب میں اس درد کو محسوس کیا گیا جس کے خلاف بلوچ، پشتون، سندھی اور دیگر مظلوم اقوام کے لوگ کب سے چیختے آرہے ہیں۔ اس حوالے سے ہم نے بہت پہلے واضح کیا تھا کہ ریاست کے مجموعی دیوالیہ پن سے جبر کے پہاڑ توڑنے میں فوجی اشرافیہ کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔آئے روز بلوچستان اور پختونخواہ میں ریاستی جبر اور ریاستی دہشتگردی میں اضافہ ہونے جا رہا ہے۔ دہشت گرد جتھے ٹی ٹی پی کے حملوں میں شدت اور پھر اپنے پرانے قیمتی اثاثہ جات افغان طالبان کے ساتھ تعلقات میں ابتری آ چکی ہے، جس کی مستقبل قریب میں بہتری کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ اور نام نہاد عالمی برادری کے سامنے گڑگڑا کے بھیک مانگنا تو ویسے اس مملکت خداداد کی نام نہاد اشرافیہ کا مقدر بن چکا ہے مگر 2008 ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد بدلتی دنیا اور بالخصوص 2016 ء میں امریکی انتخابات کے نتیجے میں ٹرمپ کے ظہور نے ریاست کو احتساب کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ جس کے بعد اب تک صورتحال اس ریاست اور نام نہاد فوجی و سیولین اشرافیہ کے لیے درد سر بنتا جا رہا ہے اور اس وقت عالمی سامراجیوں بالخصوص امریکہ کے آشیرباد ختم ہونے کے بعد ریاست کے آپسی تضادات ابھر چکے ہیں جہاں ریاستی اداروں میں ٹوٹ پھوٹ اور ایک دوسرے کے خلاف کاروائیوں میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جبکہ ریاستی تضادات کی لڑائی اب ہر زبان پر زد عام ہو چکی ہے مختصراً یہ کہ ریاست کا کھوکھلا پن اتنا شدید ہو چکا ہے کہ وہ بلوچ لانگ مارچ جیسی پر امن عوامی مزاحمت کا بھی متحمل نہیں ہو سکتی۔
لینن نے واضح کیا تھا کہ ”قومی سوال آخری تجزیے میں روٹی کا سوال ہے“۔ آج یہ بات پاکستان میں مقید مظلوم و محکوم اقوام کے لیے بلاکل صادر آتی ہے۔ آج ہر مظلوم قوم میں موجود طبقاتی تفریق بھی واضح ہوچکی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ ہر قوم میں دو مومیں موجود ہیں، ایک بلوچ، پشتون، سندھی اشرافیہ کی شکل میں اور دوسری قوم یہاں کے غریب بلوچ، پشتون، سندھی محنت کش عوام کی شکل میں۔ ان مظلوم اقوام کی اشرافیہ نہ صرف آپس میں شیر و شکر ہیں بلکہ یہ پاکستان کی سطح پر بھی ایک ہیں جن کے واضح طبقاتی مفادات موجود ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ مظلوم اقوام کی اشرافیہ جب پنجابی فوجی و سویلین اشرافیہ کے ساتھ بیٹھ کر ایک ہو سکتی ہے اور متحدہ پلیٹ فارم پر نام نہاد مفادات کی خاطر لڑائی لڑ سکتے ہیں تو ان مظلوم اقوام کے محنت کش عوام کیوں پنجابی قوم کے محنت کش طبقے کے ساتھ ایک نہیں ہو سکتے؟ یہ ایک انتہائی اہم اور زخموں پر مرہم رکھنے کا سنجیدہ سوال ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کیلئے طبقاتی بنیادوں پر مظلوم اقوام کی یکجہتی ہی تمام مسائل کا قابل عمل حل ہے۔
سیاسی عمل سے کٹے ہوئے قنوطی دانشور اور مڈل کلاس کے جذباتی لوگ اس جواب پر بے جا چوں وچرا کریں گے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہی ایک راہ نجات ہے۔ اور جب یہ محنت کش طبقات آپس میں مل کر ایک رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کا قیام عمل میں لائینگے، تو یہاں پر جبر اور استحصال کی ہرعمارت خاک میں مل جائے گی۔ جہاں مظلوم اقوام کو حق علیحدگی کی بنیاد پر علیحدہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ محض یوٹوپیا یا خواب نہیں بلکہ اس کی مثال ہم تاریخ کے عظیم ترین واقعات میں سے1917ء میں روس کے بالشویک انقلاب کے واقعے سے لے سکتے ہیں جہاں زار شاہی کے مظلوم اقوام پر مشتمل زندان کو بالشویک پارٹی نے لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں توڑتے ہوئے انسانی تاریخ کی پہلا رضاکارانہ فیڈریشن بنائی جس کی آج تک انسانی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔
ہم تمام سنجیدہ سیاسی کارکنان سے اپیل کرتے ہیں کہ آئیں ظلم، جبر، استحصال اور بربریت پر مشتمل اس نظام اور اس کی پروردہ ریاست کی بیخ کُنی کرتے ہوئے ایک مظلوم و محکوم انسان دوست معاشرے کی تعمیر کو ممکن بنائیں۔
سرمایہ دارانہ نظام مردہ باد!
قومی جبر مردہ باد!
عوامی مزاحمت زندہ باد!
سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!