تصویر کا دوسرا رخ: واپڈا کے عارضی ملازمین کی المناک داستان!

بہاولپور: کمیونسٹ اخبار کے نمائندے کا ایک ڈیلی ویجز میٹر ریڈر سے انٹرویو

(ادارے یا یونین کی طرف سے کسی کاروائی کے پیش نظر میٹر ریڈر نے اپنا نام اور آفس کو صیغہ راز میں رکھنے کی درخواست کی)

نمائندہ کمیونسٹ: کیا آپ مستقل ملازم ہیں؟

میٹر ریڈر: نہیں۔ میں 2017ء میں ڈیلی ویجر کے طور پر بھرتی ہوا مگر 2017ء سے لے کر اب تک سات سال سروس ہونے کے باوجود مجھ سمیت کسی بھی ڈیلی ویجز ملازم کو مستقل نہیں کیا گیا ہے۔ ڈیلی ویجرز کے ساتھ ساتھ کنٹریکٹ، لم سم اور پارٹ ٹائم ورکرز کو بھی مستقل نہیں کیا جا رہا۔

نمائندہ کمیونسٹ: آپ اپنے کام کے مسائل بتا سکتے ہیں؟

میٹر ریڈر: ہم ڈیلی ویجرز والے ملازم ہیں۔ ہم پر زیادہ کام کا بوجھ ڈالا جاتا ہے جبکہ تنخواہ میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اضافی الاؤنس ملتا ہے۔ یوں دیکھیں کہ اگر کوئی LS یا لائن مین ریٹائر ہوتا ہے تو بجائے نیا ورکر بھرتی کرنے کے ریٹائر ہونے والے ورکر کا بوجھ بھی باقیوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ نئے کنکشن اور سب ڈویژن آفس بڑھتے جا رہے ہیں جس سے سٹاف کی شدید کمی ہو چکی ہے۔ آپ اس کا اندازہ یوں لگا سکتے ہیں کہ ہر سب ڈویژن میں کم از کم چالیس، پچاس صرف نئے میٹر ریڈرز بھرتی کرنے کی ضرورت ہے۔ لائین سٹاف کی بھی شدید کمی ہے اور کام کا بوجھ زیادہ ہونے کی وجہ سے آئے روز جان لیوا حادثات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

نمائندہ کمیونسٹ: اچھا، یہ تو وہ مسائل ہیں جو اس ادارے سمیت پورے پاکستان میں موجود ہیں۔ کیا آپ مجھے کچھ ایسے مسائل بتا سکتے ہیں جو کہ صرف آپ کی سب ڈویژن کے بارے میں ہوں؟

میٹر ریڈر: سر جی، یہاں بھی وہی ہیں جو باقی سب جگہ موجود ہیں۔ ہمیں موبائل بہت گھٹیا معیار کے اور تاخیر سے دیے جاتے ہیں۔ بارش ہو، آندھی ہو، ہمیں ریڈنگ لینے کے لیے میٹر کو پانی سے صاف کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں ڈیلی ریڈنگ کا، رپورٹنگ کا پابند بنا دیا گیا ہے، چاہے کوئی خوشی ہو یا غم۔ فیلڈ میں، عوام کے غم و غصّے کا سب سے زیادہ ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے۔

نمائندہ کمیونسٹ: صحیح بات ہے، عوام کا سارا غصہ میٹر ریڈر پر نکلتا ہے۔

میٹر ریڈر: جی ہاں، ہمیں کنزیومر کو بتانا پڑتا ہے کہ زیادہ بل ہماری وجہ سے نہیں آ رہا۔ حکومت آئی پی پیز کی لوٹ کھسوٹ اور آئی ایم ایف کے قرضے کی ادائیگی کی وجہ سے ریٹ بڑھا رہی ہے۔ لیکن بعض اوقات بات لڑائی تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ میٹر ریڈر اور لائن مین اتنا پس رہا ہے کہ کوئی انتہا نہیں ہے۔

نمائندہ کمیونسٹ: میٹر ریڈرز کے بھی حادثات ہوتے ہیں؟

میٹر ریڈر: ہاں، میٹر شارٹ ہوتے ہیں۔ بارش یا آندھی کی وجہ سے کھمبے میں کبھی کرنٹ آ جاتا ہے۔

نمائندہ کمیونسٹ: میں اس کا واضح اندازہ لگانا چاہتا ہوں۔ آپ 2017ء سے اب تک ملازمت کر رہے ہیں۔ آپ نے اپنی سب ڈویژن میں کتنے حادثات دیکھے ہیں؟

میٹر ریڈر: چار میں دیکھ چکا ہوں۔

نمائندہ کمیونسٹ: یعنی چار اموات؟

میٹر ریڈر: جی ہاں۔ چار اموات۔

نمائندہ کمیونسٹ: اموات کے علاوہ حادثات کے بارے میں بتا سکتے ہیں؟

میٹر ریڈر: سر، دو بار تو مجھے کرنٹ لگ چکا ہے۔ عوام حفاظت کے لیے میٹر اونچے لگواتے ہیں۔ کبھی کبھی میٹر شارٹ ہو چکے ہوتے ہیں یا پھر کھمبے میں کرنٹ ہوتا ہے۔ محکمے نے ہمیں کبھی دستانے نہیں دیے ہیں۔ موبائل اس قدر سست ہوتے ہیں کہ جہاں ہمیں ایک تصویر پر دو سے چار سیکنڈ لگنے چاہیں، ہمیں دو سے تین منٹ لگ جاتے ہیں۔ ہم صبح چھ بجے نکلتے ہیں اور مغرب تک یہی کام کرتے رہتے ہیں۔ شہر میں پھر بھی ایریا چھوٹا ہوتا ہے، میٹر قریب قریب ہوتے ہیں، دیہات میں آپ کو روزانہ پندرہ سے بیس کلو میٹر کا سفر کرنا پڑ جاتا ہے۔

نمائندہ کمیونسٹ: کیا اس سفر کے پیسے ملتے ہیں؟

میٹر ریڈر: نہیں، ڈیلی ویجرز کو اس سفر کے بھی پیسے نہیں ملتے ہیں۔ سب کچھ اپنا ہوتا ہے، پیٹرول بھی جیب سے ڈلوانا پڑتا ہے۔

نمائندہ کمیونسٹ: آپ کی تنخواہ کتنی ہے؟

میٹر ریڈر: تیس ہزار۔

نمائندہ کمیونسٹ: مگر حکومت تو کہتی ہے کہ کم از کم اجرت لگ بھگ سینتیس ہزار ہے!

میٹر ریڈر: آپ مذاق کر رہے ہیں۔ ہمیں کبھی کبھار تو ہفتے اتوار کی چھٹیوں کی کٹوتیاں کر کے چھبیس ہزار، ستائیس یا اٹھائیس بھی ملتے ہیں۔

نمائندہ کمیونسٹ: ان سات سالوں میں کوئی سالانہ انکریمنٹ بھی لگائی گئی ہے؟

میٹر ریڈر: جب رکھا ہی ہمیں ڈیلی ویجر گیا ہے تو کیسا انکریمنٹ؟ نہ ہمیں موبائل الاؤنس ملتا ہے، نہ پٹرول الاؤنس، نہ ہی ٹی اے، نہ اوور ٹائم، نہ ہاؤس رینٹ اور نہ ہی میڈیکل کی سہولت ہے۔

نمائندہ کمیونسٹ: یونین کے بار ے میں کیا کہیں گے؟

میٹر ریڈر: سر موجودہ یونین قیادت، مرکزی قیادت سمیت مفاہمتی پالیسی پر گامزن ہے اور اپنے مفادات تک ہی محدود ہو چکی ہے۔ وہ ہمارا مسئلہ نہیں اٹھاتی ہے۔ ہمیں 2017ء میں یہ شو کروا دیا گیا کہ یونین ہمارے ساتھ ہے۔ ہمیں مستقل کروا کر ہی رہے گی مگر یہ ایک لالی پاپ ہے۔

نمائندہ کمیونسٹ: یونین اگر چاہے تو مستقل کروا سکتی ہے؟

میٹر ریڈر: اگر یونین اسی ایک مدعے کے اوپر ہڑتال کرے تو کروا سکتی ہے! مگر وہ علامتی احتجاج کرتی ہے اور دکھاوے کے طور پر چودہ پندرہ دیگر مطالبات پہلے کرتی ہے اور پھر آخر میں ہمارا مطالبہ بھی بس لکھ دیتی ہے۔ اب آخری حل یہی ہے کہ ہم مزدوروں کو متحد ہو کر قیادت پر دباؤ بڑھانا ہو گا تاکہ وہ ایک ملک گیر عام ہڑتال کے ذریعے حکومت سے تمام مطالبات منوانے کی طرف جائے۔

نمائندہ کمیونسٹ: بہت شکریہ!

میٹر ریڈر: شکریہ!

Comments are closed.