|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بہاولپور|
مزدوروں کے عالمی دن 2018ء کے موقع پر گذشتہ روز ریڈ ورکرز فرنٹ(RWF)، پروگریسو یوتھ الائنس(PYA) اور گلستان ورکر زیونین کے زیر اہتمام گلستان ٹیکسٹائل ملز سے پریس کلب بہاولپور تک ایک ریلی نکا لی گئی۔ محنت کشوں نے نجکاری، اجرتوں میں اضافے اور ٹھیکیداری نظام کے خاتمے کیخلاف ملک گیر ’عام ہڑتال‘ کا بینر اٹھا رکھا تھا۔ ریلی جب لائبریری چوک پہنچی تو محمد افضل زونل جنرل سیکرٹری کی قیادت میں PWD کے محنت کش بھی ریلی میں شامل ہوگئے۔
ریلی میں بڑی تعداد میں محنت کشوں اور نوجوانوں نے شرکت کی۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر یاسر ارشاد، رفیق چنڑ، ملک ساجد اورPWD ورکرزیونین کے زونل سیکرٹری محمد افضل نے کہا کہ آج سے 131سال قبل امریکہ میں ایک عام ہڑتال ہو ئی جس کا مطالبہ اوقات کار میں کمی اور اجرتوں میں اضافہ تھا۔ جب شکاگو کے لاکھوں مزدوروں نے سڑکوں پر مارچ شروع کیا تو ان نہتے مزدوروں پرگولیاں چلا دی گئیں۔ اس تحریک میں میں کئی مزدور شہید ہوئے۔ انہیں مزدوروں کی جدوجہد کے نتیجے میں کام کے اوقات کار آٹھ گھنٹے تک لائے گئے۔ مگر یہ جدوجہد رکی نہیں آج بھی پوری دنیا میں سرمایہداروں کے حملوں کے خلاف محنت کشوں کی اپنے حقوق کیلئے تحریکیں جاری ہیں۔ پا کستان جو کہ ایک پسماندہ سرمایہ دارانہ ملک ہے میں محنت کشوں کے حالات بہت زیادہ ابتر ہیں۔ نجکاری، ٹھیکیداری اور انتہائی کم اجرتوں نے مزدوروں زندگیاں اجیرن کرکے رکھ دی ہیں۔ حکمران سرکاری طور اجرتوں کا اعلان کر کے مزدوروں کے زخموں پر نمک چھڑکنے والا کام کرتے ہیں۔ مزدوروں کی کم از کم اجرت 15روپے کا اعلان تو ہو تا جوکہ بذات خود ایک بھونڈا مذاق ہے مگر فیکٹری اور مل مالکان کی بھاری اکثریت یہ سرکاری طور پر اعلان کردہ اجرت بھی ادا نہیں کرتے۔ اس سے زیادہ تو یہ لوگ ایک ٹائم کا ناشتہ کرتے ہیں۔
مقررین نے کہا کہ حکمران ملک کو قرضوں پر چلا رہے ہیں جبکہ میڈیا پر جھوٹے دعوے کرتے نظر آتے ہیں کہ معیشت ترقی کررہی ہے جبکہ اندرونی اور بیرونی قرضہ چھبیس ہزار ارب سے تجاوز کر چکا ہے۔ تجارتی خسارہ پینتیس ارب سے تجاوز کرگیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں آنے والے وقت میں اپنی عیاشی کو جاری رکھنے کیلئے محنت کش طبقے پر مزید حملے کرینگے۔ پہلے سے بھی کم سہو لیات پر مزید کٹ لگائے جائینگے۔ مزید ٹیکسز لگائے جائینگے۔ آ ج حالات یہ ہیں پورے پاکستان میں سیاستدانوں، جہادیوں، این جی اوز کو ہر قسم پروگرام کرنے کی اجازت جبکہ محنت کشوں کیلئے پابندی ہے۔ آئندہ آنے والے وقت میں اٹھنے والی تحریکوں سے خوفزدہ ہو کر آپریشن کی آڑ میں ان آوازوں دبانے کے حربے استعمال کررہے ہیں۔ اسی طرح گلستان کے مسئلہ کو دیکھا جائے تو مقامی حکمران گلستان ملز مالک کے چپڑاسی نظر آتے ہیں کیو نکہ کسی بھی افسر کی جرات نہیں کہ مزدوروں کے حقوق کے بات کرسکے۔ مزدوروں کے بیس کروڑ سے زیادہ کی رقم ڈوبی ہو ئی ہے حکمرانوں کو پرواہ ہی نہیں۔ بیوروکریسی سے لیکر سیاستدانوں تک سب انہیں کی دلا لی کرتے نظر آتے ہیں۔ گلستان ملز کے ورکر ایک وقت کے کھا نے سے تنگ ہیں۔ ان سب مسائل کیخلاف ملک بھر میں محنت کشوں کی بکھری تحریکوں کو یکجا ہوکر ایک ملک گیر عام ہڑتال کی جانب بڑھنا ہوگا۔ یہی آگے بڑھنے کا واحد رستہ ہے۔