|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، بہاولپور|
پچھلے ایک سال سے بالعموم اور پچھلے دو ماہ سے بالخصوص اسلامیہ یونیورسٹی اپنے اکیڈمک سٹاف کو تنخواہیں وقت پر نہیں دے رہی۔ اس مہینے میں بھی یونیورسٹی نے بینک سے قرضہ اٹھا کر اساتذہ کو قسط وار تنخواہ دی ہے۔
پچھلے ڈیڑھ سال سے یہ مسئلہ چل رہا ہے کہ یونیورسٹی کے اخراجات اس کی آمدن سے کہیں زیادہ بڑھ چکے ہیں اور اس کا بوجھ ایک طرف مہنگی فیسوں اور جرمانوں کی صورت میں طلبہ پر ڈالا جا رہا ہے تو دوسری طرف عملے کی تنخواہیں رک جاتی ہیں۔ کوئی نہیں بتا سکتا کہ اگلے ماہ تنخواہ وقت پر ملے گی کہ نہیں۔ آدھی ملے گی یا پوری۔ غیر وثوق ذرائع کے مطابق یونیورسٹی کے خزانچی کا کہنا ہے کہ:”یونیورسٹی میں کل آمدن سات ارب ہے، جبکہ صرف تنخواہوں کے اخراجات چھ ارب پچاس کروڑ کے لگ بھگ ہیں۔“ خزاچی نے یہ نہیں بتایا کہ وہ مراعات کی مد میں کتنا لوٹ رہا ہے۔
موجودہ انتظامیہ اس سارے دیوالیہ پن کا بوجھ گزشتہ وی سی اطہر محبوب پر ڈال کر اپنا دامن جھاڑ لیتی ہے کہ یہ سب گزشتہ وی سی کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے مگر سوال یہ بنتا ہے کہ تب آپ کہاں تھے؟ کیا سنڈیکیٹ میں بیٹھے آپ کے نمائندوں نے اس کی پالیسیوں کو منظور کر کے اپنی جیبیں نہیں بھری ہیں؟ حقیقت تو یہ کہ اس وقت بھی وہ سارا ٹولہ جو اطہر محبوب کے گرد موجود تھا، یونیورسٹی میں موجود ہے اور لوٹ مار کر رہا ہے۔ یونیورسٹی کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر قیصر اعجاز کا کہنا ہے کہ ”اطہر محبوب کے دور سے ہی ہمیں پیپر چیکنگ و دیگر الاؤنسز ملنے بند ہو چکے تھے مگر انتظامیہ کی مراعات بڑھتی رہیں اور اب ابھی ان کی مراعات جاری ہیں۔ اگر یونیورسٹی کو اس بحران سے نکالنا ہے تو ضروری اخراجات تک محدود کر کے ان کی تمام مراعات کا خاتمہ کرنا ہو گا۔“ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت یونیورسٹی کو بیل آؤٹ پیکج نہیں دے سکتی، اس یونیورسٹی کو ہر مہینے بیل آوٹ پیکج چاہیے، حالات ایسے چلتے رہے تو شاید یونیورسٹی کو ہی پرائیویٹائز کر دیا جائے۔
یونیورسٹی میں اساتذہ کی اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن بھی موجود ہے جو اس وقت تنخواہوں کے مسئلے پر کچھ کرنے کی بجائے الیکشن مؤخر کرنے کی ڈرائنگ روم سیاست میں مشغول ہے کیونکہ مئی میں نئے الیکشن ہونے تھے جو اب تک نہیں ہوئے ہیں۔ کچھ اساتذہ نے اس کے علاوہ حال ہی میں ٹیچرز رائٹس ایسوسی ایشن بھی قائم کی ہے اور ایک تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ مگر یہ کتنی کامیاب ہوتی ہے اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ یہ زمین پر کتنا کام کرتی ہے اور اپنے منشور پر کتنے اساتذہ کو جیت پاتی ہے۔
ہم کمیونسٹ یہ سمجھتے ہیں کہ اس بحران کا سبب اکیلا اطہر محبوب نہیں تھا بلکہ موجودہ وائس چانسلر نوید اختر سمیت وہ سب اس مالی لوٹ مار میں شامل تھے جو اس وقت یونیورسٹی انتظامیہ میں موجود ہیں اور اپنے الاؤنسز کے چیک آسانی سے پاس کروا رہے ہیں۔ اساتذہ کو عملی جدوجہد کے میدان میں اترنا پڑے گا اور تحریک کا اعلان کرنا ہو گا اور صرف اساتذہ کے گرد ہی نہیں بلکہ طلبہ کو بھی اپنی اس تحریک میں شامل کرنا ہو گا، جو مہنگی فیسوں سے تنگ آ چکے ہیں۔ اگر اپنے مفاد کے لیے طلبہ اور اساتذہ کی تفریق قائم رکھی جاتی ہے تو یہ خود کو کمزور کرنے کے مترادف ہو گا۔ غیر قانونی بھرتیاں کرنے والوں کو سرِ عام بے نقاب کرنا ہو گا اور ایک منظم جدوجہد سے ہی اس مسئلے کا مستقل حل نکالا جا سکتا ہے۔