|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بہاولپور|
گلستان ٹیکسٹائل ملز بہاولپور میں اجرتوں کی تقسیم کا دوسرا مرحلہ بھی کامیابی سے پائے تکمیل کو پہنچا۔ پیر کے روز عید سے ایک روز قبل محنت کشوں میں اجرتیں تقسیم کی گئیں۔ اس موقع پر ورکر بہت زیادہ پرجوش نظر آرہے تھے۔ ورکرز طلوع آفتاب سے پہلے ہی ملز میں پہنچنا شروع ہوگئے۔ ان میں سے کئی ایسے محنت کش تھے جو کہ دوسری ملوں کام کررہے ہیں اور وہ رات بھر سفر کرنے بعد اپنی کئی سال پہلے کی وہ اجرت جس سے وہ ناامید ہو چکے تھے لینے کیلئے پہنچے۔ اسی دوران ریڈ ورکرز فرنٹ کے نمائندوں کی چند ورکروں سے بات ہوئی انہیں میں سے ایک محمد علی جو کہ شروع کے چند احتجاجوں میں شامل رہا اس پوچھا گیا کہ آج آپ کو دوسری اجرت ملنے جارہی ہے کیا محسوس کر رہے ہیں۔ اس کہا کہ مجھے بہت خوشی ہو رہی کہ یہ مزدوری جس سے ہم مایوس کر دوسری ملوں کام کرنے چلے گئے تھے آج ہمیں مل جائے گی۔
سوال۔ اگر آپ اور آپ کے بقیہ ساتھی تمام احتجاجوں میں شامل رہتے تو یہ ادائیگیاں جلد بھی مل سکتی تھیں، کیا ایسا نہیں ہے؟
جواب۔ صاحب آپ کی بات بھی ٹھیک ہے مگر گھر میں جب بچے بھوک سے بلک رہے ہوں بوڑھے ماں باپ کی دوائی کیلئے پیسے نہ ہوں اور عید سر پر ہو اور بچے آپ کی طرف نئے کپڑوں کیلئے معصومیت سے دیکھ رہے ہوں تو کس کو اپنے ڈوبی مزدوری نظر آتی ہے مجبوراً ہر چیز چھوڑ کر دوسرا کام ڈھونڈنا پڑتا ہے۔
سوال۔ اب دوسری اجرت ملنے جا رہی ہے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ایسا کیونکر ممکن ہوا؟ کیا جدوجہد کی جائی تو حق مل سکتا ہے؟
جواب۔ ہاں ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ اگر پختہ یقین کے ساتھ لڑائی لڑی جائے تو حق حاصل کیاجاسکتا ہے۔ یہ ممکن ہے اور ہمارے ساتھیوں نے ثابت کردیا ہے۔ اس میں ہماری مزدور قیادت کا اہم کر دار ہے جو بغیر جھکے بغیر بکے جدوجہد کرتے رہے۔
اس کے بعد ایک اور ورکر نور محمد سے بات ہو ئی جو مسلسل ہر احتجاج میں شامل رہا
سوال۔ آج آپ کو کیسا لگ رہا آپ اپنی دوسری تنخواہ لینے آئے ہیں اور کیا آپ کو امید تھی کہ آپ کی اجرت مل جائیگی ؟
جواب ۔ جی بالکل یقین تھا۔
سوال۔ آپ کو کیسے یقین تھا کہ آپ کو آپ کی اجرت کے پیسے مل جائینگے جبکہ گلستان کی باقی ملوں میں تو نہیں ملے تھےْ ؟
جواب ۔ ایک تو ہماری محنت کے پیسے تھے دوسرا ہمیں اپنی مزدور قیادت پر یقین تھا تیسرا ہر احتجاج ہمیں جب میں آپ لوگوں کے چہروں کو غور سے دیکھتا تھا تو مجھے پختہ امید نظر آتی تھی جس سے میر ا یقین اور امید مزید پختہ ہوجاتی تھی جس کی وجہ سے میں ہر احتجاج میں میں اپنی دیہاڑی چھوڑ کر آتا تھا کہ جو لوگ ہمارے لئے جدوجہد کررہے ہیں وہ کسی امید کے بغیر نہیں کررہے ہو نگے۔
سوال۔آپ کو یہ یقین کیسے تھا کہ آپ کی قیادت بکے گی نہیں مالکوں سے سودے بازی نہیں کرے گی؟
جواب ۔ بس ایک یقین سا ہو گیا تھا۔ شروع شروع میں ایسا نہیں تھا کہ جب پہلے یو نین لیڈر ہمیں استعمال کرکے اپنے فائدے حاصل کرتے رہے۔ ان سے بھی شروع میں بک جانے خوف تھا مگر جب قیادت کی لہجوں پختگی نظر آتی تھی اور جن لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی باتیں دوسرے لوگوں سے ہٹ کر نظر آنے لگیں تو ہمیں یقین ہو گیا کہ یہ ورکروں کے ساتھ غداری نہیں کرسکتا۔
سوال۔ جن لوگوں کا آپ ذکر کررہے ہیں جن کی وجہ سے آپ کی مزدور قیادت میں پختگی آئی آپ کو نہیں لگا کہیں یہ آپ کو یا آپ کی قیادت کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کریں گے؟
جواب۔ نہیں
سوال۔ کیوں؟
جواب۔ جنہوں نے ہمیں یہ احساس دلایا کہ مزدور ایک سماج کا اہم طبقہ ہے جس کے بغیر دنیا کا کوئی سماج نہیں چل سکتا ورنہ اب تک ہم اپنے آپ کو ایک حقیر طبقہ سمجھتے تھے۔ ان کے احساس دلانے کے بعد ہمیں پختہ یقین ہو گیا کہ ہمارے بغیر سماج نہیں چل سکتا کیو نکہ دولت ہم کماتے ہیں اور یہ ملوں والے ہماری کمائی پر پلتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے یہاں پر ایک ڈاکٹر نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ دنیا کے ہر شعبے کو مزدور چلاتا ہے نئی مل کے لگنے سے لیکر کپڑا بننے تک ہر کام مزدور کرتا ہے مالک صرف نوٹ گنتا ہے اور چیک پر دستخط کرتا ہے جب ہم مشکل کام کرسکتے ہیں تو نوٹ گننے والا کام کو نسا مشکل ہے۔ ہمیں آج تک اپنی اہمیت کا احساس نہیں۔ اس ڈاکٹر نے ہمارا یقین پختہ کردیا کہ سرمایہ دار ایک بیکار طبقہ ہے۔ مجھے آج بھی اسکی بات یاد ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ سیٹھ کہتا کہ اس نے یہ بنگلہ بنا یا ہے اس نے خوبصورت مثال دی تھی اگر واقعی سیٹھ نے بنگلہ بنا یا تو اپنے پیسے زمین پر پھینک دے اگر بنگلہ بن جاتا ہے تو لے لے اس مثال نے ہمیں اپنی اہمیت کا احساس دلایا۔
ورکروں کی اجرت کی رقم حاصل کرنے سے لیکر اس کی تقسیم تک مزدور قیادت جس مرحلے سے گزری اس کو انقلاب کے دنوں میں آنے والی مشکلات کی ہلکی سے جھلک ضرور نظر آئی۔ مقامی بیوروکریسی کی ٹپکتی رال، مقامی سیاستدانوں کی مداخلت سب سے بڑھ کر مزدور روں کے اندر ایک مخصوص پرت جب ان کو پہلی اجرتوں کی تقسیم کے دوران اپنی اجرت سے ہٹ کر ایک بڑی رقم جس کو وہ طویل عرصہ سے ہڑپنے کی تاک میں تھے نہ ملی تو وہ حد سے زیادہ دشمنیوں پر اتر آئے۔ مزدور کو زیر کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ مقامی سیاسی قیادت سے لیکر بیوروکریسی اور دلالوں کے ذریعے سکریپ کی فروخت میں اپنے دلالوں کے ذریعے جب کسی بھی طریقے سے بات نہ بنی تو پھر ذاتی دشمنی پر اتر آئے مزدور قیادت کئی مشکل سے گزرنے کے بعد دوسری اجرت تقسیم کرانے میں آج کامیاب ہو گئی جس نے مزدوروں میں جدوجہد پر ایک پختہ یقین ثابت کردیا۔