رپورٹ: |ملک رفیق چنڑ|
پروگریسو یوتھ الائنس(PYA) کے زیر اہتمام23جولائی 2016ء کو گلستان ٹیکسٹائل بہاولپور میں ایک روزہ مارکسی سکول منعقد کیا گیا۔ سکول مجموعی طور پر دو سیشنز پر مشتمل تھا۔ پہلے سیشن کا موضوع مارکسی تصنیف داس کیپیٹل کا پہلا باب ’’جنس(commodity)‘‘ تھا جسے جلیل منگلا چئیر کیا اور دوسرے سیشن کا موضوع ’’عالمی تناظر‘‘ جسے فضیل اصغر نے چئیر کیا۔
پہلے سیشن میں بحث کا آغاز کرتے ہو ئے فضیل نے Commodity پر بات رکھی کہ موجودہ سماجی تضادات سرمایہ داری نظام کے اندر موجود ہیں اور حقوق کے لیے جدوجہد بھی اسی نظام کی بساط پر ہو رہی ہے۔ بلکہ یہ رشتوں اور رابطوں کا ایک مکمل سماجی ضابطہ ہے جس کا بنیادی عنصر ’’ جنس ‘‘ ہے۔ جس طرح ہر مالیکیول کے اندر کسی چیز کی مکمل خصوصیات ہوتی ہیں اسی طرح شے یا جنس کی پیداوار کے نظام کی ماہیت کے تجزیے کے لئے ’شے‘ ہی وہ بنیادی مالیکیول جسے پرکھے بغیر سرمائے کے نظام کو سمجھنا ناممکن ہے۔ اس کے علاوہ قدر(Value)، قدر تبادلہ(Exchange Value) اور قدر استعمال(Use Value) کے حوالے سے بھی بات رکھی۔ اس کے بعد سوالات کی روشنی میں فضیل نے بحث کو سمیٹا اور پہلا سیشن اختتام کو پہنچا۔
دوسرے سیشن میں راول اسد نے بحث کا آغاز کیا اور عالمی تناظر پر مفصل بات رکھی اور بتایا کہ عالمی پیمانے پر 2008ء کے بعد ایک نئے عہد کا آغاز ہو چکا ہے جس کا اظہار عالمی پیمانے پر مختلف تحریکوں، سماجی بے چینی میں ہوتا نظر آتا ہے اور محنت کش طبقے اور نوجوانوں کے شعور آگے بڑھ رہا ہے۔ آئے روز نئے سماجی دھماکے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس بحران میں ’پرامن‘ یورپ بھی دہشت گردی کے واقعات کا شکار ہوتا نظر آتا ہے۔ عالمی سیاست اور معیشت میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوتی نظر آتی ہیں۔ برطانیہ میں Brexit کے بعد ایک سیاسی، معاشی اور نظریاتی بحران ابھرتا ہے۔ ایک عرصے سے چلی آرہی دوستیاں دشمنیوں میں بدل رہی ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہمیں IMF اور World Bankکے محنت کش دشمن نجکاری کے ایجنڈے پر عمل پیرا نظر آتی ہے۔ جس کے جواب میں محنت کشوں کی تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ عوام کی اکثریت بے روزگاری، مہنگائی، لاعلاجی کا شکار ہے اورپاکستانی حکمران اپنے کمیشنوں اور ٹھیکوں کے چکر میں میٹرو ٹرین اور اکنامک کوریڈور جیسے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں۔ کوریڈور کا منصوبہ چین اور پاکستان کے سرمایہ داروں، کمیشن خور سیاسی اشرافیہ اور کارپوریٹ اجارہ داریوں کے مالی مفادات کے لئے بنایا جا رہا ہے نا کہ غریب عوام کے روزگار، ’’ترقی ‘‘ اور آسودگی کے لئے۔ چین کی معاشی شرح نمو 14.2 فیصد سے گر کر 7.2 فیصد پر آگئی ہے اور گراوٹ کا یہ عمل جاری ہے، عالمی شرح نمو میں اس کا حصہ 2012ء میں 85 فیصد سے کم ہو کر7 201ء میں 20 فیصد رہ جائے گا۔ چین کا ریاستی قرضہ 2008ء میں کل داخلی پیداوار کے 150 فیصد سے بڑھ کر آج 250 فیصد سے زیادہ ہو چکا ہے۔ ان حالات میں کیا چین اتنی بڑی تعمیرات کے اخراجات اٹھا سکے گا؟ اس کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ گلستان کے ورکروں نے سوشلزم کے متعلق کئی سوال کئے جس کے ملک رفیق چنڑ اور ملک ساجد چنڑ نے سرائیکی انداز میں ان تمام سولوں کے جواب دئے اور اس کے بعد تمام ورکروں نے تمام بحث میں کھل کر حصہ لیا۔ سوالات کے بعد راول نے بحث کو سمیٹا اور سکول اختتام کو پہنچا۔